اسلام ٹائمز: محرم کا پیغام یہی ہے کہ ظالم کی حکومت عارضی ہے، مظلوم اگر بیدار ہو جائے تو تاریخ بدل دیتا ہے اور عاشورا بیداری اور قیام کا راستہ دکھاتا ہے۔ امام خمینی (رح) کے افکار کے مطابق، محرم و عاشورا کی مجالس فقط مذہبی یادگار نہیں، بلکہ امت کے دل میں شعور، وحدت، بغاوت اور قیادت کا جذبہ جگانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ صرف آہوں کا موسم نہیں، بلکہ باطل کے ایوانوں کو ہلانے کا وقت ہے۔ عاشورا کو جتنا باشعور انداز میں زندہ رکھا جائے، انقلاب کی روح اتنی ہی زیادہ توانا ہوتی ہے۔ پس آئیے اس محرم میں ہم عزاداری کو صرف جذبات کا نہیں بلکہ معرفت، شعور اور بیداری کا ذریعہ بنائیں۔ یہی امام حسین علیہ السلام کے خون کا تقاضا ہے، یہی امام خمینی کی فکر ہے اور یہی ہر آزاد انسان کا فریضہ بھی۔ تحریر: آغا زمانی

محرم کا چاند نمودار ہوتے ہی دلوں میں ایک عجیب سی تڑپ، ایک انقلابی حرارت اور ایک فکری بیداری جاگ اٹھتی ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے، جس میں عدالت نے ظلم اور حق نے باطل کے خلاف قیام کیا۔ محرم کا ہر لمحہ گواہی دیتا ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں حق کو بالآخر فتح نصیب ہوئی ہے اور یہ فتح، تلوار سے نہیں، بلکہ لہو سے حاصل ہوئی ہے۔ امام خمینی (رح) محرم اور عاشورا کو فقط تاریخی واقعات نہیں سمجھتے، بلکہ ان کے نزدیک یہ زندہ، متحرک اور ہمیشہ کے لیے جاری رہنے والے انقلاب کا سرچشمہ ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: "محرم وہ مہینہ ہے، جس میں اسلام کو زندہ کیا گیا۔" واقعۂ کربلا فقط ایک سانحہ نہیں بلکہ ایک مکتب ہے۔ ایسا مکتب جو ہر دور کے مظلوموں کو طاغوت کے مقابل قیام کا حوصلہ دیتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے نہ صرف اپنی جان بلکہ اپنے عزیزوں، جوان بیٹوں اور اصحاب کی قربانیاں دے کر یہ پیغام دیا کہ ظلم کے خلاف خاموشی، طاغوت کی تقویت ہے اور باطل کے سامنے جھکنا انسانیت کی شکست۔

امام خمینی (رح) کے مطابق، عاشورا فقط رونے، ماتم کرنے یا جلوس نکالنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک "سیاسی، روحانی اور انقلابی درسگاہ" ہے۔ ان کے بقول: "عاشورا کو زندہ رکھنا، اسلام کو زندہ رکھنے کے مترادف ہے۔" یزید کو تختِ خلافت پر بٹھانے والوں کے مفسدانہ عزائم نے اسلام کو نابودی کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا، لیکن امام حسین علیہ السلام کی قربانی نے نہ صرف ان سازشوں کو ناکام بنایا بلکہ اسلام کو نئی زندگی عطا کی۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی (رح) محرم کو "فدائیت اور کامیابی کا مہینہ" قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ: "ہماری جو کچھ بھی عزت ہے، جو بھی بیداری ہے، وہ محرم اور عاشورا کی مرہونِ منت ہے۔"(کتاب کلماتِ قصار، امام خمینی) حضرت امام حسین علیہ السلام کی تحریک نے ہمیں سکھایا کہ باطل کے خلاف قیام کرنا ہر دور میں واجب ہے۔ عاشورا ایک دائمی پیغام ہے کہ چاہے دشمن کے پاس تخت و تاج ہوں، افواج ہوں یا فریب، اگر تمہارے پاس ایمان، اخلاص اور قربانی کا جذبہ ہے تو تم حق کے پرچم کو سربلند رکھ سکتے ہو۔

