فیلڈ مارشل کا بیانیہ، بھارت کا وجود ٹوٹنے کی طرف
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
تقسیم ہند کے بعد 1950 ء کے عشرے میں تاملوں کا احتجاج وسعت اختیار کر گیا، جس پرحکومت نے تشدد کا راستہ اپنا کر ان کی تحریک کو کچلنے کی بڑی کوششیں کیں،تاملوں کے ساتھ روا رکھے گئے انسانیت سوز مظالم کے ردعمل میں یہ لسانی تحریک 1968ء میں باقاعدہ بھارت سے علیحدگی کی تحریک میں تبدیل ہو گئی، تامل نیشنل ریٹریول ٹروپس ان کا علیحدگی پسند گرو ہ ہے، جو اپنے حقوق کے حصول کے لئے مسلح جدوجہد پریقین رکھتا ہے، بھارت اور اس سے ملحق تامل زبان بولنے والے علاقوں میں یہ تحریک اب بھی پوری شدت سے جاری ہے۔بھارت کے نقشے پر نظر ڈالیں تو شمال مشرق کی جانب سات ریاستوں پر مشتمل ایک پٹی دکھائی دیتی ہے، جسے تاریخی طور پر سیون سسٹرز یعنی سات بہنیں بھی کہاجاتا ہے، جن میں آسام، ناگالینڈ، منی پورا، تری پورہ، میزورام، اروناچل پردیش اور میغالیہ شامل ہیں، ان ریاستوں کو بنگلہ دیش اور بھوٹان نے ڈھانپ رکھا ہے، یہ ریاستیں بھارتی ریاست مغربی بنگال کی ایک پٹی کے ذریعے بقیہ بھارت سے منسلک ہیں، یہ علیحدگی پسند گروہوں کا مرکز تسلیم کی جاتی ہیں، جن میں آسام، ناگالینڈ، منی پورا اور تری پورہ سب سے زیادہ حساس ہیں۔ خالصتان تحریک اس وقت عالمی سطح پر منظم ہو چکی ہے اور مغربی ممالک میں بھارت کو شدید قسم کی مزاحمت دے رہی ہے ، مزے کی بات یہ کہ بھارت میں دہشت گردقرار دئیے گئے سکھ راہنما کینیڈا کی پارلیمنٹ کا حصہ رہے ہیں ۔
کینیڈا ، آسٹریلیا اور برطانیہ اس وقت خالصتان تحریک کے بڑے مراکز اور بھارت کے لئے ڈرائونا خواب ہیں ۔ سکھوں نے ایئر انڈیا کا بائیکاٹ کرکے بھارتی ایئر لائن کا بھٹہ ہی نہیں بٹھایا بلکہ کینیڈا، آسٹریلیا اور برطانیہ سے بھارت کے لئے آپریٹ ہونے والی فلائٹس کو مجبور کردیا تھا کہ وہ اپنے اعلانات ہندی کے بجائے انگریزی اور پنجابی میں کریں ، اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے بجائے پنجاب کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ، اسی طرح پنجابی سینما یعنی پنجابی فلموں میں کسی جگہ لفظ بھارت دکھائی نہیں دے گا ، اس کی جگہ پنجاب کو رائج کیا جا رہا ہے ۔ ان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ سکھوں نے دنیا بھر میں ریفرنڈم کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ، جو بہت بڑی کامیابی کے ساتھ مغربی ممالک میں جاری ہے ، مودی حکومت نے اس کا راستہ روکنے کی بہت کوشش کی مگر ہر جگہ اسے منہ کی کھانا پڑی ۔ حالات بتاتے ہیں کہ سکھ تارکین وطن نے اپنے مقصد کو نہیں چھوڑا اور اب خالصتان کا پھل پک چکا ہے ، کسی بھی وقت بھارت کے وجود پر کاری ضرب لگ سکتی ہے ۔ کشمیر اور خالصتان کی بھارت سے علیحدگی نوشتہ دیوار ہے اور تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل ہے ۔
دوسری طرف اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلال بھٹو نے کہا کہ پاکستان کی ڈکشنری میں سرینڈر کرنا شامل نہیں‘ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھایا اور پاکستان دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کر رہا ہے‘انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت آنے کے بعد افغان سرزمین سے پاکستان پر ہونے والے حملوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا، عبوری افغان حکومت نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ دوحہ معاہدے کے بر خلاف ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ڈیجیٹل پروپیگنڈا عصر حاضر کا ایک پیچیدہ چیلنج ہے، دو دہائیوں سے مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں موثر کردار ادا کیا،ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے، محفوظ مستقبل کے لیے دہشت گردی کو شکست دینا ہو گی، دہشت گردی کے خلاف ملٹری ایکشن کے ساتھ ان علاقوں میں سرمایہ کاری بھی کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 65 فیصد آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے، نوجوانوں کو فائر وال کے بجائے تیز رفتار انٹرنیٹ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی قیادت ہمارے ساتھ بیٹھے، بات کرے اور مسئلہ کشمیر حل کرے، بھارت پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی روش ترک کرے، بھارت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی صلاحیتوں سے سیکھے۔
ادھر پاکستان نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں بھارت کا بھیانک چہرہ اور ناپاک عزائم دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا۔بھارتی بیان کے جواب میں سیکنڈ سیکرٹری ربیعہ ا عجاز نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جوابی بیان دیا، جس میں انہوں نے کہا کہ مجھے بھارتی مندوب کے ریمارکس کا جواب دینے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے ۔ یہ ایک کلاسیکی مثال ہے جس میں مظلوم بننے کا دعوی اصل میں مظالم ڈھانے والا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک ایسا ریاستی نظام، جس نے نفرت کو بطور ہتھیار استعمال کیا، ہجوم کے تشدد کو معمول بنایا اور امتیازی سلوک کو اپنے ہی شہریوں اور مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کے خلاف قانون کا حصہ بنا دیا ۔ اسے ذمہ داری برائے تحفظ (R2P) پر کوئی اخلاقی جواز حاصل نہیں۔ربیعہ اعجاز کا کہنا تھا کہ بی جے پی-آر ایس ایس کے تحت بھارت ایک اکثریتی آمریت میں تبدیل ہو چکا ہے، جہاں تمام اقلیتیں ،مسلمان، عیسائی، اور دلت مسلسل خوف و جبر کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ لنچنگ پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ بلڈوزر اجتماعی سزا کا ذریعہ بن چکے ہیں، مساجد کو شہید کیا جاتا ہے اور شہریت کا حق مذہب کی بنیاد پر چھینا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کسی عوام کی حفاظت نہیں، بلکہ ان کا ریاستی سطح پر ظلم ہے ۔ ایسا ظلم جو قانون کی آڑ میں کیا جاتا ہے، اقتدار اسے فخر سے پیش کرتا ہے اور پھر بھی، بھارتی وفد بین الاقوامی اصولوں کی بات کرتا ہے ، جب کہ بھارت نے نہ صرف اپنے ہی لوگوں بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو بھی دبا رکھا ہے، خاموش کرا رکھا ہے اور بری طرح ناکام ہوا ہے۔ء اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی سیکنڈ سیکرٹری کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک جموں و کشمیر کا تعلق ہے، بھارت کا یہ دعوی کہ یہ اس کا اٹوٹ انگ یا اندرونی معاملہ ہے، مکمل طور پر سیاسی اور قانونی طور پر جھوٹ پر مبنی ہے کیوں کہ جموں و کشمیر نہ کبھی بھارت کا حصہ تھا، نہ ہے۔ اقوام متحدہ نے اسے متنازع علاقہ تسلیم کیا ہے۔
