Express News:
2025-07-03@04:32:50 GMT

جیل اسیران کا کھلا خط

اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT

کوٹ لکھپت جیل میں قید تحریک انصاف کے رہنماؤں مخدوم شاہ محمود قریشی ، ڈاکٹر یاسمین راشد، سینیٹر اعجاز چوہدری ، میاں محمود الرشید، اور سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ نے ایک کھلا خط تحریر کیا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ انھوں نے یہ کھلا خط کس کو لکھا ہے، وہ کس کو مخاطب ہیں۔ کیا وہ اپنے کپتان سے مخاطب ہیں، کیا وہ اپنی جماعت کی قیادت سے مخاطب ہیں، کیا وہ اسٹبلشمنٹ سے مخاطب ہیں، کیا وہ حکومت سے مخاطب ہیں۔ بہر حال یہ ان کا پہلا کھلا خط نہیں ہے۔

وہ اس سے پہلے بھی کھلے خط لکھ چکے ہیں۔ لیکن وہ بھی نظر انداز ہوئے ہیں۔ ان کی اپنی جماعت بھی اپنے ان اسیران کے کھلے خطوط کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تو پھر کوئی اور کیوں دے۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ ملکی تاریخ کے بدترین بحران سے نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔ مذاکرات ہر سطح پر ہونے چاہیے۔ سیاسی سطح پر بھی مذاکرات ضروری ہیں اور مقتدرہ کی سطح پر بھی مذاکرات ضر وری ہیں۔ آغاز کار کے لیے سیاسی طور پر مذاکرات کیے جائیں۔

تحریک انصاف کے لاہور کے اسیران کو اس کا حصہ بنایا جائے۔ مذاکرات کے آٖغاز کرنے پر کسی فریق کو مطعون کرنا سارے عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوگی۔ مذاکراتی کمیٹی کے تقررکے لیے پیٹرن ان چیف تک رسائی آسان بنانا ہوگی تا کہ تحریک کی لیڈر شپ وسیع مشاورت کر سکے۔ ملاقات کے اس عمل کو وقتاً فوقتاً جاری رکھنا ہوگا۔ کوٹ لکھپت جیل کے اسیران نو مئی کے مقدمات میں جیل کاٹ رہے ہیں۔

ان میں سینیٹر اعجاز چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد اور عمر سرفراز چیمہ کو تو نو مئی کے بنیادی ملزمان کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک رائے کہ نو مئی ہی تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسٹبلشمنٹ اس کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں جب کہ تحریک انصاف ایک جیوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کرتی ہے۔

اسٹبلشمنٹ ملزمان کو سزاؤں کا مطالبہ کرتی ہے جب کہ تحریک انصاف اس کو ایک فالس فلیگ آپریشن کہتی ہے۔ اس لیے نو مئی کو کیسے حل کیا جائے۔ جب تک یہ طے نہیں ہوتا تب تک مجھے معاملات آگے بڑھتے نظر نہیں آتے۔ اس لیے یہ اسیران اگر اپنے جرائم کی معافی مانگ لیں تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ لیکن اگر یہ ایسا نہیں کرتے تو مجھے بات آگے بڑھتی نظر نہیں آتی۔

اس خط میں ایک بات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ شاید ان کو جیل میں کافی عرصہ ہوگیا ہے،انھیں اب اندازہ نہیں۔ آج تحریک انصاف کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اس کا سوشل میڈیا ہے۔ مذاکرات کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا ہے۔ تحریک انصاف اپنے سوشل میڈیا کی قیدی بن کر رہ گئی ہے۔ وہ کوئی سیاسی قدم اٹھائے بھی تو اس کا سوشل میڈیا اس کے پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے۔ اس سے نکلنے کا فی الحال تحریک انصاف کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ جن مذاکرات کی اہمیت پر اس کھلے خط میں زور دیا گیا ہے اس کی راہ میں بھی یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ خط میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔

سوال یہ بھی ہے کہ کوٹ لکھپت کے اسیران تو سیاسی مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔ لیکن ان کی جماعت ایسے کسی بھی سیاسی مذاکرات کے حق میں نہیں ہے۔ ان کی جماعت ملک کی دیگر سیاسی اکائیوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ تحریک انصاف کا سب سے بڑا مسئلہ آج تحریک انصاف کی سیاسی تنہائی ہے۔

چند ماہ پہلے تحریک انصاف کے دل میں مولانا کے لیے بہت محبت نظر آرہی تھی۔ روزانہ مولانا کے گھر کے چکر لگائے جاتے تھے، مولانا سے اتحاد کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ایک طرف مولانا کے ساتھ اتحاد کی کوشش تھی دوسری طرف گنڈاپور روزانہ مولانا کے خلاف بیان دیتے تھے۔ سوشل میڈیا پر بھی مولانا کے خلاف مہم جاری تھی۔ اب بھی تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان شیخ وقاص اکرم نے مولانا پر حملہ کر دیا ہے۔

جس کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔ اس لیے سیاسی جماعتوں میں یہ رائے کہ تحریک انصاف میں کوئی لحاظ شرم نہیں۔ جہاں تک مقتدرہ اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ ہے۔ کوٹ لکھپت کے اسیران کو اندازہ ہونا چاہیے کہ کیا رکاوٹیں ہیں۔ وہ اس کو کیسے دور کر سکتے ہیں۔ کیا کوٹ لکھپت کے اسیران کو حالات کا علم نہیں، کیا وہ کپتان کو اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو کوٹ لکھپت کے اسیران کپتان کی سیاسی محاذ آرائی کی پالیسی سے اختلاف کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ لڑائی بند کرو، بات چیت کرو لیکن ان کی سنے گا کون۔

