بارشوں میں انٹرنیٹ موبائل نیٹ ورک کی خرابی کا نوٹس لیا جائے،ادریس چوہان
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) حیدرآ باد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے قائم مقام صدر احمد ادریس چوہان نے کہا کہ حالیہ شدید بارشوں کے دوران حیدرآباد اور اِس کے گردونواح کے علاقوں میں بجلی کی طویل بندش کے ساتھ ساتھ، انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک سروسز کی مکمل ناکامی نے عوام اور کاروباری طبقے کو شدید اذیت، بے بسی اور نقصان میں مبتلا کر دیا ہے۔ اِس بحران کے دوران بنیادی سہولیات جیسے پانی کی فراہمی معطل ہو چکی تھی اور اِس کے ساتھ ہی شہری رابطے کے کسی بھی ذریعے سے محروم ہو گئے۔ اُنہوں نے اِس ناقابل قبول صورتحال پر شدید اَفسوس اور مذمت کا اِظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیلی کام کمپنیاں اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں بُری طرح ناکام رہی ہیں۔ کئی علاقوں میں 24 گھنٹوں سے زائد وقت تک بجلی موجود نہیں تھی مگر کسی بھی ٹیلی کام کمپنی نے اپنے ٹاورز پر موجود جنریٹرز کو فعال رکھنے کے لیے فیول ریفل کرنے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے نیٹ ورک مکمل طور پر بند ہوگیا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ اِس غیر ذمہ دارانہ روئیے کی وجہ سے نہ صرف کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہو گئیں بلکہ عام شہری بھی لوگوں سے رابطے، ہنگامی سروسز اور روزمرہ ڈیجیٹل ضروریات سے کٹ کر رہ گئے۔ آن لائن ٹرانزیکشنز، ای بینکنگ، ڈیجیٹل کمیونیکیشن اور حتیٰ کہ ایمرجنسی میڈیکل کنسلٹیشن جیسے اہم شعبے بھی اِس غفلت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ احمد ادریس چوہان نے مزید کہا کہ اَفسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہی کمپنیاں روزانہ کی بنیاد پر اپنے انٹرنیٹ اور کالنگ پیکجز کی قیمتوں میں اِضافہ تو کرتی ہیں لیکن جب عوام کو حقیقی ضرورت پیش آتی ہے تو سروسز نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ اُن کا سروس کا معیار مسلسل گرتا جا رہا ہے اور ایمرجنسی حالات کے لیے اُن کے پاس کوئی بیک اَپ یا منصوبہ بندی دکھائی نہیں دیتی۔ اُنہوں نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) سے مطالبہ کیا کہ وہ اِس غفلت کا فوری نوٹس لے اور تمام ٹیلی کام کمپنیوں کا احتساب کرے۔ چیمبر کا مطالبہ ہے کہ ان کمپنیوں سے وضاحت طلب کی جائے کہ ہنگامی حالات میں اُن کے جنریٹرز کیوں فعال نہیں تھے۔ اِس کے ساتھ ساتھ جن علاقوں میں سروسز مکمل طور پر بند رہیں وہاں صارفین کو بل یا پیکج کی مد میں مکمل ریفنڈ یا کم اَز کم کریڈٹ دیا جائے۔ حیدرآباد چیمبر یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ پی ٹی اے ملک بھر کی ٹیلی کام کمپنیوں کے لیے سخت ضوابط مرتب کرے تاکہ آئندہ کسی قدرتی آفت یا بجلی کی طویل بندش کے دوران عوام رابطے سے محروم نہ ہوں۔ اُن کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ٹاورز پر فیول، بیک اَپ اور عملے کی دستیابی یقینی بنائیں اور تمام ٹیلی کمیونکیشن کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ کسی بھی پیکیج کے پیسے بڑھانے سے پہلے پی ٹی اے سے باقائدہ اُس کی منظوری لی جائے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ٹیلی کام
