کوٹ لکھپت جیل میں قید تحریک انصاف کے رہنماؤں مخدوم شاہ محمود قریشی ، ڈاکٹر یاسمین راشد، سینیٹر اعجاز چوہدری ، میاں محمود الرشید، اور سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ نے ایک کھلا خط تحریر کیا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ انھوں نے یہ کھلا خط کس کو لکھا ہے، وہ کس کو مخاطب ہیں۔ کیا وہ اپنے کپتان سے مخاطب ہیں، کیا وہ اپنی جماعت کی قیادت سے مخاطب ہیں، کیا وہ اسٹبلشمنٹ سے مخاطب ہیں، کیا وہ حکومت سے مخاطب ہیں۔ بہر حال یہ ان کا پہلا کھلا خط نہیں ہے۔
وہ اس سے پہلے بھی کھلے خط لکھ چکے ہیں۔ لیکن وہ بھی نظر انداز ہوئے ہیں۔ ان کی اپنی جماعت بھی اپنے ان اسیران کے کھلے خطوط کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تو پھر کوئی اور کیوں دے۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ ملکی تاریخ کے بدترین بحران سے نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔ مذاکرات ہر سطح پر ہونے چاہیے۔ سیاسی سطح پر بھی مذاکرات ضروری ہیں اور مقتدرہ کی سطح پر بھی مذاکرات ضر وری ہیں۔ آغاز کار کے لیے سیاسی طور پر مذاکرات کیے جائیں۔
تحریک انصاف کے لاہور کے اسیران کو اس کا حصہ بنایا جائے۔ مذاکرات کے آٖغاز کرنے پر کسی فریق کو مطعون کرنا سارے عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوگی۔ مذاکراتی کمیٹی کے تقررکے لیے پیٹرن ان چیف تک رسائی آسان بنانا ہوگی تا کہ تحریک کی لیڈر شپ وسیع مشاورت کر سکے۔ ملاقات کے اس عمل کو وقتاً فوقتاً جاری رکھنا ہوگا۔ کوٹ لکھپت جیل کے اسیران نو مئی کے مقدمات میں جیل کاٹ رہے ہیں۔
ان میں سینیٹر اعجاز چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد اور عمر سرفراز چیمہ کو تو نو مئی کے بنیادی ملزمان کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک رائے کہ نو مئی ہی تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسٹبلشمنٹ اس کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں جب کہ تحریک انصاف ایک جیوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کرتی ہے۔
اسٹبلشمنٹ ملزمان کو سزاؤں کا مطالبہ کرتی ہے جب کہ تحریک انصاف اس کو ایک فالس فلیگ آپریشن کہتی ہے۔ اس لیے نو مئی کو کیسے حل کیا جائے۔ جب تک یہ طے نہیں ہوتا تب تک مجھے معاملات آگے بڑھتے نظر نہیں آتے۔ اس لیے یہ اسیران اگر اپنے جرائم کی معافی مانگ لیں تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ لیکن اگر یہ ایسا نہیں کرتے تو مجھے بات آگے بڑھتی نظر نہیں آتی۔
اس خط میں ایک بات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ شاید ان کو جیل میں کافی عرصہ ہوگیا ہے،انھیں اب اندازہ نہیں۔ آج تحریک انصاف کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اس کا سوشل میڈیا ہے۔ مذاکرات کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا ہے۔ تحریک انصاف اپنے سوشل میڈیا کی قیدی بن کر رہ گئی ہے۔ وہ کوئی سیاسی قدم اٹھائے بھی تو اس کا سوشل میڈیا اس کے پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے۔ اس سے نکلنے کا فی الحال تحریک انصاف کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ جن مذاکرات کی اہمیت پر اس کھلے خط میں زور دیا گیا ہے اس کی راہ میں بھی یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ خط میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ کوٹ لکھپت کے اسیران تو سیاسی مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔ لیکن ان کی جماعت ایسے کسی بھی سیاسی مذاکرات کے حق میں نہیں ہے۔ ان کی جماعت ملک کی دیگر سیاسی اکائیوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ تحریک انصاف کا سب سے بڑا مسئلہ آج تحریک انصاف کی سیاسی تنہائی ہے۔
