data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اقبال نے اپنی ایک نظم میں مولانا روم سے سوال کیا ہے کہ جہاد کا جواز کیا ہے؟ اس کی روح کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے فرمایا کہ دوست کے آئینے پر دوست کا پتھر مار۔ یعنی صرف اللہ کے حکم سے صرف اللہ ہی کے لیے دوسرے انسان کو قتل کر تاکہ اللہ کی کبریائی اور حق کی بالادستی کا حق ادا ہوسکے۔ انسانی تاریخ میں کل بھی جنگ کا یہی جواز تھا اور آج بھی جنگ کا یہی جواز ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی پیدا کی ہوئی مخلوق ہے اور اس کی جان پر صرف اللہ ہی کا حق ہے۔ چناں چہ اس حق کو صرف اللہ ہی کے لیے سلب کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جنگوںکی تاریخ میں جنگ کا یہ جواز کم ہی بروئے کار آیا ہے۔ صرف مسلمان ہیں جنہوں نے اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں اس اصول کی پیروی کی ہے۔ تاہم جنگ کے اصل اصول سے انحراف کے باوجود ماضی میں جنگوں کی ایک اخلاقیات تھی جو جنگ کی ہولناکی کو ایک حد سے بڑھنے نہیں دیتی تھی۔ مثلاً ماضی میں جنگ بیش تر صورتوں میں میدان جنگ تک محدود ہوتی تھی۔ جس کو جنگ لڑنی ہوتی تھی میدان جنگ میں نکل آتا تھا اور دادِ شجاعت دیتا تھا۔ لیکن جو لوگ میدان جنگ میں موجود نہیں ہوتے تھے انہیں شریک جنگ یا Combatant نہیں سمجھا جاتا تھا اور ان کی جان محفوظ ہوتی تھی۔ اصول تھا کہ عورتوں، بچوں اور ضعیفوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ کھڑی فصلیں تباہ نہیں کی جائیں گی۔ پانی کے ذخیرے میں زہر نہیں ملایا جائے گا۔ جنگ میں ہتھیار ڈالنے یا میدان جنگ سے فرار ہونے والے کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ عبادت گاہ خواہ کسی کی ہو اسے نقصان نہیں پہنچایا جائے گا اور عبادت گاہ میں موجود لوگوں سے تعارض نہیں کیا جائے گا۔ پرانے زمانے میں اگرچہ شب خون مارا جاتا تھا مگر اسے پسند نہیں کیا جاتا تھا لیکن عہد حاضر میں جنگ کی نوعیت، معنویت اور اس کے اثرات یکسر تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں ایک اندازے کے مطابق دس کروڑ لوگ ہلاک ہوئے۔ اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ ہلاک ہونے والوں کی اکثریت عام افراد پر مشتمل تھی۔ اور یہ لوگ میدان جنگ میں نہیں اپنے شہروں، قصبوں اور دیہات میں ہلاک ہوئے تھے۔ اصول ہے کہ جدید جنگ میں ایک شخص ہلاک ہوتا ہے تو تین زخمی ہوتے ہیں اس کے معنی یہ ہوئے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں 30 کروڑ افراد زخمی ہوئے۔ املاک کی بے پناہ تباہی اس کے سوا تھی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ فی زمانہ جنگ کا دائرہ اتنا وسیع ہوگیا ہے کہ اس نے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اب جنگ ہوتی ہے تو میدان جنگ سے کہیں زیادہ اہم بڑے بڑے شہر اور ان کی فوجی اور تنصیبات ہوتی ہیں۔ اس
صورت حال کو دیکھا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اب جنگ کی مابعد الطبیعیاتی اور اخلاقی بنیادیں کیا عقلی بنیادیں بھی موجود نہیں، حالاں کہ ہمارے زمانے کو اپنی عقل پرستی پہ بڑا ناز ہے اور ہمارے زمانے کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انسان جتنا عاقل و بالغ اب ہوا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ لیکن ہمارے زمانے کی جنگوں کی نوعیت بتارہی ہے کہ عصر حاضر کی کم و بیش تمام جنگیں اندھی نفرت، غصے اور لایعنی قومی خود پسندی کے زیر سایہ لڑی جارہی ہیں۔ اگرچہ جاپان کے خلاف ایٹم بموں کا استعمال دوسری عالمی جنگ کا حصہ تھا لیکن انسانوں کے خلاف ایٹم بم کا استعمال اس امر کا اعلان تھا کہ ایٹم بم استعمال کرنے والے اپنے دشمن کو اشرف المخلوقات یا انسان کیا کیڑا مکوڑا بھی نہیں سمجھتے اور ان کے نزدیک اپنی مائوں کے بطن میں موجود بچے بھی ان کے دشمن ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو خود ایٹم بم کی ایجاد انسانیت کے خلاف ایک بھیانک سازش ہے۔ اس لیے آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ جب میں سوچتا ہوں کہ ایٹم بم میرے فارمولے کے مطابق بنایا گیا ہے تو مجھے خیال آتا ہے کہ کاش میں آئن اسٹائن کے بجائے ایک موچی ہوتا۔ لیکن آئن اسٹائن کا یہ بیان خود ایک کمزور اخلاقیات کا شاخسانہ ہے۔ اس لیے کہ آئن اسٹائن جس سائنس کا پرچم لیے کھڑا تھا اس کا خدا، مذہب، مابعدالطبیعیات اور اخلاقیات پر ایمان ہی نہیں تھا لیکن ایٹم بم کی ہولناکی صرف اس کے استعمال تک محدود نہ تھی۔ امریکا نے جن شہروں پر ایٹم بم گرایا ان شہروں میں چالیس سال بعد تک معذور بچے پیدا ہوتے رہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عہد حاضر میں جنگ ختم ہونے کے باوجود بھی بہ انداز دیگر چالیس سال تک جاری رہ سکتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عہد حاضر میں جنگ ایک ’’خیال‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔ خیال ماضی سے حال اور حال سے مستقبل میں سفر کرتا ہے اور اب جنگ کے اثرات بھی خیال کی طرح وقت کی شاہراہ پر سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے اثرات نے یورپ میں اس بے معنویت کو فروغ دیا جس نے مغرب میں مذہبی فکر کا جنازہ نکال دیا اور انسانی رشتوں کی بنیادیں ہلادیں۔ دو عالمی جنگوں سے کروڑوں مرد ہلاک ہوگئے چناں چہ کارخانوں اور دفاتر میں کام کرنے والوں کا کال پڑ گیا۔ کام کرنے والے مردوں کے اس خلا کو خواتین سے پُر کیا گیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے مغرب کی خواتین گھروں سے نکلیں تو آج تک گھروں کو واپس نہیں ہوسکیں۔ اس صورت حال نے مغرب میں خاندان اور تہذیب کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہیروشیما اور ناگاساکی میں جو کچھ ہوا ایٹم بم کا کیا دھرا تھا لیکن انسان نے فی زمانہ ایسے ہتھیار ایجاد کرلیے ہیں کہ ایٹم بم کے استعمال کے بغیر بھی جنگ انتہائی ہلاکت آفریں ہوسکتی ہے اور خیال کی طرح وقت میں سفر کرسکتی ہے۔ اس کا ایک ثبوت ویت نام، کمبوڈیا اور افغانستان ہے جہاں بچھی ہوئی بارودی سرنگیں جنگ کے خاتمے کے برسوں بعد بھی انسانوں کو ہلاک کرتی رہیں گی۔ عراق پر مسلط کی گئی جنگ بظاہر ختم ہوگئی مگر امریکا کی فوجوں کے انخلا کے بعد بھی عراق سے اس جنگ کی ہلاکت آفرینی کی اطلاعات آتی رہیں۔
عراق میں امریکا کی مزاحمت سنّی آبادی کے علاقوں میں ہوئی۔ ان علاقوں میں فلوجہ سرفہرست تھا۔ چناں چہ امریکا نے فلوجہ کی زمین کے ایک ایک انچ پر اپنے معلوم اور نامعلوم گولے بارود کے ڈھیر لگادیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فلوجہ میں معذور بچوں کی پیدائش میں ہولناک اضافہ ہوگیا۔ فلوجہ کے ڈاکٹروں کے مطابق جنگ سے پہلے فلوجہ میں پندرہ روز میں دو معذور بچوں کی پیدائش رپورٹ ہوتی تھی لیکن جنگ کے بعد فلوجہ میں ہر دن دو معذور بچے پیدا ہونے لگے۔ اہم بات یہ ہے کہ بچوں کی معذوری بھی ہولناک ہے۔ بعض معذور بچوں کا سر عام بچوں کے سر سے بڑا ہونا ہے۔ بعض بچے دو سر لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ بچے پیدائش کے وقت سرطان میں مبتلا ہوتے ہیں اور بعض بچے ایسے بھی ہوئے ہیں جو بیک وقت کئی طرح کے سرطان میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس صورت حال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے فلوجہ کے مزاحمت کاروں کے خلاف
