پختونخوا میں موسلادھار بارشوں کی پیش گوئی، ندی نالوں اور دریاؤں میں سیلاب کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
خیبر پختونخوا میں موسلادھار بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں ندی نالوں اور دریاؤں میں سیلاب کا خدشہ ہے۔
محکمہ موسمیات نے خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں آئندہ دنوں کے دوران گرج چمک، تیز ہواؤں اور موسلا دھار بارشوں کی پیشگوئی جاری کی ہے، جس کے باعث دریاؤں میں طغیانی، ندی نالوں میں سیلاب اور پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
چترال، دیر بالا، دیر زیریں، سوات، بونیر، مالاکنڈ، باجوڑ، بٹگرام اور شانگلہ کے علاقوں میں بارش کے ساتھ ساتھ آندھی اور گرج چمک کا امکان ہے۔ اسی طرح کوہستان، تورغر، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، کرم اور مہمند میں بھی موسلادھار بارش متوقع ہے۔
اُدھر پشاور، مردان، صوابی، نوشہرہ، چارسدہ، کوہاٹ، ہنگو، خیبر اورکزئی، بنوں، کرک، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور شمالی و جنوبی وزیرستان کے اضلاع بھی بارشوں کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ ان علاقوں میں گرج چمک اور تیز ہواؤں کے ساتھ شدید بارش کی توقع کی جا رہی ہے۔
محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ سوات، پنجکوڑہ اور کابل کے دریاؤں میں موسلا دھار بارشوں کے باعث طغیانی آ سکتی ہے جب کہ صوابی، مردان، مانسہرہ، کوہستان، دیر، شانگلہ اور وزیرستان کے مقامی ندی نالوں میں سیلاب کی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
پشاور، نوشہرہ، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے نشیبی علاقوں میں بھی پانی جمع ہونے اور طغیانی کی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔
مزید برآں خیبرپختونخوا کے پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات موجود ہیں، جو ٹریفک کی روانی اور سڑکوں کی بندش کا سبب بن سکتی ہیں۔
گزشتہ روز بھی کالام، سیدو شریف، مالم جبہ، بالاکوٹ، اور پشاور سمیت کئی علاقوں میں بارش ریکارڈ کی گئی۔ محکمہ موسمیات کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں درجہ حرارت 41 ڈگری سینٹی گریڈ، بنوں اور میرکھنی چترال میں 40، جبکہ پشاور، پٹن، کوہاٹ اور لوئر چترال میں 38 ڈگری ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے علاوہ کالام میں درجہ حرارت 28، مالم جبہ 25، دیر 34 اور لوئر دیر میں 36 ڈگری سینٹی گریڈ رہا۔
محکمہ موسمیات نے شہریوں کو احتیاط برتنے اور متعلقہ اداروں کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: محکمہ موسمیات دریاو ں میں ں میں سیلاب علاقوں میں بارشوں کی ندی نالوں کا خدشہ
پڑھیں:
ملک کے پسماندہ ترین علاقوں کی فہرست جاری، بلوچستان کے کتنے اضلاع شامل ہیں؟
پاکستان پاپولیشن کونسل نے ملک کے ترقیاتی ڈھانچے کی رپورٹ جاری کردی ہے جس نے مختلف علاقوں کے درمیان سہولیات اور ترقی میں عدم برابری سے متعلق تشویشناک تصویر پیش کردی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 20 پسماندہ ترین اضلاع میں سے 17 کا تعلق بلوچستان سے ہے، جبکہ 2 اضلاع خیبر پختونخوا اور ایک سندھ سے تعلق رکھتا ہے، اس فہرست میں پنجاب کا کوئی ضلع شامل نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان: گزشتہ مالی سال کی آٰڈٹ رپورٹ جاری، 48 ارب روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف
رپورٹ کے مطابق واشک، خضدار، کوہلو اور ژوب ملک کے کمزور ترین اضلاع میں سرفہرست ہیں، جبکہ کوہستان، شمالی وزیرستان (خیبر پختونخوا) اور تھرپارکر (سندھ) بھی نہایت پسماندہ علاقوں میں شامل ہیں۔
بلوچستان کے جن اضلاع میں زندگی کا معیار سب سے زیادہ متاثر ہے ان میں واشک، خضدار، کوہلو، ژوب، موسیٰ خیل، ڈیرہ بگٹی، قلعہ سیف اللہ، قلات، شیرانی، جھل مگسی، نصیرآباد، چاغی، بارکھان، ہرنائی، آواران، خاران اور پنجگور شامل ہیں۔
ان اضلاع میں ترقیاتی سہولیات کی قلت، مواصلاتی کمزوری اور معاشی زبوں حالی نے نہ صرف عوام کی روزمرہ زندگی دشوار بنا دی ہے بلکہ مجموعی ترقیاتی عمل کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان شدید خشک سالی کے خطرے سے دوچار، ماحولیاتی تبدیلی اور کم بارشیں بڑا چیلنج
