پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھال لی
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
ایسے وقت میں جب دنیا بڑھتے ہوئے تنازعات، گہری ہوتی ہوئی جغرافیائی سیاسی دراڑوں اور کثیرالجہتی اداروں کی مؤثریت پر بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات سے نبرد آزما ہے، پاکستان آج اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھال رہا ہے، یہ ایک علامتی مگر اسٹریٹجک کردار ہے جو ایک نہایت حساس اور پیچیدہ عالمی ماحول میں پاکستان کے حصے میں آیا ہے۔
نجی اخبار میں شائع خبر کے مطابق یہ سلامتی کونسل کے 15 رکنی ادارے میں پاکستان کی آٹھویں مدت ہے اور 2013 کے بعد اس کی پہلی صدارت ہے، اسلام آباد نے جنوری 2025 میں غیر مستقل رکن کے طور پر اپنی موجودہ 2 سالہ مدت کا آغاز کیا تھا، جو 2026 کے اختتام تک جاری رہے گی۔
روزنامہ ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے عالمی منظرنامے کو درپیش چیلنجز کا ذکر کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایسے وقت میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھال رہا ہے جب دنیا شدید غیر یقینی صورتحال، بڑھتے ہوئے تنازعات، پیچیدہ جغرافیائی اور تزویراتی حالات اور عالمی امن و سلامتی کو درپیش سنگین خطرات کا سامنا کر رہی ہے۔
اگرچہ سلامتی کونسل کی صدارت ماہانہ بنیاد پر گردش کرتی ہے اور اس کے پاس کوئی انتظامی اختیار نہیں ہوتا، لیکن یہ صدارت کونسل کے ایجنڈے اور مجموعی انداز پر اثرانداز ہونے کا ایک موقع فراہم کرتی ہے۔
اس وقت جب سلامتی کونسل کو غزہ اور یوکرین جیسے اہم معاملات پر جمود اور تعطل کا سامنا ہے، ایسی قیادت کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، کثیرالجہتی نظام پر عالمی اعتماد میں کمی کے اس ماحول میں پاکستان کی یہ قیادت، چاہے مختصر ہی کیوں نہ ہو، بین الاقوامی سطح پر بغور دیکھی جائے گی۔
سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ تنازعات کے پرامن حل، مکالمے اور سفارت کاری کا مستقل اور پختہ حامی رہا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم سلامتی کونسل کے کام میں اصولی اور متوازن نقطہ نظر لائیں گے، اور کثیرالجہتی نظام کو مضبوط کرنے اور دیگر رکن ممالک کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کا عزم رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی صدارت کے دوران شفافیت، شمولیت اور مؤثریت کو فروغ دینا چاہتا ہے، ہم کونسل کے دیگر ارکان کے ساتھ قریبی تعاون میں کام کریں گے تاکہ اجتماعی اور بروقت اقدامات ممکن بنائے جا سکیں، جو اقوامِ متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی برادری کی توقعات کے مطابق ہوں۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سلامتی کونسل کی صدارت میں پاکستان سلامتی کو نے کہا کہ کونسل کے
پڑھیں:
میانمار میں قحط کا خطرہ، اقوام متحدہ نے بڑے بحران کی وارننگ دیدی
میانمار کی راکھین ریاست میں قحط کا شدید خدشہ پیدا ہو گیا ہے اور اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے فوری امداد کی اپیل کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر فنڈز نہ ملے تو یہ بحران مکمل تباہی میں بدل سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے مطابق جنگ زدہ علاقے میں خوراک کی قلت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، خصوصاً 1 لاکھ 40 ہزار روہنگیا مسلمان 2012 کے نسلی فسادات کے بعد سے کیمپوں میں مقیم ہیں۔ 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی نے میانمار کی معیشت تباہ کر دی ہے، لیکن فوجی محاصرے کی وجہ سے راکھین کی صورتحال دیگر علاقوں سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار فوج کا عام شہریوں پر فضائی حملے کا اعتراف، 100 سے زائد ہلاکتوں کا خدشہ