سفید فاسفورس سمیت انتہائی زہریلے کیمیائی مادے استعمال کیے۔ فلوجہ میں صورت حال اتنی ہولناک ہوئی کہ برطانیہ کے ڈاکٹروں نے عراق کے طبی ماہرین کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ میں درخواست دی کہ عراق میں بچوں کی معذوری میں ہولناک اضافے کی تحقیق کرائی جائے اور فلوجہ کی سرزمین کو کیمیائی مادوں سے پاک کیاجائے۔ اس سلسلے میں خلیج کی پہلی جنگ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اس جنگ کے بعد عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں، جن کے نتیجے میں عراق میں غذا اور دوائوں کی شدید قلت پیدا ہوگئی اور اس قلت سے دس لاکھ انسان ہلاک ہوگئے۔ ہلاک ہونے والے دس لاکھ انسانوں میں پانچ لاکھ بچے بھی شامل تھے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ خلیج کی پہلی جنگ اپنے خاتمے کے بعد بھی جاری رہی اور اس خاموش جنگ نے ’’چیختی چلاتی جنگ‘‘ سے کہیں زیادہ انسانوں کو ہلاک کیا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ تاریخ چنگیز خان کو ’’درندہ‘‘ کہتی ہے اور چنگیز خان سے کہیں زیادہ انسانوں کو ہلاک کرنے والے امریکا اور یورپ کے رہنما ’’مہذب انسان‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ صورت حال خود جنگ کی بدلی ہوئی صورت حال پر ایک بلیغ تبصرہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چنگیز خان نے اپنے پورے فوجی کیریئر میں دو کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔ اس کے برعکس امریکا اور یورپ کے رہنمائوں نے صرف دو عالمی جنگوں میں دس کروڑ انسانوں کو مار ڈالا۔ لیکن دو کروڑ لوگوں کو مارنے والا چنگیز خان ’’وحشی‘‘ ہے اور 16 کروڑ انسانوں کو دو جنگوں میں مارنے والے ’’انسان پرست‘‘ ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو چنگیز خان اس لیے مغرب کے رہنمائوں سے بہتر تھا کہ اس نے کبھی خود کو ’’انسان پرست‘‘ اور ’’ڈیموکریٹ‘‘ نہیں کہا۔ اس نے کبھی انسانی حقوق کا پرچم ہاتھ میں نہیں اٹھایا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ چنگیز خان کا ظاہر و باطن ایک تھا مگر مغرب کے رہنمائوں کے قول و فعل میں گہرا تضاد پایاجاتا ہے۔ ایک طرف وہ تہذیب کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں اور دوسری طرف وہ کروڑوں لوگوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ ایک جانب وہ جمہوریت کے پرستار ہیں اور دوسری جانب وہ مسلم دنیا میں کسی اسلامی تحریک کو عوامی طاقت کے ذریعے اقتدار میں نہیں آنے دیتے۔ چنگیز خان وحشی تھا تو وحشی ہی کہلاتا ہے مگر مغرب کے چنگیز رہنما امن کی فاختائیں کہلاتے ہیں۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ امریکا نے جاپان کے خلاف ایٹم بم اس لیے استعمال کیا کہ جاپان کے پاس ایٹم بم موجود نہ تھا۔ ہوتا تو امریکا کبھی جاپان کو ایٹمی حملے کا نشانہ نہ بناتا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکا اور سابق سوویت یونین نے پوری دنیا میں پورے پچاس سال تک ’’سرد جنگ‘‘ لڑی مگر ان کے درمیان کبھی ’’گرم جنگ‘‘ کی نوبت نہ آسکی۔ اس کی وجہ کوئی اخلاقی اصول یا ’’علمی دلیل‘‘ نہ تھی۔ اس کی وجہ ’’خوف کا توازن‘‘ تھا۔ امریکا کے پاس ایٹم بم موجود تھا تو سوویت یونین کے پاس بھی ایٹم بم موجود تھا۔ امریکا کے پاس ہائیڈروجن بم تھا تو سوویت یونین کے پاس بھی ہائیڈروجن بم تھا۔ امریکا کے پاس دس ہزار کلو میٹر تک مار کرنے والے میزائل تھے تو سوویت یونین کے پاس بھی دس ہزار کلو میٹر تک مار کرنے والے میزائل تھے۔ یہی صورت حال پاک بھارت تعلقات کی بھی ہے۔ بھارت نے 1971ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا اور ساری دنیا دیکھتی رہی۔ اس وقت پاکستان کے پاس ایٹم بم ہوتا تو بھارت مشرقی پاکستان کو الگ نہیں کرسکتا تھا۔ پاکستان بھارت تعلقات کی گزشتہ 40 سال کی تاریخ میں بھارت پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے والا تھا مگر پاکستان کے ایٹم بم نے اسے ایسا کرنے سے باز رکھا۔ 1984ء میں بھارت نے پاکستان پر حملے کی پوری تیاری کرلی تھی مگر جنرل ضیا الحق نے بھارت جا کر بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی کو بتایا کہ پاکستان نے ایٹم بم بنالیا ہے۔ چناں چہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملے کی جرأت کی تو پاکستان بھارت کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹادے گا۔ یہ دھمکی کارگر ہوئی اور بھارت نے پاکستان پر حملے کا منصوبہ ترک کردیا۔ عمران خان کے دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی تو بھارت نے پاکستان کے تین بڑے شہروں پر ایٹمی حملے کی تیاری کر ڈالی۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے چھے بڑے شہروں پر ایٹمی حملے کی منصوبہ بندی کرلی۔ یہ دیکھ کر بڑی طاقتیں بیچ میں کود پڑیں اور جنگ نہ ہوسکی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو طاقت یا خوف کا توازن بڑی اچھی چیز ہے۔ مگر گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو محض طاقت اور خوف کا توازن انسانیت کی نفی ہے۔ کیوں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان مذہب، اخلاق، علم اور دلیل کی زبان سمجھنے سے قاصر ہوگیا ہے۔ وہ اب صرف ایک زبان سمجھتا ہے۔ طاقت کی زبان۔ خوف کی زبان۔
.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بھارت نے پاکستان دوسری عالمی جنگ دیکھا جائے تو اس کے معنی یہ عالمی جنگوں سوویت یونین ا ئن اسٹائن پاکستان کے امریکا اور انسانوں کو امریکا نے چنگیز خان فلوجہ میں کرنے والے اور دوسری کے مطابق صورت حال صرف اللہ ہوتی تھی تھا لیکن نہیں کیا ہوتے ہیں کیا جائے یہ ہے کہ ایٹم بم کے خلاف کو ہلاک بچوں کی حملے کی نہیں کی جائے گا چناں چہ جنگ کے جنگ کی اور ان تھا کہ کے بعد کے پاس جنگ کا اور اس کیا ہے ہیں کہ لیکن ا اس لیے ہے اور
پڑھیں:
وہ چند ہزار
یہ دنیا جس میں آپ رہتے ہیں بلاشبہ اس کے عقائد، سرحدوں اور معیشتوں کے ارتقاء میں لاکھوں بے نام و نشان لوگوں کا ہاتھ ہے مگر اس ارتقاء کی ابتداء متحد، پرعزم اور جذبے سے بھرپور محض چند ہزار لوگوں کی دین ہے۔
ان چند ہزار نے جب جولیئس سیزر کے ساتھ روبیکن دریا عبور کیا تو ان کے قدموں کے عزم نے رومی سلطنت جیسی عظیم تاریخ رقم کی۔ وہ چند ہزار جب رحمتِ کائنات ﷺ کے ہمراہ مکہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے تو ہر پتھر، ہر ذرہ ان کے قدموں کے نور سے جگمگا اٹھا۔ وہ چند ہزار جب جنگ یرموک میں خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں بازنطینیوں سے ٹکرائے تو تلواروں کی ٹکر اور دھول کے بادلوں میں یہ سبق چھپا ہوا تھا کہ فتح ہتھیار میں نہیں بلکہ دل میں موج زن جذبے میں چھپی ہوتی ہے۔
