اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 جولائی 2025ء) پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارت کی جانب سے پانی کو ہتھیار بنانے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔

منگل کے روز نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (این ای او سی) کے دورے کے دوران وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، کہا کہ ایک بین الاقوامی عدالت (ثالثی کی مستقل عدالت) نے ایک ضمنی حکم کا اعلان کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا، "لیکن دشمن کے پاکستان کے خلاف کچھ ناپاک عزائم ہیں اور وہ آبی معاہدے کے خلاف اقدامات کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنا پانی ذخیرہ کریں گے۔

(جاری ہے)

"

شہباز شریف نے کہا کہ حکومت دیامر بھاشا ڈیم اور دیگر پانی کے وسائل کو بروئے کار لا کر ایک "غیر متنازعہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت" بڑھائے گی۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ 1991 کے پانی کے معاہدے میں صوبوں کے درمیان پانی کی گنجائش بڑھانے کی واضح شق موجود تھی۔ انہوں نے کہا کہ "ہم اگلے چند سالوں میں اپنے وسائل سے یہ صلاحیت پیدا کریں گے۔ اس میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا اہم کردار رہے گا۔"

بھارت: پاکستان کے ساتھ تصادم میں جنگی طیاروں کے نقصان کا 'اعتراف‘

انہوں نے مزید کہا کہ اسی کے پیش نظر حکومت نے صوبوں کے ساتھ واٹر ایکارڈ کے تحت غیر متنازعہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے منصوبوں کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سندھ طاس آبی معاہدہ اور ہیگ کی عدالت

بھارت نے اپریل میں اپنے زیر انتظام کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے حملے کے بعد سندھ طاس معاہدہ (انڈس واٹر ٹریٹی) منسوخ کر دیا تھا۔ اس حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے اور نئی دہلی نے بغیر کسی ثبوت کے اس کا الزم پاکستان سے اعانت حاصل کرنے والے عسکریت پسندوں پر عائد کیا تھا۔

پاکستان نے اس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا تھا اور واقعے کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تفتیش کی پیش کش کی تھی، جسے بھارت نے تسلیم نہیں کیا۔

بھارت کا شنگھائی تعاون تنظیم کے مشترکہ بیان پر دستخط کرنے سے انکار

سندھ طاس آبی معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان سندھ طاس کے چھ دریاؤں کے پانی کو مختص کرتا ہے۔ اس کے تحت بھارت کو مشرقی دریا (راوی، بیاس، ستلج) کے پانی پر حق ہے۔ جب کہ پاکستان کو تقریباً 80 فیصد پانی مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) سے حاصل ہوتا ہے۔

پاکستان نے اپنے پانی کے حصے کو معطل کرنے کی کسی بھی کوشش کو "ایکٹ آف وار" یعنی جنگی عمل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے۔

بعد میں اس نے معاہدوں کے قانون پر سن 1969 کے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت کے خلاف عدالتی کارروائی پر غور کرنے کی بات کہی۔

گزشتہ ہفتے ہی ہیگ میں ثالثی کی مستقل عدالت (پی اے سی) نے یہ فیصلہ سنایا کہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس آبی معاہدے کو منسوخ نہیں کر سکتا۔

بھارتی بحریہ کا اہلکار پاکستان کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار

پاکستان قدرتی آفات کی زد میں

پاکستان کے قومی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے اپنے ریمارکس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اس موقع پر 2022 کے سیلاب کے تباہ کن اثرات کو بھی یاد کیا، جس کی وجہ سے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مصائب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بدقسمتی سے ان ممالک میں شامل ہے، جو بادل پھٹنے جیسی قدرتی آفات سے سب سے زیادہ خطرے میں ہیں، جبکہ عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اس کا حصہ بہت کم ہے۔

وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے تعاون سے فون پیغامات کے ذریعے موسم کی وارننگ اور آفات کے خطرات کو باقاعدگی سے جاری کیا جانا چاہیے۔

