دین اور کربلا کا مجموعی شعور
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ہماری شعوری حالت، ہمارے کردار کی وہ لکیر جو ہمیں امام حسینؑ کے دشمنوں سے جدا کرتی ہے، ہمیں اُسکو دیکھنا چاہیئے کہ وہ کتنی نمایاں ہے۔؟ ہمیں غور و فکر سے کام لینا چاہیئے کہ اگر کوئی لکیر کھینچی جائے کہ اُدھر وہ لوگ ہیں، جو گناہوں کیطرف میلان رکھتے ہیں اور اِدھر وہ لوگ ہیں، جو فقط اور فقط حلالِ خدا کیطرف رغبت رکھتے ہیں، تو ہم لکیر کے کس طرف کھڑے ہیں۔؟ معاشرے میں ظلم تب پنپتا ہے، جب انسان حلال و حرام کے درمیان اپنی لکیر کھو دیتا ہے، اپنا محاسبہ کرنا، اپنے آپکو تولنا، اپنے آپکو سیدھا رکھنا، اپنی اصلاح کرنا اور اچھے و سچے لوگوں کا ساتھ دینا چھوڑ دیتا ہے۔ دین اور کربلا کا مجموعی شعور یہ ہے کہ اچھا و سچّا ہونا کافی نہیں بلکہ اچھے اور سچے لوگوں کا ساتھ بھی دیجئے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
شعور محض کسی ایک مکتبِ فکر یا کسی فقہی مدرسے کا نام نہیں۔ یہ وہ آفاقی صلاحیّت ہے کہ جو غلط رسوم و رواج کے سامنے جھکنے سے روک کر انسان کو تحقیق کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس تحقیقی سے چاہے باپ دادا اور عزیز و اقارب ناراض ہوں یا ہجرت ہی کرنی پڑے۔ شعور ایک طاقت کی مانند انسانی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ وہ روشنی ہے، جو تحقیق کی دیا سلائی سے جلتی ہے اور یہ وہ چراغ ہے، جو طوفانوں میں بجھتا نہیں، بلکہ مزید روشن ہو جاتا ہے۔ شعور ہی وہ درخت ہے، جس کی جڑیں باطن میں اور پھل عمل میں ہوتا ہے۔ جب شعور و تحقیق کا چراغ مدھم پڑ جائے، تو انسانی اعمال میں رذائل ایسے اپنے پنجے گاڑھ لیتے ہیں، جیسے شام کی خاموشی میں اندھیرا آہستہ آہستہ چھا جاتا ہے۔ جب انسان تحقیق سے بیگانہ ہو جائے، تو وہ شعور کے نور میں نہیں بلکہ جہالت کے دھویں میں جھلستا رہتا ہے۔
تحقیق کے ساتھ افراد اپنی اندرونی ریاست کو سنوارنے میں ناکام ہو جائیں، تو اُن کی بیرونی دنیا بھی برباد ہو جاتی ہے۔ حضرت یوسفؑ کا قصہ فقط ماضی کا باب نہیں، بلکہ ہر زمانے کے لیے آئینہ ہے۔ کون یوسفؑ؟ ایک غلام، تنہاء، بے اختیار، لیکن شعور کا پیکر۔ دوسری طرف زلیخا، اقتدار و آسائش کی نمائندہ، مگر اس شعور سے خالی، جس نے یوسفؑ کو گناہ کے لمحے میں صبر عطا کیا۔ جسے اپنے نفس پر غلبہ پانے کا شعور آگیا، اُس نے سب سے بڑی سلطنت کو تسخیر کر لیا۔ یوسفؑ نے اپنے شعور اور اختیار سے اپنے نفس کو قیدی کر رکھا تھا جبکہ زلیخا کا نفس آزاد تھا۔ آج تاریخ کا فیصلہ ہے کہ حقیقت میں یوسفؑ آزاد تھے اور زلیخا قیدی تھی۔ پس شعور وہ پیکرِ نور ہے، جو تنہائی میں بھی انسان کو اپنے وقار سے دستبردار نہیں ہونے ہوتا۔ شعور کی آنکھ خلق کو نہیں، خالق کو دیکھتی ہے۔
