حکومت نے اساتذہ پر تشدد کرکے ثابت کردیا کہ وہ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ٹنڈوجام(نمائندہ جسارت)سندھ ایمپلائز ایسوسی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکٹری اقبال احمد پنھور نے کہا ہے کہ حکومت سندھ نے پر امن اساتذہ پر تشدد کرکے ثابت کر دیا ہے کہ وہ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتی غریب ملازمین کے حقوق پر کسی صورت میں ڈاکا نہیں ڈالنے دیا جائے گایہ بات انھوں نے کراچی میں اساتذہ کے پر امن مظاہرے پر لاٹھی چارج اور گرفتاریوں پر احتجاج کرتے ہوئے کہی انھوں نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں نے اپنے چہرے پر جمہوریت کے نام کا جھوٹا نقاب پہن رکھا ہے پرامن اساتذہ پر تشدد کرکے حکومت نے ثابت کردیا کہ وہ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتی اور ملک میں آج بھی امریت کا نظام نافذ ہے انھوں نے کہا کہ سندھ کے ملازمین حکومت سے خیرات نہیں اپنا حق مانگ رہے اور جب تک ہمیں ہمارا جائزہ حق نہیں ملے گا ہماری پرامن احتجاجی تحریک جاری رہے گی انھوں نے کہا ہم نے ابھی احتجاج محرم الحرام کی وجہ سے موخر کیا ہے محرم کے بعد نو جولائی کو احتجاجی تحریک کو چلانے کے لیے حیدرآباد میں اجلاس ہو گا اور اس اجلاس میں تحریک چلانے کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا انھوں نے کہا کہ سندھ کے ملازمین کی یہ تحریک اپنے حقوق کے حصول تک جاری رہے گی چاہیے اس مقصد کے لیے ہمیں کتنی قربانیاں دینی پڑے یہ ہی درس ہمیں شہدائے کربلا نے دیا کہ باظل کے سامنے سر کو نہیں جھکانا چاہیے ۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انھوں نے کہا
پڑھیں:
علمائے کرام اور اساتذہ پر حملہ کرنے والے خوارج دہشت گرد اسلام دشمن قرار
جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کی جانب سے علما، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کی ایک اور خوفناک مثال سامنے آئی ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق لوئر اعظم ورسک، کارہ باغ میں مذہبی عالم اور اسکول ٹیچر مولانا ثناءاللہ کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعہ اُس دھماکے کے ایک روز بعد پیش آیا جب اسی علاقے میں ایک اسکول کو بم دھماکے سے تباہ کر دیا گیا تھا۔ دہشت گرد گروہ نے طلبہ اور اساتذہ کو دھمکیاں بھی دیں کہ وہ تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیں۔
یہ حملے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ خود کو "فدائین اسلام" کہنے والے گروہ دراصل علم اور تعلیم کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ ان کا مقصد دینی خدمت نہیں بلکہ لوگوں کو جہالت میں جکڑنا، خوف و ہراس کے ذریعے اپنی گرفت مضبوط رکھنا اور مسلم معاشرے کی فکری بنیادوں کو کمزور کرنا ہے۔ تعلیم کو مٹانے اور اتحاد کو توڑنے کی یہ کوششیں اسلام کے نام پر نہیں بلکہ اس کی اصل روح کے خلاف بغاوت ہیں۔
مولانا ثناءاللہ کا قتل یہ باور کراتا ہے کہ دہشت گرد اسلام کے محافظ نہیں بلکہ اس کی بنیادی اقدار کے دشمن ہیں۔ حقیقی شہادت اُن افراد کی ہے جو علم، روشنی اور عزت کے ساتھ جینے کے حق کی حفاظت کرتے ہیں نہ کہ اُن کی جو علما اور معصوم شہریوں کو اپنی طاقت کے لیے قتل کریں۔
نبی کریمﷺ نے علم کے حصول کو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض قرار دیا۔ اسکولوں کو بم سے اڑا کر اور طلبہ کو دھمکیاں دے کر خوارج اس حکم الٰہی کی کھلی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ یہ تعلیم اور اتحاد کے اُس ڈھانچے کو تباہ کرنا چاہتے ہیں جس پر اُمت مسلمہ کی اخلاقی اور فکری طاقت قائم ہے۔
یہ حقیقت واضح ہے کہ علما، اساتذہ اور شہریوں پر حملے کسی اسلامی مقصد کی خدمت نہیں کرتے۔ یہ وہی خوارجی راستہ ہے جو امت کو اندر سے توڑتا ہے اور بیرونی دشمنوں کو ہمارے اختلافات سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیتا ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ان سازشوں کو پہچانیں، یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور تعلیم کے چراغ کو بجھنے نہ دیں تاکہ معاشرہ جہالت اور خوف کے اندھیروں سے نکل سکے۔