صوبائی حکومت نے تحقیقاتی کمیٹی بنائی ہے لیکن سوات کے عوام نے ایک بار پھر سانحے میں ملوث تمام کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ دریائے سوات میں پیش آنے والے سانحے کے بعد صوبائی حکومت نے تحقیقاتی کمیٹی بنائی ہے لیکن سوات کے عوام نے ایک بار پھر سانحے میں ملوث تمام کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ سوات کے مقامی عمائدین اور سوشل ورکرز کے مطابق دریائے سوات پر حفاظتی ٹریک تو بنایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود مقامی ٹھیکیدار نے دریا کے پانی کا رخ دوسرے طرف موڑ لیا تھا جس کی وجہ سے دریا میں شگاف پڑ گیا تھا۔ شہریوں نے محکمہ ایریگیشن اور مقامی ٹھیکیدار کو بھی جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے حکومت سے ان کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کر دیا۔ صوبائی حکومت سمیت تمام اداروں سے شہریوں نے اپیل کی ہے کہ واقعے میں ملوث کرداروں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ ذرائع کے مطابق دریائے سوات پر حفاظتی پشتوں پر حکومت نے اربوں روپےلگائے ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں نے جگہ  جگہ سے دریا کا رخ موڑ دیا ہے، جس سے دریا میں بڑے بڑے شگاف پڑ گئے ہیں اور اسی وجہ سے سیاحوں کو نہیں بچایا جاسکا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: دریائے سوات کا مطالبہ

پڑھیں:

بلوچستان کی سیاسی تاریخ: نصف صدی کے دوران کتنی مخلوط حکومتیں مدت پوری کر سکیں؟

بلوچستان میں سنہ 1972 سے لے کر آج تک سیاسی تاریخ زیادہ تر مخلوط حکومتوں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ صوبے میں کبھی کسی بڑی سیاسی جماعت کو اکیلے حکومت بنانے کا موقع نہیں ملا بلکہ مختلف جماعتوں کے اتحاد اور سیاسی سمجھوتوں سے حکومتیں قائم ہوئیں تاہم بیشتر مخلوط حکومتیں اختلافات، گورنر راج یا مرکز صوب کشیدگی کے باعث اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں ناکام رہیں۔

پہلی مخلوط حکومت

بلوچستان کی پہلی مخلوط حکومت اپریل 1972 میں بنی جب نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے اتحاد کر کے سردار عطا اللہ مینگل کو وزیراعلیٰ بنایا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کی مخلوط حکومت میں اختلافات، سرفراز بگٹی کی وزارت اعلیٰ خطرے میں؟

یہ حکومت تعلیم، صحت اور زرعی اصلاحات کے ایجنڈے پر کام کر رہی تھی لیکن مرکز کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے۔

حکومت پر الزام لگا کہ وہ غیر ملکی اسلحہ کے ذریعے صوبے کو آزاد کرانے کی سازش کر رہی ہے۔ یوں صرف 9 ماہ بعد فروری 1973 میں یہ حکومت برطرف کر دی گئی اور صوبے میں فوجی آپریشن شروع ہو گیا۔

سنہ 1989: نواب اکبر بگٹی کی وزارت عالیہ

سنہ 1989 میں نواب اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بنے۔ ان کی حکومت میں پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور آزاد ارکان شامل تھے لیکن چند ہی ماہ بعد اختلافات شدت اختیار کر گئے۔

مزید پڑھیے: بلوچستان: مائنز اینڈ منرلز بل پر اتفاق رائے کی کوششیں، وزیر اعلیٰ کی اسمبلی میں تفصیلی وضاحت

بگٹی اور پیپلز پارٹی کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے، مرکز کے ساتھ بھی تصادم ہوا اور آخرکار صرف 14 ماہ بعد اس حکومت کا خاتمہ ہوا اور صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔

سال 1990: ظفراللہ جمالی وزیراعلیٰ بن گئے

سنہ 1990  کے عام انتخابات کے بعد میر ظفر اللہ جمالی وزیراعلیٰ بنے لیکن وہ ایوان میں اکثریت ثابت نہ کر سکے اور ان کی حکومت صرف 22 دن کے اندر ختم کر دی گئی۔ بعد ازاں عدالتی حکم پر اسمبلی بحال ہوئی اور نواب اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بنے مگر یہ حکومت بھی زیادہ دیر نہ چل سکی۔ اندرونی اختلافات اور اتحادیوں کی بغاوت کے باعث محض 20 ماہ بعد صدر غلام اسحاق خان نے اسمبلی توڑ دی۔

الیکشن 1997: سردار اختر مینگل نے وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالا

الیکشن1997  میں سردار اختر مینگل وزیراعلیٰ بنے۔ ان کی جماعت بی این پی نے جے یو آئی سمیت دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا لیکن تھوڑے عرصے بعد وہ اکثریت کا اعتماد کھو بیٹھے اور استعفیٰ دینا پڑا۔

ان کے بعد میر جان محمد جمالی وزیراعلیٰ بنے مگر سنہ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی اسمبلی تحلیل کر دی گئی اور یوں یہ حکومت بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکی۔

وہ حکومت جس نے 5 سالہ مدت پوری کی

سنہ 2002  میں پہلی بار بلوچستان میں ایک ایسی مخلوط حکومت بنی جس نے اپنی 5 سالہ مدت پوری کی۔ وہ دور پرویز مشرف کے زیر سایہ تھا۔

مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کے نوجوان پائلٹس کے تربیتی پروجیکٹ میں اہم پیشرفت