وہ چند ہزار ہی تھے جنہوں نے صلاح الدین ایوبی کے ساتھ حطین کے میدان میں یروشلم آزاد کرایا اور تاریخ میں امر ہو گئے۔ ایسے ہی چند ہزار محمد فاتح کے ساتھ مل کر قسطنطنیہ فتح کرنے والوں میں شامل ہوئے جنہوں نے بازنطینی سلطنت کا جنازہ نکال چھوڑا اور آنے والے چار سو سالوں تک خلافت عثمانی کا پرچم بلند کیے رکھا۔
وہ چند ہزار جب مارٹن لوتھر کے ساتھ کھڑے ہوئے تو کیتھولک کی مذہبی اجارہ داری زمین بوس کردی۔ وہی چند ہزار جب ہینری فورڈ اور تھامس ایڈیسن کے ساتھ متحد ہوئے تو صنعتی انقلاب کی گونج نے دنیا کو حیران کردیا۔ ایسے ہی چند ہزار جب چارلس ڈو، ایڈورڈ ڈی اور چارلس ایم کے ساتھ وال اسٹریٹ پر جمع ہوئے تو دنیا کی معیشت کی نبض اپنے ہاتھ میں لے لی۔ ان چند ہزار جاپانیوں نے میجی بحالی کے تحت ایک غریب جزیرے کو اشیا کی عظیم طاقت میں بدل کر رکھ دیا اور ہر گلی، ہر کارخانے اور ہر ہاتھ کو محنت اور ہنر کی چمک سے بھر دیا۔
ایسے ہی چند ہزار لوگوں نے امید اور عزم کے چراغ روشن کرتے ہوئے مسلم لیگ اور قائداعظم کے ساتھ پاکستان کی بنیاد رکھی۔ وہ چند ہزار جب ڈینگ شیاؤ پھنگ کے ساتھ متحد ہوئے تو دنیا نے چین کا معجزہ دیکھا جہاں ہر شہر، ہر کارخانہ، ہر سڑک ایک خواب کی حقیقت بن گئی۔ چند ہزار لوگوں نے رین زینگ کے ساتھ مل کر ایک عام سی کمپنی ہواوے کو عالمی عروج تک پہنچا دیا اور جدید ٹیکنالوجی نے ہر ذہن، ہر ہاتھ اور ہر آنکھ کو حیرت میں مبتلا کردیا۔
سوچیے کتنی طاقت ہے ان چند ہزار میں۔ اگر یہ چند ہزار پاکیزہ مقصد کے لیے اکٹھے ہوں تو قومیں تعمیر کر سکتے ہیں، دنیا بدل سکتے ہیں اور تاریخ کے دھارے کو موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر بدقسمتی سے چند ہزار اگر برے ارادوں کے ساتھ جمع ہوجائیں تو تاریکی پھیلا سکتے ہیں تباہی مچا سکتے ہیں اور یہ کوئی مبالغہ نہیں، بلکہ ایک خوفناک حقیقت ہے جو ہر روز ہمارے اپنے ملک کی گلیوں، بازاروں، دفاتر اور نیوز ہیڈ لائنز میں اپنی تلخی کے ساتھ جھلکتی ہے۔
گذشتہ چند سالوں سے گھروں، دفاتر، بازاروں اور دوستوں کی بیٹھکوں میں ایک خوفناک سوال گونجتا ہے۔ کیا پاکستان میں مذہبی جنونیت اتنی گہری ہوچکی ہے کہ واپسی کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا؟ اکثر احباب کہتے ہیں کہ شدت پسندی نے خطرناک حدیں پار کرلی ہیں اور یہ زہر پورے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے اور جب ہر روز خبروں میں مذہب کے نام پر قتل، علمائے کرام پر مقدمات اور ریاست کے خلاف نام نہاد جہاد کے اعلانات نظر آتے ہیں تو یہ خوف محض خیالی نہیں بلکہ حقیقت کا ننگا چہرہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ خوف ناک حقیقت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کریں اور ہر نظریہ احتیاط سے پیش کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ بات کسی کے عقیدے یا سیاسی نظریے سے ٹکراؤ کا باعث بن جائے۔