کوٹ لکھپت کے اسیران دراصل بہت نظرانداز اسیران ہیں۔ ان کی قید کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر مظلومیت کے کارڈ کے لیے استعمال تو کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کی کوئی خیر خبر لینے کے لیے تیار نہیں، کوئی ان کی ملاقات پر نہیں آتا، کوئی ان کی پیشی پر نہیں آتا، ان سے کوئی مشورہ نہیں کرتا۔ اسی لیے بیچارے کھلا خط لکھنے پر مجبور ہیں۔

اڈیالہ کے باہر تو رش رہتا ہے لیکن کوئی کوٹ لکھپت کے ان قیدیوں کو نہیں ملتا۔ کوئی ان کا وکیل بننے کو تیار نہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت نے کبھی ان سے ملاقات کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ شاہ محمود قریشی کئی ہفتے اسپتال داخل رہے ہیں کسی نے ان کی خیریت دریافت کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ وہ نظر انداز اسیران ہیں۔ ان کے کیسز کی کوئی پیروی نہیں کرتا۔ وہ سیاسی تنہائی کا بھی شکار ہیں۔ یہ خط یہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ہماری بھی خبر لو۔

اس خط میں انھوں نے کہا کہ مذاکرات کا حصہ ان اسیران کو بھی بنایا جائے۔ آپ تو قید ہیں، آپ کیسے مذاکرات کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ کیا یہ اسیران بین السطور میں کہہ رہے ہیں کوئی ہم سے بات کر لے۔ وہ حکومت کو کہہ رہے ہیں کہ اگر ہماری جماعت ہم سے بات نہیں کرتی تو آپ تو کریں۔ آپ کریں تو شائد ہماری جماعت بھی ہم سے بات کرے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کوٹ لکھپت کے اسیران تحریک انصاف کے سے مخاطب ہیں مذاکرات کی سوشل میڈیا تیار نہیں اسیران کو مولانا کے کہ تحریک رہے ہیں کھلا خط نہیں ا کیا وہ کے لیے

پڑھیں:

خیبرپختونخوا حکومت گرانے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں، رانا ثنا اللہ

وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان سے خیبرپختونخوا حکومت گرانے سے متعلق کوئی گفتگو نہیں ہوئی، اور نہ ہی پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا معاملہ زیر غور ہے۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو کئی مرتبہ مذاکرات کی پیشکش کی، مگر پی ٹی آئی نے ہر بار بات چیت سے انکار کیا۔ پی ٹی آئی 2018 میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار میں آئی، اور اب بھی یہی چاہتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ دوبارہ اسے اقتدار میں لائے، لیکن یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔

رانا ثنا اللہ نے پی ٹی آئی کی سیاست کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی جماعت نے اپنے فیصلوں اور طرز سیاست کے ذریعے خود کو اس مقام تک پہنچایا۔ اگر پی ٹی آئی نے اپنی صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہ کی ہوتیں، تو شاید 9 مئی کا واقعہ بھی پیش نہ آتا۔

مزید پڑھیں: مبینہ انتخابی دھاندلی: پاکستان تحریک انصاف کا 8 فروری کو ملک گیر احتجاج کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی کو یہاں تک پیشکش کی کہ اگر وہ وزیراعظم ہاؤس نہیں آنا چاہتے تو اسپیکر چیمبر میں مذاکرات کرلیں، وہ خود وہاں پہنچ جائیں گے۔ مگر پی ٹی آئی جمہوریت کو مذاکرات کے بجائے ڈیڈلاک کے ذریعے چلانا چاہتی ہے۔

رانا ثنا اللہ نے واضح کیا کہ مولانا فضل الرحمان سے خیبرپختونخوا حکومت کے خاتمے کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی، اور فی الحال پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے خلاف کسی بھی اقدام پر غور نہیں کیا جا رہا۔ ان کے بقول، علی امین گنڈاپور پی ٹی آئی کی حکومت اور عمران خان کی امانت کو بخوبی سنبھالے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی پرامن احتجاج کرے اور قانون ہاتھ میں نہ لے تو وہ ان کا جمہوری حق ہے، اور حکومت اس حق کو تسلیم کرتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے بیان دیا تھا کہ جتنا زور لگانا ہے، لگا لیں، حکومت آئینی طریقے سے نہیں گرائی جا سکتی، اور اگر گر گئی تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا حکومت سیاسی امور رانا ثنا اللہ مولانا فضل الرحمان

متعلقہ مضامین

  • خیبرپختونخوا حکومت گرانے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں، رانا ثنا اللہ
  • کسی سے مذاکرات کی کوئی درخواست نہیں کریں گے، سلمان اکرم راجہ
  • ہم کسی سے مذاکرات کی کوئی درخواست نہیں کریں گے، سلمان اکرم راجہ
  • تحریک انصاف نے کوئی تحریک چلائی تو سختی سے روکا جائیگا،حکومت کو جو مناسب لگا وہ کریگی، رانا ثناء اللہ
  • ناامیدی کے سائے
  • پی ٹی آئی کے اسیر رہنماؤں کا پارٹی قیادت کو کھلا خط، حکومت سے مذاکرات کا مشورہ
  • تحریک انصاف کی لاہور جیل میں قید قیادت کی مذاکرات کی اپیل
  • پی ٹی آئی کی لاہور جیل میں قید قیادت نے بھی مذاکرات کی اپیل کر دی
  • ایران سے نہ بات ہو رہی ہے نہ کوئی پیشکش کی ہے؛ ٹرمپ