چند ماہ پہلے تحریک انصاف کے دل میں مولانا کے لیے بہت محبت نظر آرہی تھی۔ روزانہ مولانا کے گھر کے چکر لگائے جاتے تھے، مولانا سے اتحاد کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ایک طرف مولانا کے ساتھ اتحاد کی کوشش تھی دوسری طرف گنڈاپور روزانہ مولانا کے خلاف بیان دیتے تھے۔ سوشل میڈیا پر بھی مولانا کے خلاف مہم جاری تھی۔ اب بھی تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان شیخ وقاص اکرم نے مولانا پر حملہ کر دیا ہے۔
جس کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔ اس لیے سیاسی جماعتوں میں یہ رائے کہ تحریک انصاف میں کوئی لحاظ شرم نہیں۔ جہاں تک مقتدرہ اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ ہے۔ کوٹ لکھپت کے اسیران کو اندازہ ہونا چاہیے کہ کیا رکاوٹیں ہیں۔ وہ اس کو کیسے دور کر سکتے ہیں۔ کیا کوٹ لکھپت کے اسیران کو حالات کا علم نہیں، کیا وہ کپتان کو اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو کوٹ لکھپت کے اسیران کپتان کی سیاسی محاذ آرائی کی پالیسی سے اختلاف کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ لڑائی بند کرو، بات چیت کرو لیکن ان کی سنے گا کون۔
کوٹ لکھپت کے اسیران دراصل بہت نظرانداز اسیران ہیں۔ ان کی قید کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر مظلومیت کے کارڈ کے لیے استعمال تو کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کی کوئی خیر خبر لینے کے لیے تیار نہیں، کوئی ان کی ملاقات پر نہیں آتا، کوئی ان کی پیشی پر نہیں آتا، ان سے کوئی مشورہ نہیں کرتا۔ اسی لیے بیچارے کھلا خط لکھنے پر مجبور ہیں۔
اڈیالہ کے باہر تو رش رہتا ہے لیکن کوئی کوٹ لکھپت کے ان قیدیوں کو نہیں ملتا۔ کوئی ان کا وکیل بننے کو تیار نہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت نے کبھی ان سے ملاقات کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ شاہ محمود قریشی کئی ہفتے اسپتال داخل رہے ہیں کسی نے ان کی خیریت دریافت کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ وہ نظر انداز اسیران ہیں۔ ان کے کیسز کی کوئی پیروی نہیں کرتا۔ وہ سیاسی تنہائی کا بھی شکار ہیں۔ یہ خط یہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ہماری بھی خبر لو۔
اس خط میں انھوں نے کہا کہ مذاکرات کا حصہ ان اسیران کو بھی بنایا جائے۔ آپ تو قید ہیں، آپ کیسے مذاکرات کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ کیا یہ اسیران بین السطور میں کہہ رہے ہیں کوئی ہم سے بات کر لے۔ وہ حکومت کو کہہ رہے ہیں کہ اگر ہماری جماعت ہم سے بات نہیں کرتی تو آپ تو کریں۔ آپ کریں تو شائد ہماری جماعت بھی ہم سے بات کرے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کوٹ لکھپت کے اسیران تحریک انصاف کے سے مخاطب ہیں مذاکرات کی سوشل میڈیا تیار نہیں اسیران کو مولانا کے کہ تحریک رہے ہیں کھلا خط نہیں ا کیا وہ کے لیے
پڑھیں:
شارٹ کٹ کوئی نہیں!
