سانحہ دریائے سوات، عوام کا تمام ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
صوبائی حکومت نے تحقیقاتی کمیٹی بنائی ہے لیکن سوات کے عوام نے ایک بار پھر سانحے میں ملوث تمام کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ دریائے سوات میں پیش آنے والے سانحے کے بعد صوبائی حکومت نے تحقیقاتی کمیٹی بنائی ہے لیکن سوات کے عوام نے ایک بار پھر سانحے میں ملوث تمام کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ سوات کے مقامی عمائدین اور سوشل ورکرز کے مطابق دریائے سوات پر حفاظتی ٹریک تو بنایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود مقامی ٹھیکیدار نے دریا کے پانی کا رخ دوسرے طرف موڑ لیا تھا جس کی وجہ سے دریا میں شگاف پڑ گیا تھا۔ شہریوں نے محکمہ ایریگیشن اور مقامی ٹھیکیدار کو بھی جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے حکومت سے ان کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کر دیا۔ صوبائی حکومت سمیت تمام اداروں سے شہریوں نے اپیل کی ہے کہ واقعے میں ملوث کرداروں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ ذرائع کے مطابق دریائے سوات پر حفاظتی پشتوں پر حکومت نے اربوں روپےلگائے ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں نے جگہ جگہ سے دریا کا رخ موڑ دیا ہے، جس سے دریا میں بڑے بڑے شگاف پڑ گئے ہیں اور اسی وجہ سے سیاحوں کو نہیں بچایا جاسکا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دریائے سوات کا مطالبہ
پڑھیں:
افواہیں، دریا اور نیا موڑ
پاکستان کی سیاسی فضا میں افواہوں کا راج کوئی نئی بات نہیں۔ ہماری تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں سرگوشیاں، چہ مگوئیاں اور مبینہ اطلاعات وقت کے ساتھ ساتھ حقیقت کا روپ دھارتی چلی گئیں۔ سیانوں کا قول ہے کہ ہر افواہ کے پیچھے کچھ نہ کچھ سچائی ضرور چھپی ہوتی ہے چاہے وہ سچائی پوری تصویر نہ بھی ہو۔ آج کل بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں،اقتدار کے ایوانوں سے لے کر گلی محلوں تک، چائے خانوں سے لے کر نیوز اسٹوڈیوز تک، ہر جگہ ایک ہی افواہ سنائی دے رہی ہے ،آخر ہونے کیا والا ہے؟
اسلام آباد کی نجی محفلوں میں جاری افواہوں کو سرے سے نظراندازبھی نہیںکیا جا سکتا۔ یہ صرف حکومت کے کیمپ تک محدود نہیں بلکہ اقتدار دینے والے مراکزسے رابطے رکھنے والے بھی محسوس کر رہے ہیں۔ادھر حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات سے یہ اشارہ کہیں نظر نہیں آتا کہ اپوزیشن کے ساتھ کسی بامعنی مکالمے یا مفاہمت کی راہ کھلنے والی ہے۔ تحریکِ انصاف کے صفِ اول کے رہنماؤں اور کارکنوں کو عدالت سے حال ہی میں جوسزائیں سنائی گئی ہیں‘وہ توکچھ اور پیغام دے رہی ہیں ۔
ہماری سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد ہم ایک نئے دوراہے پر آن کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک بحران سے نکلتے ہیں تو دوسرا بحران سامنے منہ کھولے کھڑا ہوتا ہے۔ یہ کیفیت بالکل منیر نیازی مرحوم کے اس شعر کی یاد دلاتی ہے۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