اس تمام صورت حال کے باوجود میرے خیال میں آج بھی معاشرے میں امید کی یہ کرن زندہ ہے کہ ہم پوائنٹ آف نو ریٹرن سے کوسوں دور ہیں اور ابھی وقت ہمارے ہاتھ سے پوری طرح نہیں نکلا۔ عوامی سطح پر نظر ڈالیں تو یہ معاشرہ مجموعی طور پر انتہاپسندی سے آزاد ہے۔ سڑک پر نکلیں، مختلف لوگ جن میں غریب و امیر، مرد و عورت، پڑھے لکھے اور ان پڑھ سب شامل ہوں اور آپ ان سے بات کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اکثریت مذہبی شدت پسندی کے خلاف ہے۔ لوگ اپنے دین سے محبت کرتے ہیں مگر وہ جنونی نہیں ہیں۔ یقیناً کچھ سخت نظریات رکھنے والے ملیں گے مگر وہ اقلیت میں ہیں جن کا شمار آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے۔
اب ریاستی زاویے سے دیکھیں۔ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں غیر مذہبی شناخت رکھتی ہیں اور عوام نے ہمیشہ مذہب کے بجائے اپنے مسائل، قیادت اور روزگار کی بنیاد پر ووٹ دیا۔ فوج، عدلیہ، بیوروکریسی اور میڈیا میں بھی مذہبی شدت پسندی نے جڑ نہیں پکڑی۔ ہاں انفرادی سطح پر ان اداروں میں کچھ لوگ موجود ہوسکتے ہیں مگر مجموعی طور پر اکثریت توازن پسند اور حقیقت پرست ہے۔
معاشرتی رویے بھی یہی بتاتے ہیں کہ ہماری اکثریت اپنی روزمرہ زندگی میں انتہاپسندی سے دور ہے۔ ہمارا معاشرہ نہ مغرب جیسا مکمل آزاد ہے نہ ہی افغانستان جتنا سخت اور تنگ نظر۔ ہم اپنے دین سے محبت کرتے ہیں، نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں، عمرہ و حج ادا کرتے ہیں مگر زندگی کی خوشیوں سے لطف اٹھانے میں کوئی کمی نہیں دکھاتے ہیں۔ خواہشات رکھتے ہیں اور ایک نارمل زندگی جینا چاہتے ہیں اور یہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر شدت پسندی بڑھ کیوں رہی ہے؟ وجہ دراصل بہت سادہ ہے۔ برسوں سے مذہبی گروہوں کو مختلف مصلحتوں کے تحت کھلی چھوٹ دی گئی اور اسی کھلی چھوٹ نے ان مذہبی گروہوں میں طاقت کی بھوک میں مبتلا کچھ افراد کو اثرورسوخ کی ہوس میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے فرقوں کے درمیان موجود صدیوں پرانے اختلافات کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا اور اسے عوام کے جذبات کو بھڑکانے کا موقع بنالیا۔
فرقہ پرستی ہمارے معاشرے کا کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ برصغیر میں یہ صدیوں پرانا مسئلہ ہے جو آج بھی خطے کے لوگوں کو نسلوں سے تقسیم کر کے رکھے ہوئے ہے۔ کچھ دنیا پرستوں کو چھوڑ کر عام لوگ آج بھی اس تقسیم کے باوجود محض اللّہ اور اس کے نبی ﷺ کی محبت میں ایک دوسرے کے لیے حد میں رہتے ہوئے نرمی یا فاصلے محسوس کرتے ہیں لیکن مطالعاتی کمی اور تحقیق کے رجحان سے عدم دل چسپی نے کچھ شرپسند افراد کے لیے اس تقسیم کو ایک نادر موقع میں تبدیل کردیا۔
یہ لوگ اپنی شعلہ بیانی کے ذریعے اسلام کے تشخص، حدیث اور تاریخی واقعات میں من گھڑت کہانیاں گھڑ کر عام لوگوں کے جذبات کو مہمیز دیتے ہیں اور عام سادہ لو لوگوں کی اسلام سے محبت کو غلط سمت میں استعمال کرتے ہیں یوں حقیقت کا رخ بدل کر عام لوگوں کے عقائد اور جذبات کو اشتعال انگیز بنایا جاتا ہے اور شدت پسندی کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور اپنے ان اعمال کے دفاع کو مذہب کی حرمت سے جوڑ کر اپنے دنیاوی اہداف کا حصول ممکن بنایا جاتا ہے۔
لیکن یہ مسئلہ صرف ہمارا نہیں۔ دنیا کے تقریباً ہر خطے نے اپنے دور میں مذہب یا نسل کے نام پر جنونیت کا زہر چکھا ہے۔ امریکہ میں کو کلس کلان جیسی خفیہ تنظیم نے سفید فام برتری کے نام پر سیاہ فاموں پر ظلم ڈھائے۔ یورپ میں ’’نیو نازی ازم‘‘ نے نسل پرستی کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی۔ سربیا میں ارباز ملیشیا، جنوبی یورپ میں ابھرنے والی بے شمار انتہاپسند تنظیمیں، جاپان میں نیشنل سوشلسٹ جاپانیز ورکرز پارٹی اور بھارت میں آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی، سب نے مذہب یا نسل کے نام پر نفرت کا کاروبار کیا۔
