اسلام آباد: دفتر خارجہ نے کشن گنگا اور رٹل پن بجلی منصوبوں سے متعلق ثالثی عدالت کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان کے مؤقف کی مکمل توثیق کرتا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق 27 جون کو جاری کردہ فیصلے میں عدالت نے واضح کیا ہے کہ اسے معاملے پر مکمل اختیار حاصل ہے اور وہ ان تنازعات کو بروقت، منصفانہ اور مؤثر انداز میں نمٹانے کی ذمہ داری رکھتی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ بھارت کے اُس یک طرفہ اور غیر قانونی اقدام کے تناظر میں آیا ہے جس میں اُس نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان نے اس اقدام کو پہلے ہی بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

ترجمان نے کہا کہ ثالثی عدالت کا فیصلہ واضح کرتا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ایک مؤثر، قابلِ عمل اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ معاہدہ ہے، جسے بھارت کسی صورت یک طرفہ طور پر ختم یا معطل نہیں کرسکتا۔

دفتر خارجہ نے مطالبہ کیا کہ بھارت فوری طور پر معاہدے کے تحت معمول کا تعاون بحال کرے اور اپنے معاہداتی فرائض دیانت داری کے ساتھ ادا کرے۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

سندھ طاس معاہدے سے ’فرار‘ اختیار کرنے کی بھارتی کوشش، پاکستان کی کڑی تنقید

وفاقی وزیر برائے آبی وسائل محمد معین وٹو نے بھارت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ سندھ طاس معاہدے (IWT) سے ’فرار‘ اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جب کہ بھارتی وزارتِ خارجہ نے ہیگ کی عدالت کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے جس میں بھارت کو معاہدے کے تحت دریاؤں پر نئے پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن میں طے شدہ شرائط کی پابندی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

1960ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت 3 مغربی دریا پاکستان کو اور 3 مشرقی دریا بھارت کو دیے گئے تھے۔ 2023ء میں پاکستان نے مغربی دریاؤں پر بھارت کے پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن کے معاملے پر مستقل ثالثی عدالت (PCA) ہیگ سے رجوع کیا تھا۔

واضح رہے کہ اس ہفتے پیر کو عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسے اس تنازع پر مکمل دائرہ اختیار حاصل ہے اور واضح کیا کہ معاہدہ بھارت کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ مغربی دریاؤں پر پن بجلی کے منصوبے ’انجینئرنگ کے مثالی یا بہترین طریقہ کار‘ کے تحت تعمیر کرے، بلکہ ان منصوبوں کا ڈیزائن معاہدے میں درج شرائط کے عین مطابق ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے انڈس واٹر ٹریٹی: کیا پاکستان کے حق میں فیصلہ آنے کی کچھ خاص وجوہات ہیں؟

عدالت نے مزید کہا کہ بھارت کو عمومی طور پر مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کے ’غیر مشروط استعمال‘ کے لیے بہنے دینا ہوگا۔

پاکستانی حکومت نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا تھا۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا تھا کہ عدالت نے پاکستان کا مؤقف تسلیم کر لیا ہے۔

تاہم بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا:
’بھارت نے کبھی بھی اس نام نہاد ثالثی عدالت کی قانونی حیثیت، اختیارات یا دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کیا، لہٰذا اس کے فیصلے بھارت کے پانی کے استعمال کے حق پر کوئی اثر نہیں ڈالتے۔‘
انہوں نے کہا کہ بھارت اپنے فیصلے پر قائم ہے کہ معاہدے کو معطل رکھا جائے۔

#WATCH | Delhi | On a question by ANI regarding the award by the Court of Arbitration under the Indus Water Treaty, MEA spokesperson Randhir Jaiswal says, “India has never accepted the legality, legitimacy, or competence of the so-called Court of Arbitration. Its pronouncements… pic.twitter.com/cx8zdrAtYN

