امریکی وفاقی عدالت نے ٹرمپ کی مہاجرین کو پناہ دینے سے انکار کو غیرقانونی قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
امریکی وفاقی عدالت نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکا میکسیکو سرحد سے پناہ گزینوں کے داخلے پر مکمل پابندی لگانے کی کوشش کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے، اسے روک دیا ہے۔
فیصلہ امریکی آئین اور قوانین کی فتح قراروفاقی جج رینڈولف موس نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سابق صدر ٹرمپ نے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کیا اور کانگریس کے بنائے ہوئے قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے پناہ کی درخواستوں پر مکمل پابندی عائد کی، جو کہ غیرقانونی ہے۔
یہ بھی پڑھیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 30 ہزار تارکین وطن کو گوانتاناموبے جیل بھیجنے کے لیے تیار
جج موس نے اپنے 128 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا کہ امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ یا آئین صدر کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ پناہ کی درخواستوں پر مکمل طور پر پابندی لگا کر ایک علیحدہ، غیرقانونی نظام نافذ کرے۔
حکومت کو اپیل کا موقع دیا گیاعدالت نے یہ فیصلہ فوری طور پر نافذ نہ کرنے کا حکم دیا ہے، بلکہ حکومت کو اپیل دائر کرنے کے لیے 2 ہفتے کی مہلت دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی صدارت کے آغاز پر ایک اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں انہوں نے میکسیکو سے غیرقانونی داخلے کو ’امریکا پر حملہ‘ قرار دیا اور اس بنیاد پر پناہ کے حق کو معطل کر دیا تھا۔ ان کے بقول یہ قدم امیگریشن نظام میں بدعنوانی روکنے کے لیے ضروری تھا۔
سرحدی گرفتاریوں میں نمایاں کمیعدالتی فیصلے کے ساتھ ہی وائٹ ہاؤس نے یہ بھی اعلان کیا کہ جون میں بارڈر پٹرول نے صرف 6,070 افراد کو گرفتار کیا، جو مئی کے مقابلے میں 30 فیصد کمی ظاہر کرتا ہے۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو یہ 1966 کے بعد کی سب سے کم سالانہ گرفتاریوں کی شرح ہو گی۔
ACLU کی قانونی فتحامریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان افراد کے لیے فتح ہے جو ظلم اور خطرے سے بھاگ کر امریکا میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے امریکا میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف تاریخی آپریشن کا آغاز
امریکن سول لبرٹیز یونین کے وکیل لی گلرنٹ نے کہا ’یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ صدر کسی قانون کو محض ‘ہنگامی حالت’ قرار دے کر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ پناہ کے خواہش مند افراد کو تحفظ کا حق حاصل ہے۔‘
تاحال وائٹ ہاؤس، محکمہ انصاف، اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
امریکی صدر کیخلاف مقدمہ قابل سماعت ہونے پر دلائل طلب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج غربی کی عدالت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقدمے کے اندراج کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت آج (2 جولائی )تک ملتوی کردی ہے۔منگل کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج غربی کی عدالت میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقدمے کے اندراج کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے موقع پر درخواست گزار جمشید علی خواجہ اور ان کے وکیل جعفر عباس جعفری عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ابتدائی سماعت کے دوران متعدد قانونی نکات پر سوال اٹھائے اور استفسار کیا کہ ڈاکس تھانے کی حدود میں ایسا کون سا قابل دست اندازی جرم ہوا ہے جس پر مقدمہ درج کیا جائے؟ عدالت نے وکیل درخواست گزار سے دریافت کیا کہ جرم کہاں ہوا، اثرات کیسے مرتب ہوئے اور آپ کس طرح متاثر ہوئے؟ وکیل نے مؤقف اپنایا کہ 21 جون کو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملے کی کوشش کے اثرات پاکستان تک مرتب ہوئے، امریکی قونصل خانہ تھانہ ڈاکس کی حدود میں ہے۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ قونصلیٹ کی حدود کا قانون سے تعلق نہیں، جرم کے وقوعہ کا مقام اہم ہے اور ویانا کنونشن کے تحت کسی بھی ہیڈ آف دی اسٹیٹ کو قانونی استثنا حاصل ہوتا ہے جس پر پاکستان بھی دستخط کرچکا ہے۔ عدالت نے غیر ضروری عدالتی مثالوں سے اجتناب کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے آرڈرز پاکستانی عدالتوں کا مذاق بنوا سکتے ہیں۔ وکیل کی جانب سے سرکاری وکیل کی موجودگی پر اعتراض کیا گیا تاہم عدالت نے واضح کیا کہ سرکاری وکیل کو معاونت کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی اور مہلت طلب کی۔ عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت آج(2 جولائی) تک ملتوی کردی۔