فرق صرف یہ ہے کہ بھارت کو چھوڑ کر ان ممالک نے آخرکار ان گروہوں کو ریاستی طاقت سے قابو کیا۔ وہاں ریاست نے کوئی مصلحت نہیں دکھائی بلکہ قانون حرکت میں آیا۔ انتہا پسند قتل و غارت میں ملوث تھے تو انہیں پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں، کئی کو عمر قید ہوئی اور ان کی تنظیموں پر مکمل پابندیاں عائد کی گئیں۔ پارلیمان نے ایسی ملیشیاؤں کے خلاف واضح قانون سازی کی اور ان کے جلسے جلوس اور نفرت انگیز تقاریر سب جرم قرار پائیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں ریاست نے مذہب، رنگ و نسل کے نام پر گندی سیاست کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لا کر معاشرے کو دوبارہ سانس لینے کا موقع دیا۔ وہاں نفرت کو رائے نہیں، جرم سمجھا گیا اور یہی وجہ تھی ہے کہ وہاں ریاست جیت گئی۔
پاکستان میں ریاست کی مصلحت آمیز خاموشی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی کہ جہاں محض وقتی سیاسی فوائد کے لیے بعض جماعتوں کی سرگرمیوں پر آنکھیں بند کرنا انہیں وہ موقع فراہم کرگیا جس کا فائدہ انہوں نے بڑی ہوشیاری سے اٹھایا۔ آج جب اُن کی کارروائیاں حد سے بڑھ گئیں تو قابو پانا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ جماعتیں پارلیمنٹ تک پہنچ گئیں، ان کے راہ نما بغاوت کے فتوے جاری کرتے رہے اور ریاست اکثر خاموش تماشائی بنی رہی۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان میں احتجاج ہر سیاسی جماعت کا حق ہے مگر اس حق کو استعمال کرنے کے لیے آئین پاکستان کچھ فرائض پر بھی توجہ دلواتا ہے مگر جب اسی جماعت کے بیانات اور کارروائیوں سے براہِ راست یا بلاواسطہ جڑے حادثات گننے شروع کیے جائیں تو حقیقت کچھ اور ہی نکلتی ہے۔
پچھلے دس سالوں میں ایسی انتہاپسند جماعتوں میں سے ایک کے کارکنوں کے ریکارڈ میں وینڈلزم، موب جسٹس، لنچنگ، گلیوں میں گھسیٹنا، لاشوں کی بے حرمتی کے واقعات درج ہیں اور اس دوران براہِ راست یا بالواسطہ طور پر قومی خزانے کو تقریباً پینتیس ارب روپے کا خسارہ بھی پہنچا۔ سیالکوٹ فیکٹری کا واقعہ ہو یا اقلیتوں خاص طور پر عیسائی آبادی کو نذرِ آتش کیا جانا ہو یا اُن کے خلاف منظم تشدد ہو تو سوال اٹھتا ہے کیا انہیں ایک جمہوری سیاسی جماعت سمجھنا درست ہے یا انہیں ایک مسلح جتھے کی فہرست میں رکھنا چاہیے؟
جس آئین پاکستان کو یہ لوگ اپنے احتجاج کے حق میں بطور دلیل استعمال کرتے ہیں اسی آئین کے آرٹیکل دو سو چھپن میں صاف لکھا ہے کہ کوئی بھی نجی تنظیم جو فوجی تنظیم کی شکل میں کام کرے گی اسے بنانے کی اجازت نہیں ہو گی اور ایسی تنظیم غیرقانونی سمجھی جائے گی۔ دنیا بھر میں جب کوئی تنظیم عوام کی جان و مال چھیننے لگتی ہے، قتل و غارت کرتی ہے اور ریاست کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے تو ریاست کا فرض مؤثر اور بروقت اقدامات کرنا ہوتا ہے۔ سوال یہی ہے کہ ہم نے کیونکر اتنی دیر کر دی کہ اب قدم اٹھانا دشوار سا محسوس ہو رہا ہے؟