خبروں کا موسم بھی عام موسم کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ آج کل اچھی خبروں کا موسم ہے۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ کا پچھلے چند مہینوں میں ان بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ گرم جوش اٹھنا بیٹھنا ہے جن سے ملنے کے لیے کبھی ہفتوں، مہینوں بلکہ سالوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔
بار بار بتایا جا رہا ہے، وہ دن گئے کہ پاکستان کو معاشی مسائل اور عالمی تنہائی کا سامنا تھا،اب نیا دور ہے، سیکیورٹی معاملات میں بھی ہر چہ بادآباد ہے اور معاشی معاملات میں بھی۔
سیکیورٹی معاملات کے بارے میں بہت کچھ کہااور لکھا جا رہا ہے، تاہم ہمارا فوکس معاشی اقدامات اور مستقبل کے امکانات پر ہے۔
یادش بخیر 11/12 سال پہلے اسلام آباد میں ایک زوردار دھرنا ہوا تھا جس میں ایک نعرہ گونجا تھا: سیاست نہیں ریاست بچاؤ۔ مولانا طاہر القادری نے ریاست بچانے کے لیے جو معاشی خاکہ پیش کیا، اس کی بنیاد پاکستان میں پائے جانے والے قیمتی معدنی ذخائر تھے۔
بعد میں جب بھی حکومتوں کا، معاشی مسائل سے جی گھبراتا ہے تو معدنی ذخائر کی افراط اور اربوں کھربوں مالیت کی نوید دل کے قرار کا باعث بنتی ہے۔ پی ڈی ایم ون کی حکومت نے اپنے آخری ہفتے میں پاکستان میں نئے معدنی ذخائر کی دریافت اور امکانات کا ایسا خوش کن نقشہ کھینچا کہ بن پیئے سرور والا معاملہ ہو گیا۔
پی ڈی ایم ٹو کی موجودہ حکومت نے بھی تین مرتبہ ان امکانات کو اس انداز میں پیش کیا کہ جیسے اب قوم کو مزید ہاتھ پاؤں مارنے کی ضرورت ہے اور نہ حکومت کو مزید کچھ تردد کرنے کی ضرورت۔
کھربوں ڈالرز کے وارے نیارے ہوں گے، سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئیں گے… اللہ اللہ خیر صلا۔ کہاں کا آئی ایم ایف؟ کون سی معاشی مشکل؟ کون سی بیڈ گورننس؟ اتنی معدنی دولت کے ساتھ مستقبل اس قدر تابناک ہو تو ڈر کاہے کا!سچی بات یہ ہے کہ بقول شاعر دل تو یہی چاہتا ہے کہ:
کچھ دن تَو بسو مری آنکھوں میں
پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا
کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو
پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا
لیکن پھر بقول فیض… لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے۔ پیش آمدہ معاشی منظر نامہ ان خوابوں میں گم رہنے میں حائل ہو جاتا ہے۔ ملک کا ایک کثیر حصہ سیلاب کی لپیٹ میں آگیا۔کروڑوں افراد کے گھر بار، مال مویشی، فصلیں اور کاروبار تہ و بالا ہوگئے۔
حکومتوں کی امداد اپنی جگہ لیکن زندگی کی چلتی گاڑی کو ڈی ریل ہونے کے بعد پٹڑی پر ڈالنے اور دوڑنے میں کافی وقت لگے گا۔اس ہفتے ورلڈ بینک نے بتلایا کہ پاکستان میں ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ مزید خط غربت سے نیچے جا گرے ہیں۔
برآمدات میں گزشتہ تین ماہ کے دوران11فیصد کمی ہوئی ہے۔ عالمی ٹریڈ امریکی ٹیرف اور جاری جنگوں کے سبب ہچکولے کھا رہی ہے، ایسے میں برآمدات پر جو تکیہ تھا وہ بھی سرک رہا ہے۔ رواں ہفتے ملک کے ایک معروف ٹیکسٹائل گروپ نے اعلان کیا کہ وہ اپنا اپیرل بزنس بند کر رہے ہیں۔
وجوہات میں کاروباری لاگت میں ناقابل برداشت اضافہ، اچھی کوالٹی کی مقامی کاٹن کی کمی، ناموافق حکومتی پالیسیوں کا بوجھ اور دنیا میں گردن توڑ مقابلہ۔ انڈسٹری ایسوسی ایشنز نے بھی خبردار کیا ہے کہ صنعتی پیداوار کے شعبے کو مہنگی بجلی، گیس سمیت دیگر پیداواری اخراجات میں اضافے نے بے حال کر دیا ہے۔
دوسری طرف بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ ملک بھر میں جمع کرائی گئی 50فیصد انفرادی انکم ٹیکس ریٹرن میں زیرو آمدنی ظاہر کی گئی ہے جب کہ ایف بی آر کے پاس ڈیٹا کے مطابق ان لوگوں کا شاہانہ لائف اسٹائل ہے، لگژری گاڑیاں ہیں، بڑے گھر ہیں ، انٹرنیشنل ٹریولنگ ہے مگر ٹیکس ذمے داری پر انھوں نے ملک کو ٹھینگا دکھایا ہے۔
اس لیے کہ انھیں معلوم ہے کہ ہونا کچھ بھی نہیں۔ دکھاوے کے چند نوٹس ووٹس، سخت بیانات کا راگ الاپ… اور بس۔ زیرو آمدنی سے ایکٹو ٹیکس اسٹیٹس مل گیا، کاروبار زندگی کے لیے یہی درکار تھا!
