Islam Times:
2025-11-19@02:19:24 GMT

دین اور کربلا کا مجموعی شعور

اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT

دین اور کربلا کا مجموعی شعور

اسلام ٹائمز: ہماری شعوری حالت، ہمارے کردار کی وہ لکیر جو ہمیں امام حسینؑ کے دشمنوں سے جدا کرتی ہے، ہمیں اُسکو دیکھنا چاہیئے کہ وہ کتنی نمایاں ہے۔؟ ہمیں غور و فکر سے کام لینا چاہیئے کہ اگر کوئی لکیر کھینچی جائے کہ اُدھر وہ لوگ ہیں، جو گناہوں کیطرف میلان رکھتے ہیں اور اِدھر وہ لوگ ہیں، جو فقط اور فقط حلالِ خدا کیطرف رغبت رکھتے ہیں، تو ہم لکیر کے کس طرف کھڑے ہیں۔؟ معاشرے میں ظلم تب پنپتا ہے، جب انسان حلال و حرام کے درمیان اپنی لکیر کھو دیتا ہے، اپنا محاسبہ کرنا، اپنے آپکو تولنا، اپنے آپکو سیدھا رکھنا، اپنی اصلاح کرنا اور اچھے و سچے لوگوں کا ساتھ دینا چھوڑ دیتا ہے۔ دین اور کربلا کا مجموعی شعور یہ ہے کہ اچھا و سچّا ہونا کافی نہیں بلکہ اچھے اور سچے لوگوں کا ساتھ بھی دیجئے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

شعور محض کسی ایک مکتبِ فکر یا کسی فقہی مدرسے کا نام نہیں۔ یہ وہ آفاقی صلاحیّت ہے کہ جو غلط رسوم و رواج کے سامنے جھکنے سے روک کر انسان کو تحقیق کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس تحقیقی سے چاہے باپ دادا اور عزیز و اقارب ناراض ہوں یا ہجرت ہی کرنی پڑے۔ شعور ایک طاقت کی مانند انسانی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ وہ روشنی ہے، جو تحقیق کی دیا سلائی سے جلتی ہے اور یہ وہ چراغ ہے، جو طوفانوں میں بجھتا نہیں، بلکہ مزید روشن ہو جاتا ہے۔ شعور ہی وہ درخت ہے، جس کی جڑیں باطن میں اور پھل عمل میں ہوتا ہے۔ جب شعور و تحقیق کا چراغ مدھم پڑ جائے، تو انسانی اعمال میں رذائل ایسے اپنے پنجے گاڑھ لیتے ہیں، جیسے شام کی خاموشی میں اندھیرا آہستہ آہستہ چھا جاتا ہے۔ جب انسان تحقیق سے بیگانہ ہو جائے، تو وہ شعور کے نور میں نہیں بلکہ جہالت کے دھویں میں جھلستا رہتا ہے۔

تحقیق کے ساتھ افراد اپنی اندرونی ریاست کو سنوارنے میں ناکام ہو جائیں، تو  اُن کی بیرونی دنیا بھی برباد ہو جاتی ہے۔ حضرت یوسفؑ کا قصہ فقط ماضی کا باب نہیں، بلکہ ہر زمانے کے لیے آئینہ ہے۔ کون یوسفؑ؟ ایک غلام، تنہاء، بے اختیار، لیکن شعور کا پیکر۔ دوسری طرف زلیخا، اقتدار و آسائش کی نمائندہ، مگر اس شعور سے خالی، جس نے یوسفؑ کو گناہ کے لمحے میں صبر عطا کیا۔ جسے اپنے نفس پر غلبہ پانے کا شعور آگیا، اُس نے سب سے بڑی سلطنت کو تسخیر کر لیا۔ یوسفؑ نے اپنے شعور اور اختیار سے اپنے نفس کو قیدی کر رکھا تھا جبکہ زلیخا کا نفس آزاد تھا۔ آج تاریخ کا فیصلہ ہے کہ حقیقت میں یوسفؑ آزاد تھے اور زلیخا قیدی تھی۔ پس شعور وہ پیکرِ نور ہے، جو تنہائی میں بھی انسان کو اپنے وقار سے دستبردار نہیں ہونے ہوتا۔ شعور کی آنکھ خلق کو نہیں، خالق کو دیکھتی ہے۔