رپورٹس کے مطابق خوراک کی شدید کمی کے باعث رواں سال اپریل میں اوہن ٹاؤ کی کیمپ کے ایک 50 سالہ شخص نے بھوک سے تنگ آ کر کھانے میں زہر ملا کر خودکشی کر لی، جبکہ اُس کی بیوی اور 2 بچے پڑوسیوں کی بروقت مدد سے بچ گئے۔ جون میں ستوے شہر میں ایک راکھینی خاندان نے اسی طرح جان لی، اور گزشتہ ہفتے حالیہ جھڑپوں کے باعث بے گھر ہونے والے ایک ضعیف جوڑے نے فاقوں سے تنگ آ کر خود کشی کرلی
ڈبلیو ایف پی کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر اس کے فنڈز میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 60 فیصد کمی آئی ہے اور وہ میانمار میں شدید غذائی بحران کا شکار صرف 20 فیصد افراد کو ہی خوراک فراہم کر پارہا ہے۔ مارچ میں فنڈز کی کمی کے باعث راکھین میں امداد روک دی گئی، حالانکہ اس سال کے آغاز سے خوراک سے محروم خاندانوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔
ڈبلیو ایف پی کے نمائندہ مائیکل ڈنفورڈ کے مطابق لوگ ایک شیطانی چکر میں پھنس گئے ہیں، جنگ نے انہیں محصور کردیا ہے، روزگار ختم ہو گئے ہیں اور کوئی انسانی ہمدردی کا سہارا نہیں بچا۔ بچوں کے بھوک سے بلکنے اور ماؤں کے کھانے چھوڑنے کی دل دہلا دینے والی کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار: فوج کے مظالم کا مقابلہ منفرد انداز میں کرنے والا نوجوان
راکھین پہلے ہی 2012 کے فسادات اور 2017 میں روہنگیا کی بڑے پیمانے پر ہلاکت و بے دخلی سے بری طرح متاثر تھا۔ 2023 میں فوج نے ارکان آرمی کو سپلائی روکنے کے لیے ریاست کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع کردیا، جس سے ستوے شہر کا محاصرہ مزید سخت ہو گیا۔ اب شہر تک صرف سمندر یا فضائی راستے سے پہنچا جاسکتا ہے، کھیتوں میں دھان کی کٹائی بند ہوگئی ہے اور روہنگیا کو سمندر میں مچھلی پکڑنے کی اجازت بھی نہیں۔
کیمپ کے ایک رہائشی نے بتایا کہ لوگ باہر نہیں جا سکتے، روزگار ختم ہو گیا ہے، قیمتیں پانچ گنا بڑھ گئی ہیں، اور زیادہ تر لوگ صرف اُبلے ہوئے آلو اور جڑیں کھا کر گزارا کر رہے ہیں۔
فوجی بھرتیوں کا بوجھ بھی مقامی آبادی پر ڈال دیا گیا ہے۔ ستوے کے قریب ایک کیمپ میں مقیم محمد نے بتایا کہ روہنگیا خاندانوں کو یا تو مردوں کو جنگ میں بھیجنا پڑتا ہے یا پھر اُن کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے اپنی امداد کی رقم دینا پڑتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار میں ہنگامی حالت میں توسیع، انتخابات مزید تاخیر کا شکار
ڈبلیو ایف پی کے مطابق راکھین میں تمام کمیونٹیز شدید معاشی دباؤ میں ہیں اور زندہ رہنے کے لیے خطرناک راستے اختیار کررہی ہیں، جن میں قرض بڑھانا، بھیک مانگنا، گھریلو تشدد، بچوں کا اسکول چھوڑنا، سماجی کشیدگی اور حتیٰ کہ انسانی اسمگلنگ بھی شامل ہے۔
ادارے نے واضح کیا ہے کہ فنڈز کی کمی کئی بڑے ڈونر ممالک کی ذمہ داری ہے، تاہم امریکا کی جانب سے یو ایس ایڈ فنڈنگ میں 87 فیصد کمی کو بھی ایک اہم وجہ قرار دیا جارہا ہے۔ گزشتہ سال امریکا نے ڈبلیو ایف پی کو تقریباً 4.5 ارب ڈالر فراہم کیے تھے جو عالمی حکومتی عطیات کا نصف تھا۔
اقوام متحدہ نے گزشتہ نومبر میں ہی قحط کے خطرے‘ کی وارننگ دی تھی، لیکن 9 ماہ بعد بھی فنڈز کی شدید کمی اور ایک اور ہنگامی اپیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی ہمدردی کی عالمی صنعت کس بے رحمانہ ماحول میں کام کر رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اقوام متحدہ ڈبلیو ایف او قحط سالی میانمار وارننگ