اس انتہاپسندی کا ایک سبب وہ لوگ بھی ہیں جو خود کو ترقی پسند کہلوانا پسند کرتے ہیں مگر ایسے گروہوں کے حق میں احتجاج کے نام پر دلیلیں دیتے نہیں تھکتے۔ ان خواتین و حضرات سے گزارش ہے کہ کبھی اُن گھروں تک جائیں جہاں ان کے اس جمہوری حق احتجاج کے نتیجے میں لاشیں جلیں، بچوں کے باپ مارے گئے یا ماؤں کی گودیں اجڑ گئیں۔ وہاں جا کر انہیں بتائیں کہ قاتل دراصل دینی یا سیاسی کارکن تھے جو صرف احتجاج کر رہے تھے۔ شاید تب انہیں اندازہ ہو کہ فلسفے اور فریب کے درمیان لکیر کتنی باریک ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مذہبی شدت پسند کسی بحث یا منطق کے اہل ہی نہیں۔ وہ دلیل کو نہیں صرف آواز کو طاقت سے دباتے ہیں۔ وہ سوال کرنے والے کو واجب القتل قرار دیتے ہیں اور جب بحث ختم ہوجائے تو نعرہ لگتا ہے، تشدد بولتا ہے اور لاشیں گرتی ہے۔ ایسے لوگوں کو سمجھانے کی نہیں روکنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ خود اسی آزادی کو ختم کرنے اٹھتے ہیں جس کے سائے میں ان کو بولنے کی اجازت ملتی ہے۔ جو شخص ان کے حقوق کی بات کرتا ہے وہ دراصل مذہب نہیں بلکہ بدنظمی کا حامی ہے۔ ان کے سیاسی حقوق وہی ہیں جو ٹی ٹی پی، طالبان یا بوکو حرام جیسے گروہوں کے ہو سکتے ہیں یعنی صرف انصاف کا کٹہرا۔
ریاست اگر چاہے تو ان کا زور چند سالوں میں ٹوٹ سکتا ہے۔ لیکن سوال یہی ہے کہ کیا ریاست واقعی ایسا چاہتی بھی ہے؟ اصل زخم قیادت کا ہے وہ ڈرتی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں جرأت کی جگہ مصلحت نے لے لی ہے۔ کسی کو ووٹ کا خوف ہے، کسی کو فتوے کا اور یوں ریاست، ایک زندہ وجود ہونے کے بجائے کاغذی اعلانات، وقتی پابندیوں اور سیاسی بیانوں کے خول میں جیسے پھنس کر رہ گئی ہے۔ کسی گروہ پر پابندی لگا دینا بہت آسان ہے مگر نظریہ پابندی سے خاطرخواہ متاثر نہیں ہوتا بلکہ وہ زمین کے نیچے بھی سانس لیتا رہتا ہے۔ لہذا اصل جنگ فہم کی ہے، شعور کی ہے اور یہی وہ جنگ ہے جس سے ہم کتراتے ہیں۔
اب ہمیں ایک متحد، واضح اور بے خوف بیانیہ اپنانا ہوگا۔ ایسا بیانیہ جو سیاست داں کے نفع نقصان سے نہیں، ریاست کے ضمیر سے نکلے۔ یہ لڑائی نعرے سے نہیں جیتی جا سکتی بلکہ اس کے لیے ٹھوس، مسلسل اور بے لاگ حکمتِ عملی چاہیے۔ ایسی حکمتِ عملی جو چار سمتوں میں پھیلی ہو۔ جو معاشی انصاف پر مبنی ہو تاکہ غربت کسی مذہبی یا سیاسی رہنما کے ہاتھوں جذباتی غلامی میں نہ بدلے، جس کی بنیاد شفاف سیاست پر ہو تاکہ جھوٹا سیاسی و مذہبی لبادہ ووٹ کے لیے استعمال نہ ہو۔ جہاں قانون کی بالادستی ہو تاکہ نفرت انگیز تقاریر اور تشدد کے مرتکب افراد کسی سیاسی آشیرباد سے بچ نہ سکیں اور جہاں معاشرتی اصلاح کی طرف سفر کی سمت طے ہو سکے تاکہ جہالت کا وہ ایندھن ختم ہو جو انتہاپسندی کو زندہ رکھتا ہے۔
ساتھ ہی ہمیں منبر و محراب پر بیٹھے معتدل آوازوں کو آگے لانا ہوگا تاکہ وہ شدت پسندی کے شور میں ہوش کی بات کر سکیں۔ نوجوانوں کے ہاتھ میں صرف سوشل میڈیا کا مائیک نہیں بلکہ علم، شعور، روزگار اور سمت دینے کا انتظام بھی کرنا پڑے گا ورنہ وہی ہاتھ جو آج نعرے لگاتے ہیں کل پتھر بھی اٹھا سکتے ہیں۔
یہ لڑائی آسان نہیں۔ اصل جنگ فہم کی ہے، شعور کی ہے اور یہی وہ میدان ہے جس میں ہم ہمیشہ ہارے ہیں۔ یہاں ماضی کے منافع خور موجود ہیں، وہی چہرے، وہی مفادات۔ مگر اب فیصلہ جرأت کا ہے۔ ریاست اگر چاہے تو آج بھی وہی کرسکتی ہے جو کل اس نے سنی اور شیعہ کے درمیان فاصلوں کو کم کر کے کیا تھا۔ شرط صرف عزم ہے، وہ عزم جو ووٹ کی لالچ میں نہیں بلکہ ضمیر کی آواز سے جنم لیتا ہے۔
یہ معرکہ سیاسی نہیں وجودی ہے۔ یہ ہمارے بچوں، ہمارے مذہب ہمارے معاشرے اور ہمارے خوابوں کا سوال ہے۔