پڑھیں:
!!…وہ ایک موبائل جسے تو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وہ ایک موبائل جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار آلات سے دیتا ہے آدمی کو نجات
پہلے سنتے تھے ’’جتنے منہ اتنی باتیں‘‘ اب یوں کہنا چاہیے ’’جتنے منہ اتنے موبائل‘‘، اس وقت ہر امیر غریب، شاہ و گدا، عالم، جاہل، ہر فرد کے پاس کم از کم ایک موبائل فون ضرور ہوتا ہے، میں نے سب سے پہلے موبائل فون ممتاز طالب علم رہنما، مقرر، دانشور، سیاستدان اور سفارت کار حسین حقانی کے ہاتھ میں دیکھا، لکڑی کا ایک چھوٹا ڈبہ تھا جس میں فون رکھا ہوا تھا وہ روزنامہ جنگ کے نیوز روم میں ہم سے ملاقات کے لیے آئے تھے، لکڑی کا ڈبہ اٹھائے اٹھائے پھر نا کسی قدر مشکل کام تھا لیکن اس کے فوائد کے مقابلے میں اس مشکل کی کوئی حیثیت نہ تھی اس کا سب سے بڑا فائدہ ہر لمحے دوسروں سے رابطے میں رہنا تھا، کسی کو فون کرنا، کسی کا فون سننا بہت آسان ہوگیا تھا، آج کل موبائل فون سے بے شمار کام لیے جا رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ ان بے شمار کاموں میں فون کرنا اور سننا سب سے کم ہو گیا ہے، موبائل فون کچھ عرصے بعد نسبتاً چھوٹے ہو گئے لیکن اتنے چھوٹے نہیں ہوئے تھے کہ جیب میں رکھے جا سکیں، یہی وجہ تھی کہ ہمارے ایک ساتھی ایک دفعہ غلطی سے گھر سے آتے ہوئے موبائل فون کے بجائے ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول دفتر لے آئے تھے، خیر اب تو موبائل کا سائز بہت چھوٹا ہوگیا اور اس کی خوبیاں بہت بڑھ چکی ہیں، پہلے پہل جب ایک بڑی شخصیت کو دیکھا کہ وہ باتیں کر رہے ہیں، ان کے ہاتھ میں موبائل فون بھی نہیں اور ان کے ارد گرد کوئی موجود بھی نہیں تو بہت حیرت ہوئی، یا اللہ یہ انہیں کیا ہو گیا ہے کہیں منافع میں کمی کے باعث دماغ میں کوئی خلل تو نہیں ہو گیا پتا چلا کہ اب موبائل فون ہاتھ میں اٹھانے کی بھی ضرورت نہیں، اسے جیب میں رکھو اور ہینڈ فری کان سے لگا لو۔
موبائل فون عام ہونے سے جہاں بے شمار آسانیاں ہوئی ہیں وہیں بہت سے پیشے قریباً بند ہو گئے ہیں پہلے ہر فرد کلائی پر گھڑی پہنا کرتا تھا ان میں بعض بہت مہنگی بھی ہوتی تھیں اور فخر کے اظہار کا ذریعہ بھی، لیکن اب بہت ’’عقل مند‘‘ لوگ ہی موبائل فون ہوتے ہوئے یہ بوجھ اٹھانا پسند کرتے ہیں اور کلائی کی گھڑی قریب قریب متروک ہو گئی ہے اسی طرح اب طلبہ و طالبات اور عام لوگ کیلکولیٹر سے بھی نجات پا چکے ہیں، جہاں حساب کتاب کرنے کی ضرورت پڑی فوراً موبائل فون نکالا اور حساب کر لیا، الگ سے کیلکولیٹر خریدنے اور رکھنے کی ضرورت ہی نہیں، سب سے بڑا نقصان تو کیمرے اور ان کی فلمیں بنانے والی کمپنیوں کو ہوا ہے، اسی طرح پروفیشنل فوٹوگرافرز کی اہمیت بھی کم ہو گئی ہے اب ہر شخص کے پاس موبائل فون ہے اور ہر فرد فوٹوگرافر ہے کیونکہ مہنگی فلم خریدنے کی بھی ضرورت نہیں رہی، لہٰذا ایک کی جگہ 10 پوز لے لیے جاتے ہیں، بھاری بھرکم البم خریدنے سے بھی نجات مل گئی، موبائل فون میں ہی تصویریں جمع کرنے کی سہولت موجود ہے اور تصویریں زیادہ زیادہ ہوں تو ’’کلاؤڈ‘‘ پر بھی ذخیرہ کی جا سکتی ہیں، پہلے جب کبھی بجلی منقطع ہوتی تھی اور اندھیرا چھا جاتا تھا تو ہا ہا کار مچتی تھی، ٹارچ نکالو، موم بتی جلاؤ، اب کسی چیخ پکار کی ضرورت نہیں، موبائل فون تو ہر وقت ہاتھ میں ہی ہوتا ہے اس کی ٹارچ جلاؤ اور کام چلا لو، نہ ٹارچ چاہیے نہ موم بتی ڈھونڈنی پڑے گی۔