محرم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ: ظالم کے خلاف خاموشی، ظلم کی تائید ہے، قربانی دینا ہی بقاء کا راستہ ہے اور ظلم کی پیشانی پر باطل کی مہر ثبت کرنے کا وقت ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے۔ سیدالشہداء امام حسین (ع) کی شہادت نے اسلام کے پیغام کو سمیٹ کر تاریخ کے ہر دور کے لیے ایک لافانی منشور بنا دیا۔ وہ صرف ایک مظلوم امام نہیں، بلکہ تمام مظلومینِ عالم کے امام ہیں۔ ان کی قربانی آج بھی فلسطین کے بچوں، کشمیر کے نوجوانوں، یمن کے شہیدوں اور ہر ظالم کے خلاف صدائے احتجاج بن کر گونجتی ہے۔ امام خمینی (رح) نے اسلامی انقلاب کو کربلا کی روشنی میں پروان چڑھایا۔ وہ فرماتے ہیں: "ہماری تحریک، کربلا کی تحریک کا تسلسل ہے۔ اگر عاشورا نہ ہوتا تو نہ اسلامی انقلاب ہوتا، نہ اس کی روح باقی رہتی۔" انقلاب اسلامی ایران، کربلا کے خونی پیغام کا زندہ ثمر ہے۔

اگر 61 ہجری میں امام حسین علیہ السلام نے ظلم و فساد کے خلاف قیام کرکے حق کی شمع روشن کی، تو 1979ء میں امام خمینی (رح) نے اسی شمع کی روشنی میں طاغوتی حکومت کے محل کو زمین بوس کر دیا۔ کربلا کا پیغام فقط ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک جاری تحریک ہے، جو ہر اس دل میں دھڑکتی ہے، جو ظلم کے خلاف بغاوت کا جذبہ رکھتا ہو۔ امام خمینی (رح) بارہا اس بات پر زور دیتے ہیں کہ: "کربلا کو زندہ رکھیے، کیونکہ کربلا زندہ رہے گی تو اسلام زندہ رہے گا۔" محرم و عاشورا کو زندہ رکھنا فقط مذہبی فریضہ نہیں بلکہ ایک سیاسی، اخلاقی اور اجتماعی ضرورت بھی ہے۔ امام خمینی (رح) نے عاشورا کو ایک سیاسی مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ کربلا کی یاد منانا امتِ مسلمہ کے لیے بیداری اور وحدت کا ذریعہ ہے۔ وہ ملتوں کو تلقین کرتے ہیں کہ: "اس محرم کو زندہ رکھو، ہمارے پاس جو کچھ ہے، وہ محرم و صفر ہی کی بدولت ہے۔"

امام خمینی (رح) کے نزدیک مجالسِ امام حسین علیہ السلام فقط نوحہ و گریہ کا اجتماع نہیں بلکہ نوحہ و گریہ کے ساتھ ساتھ عقل و عدل کے لشکر کا ہتھیار بھی ہیں۔ ان مجالس کے ذریعے عوام کو طاغوتی افکار، ظلم، خیانت اور منافقت کے خلاف شعور اور حوصلہ ملتا ہے۔ یہی وہ محفلیں ہیں، جہاں جہالت کے خلاف علم، ظلم کے خلاف عدل اور طاغوت کے مقابل اسلامی فکر پروان چڑھتی ہے۔ اسی لیے وہ فرماتے ہیں: "ان مجالس کو جتنی زیادہ شان و شوکت، اتحاد و اتفاق اور معرفت کے ساتھ منایا جائے، اتنا ہی عاشورہ کے خونی پرچم مظلوم کے انتقام کی نوید لے کر بلند ہوں گے۔" (کتاب کلماتِ قصار، امام خمینی) امام خمینی (رح) نے عزاداری کو امت مسلمہ کے درمیان وحدتِ کلمہ کا ذریعہ قرار دیا۔ ان کے مطابق، انقلاب اسلامی کی کامیابی بھی انہی مجالس و ماتمی جلوسوں کی مرہونِ منت ہے، جنہوں نے عوام کو طاغوت کے خلاف کھڑا کیا۔ امام فرماتے ہیں: "یہی جلوس، یہی نوحہ خوانی، یہی ماتم، یہی مجالس تبلیغِ دین کے عظیم مراکز ہیں۔"