رپورٹ کے مطابق ملک کے کمزور ترین اضلاع میں رہائشی سہولیات نہایت خراب ہیں۔ ان علاقوں میں 65 فیصد سے زائد گھر کچے یا عارضی ڈھانچوں پر مشتمل ہیں۔ جھل مگسی میں صورتحال اس حد تک سنگین ہے کہ 97 فیصد گھرانے کچے یا نیم پکے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ کئی اضلاع میں نصف سے زیادہ گھرانے بیت الخلا کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں جبکہ بڑی تعداد میں گھرانوں کو صاف پانی تک قابلِ بھروسہ رسائی حاصل نہیں۔
بلوچستان کے مواصلاتی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل بھی اس رپورٹ کا اہم حصہ ہیں۔ صوبے کے زیادہ تر اضلاع میں رابطہ سڑکوں، ٹرانسپورٹ اور ٹیلی فون سروسز کی شدید کمی ہے، جس کے باعث مقامی آبادی بنیادی خدمات، بازاروں، تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز تک رسائی میں شدید مشکلات کا شکار ہوتی ہے۔ رابطے کے اس فقدان کے باعث ایمرجنسی ردعمل نہایت کمزور پڑ جاتا ہے، جس کا نتیجہ ہنگامی حالات میں نقصان کے بڑھ جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کے برعکس پنجاب کے وسطی اور شمالی علاقوں میں مواصلاتی نظام نسبتاً بہتر ہے، جس نے مقامی ترقی کو فروغ دیا ہے۔
معاشی طور پر بھی بلوچستان کی صورت حال نہایت مایوس کن ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ معاشی سرگرمیوں اور روزگار کے لحاظ سے ملک کے بدترین 20 اضلاع میں سے 15 بلوچستان میں ہیں جہاں بے روزگاری کی شرح بلند ہے اور بڑی تعداد میں لوگ بلا معاوضہ گھریلو مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ خیبرپختونخوا کے پسماندہ علاقوں میں بھی معاشی صورتحال کمزور ہے، تاہم وہاں حالات بلوچستان جتنے تشویشناک نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان مہاجرین کے لیے ہمیشہ خوش آمدید کہنے والا صوبہ ہے، وزیراعظم شہباز شریف
صحت کے شعبے میں بھی بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع سنگین مسائل کا شکار ہیں۔ متعدد علاقوں میں قریبی صحت مرکز تک رسائی کے لیے 30 کلومیٹر سے زائد سفر کرنا پڑتا ہے، اور بدترین ٹرانسپورٹ کی وجہ سے ہنگامی حالات میں تیز طبی امداد ملنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال بچوں اور ماؤں کی صحت کے لیے شدید خطرہ ہے۔
تعلیمی میدان میں کراچی ملک کے ان چند علاقوں میں شامل ہے جہاں اسکولوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جبکہ بلوچستان اس حوالے سے سب سے پیچھے رہ جانے والا صوبہ ہے۔ صوبے کے بیشتر اضلاع میں اسکولوں کی تعداد نہایت کم ہے جبکہ لڑکیوں کے لیے ہائی اور ہائیر سیکنڈری اسکول تک فاصلہ بہت زیادہ ہے، جس کے باعث شرحِ تعلیم خاص طور پر لڑکیوں میں بہت کم ہے۔
رپورٹ کے ڈیموگرافک حصے میں سندھ کے ضلع تھرپارکر کو ملک کا سب سے زیادہ کمزور ضلع قرار دیا گیا ہے، جہاں شرح پیدائش غیر معمولی طور پر زیادہ ہے اور 5 سال سے کم عمر بچوں کی تعداد آبادی میں نمایاں حصہ رکھتی ہے۔ بڑے خاندانوں کی یہ ساخت نہ صرف تعلیمی نظام بلکہ صحت کی خدمات تک رسائی کو بھی مزید مشکل بنا رہی ہے۔
یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ پاکستان میں پسماندگی کا مسئلہ متعدد عوامل کے مجموعے کا نتیجہ ہے، جس میں حکومتی عدم توجہی، کمزور انفراسٹرکچر، ناکافی معاشی سرگرمیاں، ناقص صحت و تعلیم کے نظام اور آبادی کے بے تحاشا اضافے جیسے عوامل شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل
بلوچستان جیسے صوبے، جو رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا حصہ ہے، مسلسل کم سرمایہ کاری، جغرافیائی دوری، سیکیورٹی چیلنجز اور سیاسی عدم استحکام کے باعث ترقیاتی دوڑ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
اگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مربوط حکمت عملی نہ اپنائی، پسماندہ اضلاع کے لیے علیحدہ ترقیاتی پیکیج نہ بنائے، مواصلات اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری نہ کی، اور تعلیم و صحت کے نظام کو مضبوط نہ کیا تو یہ پسماندگی آنے والے برسوں میں مزید گہری ہو سکتی ہے۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے دور دراز اضلاع کی ترقی نہ صرف مقامی آبادی کے لیے ضروری ہے بلکہ قومی استحکام اور ترقی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان پسماندگی پنجاب رپورٹ