Islam Times:
2025-10-04@23:50:12 GMT

دین اور کربلا کا مجموعی شعور

اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT

دین اور کربلا کا مجموعی شعور

اسلام ٹائمز: ہماری شعوری حالت، ہمارے کردار کی وہ لکیر جو ہمیں امام حسینؑ کے دشمنوں سے جدا کرتی ہے، ہمیں اُسکو دیکھنا چاہیئے کہ وہ کتنی نمایاں ہے۔؟ ہمیں غور و فکر سے کام لینا چاہیئے کہ اگر کوئی لکیر کھینچی جائے کہ اُدھر وہ لوگ ہیں، جو گناہوں کیطرف میلان رکھتے ہیں اور اِدھر وہ لوگ ہیں، جو فقط اور فقط حلالِ خدا کیطرف رغبت رکھتے ہیں، تو ہم لکیر کے کس طرف کھڑے ہیں۔؟ معاشرے میں ظلم تب پنپتا ہے، جب انسان حلال و حرام کے درمیان اپنی لکیر کھو دیتا ہے، اپنا محاسبہ کرنا، اپنے آپکو تولنا، اپنے آپکو سیدھا رکھنا، اپنی اصلاح کرنا اور اچھے و سچے لوگوں کا ساتھ دینا چھوڑ دیتا ہے۔ دین اور کربلا کا مجموعی شعور یہ ہے کہ اچھا و سچّا ہونا کافی نہیں بلکہ اچھے اور سچے لوگوں کا ساتھ بھی دیجئے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

شعور محض کسی ایک مکتبِ فکر یا کسی فقہی مدرسے کا نام نہیں۔ یہ وہ آفاقی صلاحیّت ہے کہ جو غلط رسوم و رواج کے سامنے جھکنے سے روک کر انسان کو تحقیق کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس تحقیقی سے چاہے باپ دادا اور عزیز و اقارب ناراض ہوں یا ہجرت ہی کرنی پڑے۔ شعور ایک طاقت کی مانند انسانی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ وہ روشنی ہے، جو تحقیق کی دیا سلائی سے جلتی ہے اور یہ وہ چراغ ہے، جو طوفانوں میں بجھتا نہیں، بلکہ مزید روشن ہو جاتا ہے۔ شعور ہی وہ درخت ہے، جس کی جڑیں باطن میں اور پھل عمل میں ہوتا ہے۔ جب شعور و تحقیق کا چراغ مدھم پڑ جائے، تو انسانی اعمال میں رذائل ایسے اپنے پنجے گاڑھ لیتے ہیں، جیسے شام کی خاموشی میں اندھیرا آہستہ آہستہ چھا جاتا ہے۔ جب انسان تحقیق سے بیگانہ ہو جائے، تو وہ شعور کے نور میں نہیں بلکہ جہالت کے دھویں میں جھلستا رہتا ہے۔

تحقیق کے ساتھ افراد اپنی اندرونی ریاست کو سنوارنے میں ناکام ہو جائیں، تو  اُن کی بیرونی دنیا بھی برباد ہو جاتی ہے۔ حضرت یوسفؑ کا قصہ فقط ماضی کا باب نہیں، بلکہ ہر زمانے کے لیے آئینہ ہے۔ کون یوسفؑ؟ ایک غلام، تنہاء، بے اختیار، لیکن شعور کا پیکر۔ دوسری طرف زلیخا، اقتدار و آسائش کی نمائندہ، مگر اس شعور سے خالی، جس نے یوسفؑ کو گناہ کے لمحے میں صبر عطا کیا۔ جسے اپنے نفس پر غلبہ پانے کا شعور آگیا، اُس نے سب سے بڑی سلطنت کو تسخیر کر لیا۔ یوسفؑ نے اپنے شعور اور اختیار سے اپنے نفس کو قیدی کر رکھا تھا جبکہ زلیخا کا نفس آزاد تھا۔ آج تاریخ کا فیصلہ ہے کہ حقیقت میں یوسفؑ آزاد تھے اور زلیخا قیدی تھی۔ پس شعور وہ پیکرِ نور ہے، جو تنہائی میں بھی انسان کو اپنے وقار سے دستبردار نہیں ہونے ہوتا۔ شعور کی آنکھ خلق کو نہیں، خالق کو دیکھتی ہے۔