ریڈیو جو کبھی دبئی سے لوٹنے والے بڑے فخر سے اپنے گھر والوں کے لیے لاتے تھے اب کسی گھر میں نہیں ہوتا، لتا، رفیع، نور جہاں، مہدی حسن، علی ظفر، عاطف اسلم، ابرار الحق جسے سننے کو دل چاہے موبائل فون کھولیں اور سن لیں، فلمیں دیکھنے کے لیے سینما گھر جانے، لائن لگا کر ٹکٹ خریدنے کی زحمت سے بھی بچ گئے، موبائل فون میں فلموں کا پورا خزانہ موجود ہے، سینما گھروں کی اہمیت وی سی آر نے کم کی تھی، موبائل فون نے وی سی آر کو ہی ختم کر دیا، وی سی آر ہی نہیں ٹیپ ریکارڈر، کیسٹ، سی ڈی کو بھی مارکیٹ سے غائب کر دیا، ٹیلی گرام کو ٹیلیکس، ٹیلکس کو فیکس اور ان سب کو موبائل فون کھا گیا، کسی سے رابطہ کرنا ہو، تحریری پیغام بھیجنا ہو، رسید پہنچانی ہو، تصویر دکھانی ہو، ہر مرض کی دوا ہے موبائل فون، حالیہ دور میں بہت سے اخبارات بند ہوئے یا ان میں چھانٹیاں ہوئی ہیں اس کا ایک بڑا سبب موبائل فون بھی ہے، اخبار 24 گھنٹے بعد آتا ہے، موبائل فون پر ہر وقت تازہ ترین خبریں سنی اور دیکھی جا سکتی ہیں، لگتا ہے موبائل فون کا اگلا نشانہ ٹی وی چینل ہوں گے، اللہ خیر کرے، لغت، انسائیکلوپیڈیا حتیٰ کہ کتابوں کی اشاعت بھی بہت کم ہو گئی ہے، نوجوان نسل مطالعہ تو کرتی ہے لیکن موبائل فون کے اسکرین پر، وہاں ہر کتاب دستیاب ہے اور رسائی بہت آسان ہے کتابیں کیا اب تو لوگوں نے قلم اور نوٹ بک رکھنا بھی چھوڑ دیا ہے جہاں یادداشت کے لیے کچھ لکھنے کی ضرورت ہوئی موبائل فون نکالا اور نوٹ کر لیا، لیجیے قلم کاغذ کی صنعت کو بھی خطرات لاحق ہو گئے، حد تو یہ ہے کہ لوگوں نے قرآن کریم بھی موبائل فون پر پڑھنا شروع کر دیا ہے، مساجد میں نماز کے بعد بہت سے لوگ موبائل فون کھولے قرآن شریف پڑھتے نظر آتے ہیں حالانکہ اس میں کئی خطرات بھی مضمر ہیں موبائل فون، انٹرنیٹ سمیت پورے سائبر سسٹم کی لگامیں غیر مسلموں کے ہاتھوں میں ہیں، غیر مسلموں اور مسلمانوں کی مہارت کا کوئی موازنہ ہی نہیں، اس لیے اس خدشے کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کوئی ایک لفظ یا کوئی ایک جملہ تبدیل کر کے معانی کیا سے کیا کر دیں، پھر مصحف کو ہاتھ میں لے کر تلاوت کرنے کی بات ہی کچھ اور ہے، علماء کرام نے اس رجحان کو نہ روکا تو قرآن کریم کے اشاعتی ادارے بھی سمٹ کر رہ جائیں گے، کچھ عرصے قبل ایک ویڈیو دیکھی ایک حافظ صاحب تراویح میں موبائل فون کی مدد لے رہے تھے، پتا نہیں وہ ویڈیو سچی تھی یا جھوٹی، لیکن ایسا ہو بھی سکتا ہے۔
موبائل فون نے کاروبار کے لیے بڑی مارکیٹوں میں مہنگی دکانیں خریدنے کی ضرورت سے بھی نجات دلا دی ہے، خواتین و حضرات سب آسانی سے آن لائن کاروبار کر رہے ہیں اور رزق حلال کما رہے ہیں بے شمار عورتیں اپنے گھروں میں کپڑے سیتی ہیں، کیک بناتی ہیں اور آن لائن فروخت کرتی ہیں، اس طرح آمدنی بھی ہو جاتی ہے اور بچوں اور گھر کی نگہداشت میں بھی فرق نہیں آتا، شہروں میں پیزا، بریانی اور دیگر کھانوں کی بے شمار دکانیں کھل گئی ہیں جو فون پر آرڈر لیتی اور کھانا گھر