اسی ہفتے ایک رپورٹ کے مطابق قومی ائیر لائن نے 2007 سے 2018 کے درمیان کئی ہزار ٹکٹیں فری جاری کیں جن کی مالیت سکہ رائج الوقت کے مطابق کئی ارب روپے تھی۔ قومی املاک اور وسائل پر اشرافیہ کے تصرف کا یہی وطیرہ پبلک سیکٹر کارپوریشنز میں بھی جاری و ساری ہے۔
آڈیٹر جنرل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پبلک سیکٹر کارپوریشنز کا دو سال کا نقصان 1.4 ٹریلین روپے سے بھی زائد رہا۔ بجلی کے سرکلر ڈیٹ کا 1.2 ٹریلین روپے کا نیا کمرشل قرضہ لے کر کامیابی سے ’’خاتمہ‘‘ کیا گیا ہے۔
ان چند مثالوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت کے اصلاحات اور گڈ گورننس کے نعروں کی اصل حقیقت کیا ہے۔
ایسے میں حکومت خطیر معدنی ذخائر کی دستیابی اور عالمی سرمایہ کاروں کی دلچسپی کو ایک انقلابی معاشی مشتقبل بتلا کر قوم کو بقول شخصے ’’ٹھنڈ‘‘ رکھنے کا مشورہ دے رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے پاس ریکوڈیک میں سونے اور تانبے کے بڑے ذخائر ہیں، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں rare earth elements کے امکانات ہیں اور تھر کا کوئلہ ہے۔
اندازہ ہے کہ صرف ریکوڈیک سے نکلنے والے ذخائر پینسٹھ ارب ڈالر مالیت کے ہیں لیکن کیا ہمارے پاس وہ ادارہ جاتی ڈھانچہ اور تکنیکی صلاحیت موجود ہے جو ان وسائل کو پائیدار ترقی میں بدل سکے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا مائننگ سیکٹر فرسودہ ٹیکنالوجی، کمزور قوانین اور بدعنوانی کا شکار ہے۔ بڑے منصوبے برسوں عدالتی تنازعات میں الجھے رہتے ہیں۔
حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ صرف ریکوڈیک کا تانبا اور سونا یا rare earth minerals کی کان کنی سے قرضے اتر جائیں گے اور لاکھوں نوکریاں پیدا ہو جائیں گی، تو یہ خوش فہمی ہے۔ ترقی اس وقت آتی ہے جب کوئی ملک اپنی معیشت میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرے، ٹیکس نیٹ کو وسیع بنائے، برآمدات میں تنوع پیدا کرے، زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرے اور سب سے بڑھ کر مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فروغ دے۔
جاپان، سنگاپور، چین اور جنوبی کوریا نے اپنی معیشتیں معدنی وسائل پر نہیں بلکہ انسانی وسائل، تعلیم، ٹیکنالوجی اور مینوفیکچرنگ پر کھڑی کیں۔
دنیا کا سبق یہی ہے کہ وسائل ترقی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں اور بربادی کا بھی۔ یہ سب کچھ اداروں، پالیسیوں اور حکمرانی کے معیار پر منحصر ہے۔ اگر پاکستان نے چلی، بوٹسوانا اور آسٹریلیا کی طرح شفاف ادارے، معقول قوانین اورمتنوع معیشت کھڑی کی تو معدنی وسائل ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
لیکن اگر کانگو، نائجیریا اوروینزویلا کی طرح صرف وسائل پر انحصار اور بدانتظامی جاری رہی تو یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونامشکل ہے۔ پاکستان کو معدنی خواب دیکھنے کاحق ہے لیکن ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے خود سخت محنت، شفاف حکمرانی اور ادارہ جاتی اصلاحات ناگزیر ہے کیونکہ ترقی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