انہوں نے کہا 6 اور 7 مئی 2025 کو بھارت نے پاکستان کے شہری علاقوں پر بلا اشتعال اور جان بوجھ کر حملہ کیا، جس میں 35 معصوم افراد شہید ہوئے۔انہوں نے مزید کہا کہ جہاں پاکستان، بچوں کے تحفظ سے اپنی وابستگی کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ برائے بچوں اور مسلح تنازعات سے نکالا جا رہا ہے، وہیں بھارت نے حال ہی میں پاکستان میں 15 بچوں کو شہید کیا۔ یہ کوئی عسکری جھڑپ نہیں تھی ،بلکہ ایک قتلِ عام تھا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی انسانی قانون کی کھلی خلاف ورزی جب کہ ہم نے ان مظالم کو اقوام متحدہ کی تمام متعلقہ رپورٹوں میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ربیعہ اعجاز نے کہا کہ بھارت کی ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی بھی دستاویزی طور پر ثابت ہے۔ 2014 کے آرمی پبلک اسکول پر حملے سے لے کر حالیہ خضدار اسکول بس پر حملے تک، بھارتی خفیہ اداروں کے نشانات واضح ہیں۔انہوں نے کہا کہ ذمہ داری برائے تحفظ(R2P) ان ریاستوں کے لیے ایک نعرہ نہیں بننا چاہیے جو خود مسلسل مظالم کے مرتکب ہوں۔ یہ ان کے لیے پردہ نہیں بن سکتی جو اپنے ملک میں حقوق کا انکار کرتے ہیں اور بیرون ملک انتشار پھیلاتے ہیں۔ اگر بین الاقوامی برادری واقعی تحفظ کے اصول پر سنجیدہ ہے تو اسے سب سے پہلے ان ریاستوں سے کمزور اور مظلوم آبادیوں کو بچانا ہوگا ،جن میں بھارت بھی شامل ہے۔پاکستانی سیکنڈ سیکرٹری کا کہنا تھا کہ یہاں کوئی استثنا نہیں ہونا چاہیے، کوئی اندھے مقام نہیں ہونا چاہیے اور کوئی دہرا معیار قبول نہیں ہونا چاہیے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دہشت گردی کے خلاف انہوں نے کہا کہ کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ بھارت کا بھارت کے کہ بھارت جاتا ہے رکھا ہے کے ساتھ رہا ہے ہے اور
پڑھیں:
بلوچستان توڑنے کی ناپاک سازش
ریاض احمدچودھری
بلوچستان پر تحقیق کے نام پر دراصل پاکستان کو توڑنے کی حکمتِ عملی تیار کی جا رہی ہے۔نام نہاد اسٹڈی پراجیکٹ درحقیقت غیر ملکی آقاؤں کے سامنے نہ جھکنے والے غیور بلوچوں کی توہین ہے۔بلوچستان کے حقیقی اور اصل باشندے امن، ترقی اور خوشحالی کے خواہاں ہیں، وہ پاکستانی شہری ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ وہ جن مسائل کا سامنا کرتے ہیں، ان کو ریاست اور عوام مل کر بات چیت اور ترقی کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔اس کے برعکس "میر یار بلوچ” جیسے غیر ملکی ایجنڈا پر کام کرنے والے دہشت گردوں کے ڈیجیٹل ترجمان صرف بربادی چاہتے ہیں۔بطور پاکستانی ہمیں صورتحال کو حقیقی تناظر میں پہچاننا ہوگا۔ ففتھ جنریشن ہائبرڈ وارافئیر میں دشمن صرف سرحدوں پر نہیں، بلکہ ہماری اسکرینز پر بھی موجود ہے اور ہمارے اذہان کو زہر آلود کر رہا ہے۔ پاکستانی عوام، خصوصاً ہمارے بلوچ بھائیوں اور بہنوں کو چاہیے کہ وہ ان کٹھ پتلیوں اور ان کے آقاؤں کو مسترد کریں۔ ہماری طاقت ہماری وحدت میں ہے اور ہماری پہچان ہماری صلاحیت ہے کہ ہم حقیقی تنقید اور غیر ملکی ایجنڈا میں فرق کر سکیں۔پاکستان کا مستقبل پاکستانی عوام کے ہاتھ میں ہے، نہ کہ دہلی سمیت کسی بھی غیر ملکی دارالحکومت میں بیٹھے انٹیلیجنس نیٹ ورکس اور ان کے ایجنٹس کے ہاتھ میں۔ایسے پاکستانیوں کے ذہن سے کھیلا جاتا ہے کیونکہ ہم جذباتی قوم ہیں جس کا فائدہ بیرونی ایجنسیاں اور یہ ڈالر خور طبقہ اٹھاتا ہے۔اگر سمجھ نا آئے تو مزید سمجھایا نہیں جا سکتا۔