پر پہنچانے کی سہولت فراہم کرتی ہیں، خوشحال گھرانوں میں یہ رجحان عام ہو گیا ہے کہ بچے کہتے ہیں امی پیزا آرڈر کر دیتے ہیں اور ماں باپ ان کی بات مان لیتے ہیں، اخبار کے دفتر سے رات گئے گھر آتے ہوئے میں روزانہ مختلف شاپس کے رائڈرز کو موٹر سائیکلوں پر دوڑتے ہوئے دیکھا کرتا تھا، رات کو لوگ انتہائی مرغن کھانے منگاتے ہیں، کھاتے ہیں اور سو جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک میں موٹاپے اور دل کے امراض وبا کی طرح بڑھ رہے ہیں، خواتین کو ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ بچوں کو بہلانے کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی جہاں بچہ رویا اسے موبائل فون پکڑا دیا اور وہ چپ ہو گیا، آگے چل کر اس کے اثرات کیا ہوں گے، اس سے کسی کو غرض نہیں، ایک اور نقصان یہ ہوا ہے کہ موبائل فون کی وجہ سے دفاتر میں کام چوری بڑھ گئی ہے، صاحب بہادر فون سننے میں مگن رہتے ہیں اور عوام وقت ضائع ہونے پر پیچ و تاب کھا رہے ہوتے ہیں، پہلے بجلی گیس کے بل جمع کرانے کے لیے چلچلاتی دھوپ میں قطار لگانی پڑتی تھی، اب یہ قطاریں بہت مختصر ہو گئی ہیں کیونکہ بڑی تعداد میں لوگ آن لائن بل جمع کرا دیتے ہیں، اسی طرح کسی کو رقم بھیجنی ہو تو اس کے لیے بھی بہت سی ایپس آگئی ہیں، ایک دوسرے کو چھوٹی رقوم آسانی سے بھیج سکتے ہیں۔
موبائل فون کا صحیح فائدہ پلمبر، الیکٹریشن، کارپینٹر اور دیگر ہنرمند اٹھا رہے ہیں اب وہ دکانداروں کو کمیشن دینے سے بچ گئے ہیں انہوں نے اپنے فون نمبر دیے ہوئے ہیں اور لوگوں سے ان کا براہ راست رابطہ ہے، لوگوں کو بھی دکانوں تک جانے اور دکانداروں کے پاس اپنی شکایت درج کرانے کی ضرورت نہیں رہی، کسی انجان جگہ پہنچنا پہلے بہت مشکل ہوتا تھا، کبھی اس گلی میں بھٹک رہے ہیں کبھی اس گلی میں لوگوں سے پتا پوچھتے پھر رہے ہیں اب تو لوگ ’’لوکیشن‘‘ بھیج دیتے ہیں اور ہم موبائل فون کے ذریعے ٹھیک منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں، بڑھاپے میں تنہائی بہت اذیت ناک ہوتی ہے مجھے یاد ہے میری دادی فالج کی مریضہ تھیں، ان کی سب سے بڑی مصروفیت ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ہوتا تھا جس کے لیے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کسی نہ کسی سے پوچھتی رہتی تھیں لیکن اب موبائل فون نے تنہائی اور بیماری کی وجہ سے بے کاری کی اذیت کو کم کر دیا ہے،
اب ایسے لوگ اپنا وقت موبائل فون کے ساتھ بتاتے ہیں، گانے سنتے ہیں، ڈرامے دیکھتے ہیں، سیاسی تجزیوں کا تجزیہ کرتے ہیں، یہ لوگ عام افراد سے زیادہ ملکی اور غیر ملکی حالات سے باخبر ہوتے ہیں، موبائل فون کے ذریعے کیا کیا فراڈ ہو رہے ہیں اس کے ذکر کے لیے ایک الگ مضمون درکار ہے لیکن ایک فراڈ ایسا ہو رہا ہے جسے لوگ فراڈ ہی نہیں سمجھتے اور لوگ خصوصاً بعض خواتین دھڑلے سے یہ کام کر رہی ہوتی ہیں، وہ اپنی تصویر کو موبائل فون کے ٹولز کے ذریعے غیر معمولی دلکش بنا دیتی ہیں مرد ان تصویروں کو دیکھتے ہیں اور عش عش کرتے ہیں، موبائل فون کا سب سے تباہ کن استعمال اس کے ذریعے جنسی تلذذ کا حصول ہے جس کا اب یہ سب سے بڑا اور آسان ذریعہ بن گیا ہے اس پر تحقیق کی ضرورت ہے کہ اس وجہ سے ’’اس بازار‘‘ کی رونق ختم ہو گی یا مزید بڑھ جائے گی۔