محرم میں ہونے والی سینہ زنی اور سوگواری، فقط رسم نہ ہو، بلکہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ چاہتے تھے کہ یہ ایک بامقصد عمل بنے۔ ان کے نزدیک: "سینہ زنی کو شعور اور ہدف کے ساتھ ہونا چاہیئے۔ عاشورا فقط نوحہ و گریہ کا دن نہیں بلکہ ملت مظلوم کی زندگی کا دن ہے۔" امام خمینی (رح) عاشورا کو امت مسلمہ کی حیاتِ نو اور جرأت و شجاعت کے اظہار کا دن قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہی وہ دن ہے، جب مظلوم کو یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ باطل کتنا ہی طاقتور ہو، حق اگر خلوص اور قربانی کے ساتھ اٹھے تو وہ لازماً کامیاب ہوتا ہے۔

محرم کا پیغام یہی ہے کہ ظالم کی حکومت عارضی ہے، مظلوم اگر بیدار ہو جائے تو تاریخ بدل دیتا ہے اور عاشورا بیداری اور قیام کا راستہ دکھاتا ہے۔ امام خمینی (رح) کے افکار کے مطابق، محرم و عاشورا کی مجالس فقط مذہبی یادگار نہیں، بلکہ امت کے دل میں شعور، وحدت، بغاوت اور قیادت کا جذبہ جگانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ صرف آہوں کا موسم نہیں، بلکہ باطل کے ایوانوں کو ہلانے کا وقت ہے۔ عاشورا کو جتنا باشعور انداز میں زندہ رکھا جائے، انقلاب کی روح اتنی ہی زیادہ توانا ہوتی ہے۔ پس آئیے اس محرم میں ہم عزاداری کو صرف جذبات کا نہیں بلکہ معرفت، شعور اور بیداری کا ذریعہ بنائیں۔ یہی امام حسین علیہ السلام کے خون کا تقاضا ہے، یہی امام خمینی کی فکر ہے اور یہی ہر آزاد انسان کا فریضہ بھی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں اور عاشورا نہیں بلکہ عاشورا کو یہی امام اسلام کو کے مطابق شعور اور کا ذریعہ کو زندہ کہ باطل کے خلاف کے ساتھ محرم کا دیتا ہے باطل کے کا جذبہ ہے اور

پڑھیں:

کوچۂ سخن

غزل
میں تازہ خون کی بڑھتی طلب سے واقف ہوں 
نگارِ شوق ترے چشم و لب سے واقف ہوں
براہِ راست مرا زندگی سے کیا ناتا
میں اِس کے ساتھ تمہارے سبب سے واقف ہوں
بنا رہا ہوں میں تقویمِ عالمِ امکاں
 اگرچہ دن کی خبر ہے نہ شب سے واقف ہوں 
جو دوست ہیں وہ مکلف نہیں کوائف کے
مگر حریف کے نام و نسب سے واقف ہوں
کچھ اس تپاک سے وہ اجنبی ملا ہے مجھے
ہر ایک پوچھ رہا ہے میں کب سے واقف ہوں
میں جانتا ہوں کہ بعد از وصال بھی غم ہے
بفیضِ ہجر مآلِ طرب سے واقف ہوں
بطورِ خاص مرا عکس گو نہیں زد پر
میں آئنوں کے عمومی غضب سے واقف ہوں
کسی گناہ سے صرفِ نظر نہیں کریں گے
یہاں پہ جتنے فرشتے ہیں سب سے واقف ہوں 
تُو پوچھتا ہے ترا رزق کس کے ذمے ہے 
مجھے یہ فکر نہیں ہے میں رب سے واقف ہوں
(اسد رحمان۔ پپلاں، پنجاب)

غزل
نجانے کون سا منظر ہرا کرے گا دوست 
تُو مجھ کو چھوڑ کے بے حد برا کرے گا دوست
تجھے بتا تو دیا تھا کہ تُو محبت ہے 
بقایا کام تو میرا خدا کرے گا دوست  
تُو میرے بعد مرے موسموں کو ترسے گا 
نہیں ملوں گا تجھے میںتو کیا کرے گا دوست؟
بھٹک گیا کہیں آب و ہوائے دنیا میں 
مجھے لگا تھا کہ مجھ سے ملا کرے گا دوست
تجھے تو میں نے چھپایا تھا اپنے آپ سے بھی
تُو میرے ساتھ بھی اتنا برا کرے گا دوست
تجھے زمانوں کی حیرت سے دیکھتے رہنا 
ہمارا کام ترا آئنہ کرے گا دوست
(حماد ہادی۔ کراچی)