باشعور شخص کے لیے گناہ، فقط ایک عمل نہیں، بلکہ انسانیت کے مقام و مرتبے سے گرنا ہوتا ہے۔ جس دماغ میں شعور کا چراغ جل جائے، وہاں گناہ کی پرچھائیاں بھی پناہ نہیں لے پاتیں۔ یعنی جس دل میں  سوچنے اور سمجھنے کا عمل شروع ہو جائے، وہ تنہائی میں بھی جہالت کے خلاف  میدان جنگ بن جاتا ہے۔ امام حسینؑ نے فرمایا تھا کہ لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف اُن کی زبانوں پر ہے، جب آزمائش آتی ہے تو دیندار کم رہ جاتے ہیں۔ آئیے ہم خود خاموش رہتے ہیں اور اپنے  شعور سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا ہم دیندار ہیں؟ جب انسان خود سے سوال کرنا چھوڑ دے، تب وہ اپنے شعور کو کھو دیتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ آخری زمانے کے بچے اپنے والدین کے سبب برباد ہوں گے، جو ان کے جسم کی فکر کریں گے، روح کی نہیں، تعلیم کی دوڑ میں تو لگائیں گے، لیکن دین کی روشنی نہ دیں گے۔

کیا آج ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنی اولاد کو زندگی کے ہر میدان کا چمپئن بنانا چاہتے ہیں، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر وہ دینداری کے میدان میں شکست کھا گئے تو باقی سب فتوحات رائیگاں جائیں گی۔ جب کسی خاندان میں دین زوال پذیر ہو جائے، تو اُس خاندان کی عزت و ناموس کاغذی ہو جاتی ہے، پھر وہاں نقش ہوتے ہیں، نقوش نہیں رہتے، پھول ہوتے ہیں، خوشبو نہیں ہوتی اور بظاہر پردہ ہوتا ہے لیکن اندر غیرت نہیں ہوتی۔ کربلا عقل و شعور کا ایک آئینہ ہے، جس میں ہم میں سے ہر ایک کو  کو اپنا چہرہ دیکھنا چاہیئے۔ کربلائی شعور یہ ہے کہ اگر تمہارے ضمیر زندہ ہیں تو غلط کام نہ کرو، خواہ ارب روپے کیلئے ہو یا ایک روپے کی خاطر۔

ہماری شعوری حالت، ہمارے کردار کی وہ لکیر جو ہمیں امام حسینؑ کے دشمنوں سے جدا کرتی ہے، ہمیں اُس کو دیکھنا چاہیئے کہ وہ کتنی نمایاں ہے۔؟ ہمیں غور و فکر سے کام لینا چاہیئے کہ اگر کوئی لکیر کھینچی جائے کہ اُدھر وہ لوگ ہیں، جو گناہوں کی طرف میلان رکھتے ہیں اور اِدھر وہ لوگ ہیں، جو فقط اور فقط حلالِ خدا کی طرف رغبت رکھتے ہیں، تو ہم لکیر کے کس طرف کھڑے ہیں۔؟ معاشرے میں ظلم تب پنپتا ہے، جب انسان حلال و حرام کے درمیان اپنی لکیر کھو دیتا ہے، اپنا محاسبہ کرنا، اپنے آپ کو تولنا، اپنے آپ کو سیدھا رکھنا، اپنی اصلاح کرنا اور اچھے و سچے لوگوں کا ساتھ دینا چھوڑ دیتا ہے۔ دین اور کربلا کا مجموعی شعور یہ ہے کہ اچھا و سچّا ہونا کافی نہیں بلکہ اچھے اور سچے لوگوں کا ساتھ بھی دیجئے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ا دھر وہ لوگ ہیں چاہیئے کہ رکھتے ہیں ہوتا ہے ہیں اور دیتا ہے کہ اگر

پڑھیں:

اپنے سیل سے باہر نکلوں گا نہ ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوں گا، عمران خان