ٹرمپ کا ثالثی کا دعویٰ: بھارت امریکہ کے درمیان تناؤ کا باعث

ان کا مزید کہنا تھا کہ گرمی کی لہروں سے گلیشیئرز پگھلنے کے واقعات پیش آ رہے ہیں، جس سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ ترین سطح کی تیاری کی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سوات میں جو کچھ بھی، ہوا، جس میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، اس نے پوری قوم کو اداس کر دیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اس معاملے میں متعلقہ فریقوں کو اس واقعے کا دیانتدارانہ جائزہ لینا چاہیے۔

انہوں نے مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے صوبوں کے ساتھ مل کر ایک جامع میکنزم بنانے کی ہدایت کی۔ وزیر اعظم نے اس حوالے سے رپورٹ بھی طلب کی ہے۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت شہباز شریف نے پاکستان کے نے کہا کہ انہوں نے کیا ہے

پڑھیں:

بلوچستان میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پشین اسٹاپ کے قریب حالی روڈ پر خودکش بم دھماکے میں تین ایف سی اہلکاروں سمیت گیارہ افراد شہید جب کہ آٹھ اہلکاروں اور پانچ خواتین سمیت 35 افراد زخمی ہوگئے۔

جن میں بعض کی حالت تشویش ناک ہے، خود کش حملہ آور کے علاوہ فورسز کی بروقت کارروائی میں پانچ دہشت گرد ہلاک کردیے گئے ہیں جن کے قبضے سے اسلحہ اورگولہ بارود برآمد ہوا۔

 بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کو مکمل بھارتی مدد حاصل ہونے کی وجہ سے دہشت گرد حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ کالعدم تنظیمیں بھارتی مدد سے مسلسل نہتے بے گناہ بلوچوں کا قتل عام کررہی ہیں جو بلوچ نسل کشی کی ایک بدترین مثال ہے۔ ملک دشمن اور ان کے سہولت کار دہشت گردوں کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا کرتے ہیں۔

صوبہ بلوچستان قیام پاکستان کے ساتھ ہی کئی طرح کی بیرونی سازشوں کا شکار ہوا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ازلی دشمن بھارت نے اس صوبے کو خاص طور پر نشانہ بنایا، پہلے آزاد بلوچستان کی چنگاری سلگائی پھر اس کو ہوا دی گئی۔ دوسری بھارت کی عالمی دہشت گردی صرف بلوچستان، پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وہ پورے خطے کو نشانہ بنا رہا ہے۔ عالمی شواہد اور اعداد وشمار واضح کرتے ہیں کہ بھارت عالمی سطح پر دہشت گردی کا پورا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔

ایک طرف وہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہورہا ہے تو دوسری طرف اس نے خود اپنے ملک کے اندر اقلیتوں کا جینا دوبھرکردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھوٹان،سری لنکا،چین ، بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھارتی دراندازی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ عالمی سطح پر بھارتی دہشت گردی،ٹارگٹ کلنگ،ماورائے عدالت قتل اور دوست ممالک کے ساتھ دھوکا دہی کے بے شمار واقعات عالمی میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔

 بلوچستان میں بھارتی اسپانسرڈ پراکسیز کی معاونت سے دہشت گرد کارروائیاں ایک بار پھر بے نقاب ہو گئی ہیں۔ معرکہ حق ’’آپریشن بنیان مرصوص‘‘ میں تاریخی شکست کے بعد مودی سرکار بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے، جس کے نتیجے میں فتنہ الہندوستان بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کی سرپرست اعلیٰ بن گئی ہے۔

بھارتی خفیہ ایجنسیاں پراکسیزکو مالی معاونت فراہم کر تی ہیں، بھارتی اسپانسرڈ پراکسیز نہ صرف حملوں کی منصوبہ بندی کرتی ہیں بلکہ کالعدم تنظیموں کو تربیت اور اسلحہ بھی فراہم کرتی ہیں۔ بھارتی اسپانسرڈ پراکسیز کے کالعدم تنظیموں کے علاج معالجے کے ساتھ ساتھ سرکاری روابط بھی قائم ہیں، بھارتی حکومت کے ساتھ ساتھ بھارتی میڈیا بھی دہشت گردوں کی پشت پناہی میں پیش پیش ہے۔

پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کی خبر سب سے پہلے بھارتی میڈیا دیتا ہے، دہشت گردانہ حملے کی خبر بھارتی ذرایع ابلاغ کے اکاؤنٹس سے جاری ہوتی ہے جسے بھارتی میڈیا پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ بھارتی چینلز کے اینکرز نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ کالعدم تنظیموں کا دفتر دہلی میں ہونا چاہیے، بھارتی حکومت ان کالعدم تنظیموں کو سرکاری سطح پر معاونت فراہم کرے تاکہ پاکستان کی علاقائی سالمیت اور داخلی خودمختاری کو نقصان پہنچایا جا سکے۔

دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھا چکا ہے، آج ہمیں بیرونی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا سامنا ہے، ٹی ٹی پی، فتنہ الخوارج، فتنہ الہندوستان، بی ایل اے اور اس کی مجید بریگیڈ کی دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں، یہ گروہ افغان سرزمین سے آپریٹ کرتے ہیں اور جعفر ایکسپریس جیسے ہولناک حملوں کے ذمے دار ہیں۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناقابلِ تردید قربانیاں دی ہیں اور اس کا اقتصادی خرچہ بھی بھاری رہا۔ اندازے کے مطابق ایک سو پچاس ارب ڈالر سے زائد کا نقصان۔ یہ وہ خسارہ ہے جس نے معاشی ترقی ، ملک کی بنیادی ترقیاتی منصوبہ بندی اور عوامی فلاح و بہبود کے پروگرامز کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔

 کینیڈا جیسے ملٹی نیشنل ملک میں گھس کر سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا قتل بھی بھارتی ریاستی دہشت گردی کی ایک حالیہ مثال ہے۔ حماس اسرائیل جنگ میں انسان دشمنی کی بنیاد پر اسرائیل کا ساتھ دینے اور مظلوم فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری پر خوشی کا اظہار کرنے پر بھارت پوری دنیا کے باشعور اور انسان دوست معاشروں کا اعتماد کھو چکا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے پاکستان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بھارت کا گھناؤنا کردار بے نقاب کیا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق بھارت پاکستان میں دہشت گردکارروائیوں کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔

 پاکستان کی سلامتی کو کسی بھی طریقے سے نقصان پہنچانے کا بھارتی ایجنڈا تو قیام پاکستان کے وقت ہی طے پا گیا تھا جس پر عمل کرنے میں بھارت کی کسی بھی حکومت نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس ایجنڈے کے تحت ہی پاکستان پر تین باقاعدہ جنگیں مسلط کی گئیں۔1971 کی جنگ میں بھارتی پروردہ دہشت گرد اور عسکری تنظیم مکتی باہنی کی معاونت سے پاکستان کو دولخت کیا گیا جس کے بعد بھارت باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہوگیا۔

اس نے آبی دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو کبھی سیلاب میں ڈبونے اورکبھی بھوکا پیاسامارنے کی سازشیں کیں اور پھر باقاعدہ دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو ٹارگٹ کرنا شروع کردیا گیا۔ بھارت نے افغان حکومت کی معاونت سے افغان سرزمین کو اپنے دہشت گردوں کی تربیت اور انھیں افغان سرحد سے پاکستان میں داخل کرنے کے لیے استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے جس میں افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت بھی اس کی شریک کار بن چکی ہے۔

اس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے جب کہ پاکستانی خفیہ ادارے دہشت گردی کی ان وارداتوں میں بھارت اور افغان حکومت کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد اکٹھے کرکے اقوام متحدہ سیکریٹریٹ،امریکی دفتر خارجہ اور دوسرے عالمی اور علاقائی فورمز کو فراہم کرچکے ہیں۔کچھ عرصہ قبل بھارت کے فوجی سربراہ نے ناعاقبت اندیش بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے اور بھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر میں جو خون ریزی ہورہی ہے وہ پاکستان کے ایماء پر ہورہی ہے‘‘بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اس سے بھی چند قدم آگے بڑھ کر کہا کہ ’’پاکستان بھارت کو غیر مستحکم کرنے میں مستقل لگا ہوا ہے۔‘‘ ان جاہلانہ، اشتعال انگیز اور حقیقت سے عاری بیانات کا آئی ایس پی آر اور وزارت خارجہ پاکستان نے دندان شکن جواب دیا۔ اس طرح کی من گھڑت کہانیاں بھارت کے سیاست دان اور فوجی قیادت کی گھٹی میں ماضی سے لے کر آج تک شامل رہی ہیں جس کے نتیجے انھیں ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی ہے۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف طویل اور صبر آزما جنگ لڑی ہے، جس میں ہمارے ہزاروں فوجی، سویلین اور معصوم بچے شہید ہوئے ہیں۔ اس قربانی کے نتیجے میں ملک میں امن کی بحالی ممکن ہوئی ہے۔ اس وقت پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور انٹیلیجنس ادارے پوری طرح چوکنا ہیں اور دشمن کے ہر وار کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی برادری بھارت کی ان کارروائیوں کا سختی سے نوٹس لے اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے انصاف پر مبنی کردار ادا کرے۔ پاکستان امن کا داعی ضرور ہے، مگر اپنی خود مختاری، سلامتی اور عوام کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

