data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حکومت نے چند روز قبل ہی وفاقی بجٹ پیش کیا اور اس کے خلاف لوگ ابھی احتجاج کررہے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف کے کارندوں کی جانب سے بنائے گئے اس بجٹ میں غریب عوام کے لیے بھوک افلاس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں سے محسوس کیا جارہا ہے کہ وہ ملک سے غربت کے خاتمے کے بجائے غریبوں کو ہی ختم کرنے کے مشن پر کار بند ہے۔ اس کا مظاہرہ بجٹ کے فوری بعد حکومت کی جانب سے اچانک پٹرولیم مصنوعات میں ہوشربا اضافے سے دیکھنے میں آیا جبکہ ایک روز قبل ہی حکومت نے گیس کے فکسڈ چارجز 400 روپے سے بڑھا کر 600 روپے کر دیے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے کردیا گیا ہے۔
پاکستان کے عوام بھی کتنے بے بس اور لاچار ہیں کہ ابھی وفاقی بجٹ کو پاس ہوئے ہفتہ بھی نہیں گزرا کہ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہولناک اضافہ کیا جارہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں نورا کشتی لڑ رہے ہیں۔ حکومتی اتحادی جماعتیں بلیک میلنگ کی سیاست کر رہی ہیں اور لوٹو اور پھوٹو کی سیاست جاری ہے۔ متحدہ اور پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کو دونوں ہاتھوں سے دبوچا ہوا ہے، عوام کی پریشانیوں اور مشکلات کا کسی کو بھی احساس نہیں ہے۔ بھوک غربت اور افلاس غریبوں کا مقدر بن چکی ہے۔ چھے سو فی صد سے زائد تنخواہوں بڑھانے والے سینیٹ کے چیئرمین، وزراء، ارکان اسمبلی سب اپنی مستیوں میں مگن ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کرتے ہوئے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرکے سفاکیت کی انتہا ہے۔ پاکستان کے محنت کشوں سے ٹریڈ یونین سازی کا حق چھینا جارہا ہے اور لیبر کوڈ پنجاب اور لیبر کوڈ سندھ کو آئی ایل او کے ایماء پر نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے باعث ملک سے ٹریڈ یونینز مکمل طور پرخاتمہ ہو جائے گا اور ہرسطح پر ٹھیکے داری نظام ہی ملک میں نافذ کیا جائے گا۔ آئی ایل او محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کا ادارہ ہے لیکن یہ عالمی ادارہ اب سرمایہ داروں کا محافظ بنا ہوا ہے اور سائوتھ ایشیا جس میں پاکستان سمیت بھارت، بنگلا دیش سری لنکا، بھوٹان، نیپال ودیگر ممالک شامل ہیں وہاں اس ظالمانہ لیبر کوڈ کے نافذ کرنے کے لیے حکومتی سطح پر تیزی کے ساتھ قانون سازی کی جارہی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ٹریڈ یونینز تحریک پہلے ہی دم توڑ چکی ہے اور اس وقت محنت کشوں کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ ٹھیکے داری نظام پوری آب وتاب کے ساتھ نافذ ہے اور محنت کشوں کے ادارے سرمایہ داروں کے حقوق کا تحفظ کررہے ہیں۔ ایسے میں محنت کشوں کے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والی فیذریشنز کی ذمے داری ہے کہ وہ محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کریں اور اس ظالمانہ لیبر کوڈ کے خلاف سڑکوں پر نکل کر بھرپور طریقے سے احتجاج کیا جائے۔
گزشتہ دنوں آرٹس کونسل کراچی میں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن (NTUF) اور ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی جانب سے لیبر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرس میں پیپلز لیبر بیورو کے سندھ کے صدر حبیب الدین جنیدی، نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی کے صدر خالد خان، ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی صدر زرا خان، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان کے صدر ناصر منصور کے علاوہ مزدور رہنما قمر الحسن، لیاقت ساہی ودیگر ٹریڈ یونینز رہنماؤں نے خطاب کیا۔ کانفرنس میں ناصر منصور صاحب نے مزدور اتحاد اور یکجہتی کا پیغام دیا۔ دنیا میں بڑے بڑے انقلاب مزدورں کے ذریعے ہی آتے ہیں۔ آج اقتدار میں بیٹھے حکمراں اقتدار سے پہلے مزدوروں کی ہی بات کرتے تھے لیکن اقتدار میں آتے ہی وہ محنت کشوں کو بھول گئے۔ حکومت نے محنت کشوں کی کم ازکم اجرت 42ہزار روپے مقررکی ہے لیکن سرمایہ دار طبقے نے اسے پہلے ہی مسترد کردیا ہے وہ پہلے 38 ہزار ہی ادا نہیں کر رہے تھے وہ 42 ہزار کیا دیں گے۔ سرمایہ داروں کی فیکٹریاں ایک سے دو اور دو سے چار ہوگئی ہیں لیکن یہ ظالم لوگ محنت کشوں کو ریلیف دینے کو تیار نہیں ہیں اور ان کا خون چوسا جارہا ہے۔ ایسے میں پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ پٹرول بم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ٹرانسپورٹروں نے فوری طور پر کرایوں میں اضافہ کردیا ہے جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات میں اگر کمی واقع ہو جائے تو یہ ٹرانسپورٹر کبھی کرایوں میں کمی نہیں کرتے۔ بے حس حکمرانوں کو عوام کی پریشانیوں اور مشکلات کا رتی بھر بھی احساس نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاسی ومذہبی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ عوام کا ساتھ دیں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی عوام کی برداشت سے اب باہر ہوچکی ہے۔ پاکستان میں غربت جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور عوام میں جس طرح مایوسی پھیلی رہی ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ملک میں 22 خاندان تھے اب یہ تعداد 400 کے قریب پہنچ چکی ہے جنہوں نے عوام کا استحصال کیا ہوا ہے۔ تمام شوگر ملز، آٹا ملز، بجلی کی کمپنیاں ان ہی لوگوں کی ملکیت ہیں اور جب چاہے یہ ملک میں آٹا چینی گندم کا بحران پیدا کر دیتے ہیں اور ذخیرہ اندوزی، اسملنگ کی وجہ سے ملک کو بحرانوں میں مبتلا کیا جاتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پٹرولیم مصنوعات محنت کشوں کے پاکستان کے میں اضافہ جارہا ہے لیبر کوڈ نہیں ہے عوام کی کے حقوق ہیں اور ہے اور
پڑھیں:
فی لیٹر پیٹرول اور ڈیزل پر کتنے ٹیکسز عائد ہیں؟ ہوشربا انکشاف
سٹی42: حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد فی لیٹر پیٹرول اور ڈیزل پر عائد مختلف چارجز اور ٹیکسز کی تفصیلات سامنے آ گئیں.
رپورٹ کے مطابق فی لیٹر قیمت میں اضافے کا بڑا حصہ مختلف اقسام کے چارجز اور لیویز پر مشتمل ہے۔ یکم جولائی 2025 سے ڈیزل 10 روپے 39 پیسے مہنگا کردیا گیا ہے۔ ایک لیٹر ڈیزل 262.59 سے بڑھ کر 272.98روپے تک پہنچ گیا ہے۔ڈیزل کی ایکس ریفائنری قیمت 177 روپے 24 پیسے ہے، ایک لیٹر ڈیزل پر پٹرولیم لیوی کی مد میں 74روپے 51پیسے کی وصولی جاری، ایک لیٹر ڈیزل پر نیا ٹیکس کاربن لیوی 2روپے 50پیسے عائد کیا گیا ہے، ڈیزل فی لیٹر پر آئل مارکیٹنگ مارجن 8روپے وصول کیاجارہا ہے۔
ڈیزل پر ان لینڈ فریٹ چارجز کی مد میں 2روپے 9پیسے کی وصولی, فی لیٹر ڈیزل پر پٹرول پمپ ڈیلرز مارجن 8 روپے 64پیسے مقرر, پٹرول اور ڈیزل پر سیلز ٹیکس صفر ،کاربن لیوی کی مد میں 77روپے 1پیسے کی وصولی, آئی ایس ای ایم ،او ایم سی ،ڈیلرز مارجن ملا کر 18 روپے 73 پیسے فی لیٹر وصولی جاری ہے۔
دوسری جانب رپورٹ کے مطابق یکم جولائی 2025 سے ایک لیٹر پٹرول 8 روپے 36 پیسے مہنگا کیا گیا ، فی لیٹر پٹرول 3.20 فیصد مہنگا ہوا ،پٹرول کی ایکس ریفائری قیمت 165روپے 30 پیسے مقرر ہے۔
ایک لیٹر پٹرول پر پیٹرولیم لیوی کی مد میں 75 روپے 52 پیسے کی وصولی، ایک لیٹر پٹرول پر نیا ٹیکس کاربن لیوی 2 روپے 50 پیسے عائد کردیا گیا ہے، پٹرول پر فی لیٹر ان لینڈ فریٹ چارج 6.96 روپے وصول کیا جارہا ہے،
پٹرول پر فی لیٹر آئل مارکیٹنگ مارجن 7روپے 87 پیسے مقرر، پٹرول پمپس کا ڈیلرز مارجن فی لیٹر 8روپے 64 پیسے مقرر، پٹرول پر سیلز ٹیکس صفر ،کاربن لیوی کی مد میں 78روپے 2پیسے کی وصولی اور آئی ایس ای ایم ،او ایم سی ،ڈیلرز مارجن ملا کر 23 روپے 47 پیسے فی لیٹر وصولی کی جا رہی ہے۔
جوڈیشل کمیشن کا اجلاس: پشاورہائیکورٹ کےچیف جسٹس کیلئے جسٹس عتیق شاہ کا نام منظور