— ANI (@ANI) August 14, 2025

وفاقی وزیر معین وٹو نے ترجمان وزارت خارجہ کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا:
’بھارت اس معاہدے سے فرار چاہتا ہے۔ معاہدے کی کسی بھی شق کے تحت بھارت یا پاکستان اسے ختم نہیں کر سکتے۔‘
انہوں نے بھارتی مؤقف کو ’بے بنیاد اور غلط‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسے مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔

وزیر نے بتایا کہ بھارت کا معاہدے میں ترمیم کے لیے بھیجا گیا خط کسی قانونی حیثیت کا حامل نہیں، اور بھارت یکطرفہ طور پر اس معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔

یاد رہے کہ بھارت نے اپریل میں مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں ایک حملے کے بعد، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے، معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ نئی دہلی نے اس حملے کا الزام بغیر شواہد کے اسلام آباد پر عائد کیا تھا۔

پاکستان نے واضح کیا تھا کہ پانی کے حصے کی یکطرفہ معطلی ’جنگی اقدام‘ کے مترادف ہے کیونکہ معاہدے میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ بعد ازاں، پاکستان نے اسے ویانا کنونشن 1969 کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے عدالت جانے پر غور کیا۔

جون میں PCA کے اضافی فیصلے میں کہا گیا کہ بھارت معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کر سکتا۔ بھارت نے اس فیصلے کو بھی ماننے سے انکار کر دیا۔

یہ بھی پڑھیے ثالثی عدالت کا فیصلہ پاکستانی مؤقف کی تائید، بھارت یکطرفہ سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کرسکتا، وزیراعظم

بین الاقوامی قانون دان عائشہ ملک نے کہا کہ بھارت کا مؤقف ظاہر کرتا ہے کہ وہ ’ایک ذمہ دار اور قانون کا احترام کرنے والے ریاست‘ کے کردار سے کس حد تک پیچھے ہٹ چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ PCA کا فیصلہ نہ صرف سندھ طاس معاہدے بلکہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں بھارت کی ذمہ داریوں پر مبنی ہے، اور یہ کہنا غلط ہے کہ بھارت نے کبھی عدالت کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا، کیونکہ 2013ء کے کشن گنگا کیس میں اس نے ایسا کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کی فریقین کے درمیان مذاکرات کی اپیل ’بھارتی حکومت کے کانوں تک نہیں پہنچی‘، اور مودی کی ہندوتوا پالیسی کے تحت بھارت تعاون کے بجائے مسلسل محاذ آرائی کو ترجیح دے رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وفاقی وزیر برائے آبی وسائل محمد معین وٹو

متعلقہ مضامین

  • سندھ طاس معاہدے سے ’فرار‘ اختیار کرنے کی بھارتی کوشش، پاکستان کی کڑی تنقید
  • بھارت کا سندھ طاس معاہدے پر عالمی ثالثی عدالت کا پاکستان کے حق میں فیصلہ ماننے سے انکار
  • سندھ طاس معاہدے پر عالمی عدالت کافیصلہ ، بھارت کاموقف سامنے آگیا
  • بھارت کا چین اور روس کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط کرنے کا فیصلہ
  • مودی کو سندھ طاس معاہدہ ماننا پڑے گا ورنہ 6 دریاؤں کا پانی چھین لیں گے، بلاول بھٹو
  • پاک بھارت تنازع میں ٹرمپ کی ثالثی سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی تصدیق
  • انڈس واٹر ٹریٹی: کیا پاکستان کے حق میں فیصلہ آنے کی کچھ خاص وجوہات ہیں؟
  • عالمی سطح پر پاکستان کے حق میں دو اہم فیصلے
  • 9 مئی جلاؤ گھیراؤ کیس کا تحریری فیصلہ جاری، صنم جاوید اور عالیہ حمزہ کو گرفتار کر کے جیل بھیجنے کا حکم 
  • سندھ طاس تنازع: پاکستان کی طرف سے عدالتی فیصلے کا خیرمقدم