باشعور شخص کے لیے گناہ، فقط ایک عمل نہیں، بلکہ انسانیت کے مقام و مرتبے سے گرنا ہوتا ہے۔ جس دماغ میں شعور کا چراغ جل جائے، وہاں گناہ کی پرچھائیاں بھی پناہ نہیں لے پاتیں۔ یعنی جس دل میں سوچنے اور سمجھنے کا عمل شروع ہو جائے، وہ تنہائی میں بھی جہالت کے خلاف میدان جنگ بن جاتا ہے۔ امام حسینؑ نے فرمایا تھا کہ لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف اُن کی زبانوں پر ہے، جب آزمائش آتی ہے تو دیندار کم رہ جاتے ہیں۔ آئیے ہم خود خاموش رہتے ہیں اور اپنے شعور سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا ہم دیندار ہیں؟ جب انسان خود سے سوال کرنا چھوڑ دے، تب وہ اپنے شعور کو کھو دیتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ آخری زمانے کے بچے اپنے والدین کے سبب برباد ہوں گے، جو ان کے جسم کی فکر کریں گے، روح کی نہیں، تعلیم کی دوڑ میں تو لگائیں گے، لیکن دین کی روشنی نہ دیں گے۔
کیا آج ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنی اولاد کو زندگی کے ہر میدان کا چمپئن بنانا چاہتے ہیں، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر وہ دینداری کے میدان میں شکست کھا گئے تو باقی سب فتوحات رائیگاں جائیں گی۔ جب کسی خاندان میں دین زوال پذیر ہو جائے، تو اُس خاندان کی عزت و ناموس کاغذی ہو جاتی ہے، پھر وہاں نقش ہوتے ہیں، نقوش نہیں رہتے، پھول ہوتے ہیں، خوشبو نہیں ہوتی اور بظاہر پردہ ہوتا ہے لیکن اندر غیرت نہیں ہوتی۔ کربلا عقل و شعور کا ایک آئینہ ہے، جس میں ہم میں سے ہر ایک کو کو اپنا چہرہ دیکھنا چاہیئے۔ کربلائی شعور یہ ہے کہ اگر تمہارے ضمیر زندہ ہیں تو غلط کام نہ کرو، خواہ ارب روپے کیلئے ہو یا ایک روپے کی خاطر۔
ہماری شعوری حالت، ہمارے کردار کی وہ لکیر جو ہمیں امام حسینؑ کے دشمنوں سے جدا کرتی ہے، ہمیں اُس کو دیکھنا چاہیئے کہ وہ کتنی نمایاں ہے۔؟ ہمیں غور و فکر سے کام لینا چاہیئے کہ اگر کوئی لکیر کھینچی جائے کہ اُدھر وہ لوگ ہیں، جو گناہوں کی طرف میلان رکھتے ہیں اور اِدھر وہ لوگ ہیں، جو فقط اور فقط حلالِ خدا کی طرف رغبت رکھتے ہیں، تو ہم لکیر کے کس طرف کھڑے ہیں۔؟ معاشرے میں ظلم تب پنپتا ہے، جب انسان حلال و حرام کے درمیان اپنی لکیر کھو دیتا ہے، اپنا محاسبہ کرنا، اپنے آپ کو تولنا، اپنے آپ کو سیدھا رکھنا، اپنی اصلاح کرنا اور اچھے و سچے لوگوں کا ساتھ دینا چھوڑ دیتا ہے۔ دین اور کربلا کا مجموعی شعور یہ ہے کہ اچھا و سچّا ہونا کافی نہیں بلکہ اچھے اور سچے لوگوں کا ساتھ بھی دیجئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ا دھر وہ لوگ ہیں چاہیئے کہ رکھتے ہیں ہوتا ہے ہیں اور دیتا ہے کہ اگر
پڑھیں:
پاکستان پر دباؤ آیا کہ جہاز گرانے کے بعد بھارت کیخلاف مزید کوئی کارروائی نہ کی جائے: محسن نقوی
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ پاکستان پر دباؤ آیا کہ جہاز گرانے کے بعد بھارت کیخلاف مزید کوئی کارروائی نہ کی جائے، آرمی چیف نے سعودی وفد سے کہا بھارت چمکتی مرسڈیز اور پاکستان بھرا ہوا ڈمپرٹرک ہے، دونوں گاڑیوں کے تصادم ہونے پر اندازہ لگالیں نقصان کس کا زیادہ ہوگا؟لاہور میں سیمینار سے خطاب میں محسن نقوی کا کہنا تھاکہ جنگ کے دوران ہماری انٹیلی جنس ایجنسیز نے بہترین کارکردگی دکھائی، بھارت جو بھی منصوبہ بندی کرتا تھاہمیں بروقت معلوم ہوجاتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے طیارے گرائے گئے اس کے شواہد منٹوں میں ہمارے پاس تھے، مارگرائے جانے والے 6 بھارتی طیارو کی ویڈیوز بھی ہمارے پاس موجود ہیں، بھارتی فوج کی ہر موومنٹ ہمارے پاس وقت سے پہلے پہنچ جاتی تھی، بھارت نے جو میزائل فائر کیے ایک بھی میزائل ہمارے بیس پر نہیں گرسکا۔ان کا کہنا تھاکہ جنگ کے دوران پس پردہ ہیروز نے جو کارکردگی دکھائی انھیں سلام پیش کرتاہوں، ہم ریڈار میں دیکھ چکے تھے کہ ہماری ائیرفورس نے بھارتی طیارے گرادیے ہیں مگر ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ثبوت ہاتھ میں آنے تک بھارتی طیارے گرانے کا اعلان نہیں کریں گے۔
وزیراعلیٰ مریم نواز نے ڈیزل کے نرخ کم ہونے پر کرایوں میں کمی کا حکم دیدیا
وزیر داخلہ کا کہنا تھاکہ پاکستان پر دباؤ آیا کہ جہاز گرانے کے بعد بھارت کے خلاف مزید کوئی کارروائی نہ کی جائے، آرمی چیف نے سعودی وفد سے کہا بھارت چمکتی مرسڈیز اور پاکستان بھرا ہوا ڈمپر ہے، دونوں گاڑیوں کے تصادم ہونے پر اندازہ لگالیں نقصان کس کا زیادہ ہوگا؟ اس پر وہ چپ ہوگئے۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی اوربہت سی چیزیں ہمارے ٹارگٹ میں تھیں باآسانی نشانہ بناسکتے تھے، بھارت میں جن مقامات کو نشانہ بنایا پہلے وہ اسے ہضم کرلے، اجیت دوول اور امیت شاہ اصل میں اس پورے ڈرامے کے پیچھے تھے، اجیت دوول اور امیت شاہ بھارتی حکومت چلا رہے ہیں۔
پاکستان کے کرکٹ سسٹم نے بابر اعظم کو ہرا دیا، وکرانت گپتا
ان کا کہنا تھاکہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں متحد اورایک دوسرے کو سپورٹ کررہی تھی، بھارت پاکستان میں دہشت گردی کروارہا ہے، جب تک کشمیریوں کو ان کا حق نہیں مل جاتاچین سے نہیں بیٹھیں گے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ بھارت کے خلاف کامیابی کا سارا کریڈٹ وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کو جاتا ہے اور گواہی دے سکتا ہوں کہ اس جنگ میں آرمی چیف عاصم منیر نے زبردست قیادت کی ۔
مزید :