باشعور شخص کے لیے گناہ، فقط ایک عمل نہیں، بلکہ انسانیت کے مقام و مرتبے سے گرنا ہوتا ہے۔ جس دماغ میں شعور کا چراغ جل جائے، وہاں گناہ کی پرچھائیاں بھی پناہ نہیں لے پاتیں۔ یعنی جس دل میں  سوچنے اور سمجھنے کا عمل شروع ہو جائے، وہ تنہائی میں بھی جہالت کے خلاف  میدان جنگ بن جاتا ہے۔ امام حسینؑ نے فرمایا تھا کہ لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف اُن کی زبانوں پر ہے، جب آزمائش آتی ہے تو دیندار کم رہ جاتے ہیں۔ آئیے ہم خود خاموش رہتے ہیں اور اپنے  شعور سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا ہم دیندار ہیں؟ جب انسان خود سے سوال کرنا چھوڑ دے، تب وہ اپنے شعور کو کھو دیتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ آخری زمانے کے بچے اپنے والدین کے سبب برباد ہوں گے، جو ان کے جسم کی فکر کریں گے، روح کی نہیں، تعلیم کی دوڑ میں تو لگائیں گے، لیکن دین کی روشنی نہ دیں گے۔

کیا آج ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنی اولاد کو زندگی کے ہر میدان کا چمپئن بنانا چاہتے ہیں، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر وہ دینداری کے میدان میں شکست کھا گئے تو باقی سب فتوحات رائیگاں جائیں گی۔ جب کسی خاندان میں دین زوال پذیر ہو جائے، تو اُس خاندان کی عزت و ناموس کاغذی ہو جاتی ہے، پھر وہاں نقش ہوتے ہیں، نقوش نہیں رہتے، پھول ہوتے ہیں، خوشبو نہیں ہوتی اور بظاہر پردہ ہوتا ہے لیکن اندر غیرت نہیں ہوتی۔ کربلا عقل و شعور کا ایک آئینہ ہے، جس میں ہم میں سے ہر ایک کو  کو اپنا چہرہ دیکھنا چاہیئے۔ کربلائی شعور یہ ہے کہ اگر تمہارے ضمیر زندہ ہیں تو غلط کام نہ کرو، خواہ ارب روپے کیلئے ہو یا ایک روپے کی خاطر۔

ہماری شعوری حالت، ہمارے کردار کی وہ لکیر جو ہمیں امام حسینؑ کے دشمنوں سے جدا کرتی ہے، ہمیں اُس کو دیکھنا چاہیئے کہ وہ کتنی نمایاں ہے۔؟ ہمیں غور و فکر سے کام لینا چاہیئے کہ اگر کوئی لکیر کھینچی جائے کہ اُدھر وہ لوگ ہیں، جو گناہوں کی طرف میلان رکھتے ہیں اور اِدھر وہ لوگ ہیں، جو فقط اور فقط حلالِ خدا کی طرف رغبت رکھتے ہیں، تو ہم لکیر کے کس طرف کھڑے ہیں۔؟ معاشرے میں ظلم تب پنپتا ہے، جب انسان حلال و حرام کے درمیان اپنی لکیر کھو دیتا ہے، اپنا محاسبہ کرنا، اپنے آپ کو تولنا، اپنے آپ کو سیدھا رکھنا، اپنی اصلاح کرنا اور اچھے و سچے لوگوں کا ساتھ دینا چھوڑ دیتا ہے۔ دین اور کربلا کا مجموعی شعور یہ ہے کہ اچھا و سچّا ہونا کافی نہیں بلکہ اچھے اور سچے لوگوں کا ساتھ بھی دیجئے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ا دھر وہ لوگ ہیں چاہیئے کہ رکھتے ہیں ہوتا ہے ہیں اور دیتا ہے کہ اگر