ریاستی دہشت گردی کو ریاستی سطح پر ہی جواب ملے گا اور پاکستان اس باب کو بند کرنے کا پختہ ارادہ رکھتا ہے۔اس پس منظر میں بیرونی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی ایک قومی سانحہ ہے جس کا سامنا ہم متحدہ عزم اور ٹھوس حکمتِ عملی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ محض داخلی انتشار یا سرفہرست عسکری چالوں کا معاملہ نہیں، یہ ایک علاقائی اور بین الاقوامی چیلنج ہے جس کے حل کے لیے عالمی برادری کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سرپرستی اور سرحدوں کے پار موجود معاونت کو روکے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے ٹھوس شواہد بین الاقوامی فورمز پر پیش کریں اور دنیا کو واضح کریں کہ ریاستی دہشت گردی کے اس قسم کے نتائج نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرناک ہیں۔

خاموشی یا مبہم بیانات صرف ان سازشوں کو ہوا دیتے ہیں۔بہتر قومی دفاع کے ساتھ ساتھ ہمیں داخلی سطح پر بھی کمزوریوں کو دور کرنا ہوگا۔ معاشی استحکام، روزگار کے مواقع، تعلیم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینا لازمی ہے تاکہ بنیادیں مضبوط رہیں اور عسکریت پسندی کے بیج پروان نہ چڑھ سکیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طاقت اور خفیہ معلومات کے نظام کو مزید تقویت دینا اور سرحدی نگرانی کو مربوط بنانا وقت کی ضرورت ہے۔پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنے عوام اور خود مختاری کے تحفظ کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ قبول نہیں کرے گا۔

دہشت گردی کی جڑیں جو بیرونی سرپرستی سے مضبوط ہوئیں، انھیں بین الاقوامی تعاون اور داخلی پالیسیوں کے ذریعے منہدم کیا جائے گا۔ قوم کا حوصلہ، افواج کی بہترین صلاحیت اور حکومت کا عزم مل کر اس مہم کو کامیابی کی راہ پر گامزن کریں گے ، تاکہ آیندہ نسلیں دہشت گردی اور انتشار سے آزاد، خوشحال اور باعزت زندگی گزار سکیں۔

متعلقہ مضامین

  • آئی ایس پی آر کا ردِعمل: بھارتی بیانات تشویش ناک، جواب مؤثر اور فیصلہ کن ہوگا
  • بھارتی نے دوبارہ مہم جوئی کی تو پہلے سے تیز اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا، آئی ایس پی آر
  • پنجاب، دوردرازعلاقوں میں گھر گھربوتل بند پانی مہیا کرنے کا فیصلہ
  • پنجاب، دور دراز علاقوں میں گھر گھر بوتل بند پانی مہیا کرنے کا فیصلہ
  • دریائوں اور آبی ذخائر میں پانی کی آمد و اخراج کی صورتحال کے اعدادوشمار جاری
  • حکومت سندھ اور متحدہ عرب امارات کے مابین زرعی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • متنازعہ سر کریک پر بھارت کی پاکستان کو دھمکی
  • دریائوں اور آبی ذخیروں میں پانی کی صورتحال
  • پاکستان اور عمان کے درمیان صحت کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • بلوچستان میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی