محرم کی آنکھ سے دیکھا گیا انقلاب اور فکرِ امام خمینی (رح)
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: محرم کا پیغام یہی ہے کہ ظالم کی حکومت عارضی ہے، مظلوم اگر بیدار ہو جائے تو تاریخ بدل دیتا ہے اور عاشورا بیداری اور قیام کا راستہ دکھاتا ہے۔ امام خمینی (رح) کے افکار کے مطابق، محرم و عاشورا کی مجالس فقط مذہبی یادگار نہیں، بلکہ امت کے دل میں شعور، وحدت، بغاوت اور قیادت کا جذبہ جگانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ صرف آہوں کا موسم نہیں، بلکہ باطل کے ایوانوں کو ہلانے کا وقت ہے۔ عاشورا کو جتنا باشعور انداز میں زندہ رکھا جائے، انقلاب کی روح اتنی ہی زیادہ توانا ہوتی ہے۔ پس آئیے اس محرم میں ہم عزاداری کو صرف جذبات کا نہیں بلکہ معرفت، شعور اور بیداری کا ذریعہ بنائیں۔ یہی امام حسین علیہ السلام کے خون کا تقاضا ہے، یہی امام خمینی کی فکر ہے اور یہی ہر آزاد انسان کا فریضہ بھی۔ تحریر: آغا زمانی
محرم کا چاند نمودار ہوتے ہی دلوں میں ایک عجیب سی تڑپ، ایک انقلابی حرارت اور ایک فکری بیداری جاگ اٹھتی ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے، جس میں عدالت نے ظلم اور حق نے باطل کے خلاف قیام کیا۔ محرم کا ہر لمحہ گواہی دیتا ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں حق کو بالآخر فتح نصیب ہوئی ہے اور یہ فتح، تلوار سے نہیں، بلکہ لہو سے حاصل ہوئی ہے۔ امام خمینی (رح) محرم اور عاشورا کو فقط تاریخی واقعات نہیں سمجھتے، بلکہ ان کے نزدیک یہ زندہ، متحرک اور ہمیشہ کے لیے جاری رہنے والے انقلاب کا سرچشمہ ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: "محرم وہ مہینہ ہے، جس میں اسلام کو زندہ کیا گیا۔" واقعۂ کربلا فقط ایک سانحہ نہیں بلکہ ایک مکتب ہے۔ ایسا مکتب جو ہر دور کے مظلوموں کو طاغوت کے مقابل قیام کا حوصلہ دیتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے نہ صرف اپنی جان بلکہ اپنے عزیزوں، جوان بیٹوں اور اصحاب کی قربانیاں دے کر یہ پیغام دیا کہ ظلم کے خلاف خاموشی، طاغوت کی تقویت ہے اور باطل کے سامنے جھکنا انسانیت کی شکست۔
امام خمینی (رح) کے مطابق، عاشورا فقط رونے، ماتم کرنے یا جلوس نکالنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک "سیاسی، روحانی اور انقلابی درسگاہ" ہے۔ ان کے بقول: "عاشورا کو زندہ رکھنا، اسلام کو زندہ رکھنے کے مترادف ہے۔" یزید کو تختِ خلافت پر بٹھانے والوں کے مفسدانہ عزائم نے اسلام کو نابودی کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا، لیکن امام حسین علیہ السلام کی قربانی نے نہ صرف ان سازشوں کو ناکام بنایا بلکہ اسلام کو نئی زندگی عطا کی۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی (رح) محرم کو "فدائیت اور کامیابی کا مہینہ" قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ: "ہماری جو کچھ بھی عزت ہے، جو بھی بیداری ہے، وہ محرم اور عاشورا کی مرہونِ منت ہے۔"(کتاب کلماتِ قصار، امام خمینی) حضرت امام حسین علیہ السلام کی تحریک نے ہمیں سکھایا کہ باطل کے خلاف قیام کرنا ہر دور میں واجب ہے۔ عاشورا ایک دائمی پیغام ہے کہ چاہے دشمن کے پاس تخت و تاج ہوں، افواج ہوں یا فریب، اگر تمہارے پاس ایمان، اخلاص اور قربانی کا جذبہ ہے تو تم حق کے پرچم کو سربلند رکھ سکتے ہو۔
محرم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ: ظالم کے خلاف خاموشی، ظلم کی تائید ہے، قربانی دینا ہی بقاء کا راستہ ہے اور ظلم کی پیشانی پر باطل کی مہر ثبت کرنے کا وقت ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے۔ سیدالشہداء امام حسین (ع) کی شہادت نے اسلام کے پیغام کو سمیٹ کر تاریخ کے ہر دور کے لیے ایک لافانی منشور بنا دیا۔ وہ صرف ایک مظلوم امام نہیں، بلکہ تمام مظلومینِ عالم کے امام ہیں۔ ان کی قربانی آج بھی فلسطین کے بچوں، کشمیر کے نوجوانوں، یمن کے شہیدوں اور ہر ظالم کے خلاف صدائے احتجاج بن کر گونجتی ہے۔ امام خمینی (رح) نے اسلامی انقلاب کو کربلا کی روشنی میں پروان چڑھایا۔ وہ فرماتے ہیں: "ہماری تحریک، کربلا کی تحریک کا تسلسل ہے۔ اگر عاشورا نہ ہوتا تو نہ اسلامی انقلاب ہوتا، نہ اس کی روح باقی رہتی۔" انقلاب اسلامی ایران، کربلا کے خونی پیغام کا زندہ ثمر ہے۔
اگر 61 ہجری میں امام حسین علیہ السلام نے ظلم و فساد کے خلاف قیام کرکے حق کی شمع روشن کی، تو 1979ء میں امام خمینی (رح) نے اسی شمع کی روشنی میں طاغوتی حکومت کے محل کو زمین بوس کر دیا۔ کربلا کا پیغام فقط ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک جاری تحریک ہے، جو ہر اس دل میں دھڑکتی ہے، جو ظلم کے خلاف بغاوت کا جذبہ رکھتا ہو۔ امام خمینی (رح) بارہا اس بات پر زور دیتے ہیں کہ: "کربلا کو زندہ رکھیے، کیونکہ کربلا زندہ رہے گی تو اسلام زندہ رہے گا۔" محرم و عاشورا کو زندہ رکھنا فقط مذہبی فریضہ نہیں بلکہ ایک سیاسی، اخلاقی اور اجتماعی ضرورت بھی ہے۔ امام خمینی (رح) نے عاشورا کو ایک سیاسی مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ کربلا کی یاد منانا امتِ مسلمہ کے لیے بیداری اور وحدت کا ذریعہ ہے۔ وہ ملتوں کو تلقین کرتے ہیں کہ: "اس محرم کو زندہ رکھو، ہمارے پاس جو کچھ ہے، وہ محرم و صفر ہی کی بدولت ہے۔"
امام خمینی (رح) کے نزدیک مجالسِ امام حسین علیہ السلام فقط نوحہ و گریہ کا اجتماع نہیں بلکہ نوحہ و گریہ کے ساتھ ساتھ عقل و عدل کے لشکر کا ہتھیار بھی ہیں۔ ان مجالس کے ذریعے عوام کو طاغوتی افکار، ظلم، خیانت اور منافقت کے خلاف شعور اور حوصلہ ملتا ہے۔ یہی وہ محفلیں ہیں، جہاں جہالت کے خلاف علم، ظلم کے خلاف عدل اور طاغوت کے مقابل اسلامی فکر پروان چڑھتی ہے۔ اسی لیے وہ فرماتے ہیں: "ان مجالس کو جتنی زیادہ شان و شوکت، اتحاد و اتفاق اور معرفت کے ساتھ منایا جائے، اتنا ہی عاشورہ کے خونی پرچم مظلوم کے انتقام کی نوید لے کر بلند ہوں گے۔" (کتاب کلماتِ قصار، امام خمینی) امام خمینی (رح) نے عزاداری کو امت مسلمہ کے درمیان وحدتِ کلمہ کا ذریعہ قرار دیا۔ ان کے مطابق، انقلاب اسلامی کی کامیابی بھی انہی مجالس و ماتمی جلوسوں کی مرہونِ منت ہے، جنہوں نے عوام کو طاغوت کے خلاف کھڑا کیا۔ امام فرماتے ہیں: "یہی جلوس، یہی نوحہ خوانی، یہی ماتم، یہی مجالس تبلیغِ دین کے عظیم مراکز ہیں۔"
محرم میں ہونے والی سینہ زنی اور سوگواری، فقط رسم نہ ہو، بلکہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ چاہتے تھے کہ یہ ایک بامقصد عمل بنے۔ ان کے نزدیک: "سینہ زنی کو شعور اور ہدف کے ساتھ ہونا چاہیئے۔ عاشورا فقط نوحہ و گریہ کا دن نہیں بلکہ ملت مظلوم کی زندگی کا دن ہے۔" امام خمینی (رح) عاشورا کو امت مسلمہ کی حیاتِ نو اور جرأت و شجاعت کے اظہار کا دن قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہی وہ دن ہے، جب مظلوم کو یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ باطل کتنا ہی طاقتور ہو، حق اگر خلوص اور قربانی کے ساتھ اٹھے تو وہ لازماً کامیاب ہوتا ہے۔
محرم کا پیغام یہی ہے کہ ظالم کی حکومت عارضی ہے، مظلوم اگر بیدار ہو جائے تو تاریخ بدل دیتا ہے اور عاشورا بیداری اور قیام کا راستہ دکھاتا ہے۔ امام خمینی (رح) کے افکار کے مطابق، محرم و عاشورا کی مجالس فقط مذہبی یادگار نہیں، بلکہ امت کے دل میں شعور، وحدت، بغاوت اور قیادت کا جذبہ جگانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ صرف آہوں کا موسم نہیں، بلکہ باطل کے ایوانوں کو ہلانے کا وقت ہے۔ عاشورا کو جتنا باشعور انداز میں زندہ رکھا جائے، انقلاب کی روح اتنی ہی زیادہ توانا ہوتی ہے۔ پس آئیے اس محرم میں ہم عزاداری کو صرف جذبات کا نہیں بلکہ معرفت، شعور اور بیداری کا ذریعہ بنائیں۔ یہی امام حسین علیہ السلام کے خون کا تقاضا ہے، یہی امام خمینی کی فکر ہے اور یہی ہر آزاد انسان کا فریضہ بھی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں اور عاشورا نہیں بلکہ عاشورا کو یہی امام اسلام کو کے مطابق شعور اور کا ذریعہ کو زندہ کہ باطل کے خلاف کے ساتھ محرم کا دیتا ہے باطل کے کا جذبہ ہے اور
پڑھیں:
ڈمپر حادثات کسی لسانی تنازع کا نہیں بلکہ انسانی المیہ ہے، علی خورشیدی
سندھ اسمبلی اجلاس سے خطاب میں اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ شرجیل میمن ڈمپر مالکان کو گاڑیاں جلنے پر معاوضہ دینے کی بات کرتے ہیں، مگر پہلے یہ بتایا جائے کہ ان حادثات میں جان سے جانے والے معصوم شہریوں کے ورثا کا کیا قصور ہے کہ وہ آج بھی انصاف اور معاوضے سے محروم ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قائد حزبِ اختلاف علی خورشیدی نے سندھ اسمبلی اجلاس میں ڈمپر سے کچلے جانے والے شہریوں کے المناک واقعات پر بھرپور اور دو ٹوک مقف اختیار کرتے ہوئے حکومت کو ایوان کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ کسی لسانی یا انتظامی تنازع کا نہیں بلکہ ایک سنگین انسانی المیہ ہے، اور حکومت کی مجرمانہ خاموشی اور بے حسی ناقابلِ معافی ہے۔
علی خورشیدی نے کہا کہ انتظامیہ کے افسران کو اپوزیشن نہیں بلکہ حکومت تعینات کرتی ہے، اس لیے تمام تر ذمہ داری براہِ راست صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے، ایم کیو ایم پاکستان نے اس مسئلے پر کبھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کی اور نہ ہی شر انگیزی کو سپورٹ کیا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ 200 سے زائد حادثات میں شہید ہونے والوں کے گھر سندھ حکومت پرسہ دینے تک نہیں گئی، جو ایک شرمناک طرزِ عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ شرجیل میمن ڈمپر مالکان کو گاڑیاں جلنے پر معاوضہ دینے کی بات کرتے ہیں، مگر پہلے یہ بتایا جائے کہ ان حادثات میں جان سے جانے والے معصوم شہریوں کے ورثا کا کیا قصور ہے کہ وہ آج بھی انصاف اور معاوضے سے محروم ہیں۔ قائد حزبِ اختلاف نے ایوان میں واضح پیغام دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزرا اور پوری حکومت سندھ اسمبلی کو جوابدہ ہے، ڈمپر مالکان کو معاوضہ دینے سے پہلے ان شہدا کے ورثا کو حق دیا جائے جنہیں سڑکوں پر بے رحمی سے کچلا گیا، ہم عوام کے نمائندے ہیں اور اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