غزل
آنکھوں سے گفتگو ہوئی، لب دیکھتے رہے
کل رات ایک خواب عجب دیکھتے رہے
اہلِ جنوں نے سر کو جھکایا، فنا ہوئے
اہلِ خرد تو نام و نسب دیکھتے رہے 
پھر یوں ہوا کہ اس کی تمنا بھی چھن گئی 
ہم خاک زاد بیٹھے یہ سب دیکھتے رہے
کچھ لوگ طور جا کہ بھی محروم ہی رہے
کچھ وہ تھے جو مدینے میں رب دیکھتے رہے
وہ آیا، اک نگاہ سے سب کاسے بھر گیا
اور لوگ اپنی اپنی طلب دیکھتے رہے
کچھ لوگ تو صدائیں بھی دھیمی نہ کر سکے
کچھ سانس لینے میں بھی ادب دیکھتے رہے
حالانکہ گفتگو کی بھی خواہش تو تھی مگر
اکرامؔ اس کو جان بلب دیکھتے رہے
(اکرام افضل ۔مٹھیال)

غزل
دور تجھ سے رہوں ایسا ممکن نہیں 
اور میں کچھ کہوں ایسا ممکن نہیں 
عشق بچوں کا تو کھیل ہے ہی نہیں 
ہجر تیرا سہوں ایسا ممکن نہیں 
موم مجھ کو کیا آپ کے عشق نے 
پانیوں میں بہوں ایسا ممکن نہیں 
جل بجھا راکھ بھی اڑ گئی ہے میری 
پھر سے اب میں جلوں ایسا ممکن نہیں 
عشق نے کردیا دم بخود اب مجھے 
میں تیرا دم پڑھوں ایسا ممکن نہیں 
اب تو ہر سمت ہی ہے خزاں اے علیمؔ 
ساتھ اس کے چلوں ایسا ممکن نہیں
(عابد علیم سہو۔ بھکر)

غزل
فراقِ جاں میں مہکتا گلاب پتھر ہے 
شبِ وصال کا ہر ایک خواب پتھر ہے
تڑپ رہا ہے مرا دشت پیاس کے مارے
برس رہا ہے ندی پر سحاب پتھر ہے
تجھے گماں تھا مقدر ہے میرا آئینہ 
مجھے یقیں تھا ترا انتخاب پتھر ہے
بجھا چکا ہے چمن میں چراغ شبنم کے
یہ آگ اگلتا ہوا آفتاب پتھر ہے
گنہ کی شکل میں کی جمع ہم نے کنکریاں 
تمام عمر کا کل احتساب پتھر ہے
نہ ٹوٹ جائے تمنائے دیدِ آئینہ
جو رخ پہ ڈالا ہے تم نے نقاب پتھر ہے
میں آئینہ ہوں مگر شہر میرا نابینا 
ہر اک سوال کا میرے جواب پتھر ہے
(محمد کلیم شاداب ۔آکوٹ، ضلع آکولہ ،مہاراشٹر، انڈیا)

غزل
سیر میری، دشت سے رابطہ کہتے رہے
نقش ِپا کو ہم سفر زائچہ کہتے رہے
نشر ہو کر بھی فضیلت سے خالی نہیں عشق 
دیکھنے والے اسے درس گہ کہتے رہے
خاک تو پیاسوں پہ نوحہ کناں تھی ہی، مگر 
یہ سراب و خار بھی مرثیہ کہتے رہے
میں تعلق کے فرائض کو گنواتا رہا 
وہ برابر میں فقط حادثہ کہتے رہے
گدھ نے کچھ مہلت ہی دی تھی قریب المرگ کو 
یہ تماشائی اسے فاختہ کہتے رہے
ایسی بے چینی سے رگڑی گئی تھیں ایڑیاں 
لوگ پھوٹے آب کو معجزہ کہتے رہے
راجہ کو فرعون کہنے سے ڈرتے تھے سبھی 
اس لیے رانی کو ہی آسیہ کہتے رہے 
ہم  خیالِ قیس ہوں میں نے ساگرؔ کب کہا
ہاں مگر، صحرا نشیں طنزیہ کہتے رہے
(ساگرحضورپوری۔قطر)