منیر نیازی کا یہ شعر ہماری اجتماعی سیاسی کہانی کا عکس ہے۔ ہر بار جب ہمیں لگتا ہے کہ اب حالات سدھر جائیں گے، کوئی نیا طوفان اُمڈ آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کے دکھ درد بیان کرنے کے لیے شاعری کا سہارا لینا اکثر ناگزیر ہو جاتا ہے ۔فی الحال جو افواہیں گردش کر رہی ہیں ان میں سب سے نمایاں آئین میں متوقع ترامیم کا معاملہ ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ تبدیلیاں سیاسی تنازع کو ہوا دے سکتی ہیں خاص طور پر اس وقت جب ملک میں پہلے ہی سیاسی ہم آہنگی ناپید ہے اور دو صوبے امن و امان کے شدید مسائل سے دوچار ہیں۔ ایسے میں اہلِ دانش یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا یہ مناسب وقت ہے کہ کوئی نیا محاذ کھولا جائے؟
دوسری طرف ایک اور تاثر بھی تیزی سے جنم لے رہا ہے یہ کہ ’ہائیبرڈ حکمرانی ‘کا ماڈل مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہا ہے۔ چنانچہ اس سے نجات حاصل کر کے اقتدار ایسے ہاتھوں میں دیا جائے جو یا تو انتخابی سیاست سے آزاد ہوں یا ایسے سیاسی رہنما ہوں جو عوام میں ذاتی حیثیت سے مقبول ہوں لیکن کسی مخصوص جماعتی ڈسپلن کے اسیر نہ ہوں۔ گویا ایک ’ٹیکنوکریٹ پلس ‘طرز کی حکومت کا تصور زیرِ غور ہے ایسی حکومت جس میں سب جماعتوں کی نمایندگی ہو لیکن جماعتی وابستگی فیصلہ کن نہ ہو۔
یہ تجربہ اپنی نوعیت کا نیا ہو گا مگر سوال یہ ہے کہ عوام اس کو کس نظر سے دیکھیں گے؟ پاکستان میں ووٹ زیادہ تر شخصیت اور لیڈرشپ کے نام پر ڈالا جاتا ہے نظریات یا پروگرام کی بنیاد پر نہیں۔ ایسے میں کیا لوگ اس نظام کو قبول کریں گے؟ یا یہ بھی ایک اور’نیا دریا‘ثابت ہو گا جسے عبور کرنے کے بعد ہمیں پھر ایک نئے دریا کا سامنا کرنا پڑے گا؟ادھر یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ ماضی کی طرح ایک نئی ’چارج شیٹ، تیار کی جا رہی ہے جسے مناسب وقت پر عوام کے سامنے رکھا جائے گا۔
اس امکان نے حکومتی صفوں میں بھی اضطراب پیدا کر دیا ہے اور اپوزیشن کے کئی حلقے پرجوش نظر آ رہے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض سیاسی رہنماؤں کی نجی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ڈائیلاگ کے لیے تیار ہیںبس اجازت نہیں مل رہی۔یہ صورتحال ایک بڑے تضاد کی عکاسی کرتی ہے۔ بظاہر ہر کوئی جانتا ہے کہ سیاسی مکالمہ ہی مسائل کا حل ہے مگر عملی طور پر کوئی اس طرف قدم بڑھانے کو تیار نہیں۔ اس دوران عوامی مسائل بدستور جوں کے توں ہیں۔ مہنگائی کی لہر رکنے کا نام نہیں لے رہی، چینی اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور عام آدمی کا جینا محال ہو چکا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سیاست ایک بند گلی میں کھڑی ہے جہاں سے نکلنے کا راستہ صرف باہمی اعتماد ، وسیع دل اور طویل المدت وژن کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ سب چیزیں اس وقت ناپید ہیں۔ ہم نے ماضی میں بارہا دیکھا ہے کہ جب سیاسی قوتیں ایک پیج پر آئیں تو ملک نے معاشی اور سماجی سطح پر ترقی کی لیکن یہ دورانیہ ہمیشہ عارضی رہا۔اگر ہم واقعی اس بحران سے نکلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ماننا ہو گا کہ سیاست میں اختلاف فطری ہے مگر دشمنی زہرِ قاتل۔ اقتدار کے کھیل کو صفر جمع صفر کا کھیل بنانے کے بجائے اسے قومی خدمت کا ذریعہ بنانا ہو گا۔ بصورت دیگر، یہ افواہیں، یہ چہ مگوئیاں، یہ ’نئے دریا‘ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔
اب یہ ہم پر ہے کہ ہم افواہوں کے طوفان میں ڈوبتے ہیں یا بصیرت اور تدبر سے اس کے پار اُترتے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے اگر ہم نے وقت پر درست سمت کا تعین نہ کیا تو شاید آنے والے برسوں میں ہم پھر ایک اور دریا کے سامنے کھڑے ہوں گے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