پڑھیں:

آدھار کارڈ کو شہریت کا ثبوت نہیں مانا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نو ستمبر 2025ء کو بہار کے چیف الیکٹورل آفیسر کو باقاعدہ ہدایات جاری کردی گئی تھیں کہ ووٹر لسٹ میں نام شامل یا خارج کرتے وقت آدھار کا استعمال صرف شناخت ثابت کرنے کیلئے ہی کیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ انتخابی نظام سے متعلق ایک اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ بہار کی ووٹر لسٹ کی نظرثانی کے دوران آدھار کارڈ کا استعمال صرف اور صرف شناخت کی توثیق کے لئے کیا جائے گا، شہریت کے ثبوت کے طور پر نہیں۔ الیکشن کمیشن نے بتایا کہ 8 ستمبر کے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ آدھار کارڈ شہریت، ڈومیسائل یا تاریخِ پیدائش کا ثبوت نہیں ہے، بلکہ محض شناخت کی تصدیق کا ذریعہ ہے، جیسا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کی دفعہ 23(4) میں بیان کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نو ستمبر 2025ء کو بہار کے چیف الیکٹورل آفیسر کو باقاعدہ ہدایات جاری کر دی گئی تھیں کہ ووٹر لسٹ میں نام شامل یا خارج کرتے وقت آدھار کا استعمال صرف شناخت ثابت کرنے کے لئے ہی کیا جائے۔

اسی معاملے میں ایڈووکیٹ اشونی کمار اُپادھیائے نے ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ آدھار کو صرف شناخت کی توثیق تک محدود رکھا جائے۔ الیکشن کمیشن نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ یو آئی ڈی اے آئی نے اگست 2023ء میں اپنے سرکاری میمورنڈم میں واضح کر دیا تھا کہ آدھار نہ تو شہریت کا ثبوت ہے، نہ رہائش کا اور نہ ہی تاریخ پیدائش کا۔ اسی نوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بمبئی ہائی کورٹ نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے سات اکتوبر کو اس درخواست پر نوٹس جاری کیا تھا اور بینچ نے واضح کیا کہ آدھار کو شہریت یا ڈومیسائل کا ثبوت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ اہم وضاحت انتخابات کے شفاف اور درست عمل کو یقینی بنانے کے لئے ایک نہایت معنی خیز قدم تصور کی جا رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہم نے حکمرانوں کے شعور اور ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے،فضل الرحمان
  • سندھ کوئی کیک نہیں ہےکہ اس کو  بانٹ  دیا  جائے، شرجیل میمن
  • اللہ نے زندگی دی ہے وہی اسے لے گا، کارکنوں سے کہتی ہوںفکر نہ کریں،شیخ حسینہ واجد
  • حسینہ واجد کیخلاف عدالت کا فیصلہ، سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم نے حامیوں کو کیا پیغام دیا؟
  • میرے دل میں نفرت کیلئے کوئی جگہ نہیں، طلحہ انجم کا بھارتی پرچم لہرانے پر تنقید کا جواب
  • محمد یونس کی عبوری حکومت نہیں چاہتی کہ عوامی لیگ انتخابات میں حصہ لے: شیخ حسینہ واجد
  • میرے دل میں نفرت کیلئے کوئی جگہ نہیں، طلحہ انجم کا بھارتی پرچم لہرانے پر تنقید کا جواب  
  • غیر قانونی امیگریشن ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی، وزیرداخلہ
  • آدھار کارڈ کو شہریت کا ثبوت نہیں مانا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن
  • فیروز خان کی پوسٹ پر سابقہ و موجودہ اہلیہ کی لڑائی، بہن نے حقیقت بیان کردی