غزل
لشکر جو کبھی نعرۂ تکبیر سے نکلے
دشمن کی مجال اس خطِ تاثیر سے نکلے 
تاعمر نہیں دید کی زنجیر سے نکلے 
وہ سلسلے جو خواب کی تعبیر سے نکلے
کل آئینے سے دیر تلک گفتگو ٹھہری
اپنے بھی مراسم کسی دلگیر سے نکلے
اِس آس پہ پھرتے ہیں ترے جھنگ کی گلیاں
کچھ ربط تو اپنا بھی کسی ہیر سے نکلے
ناحق ہوئے مفلس یہاں پابندِ سلاسل
جو صاحبِ زر تھے بڑی تدبیر سے نکلے
جن لوگوں نے بس ایک جھلک دیکھ لی اس کی
پھر کب وہ بھلا حسنِ اساطیر سے نکلے
اُستاد الشعرا نظر آتا ہے جہاں کو
شاعر جو صفِ میر تقی میر سے نکلے
تا دیر وہاں رہتا ہے پھر ظلم مسلط
جس شہر کے باغی ذرا تاخیر سے نکلے
بے انت شہیدان کا حاصل ہے یہ قلزمؔ
ظالم کہاں آسانی سے بونیر سے نکلے
(سجیل قلزم۔فیصل آباد)

غزل
دل کا اجڑا ہوا بن چھوڑ کے جا سکتے ہو 
مجھ کو بے گور و کفن چھوڑ کے جا سکتے ہو 
چاندنی رات میں جب یاد ستانے لگ جائے 
میرے خوابوں کا چمن چھوڑ کے جا سکتے ہو 
حشر تک ساتھ نبھانے کی قسم کھا کر بھی 
’تم مجھے عہد شکن چھوڑ کے جا سکتے ہو‘
میں نے چاہا ہے تجھے جان سے بڑھ کر لیکن 
تم ہو ہرجائی، سجن چھوڑ کے جا سکتے ہو
اور جب کوئی نہیں دل میں تمھارے حمزؔہ 
پھر بھلا کیسے لگن چھوڑ کے جا سکتے ہو
(حافظ حمزہ سلمانی۔ گجرات)

 غزل
جب خیالات ستاتے رہے تیرے مجھ کو
اُس گھڑی تم مجھے لگنے لگے میرے مجھ کو
دل کی دیواروں سے یہ خون بھی ٹکرانے لگے
مخملیں اپنا اگر ہاتھ تُو پھیرے مجھ کو
تُو گئی چھت پہ تو کھڑکی میں کھڑا سورج خود
دینے آیا تھا خبر صبح سویرے مجھ کو
کاش تُو بانہوں کے اس جال کو کھولے پہلے
اور پھر گھات لگا کر وہیں گھیرے مجھ کو
غم کا خنجر اے خدا چھین لے اِن سے ورنہ
مار ڈالیں گے اُداسی کے بسیرے مجھ کو
مشکلوں میں مجھے جس جس نے اکیلا چھوڑا
اب تلک یاد ہیں کم ظرف وہ چہرے مجھ کو
جو تجھے ڈستے رہے سانپ نے مجھ سے یہ کہا
یہی تو دودھ پلاتے تھے سپیرے مجھ کو
(نعمان نذر نعمان۔ لاہور)

غزل
عشق کا اِنتخاب ہیں ہم تم 
ایک دوجے کا خواب ہیں ہم تم 
عشق اپنا گواہی دیتا ہے 
حسن میں لاجواب ہیں ہم تم 
استعارے ہیں روز و شب کے ہم 
ماہتاب، آفتاب ہیں ہم تم 
دنیا والوں کی رائے ہے جیسی 
اس قدر کب خراب ہیں ہم تم 
لوگ کیونکر سوال کرتے ہیں 
جبکہ واضح جواب ہیں ہم تم 
اپنے احباب کے لئے شوبیؔ 
اک مسلسل عذاب ہیں ہم تم 
(ابراہیم شوبی۔کراچی)