یہ غیر قانونی ٹرائل ، وکلا کے بغیر پیش نہیں ہوں گا،مجھے غلط بیانی سے ایک کمرے میں لے جاکر ویڈیو لنک میں ان کی حاضری لگوائی گئی،بانی پی ٹی آئی
ویڈیو لنک میں 3 بار پیش کیا گیا مگر مجھے کوئی آواز نہیں آئی کہ کیا ہو رہا ہے ، اڈیالہ جیل سے منتقلی کی خبر کا کچھ علم نہیں ، علیمہ خان کی پیشی پرمیڈیا سے گفتگو

بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان نے کہا ہے کہ ویڈیو لنک ٹرائل کہہ کر دھوکے سے حاضری لگوائی گئی، عمران خان اب پیش نہیں ہوں گے۔کچہری میں پیشی کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان نے بتایا کہ عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کو غلط بیانی سے ایک کمرے میں لے جاکر ویڈیو لنک میں ان کی حاضری لگوائی گئی ۔ ویڈیو لنک میں 3 بار پیش کیا گیا مگر مجھے کوئی آواز نہیں آئی کہ کیا ہو رہا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ عمران خان کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنے سیل سے بالکل باہر نہیں نکلیں گے،نہ ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوں گے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ یہ غیر قانونی ٹرائل ہے، جس میں وکلا کے بغیر میں پیش نہیں ہوں گا۔علیمہ خان نے کہا کہ عمران خان کے لیے نئی نئی غیر قانونی چیزیں ایجاد کر رہے ہیں ،یہ ججز اور پراسیکیوشن کو نہیں کرنی چاہیے ۔ ہم امید کرتے ہیں عمران خان کو فیٔر ٹرائل کا حق ملے گا۔ یا وہ کورٹ میں پیش ہوں گے یا کورٹ ان کے پاس اڈیالہ جیل جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل سے منتقل کرنے کی خبر کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں ہے، نہ ہمارے پاس ایسی کوئی خبر ہے نہ ہمارے وکلا کو کچھ پتا ہے۔ اس موقع پر علیمہ خان کے وکیل فیصل ملک نے انسداد دہشت گردی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علیمہ خان پر جعلی اور بوگس مقدمہ بنایا گیا ہے، کیس کی سماعت 8 اکتوبر کو چارج فریم کرنے کے لیے فکس کی گئی ، چالان کی نقول عدالت نے تقسیم کیں، وہ وصول کر لی گئی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ علیمہ خان پر چارج لگایا گیا کہ وہ عمران خان سے ملیں اور ان سے ملنے کے بعد میڈیا پر آکر گفتگو کی ۔ علیمہ خان نے جو بھی میڈیا سے گفتگو کی وہ قانونی تھی اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی ، عمران خان کا ویڈیو لنک سے ٹرائل آئینی و قانونی حقوق کے خلاف ہے، ہم اس کو مسترد کرتے ہیں ، ویڈیو لنک کے ذریعے ٹرائل کے خلاف پٹیشن ہائیکورٹ میں کو لگی ہوئی ہے۔قبل ازیں 26 نومبر ڈی چوک احتجاج کے سلسلے میں تھانہ صادق آباد میں درج مقدمہ میں علیمہ خان اپنی بہنوں نورین خان اور ڈاکٹر عظمیٰ خان کے ساتھ انسداد دہشت گردی عدالت پہنچیں، جہاں انہیں چالان کی نقول دی گئیں۔ آئندہ سماعت پر عدالت کی جانب سے فرد جرم عائد کی جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک اسرائیل کو کبھی قبول نہیں کریں گے، ثروت اعجاز قادری
  • وحدتِ کشمیر سازشوں کی زد میں
  • مجھے کہا گیا وزن کم کرو، سرجری کراؤ: فائزہ حسن
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • جب اپنا بوجھ اتار پھینکا جائے
  • ایلون مسک 500 ارب ڈالر کے مالک دنیا کے پہلے شخص بن گئے
  • پاکستان کے زرمبادلہ مجموعی ذخائر 19 ارب 79 کروڑ 67 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئے
  • ایلون مسک 500 ارب ڈالر کی مجموعی مالیت رکھنے والے پہلی شخصیت گئے
  • ملٹی نیشنل کمپنی پراکٹر اینڈ گیمبل کا پاکستان میں مینوفیکچرنگ اور کمرشل آپریشن بند کرنے کا اعلان
  • اپنے سیل سے باہر نکلوں گا نہ ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوں گا، عمران خان