جام محمد یوسف وزیراعلیٰ بنے اور مسلم لیگ (ق) اور متحدہ مجلس عمل نے اتحاد کیا۔ اس حکومت میں اتحادی اختلافات ضرور تھے لیکن وفاق کی پشت پناہی اور مشرف دور کے غیر معمولی کنٹرول نے حکومت کو گرنے سے بچائے رکھا۔ یوں بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مخلوط حکومت نے اپنی مدت مکمل کی۔

سنہ 2008: نواب اسلم رئیسانی اور پھر گورنر راج

سنہ 2008  میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت بنائی جس میں بلوچستان اسمبلی میں اس وقت 62 اراکین جن میں ق لیگ کے 20 میں سے 19، جمعیت علماء اسلام کے 10، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے 7، عوامی نیشنل پارٹی کے 3، نیشنل پارٹی پارلیمینٹیرین کے ایک اور 9 آزاد اراکین نے نواب اسلم رئیسانی کی حمایت کی اور یوں ایک مخلوط حکومت قائم ہوئی۔

نواب اسلم رئیسانی کا حکومتی دور تقریباً 4 سال چلا لیکن کوئٹہ کے علاقے علمدار روڈ پر ہونے والے پے در پے 2 دھماکوں میں 100 سے زائد افراد کی ہلاکت کے باعث صوبے میں گورنر راج لگا دیا گیا۔

انتخابات 2013

سنہ2013 کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں ایک منفرد پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل ہوا۔ نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے معاہدے کے تحت حکومت بنائی۔

طے پایا کہ ڈھائی سال ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ رہیں گے اور باقی مدت مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آئے گی۔ یہی ہوا پہلے عبدالمالک بلوچ نے اقتدار سنبھالا اور پھر نواب ثناء اللہ زہری وزیراعلیٰ بنے۔

یہ بھی پڑھیے: بلوچستان حکومت اور پاکستان ریلویز کا پیپلز ٹرین سروس شروع کرنے پر اتفاق

نواب ثناء شہری بھی اپنا دور مکمل نہ کر پائے اور ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی جس کے بعد انہوں نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

سنہ 2018: پی ٹی آئی اور باپ پارٹی کی حکومت

سال2018  کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) وجود میں آئی اور اس نے پی ٹی آئی اور آزاد ارکان کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔

جام کمال خان وزیراعلیٰ بنے لیکن ان کے خلاف اپنی جماعت کے اندر ہی اختلافات شدید ہو گئے اور تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر وہ مستعفی ہوگئے۔

ان کے بعد عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنے اور باوجود اس کے کہ حکومت میں بار بار بحران پیدا ہوئے، اسمبلی نے اپنی آئینی مدت مکمل کر لی۔

گزشتہ انتخابات اور موجودہ وزیراعلیٰ

سنہ2024  کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر اتحادی جماعتوں نے ایک نئی مخلوط حکومت تشکیل دی۔ میر سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ ہیں۔

موجودہ حکومت مائنز اینڈ منرلز ایکٹ، ایوی ایشن ڈویلپمنٹ پلان اور روزگار پروگرام پر کام کر رہی ہے تاہم حکومت کو اندورنی اختلافات کا سامنا ہے۔

مزید پڑھیں: ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کی نامزدگی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی کا کیا کردار ہے؟

بلوچستان کی نصف صدی پر محیط تاریخ یہ واضح کرتی ہے کہ صوبے میں مخلوط حکومتیں ناگزیر ہیں لیکن بار بار ناکام ہونے کی بڑی وجہ مرکز اور صوبے کے درمیان عدم اعتماد اور اتحادی جماعتوں کے باہمی اختلافات رہے ہیں۔

 سیاسی ماہرین کے مطابق اگر موجودہ حکومت بھی سیاسی استحکام برقرار رکھ پائی تو یہ صوبے کے عوام کے لیے ترقی اور استحکام کی نئی مثال قائم کر سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلوچستان بلوچستان حکومت بلوچستان کی حکمران جماعتیں بلوچستان کے حکمران اتحاد

متعلقہ مضامین

  • حقیقی امن صرف انصاف کے ذریعے ہی قائم کیا جا سکتا ہے، میر واعظ
  • کولمبیا: حکومت اور باغیوں کے درمیان امن میں یو این عمل دخل کی توثیق
  • این ایل سی کا جنوبی وزیرستان کے عوام کیلئے تحفہ
  • این ایل سی کا جنوبی وزیرستان کے عوام کیلیے تحفہ، انگور اڈہ ٹرمینل ریکارڈ مدت میں مکمل
  • کراچی میں پارکنگ تنازع؛ حکومت کریں لیکن کام تو کسی قانون کے تحت کریں، سندھ ہائیکورٹ
  • بلوچستان کی سیاسی تاریخ: نصف صدی کے دوران کتنی مخلوط حکومتیں مدت پوری کر سکیں؟
  • سکھر،ڈویلپمنٹ الائنس ،اسمال ٹریڈرز کی جانب سے سیپکو کیخلاف احتجاج
  • آئی ایم ایف کا 10اداروں کے قوانین میں ترامیم نہ لانے پر تحفظات کا اظہار، حکومت سے وضاحت طلب
  • حکومت آزاد کشمیر میں جاری احتجاج اور مسائل کو مکالمے اور قانونی راستوں سے حل کرنے کیلئے پرعزم ہے، امید ہے کہ باہمی مکالمے کے ذریعے تمام مسائل مثبت اور پرامن ماحول میں حل ہو جائیں گے،وفاقی وزیر احسن اقبال کی میڈیا سے گفتگو
  • محبوبہ مفتی کا بھارتی فوج سے سرینگر کا چھتہ بل گرائونڈ خالی کرنے کا مطالبہ