غزل
کتابِ خاک میں حرفِ فنا رقم اُس کا
کہ زلزلوں میں بھی زندہ رہا حرم اُس کا
چراغِ دشت بجھا اور دل فروزاں ہے
کہ ایک شعلۂ تحقیق ہے علم اُس کا
شجر پہ برق گری، اور میں یہ سوچتا ہوں
کہ  کس  ضمیر  میں  محفوظ  ہے  کرم  اُس کا
وہ شوخ، تیر چلاتا ہے اور ہنستا ہے
کہ میری خاک میں پیوست ہے ستم اُس کا
خموش لب پہ وہی حرفِ ناتمام آیا
کہ خونِ عشق میں مستور ہے قلم اُس کا
(زبیر احد۔ فیصل آباد)

غزل
دیکھو تو آج آدمی حیوان بن گیا 
تہذیب کے لباس میں شیطان بن گیا 
ظلمت نے اس کے دل پہ اثر ایسا کچھ کیا
خوش نام تھا کبھی جو وہ اپمان بن گیا 
دولت کما رہا ہے جو ایمان بیچ کر
جھوٹوں کا سرغنہ وہی سلطان بن گیا
اب خود کو دیکھنے کا چلن ہی نہیں رہا
ہر شخص اپنے چہرے سے انجان بن گیا 
کردار، ظرف، غیرتِ ایمان مر گئی
اپنے نفس کا بندہ مسلمان بن گیا 
تہذیب مر گئی، نہ رہا ظرفِ گفتگو 
اپنا ضمیر ظرف کی میزان بن گیا 
بولی جو روشنی تو اسے قید کر لیا
تاریک ملک گویا کہ زندان بن گیا
سوچا تھا آدمی کا تقدّس بحال ہے
لیکن یہاں شکار ہی انسان بن گیا
قاضیؔ کسی کے ساتھ رہا مشکلوں میں مَیں
مشکل جو کام تھا مرا آسان بن گیا
(قاضی محمد آصف ۔کراچی) 

غزل
ہے قبا کیسی ادھڑتی ہی چلی جاتی ہے
زندگانی ہے کہ جھڑتی ہی چلی جاتی ہے
ایسا کچھ بھی تو کیا تھا نہ بہو بیٹی نے
بے سبب ساس جھگڑتی ہی چلی جاتی ہے
صدقے واری بھی کئی بار گئی ہے بیگم
ضد پہ آ جائے تو لڑتی ہی چلی جاتی ہے
یہ جو رہتی ہے تو آباد وفا کے دم سے
دنیا اجڑی تو اجڑتی ہی چلی جاتی ہے
بے حسی چہرے کو بے رنگ بناتی ہے ضرور
گرد احساس پہ پڑتی ہی چلی جاتی ہے
ہم اسے اپنی شرافت سے، شرافت سے ملیں
اور دنیا کہ اکڑتی ہی چلی جاتی ہے
خون انسان کا توقیر گنوا بیٹھا ہے 
انسیت خاک میں گڑتی ہی چلی جاتی ہے
ایک لڑکی کہ جو کانٹوں سے بچائے دامن
پر چنریا ہے کہ اڑتی ہی چلی جاتی ہے
بات کرتے ہوئے تو اس کو کبھی دیکھ رشیدؔ
جو رتن لفظوں کے جڑتی ہی چلی جاتی ہے
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)


شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں، انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘، روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں پہلی بار بنکرنگ لائسنس کا اجراء، سمندری معیشت میں انقلاب کی توقع
  • اقبال کے شاہین کی زندہ تصویر
  • کوچۂ سخن
  • حرمِ مطہر امام رضا علیہ‌السلام میں علامہ طباطبائیؒ کی یاد میں تقریب
  • ججز کے استعفوں پر جشن نہیں بلکہ نظام مضبوط کرنا ضروری ہے، سعد رفیق
  • ججز کے استعفے جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں, سعد رفیق
  • امام مسجد کے گھر میں ڈکیتی، چور لاکھوں مالیت کا سونا اور نقدی لے اڑے
  • حزب اللہ کے بانی رہنماء شہید سید عباس موسوی کی بیٹی کا انٹرویو 
  • انقلاب…………… اقبال
  • ٹی ٹی پی نہیں، بلکہ ٹی ٹی اے یا ٹی ٹی بی