وطن عزیز میںبھارتی سہولت کارجب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت میں آتے ہیں تو کالعدم تنظیمیں مسنگ پرسن کے حوالے سے شور مچا دیتی ہیں۔ٹی ٹی پی،داعش ، بی ایل اے،بی ایل ایف اور دیگر ایسی اسلام اور پاکستان دشمن دہشتگرد تنظیمیںان دہشت گردوں کو مظلوم بنا کر مسنگ پرسن لسٹ میں شامل کرتی ہیں۔پکڑے ہوئے سہولت کاروں کوعام عوام ظاہر کر کے پاک فوج اور دیگر اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ اگر یہ دہشت گرد مارے جائیں تو بھی یہ تنظیمیں اور ان کے گماشتے حکومت اور فوج کے خلاف بیان بازی شروع کر دیتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے عدم استحکام کیلئے بھارت نے دہشتگردوں کو پیسہ ، اسلحہ اور تربیت کے ذریعے دہشتگردی کو سپانسر کیا ہے۔ بھارت نے ٹی ٹی پی ، جماعت الاحرار ، حزب الاحرار ، بی آر اے ، بی ایل اے اور بی ایل ایف کا کنسورشیم بنایا ہے۔ یہ جماعتیں پاکستان میں بھارتی سہولت کار کا کردار انجام دے رہی ہیں۔ماضی میں افغانستان کے راستے دہشت گرد پاکستان میں داخل کئے جاتے تھے۔ بلوچستان میں کارروائی کیلئے بھارت نے 700افراد کی ملیشیا بنائی جس کیلئے 16ملین ڈالر رکھے۔اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بی ایل اے یہ ہتھیار افغانستان سے ہندوستانی خفیہ ایجنسی را کی طرف سے تنظیم کو فراہم کردہ ڈالروں میں ادا کر کے خریدتی ہے۔کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر ہفتہ کی صبح بی ایل اے سے تعلق رکھنے والے ایک خودکش بمبار نے ٹرین میں سوار ہونے کے لیے تیار ہونے والے مسافروں کے درمیان خود کو دھماکے سے اڑا لیا .جس کے نتیجے میں کم از کم 26 افراد ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہوگئے۔
را نے دہشت گرد تنظیموں کے کارندوں کو تربیت کی فراہمی کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے رکھی ہے اور ان دہشت گردوں کو افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس اور بھارتی خفیہ ایجنسی راپاکستانی سالمیت کیخلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ خفیہ ادارے دہشت گردوں کو خودکار ہتھیار چلانے، بارود کے استعمال اور خودکش جیکٹ تیار کرنے کی بھی تربیت دیتے ہیں۔ بلوچ دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم ٹی ٹی پی کی بھی مکمل حمایت و مدد حاصل ہے اور یہ تنظیمیں آپس میں مل کر کئی اہم شہروں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی ہیں۔پاکستان کے خلاف بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ بے نقاب ہوا ہے۔ اسرائیل سے منسلک MEMRI ویب سائٹ کی پاکستان کے خلاف گھناؤنی سازش سامنے آ گئی۔اسرائیلی ویب سائٹ کے نام نہاد بلوچستان اسٹڈیز پراجیکٹ سے دہلی اور تل ابیب کا شیطانی ایکا پکڑا گیا۔میر یار نامی بھارتی مہرہ بھی پاکستان مخالف سازش کا حصہ ہے۔مڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ یا (MEMRI) واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ہے اور جسے سابق اسرائیلی انٹیلیجنس افسر ایگیل کارمن نے قائم کیا تھا۔”بلوچستان اسٹڈیز پراجیکٹ” کے لیے بھارت کی آشیرباد سے میر یار بلوچ کو اس کا خصوصی مشیر مقرر کیا ہے۔ بی ایل اے کا حامی میر یار بلوچ ہائبرڈ وارفیئر میں بھارت کی کٹھ پتلی ہے جو بلوچستان کے عوام کی آواز نہیں ہے۔ میر یار بلوچ جیسے کرداروں کا مقصد ریاست کو اندر سے کمزور کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ بلوچستان میں را کے ذریعے بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے لیے بھارت کی حمایت دستاویزی طور پر بھی ثابت شدہ ہے۔پاکستان مخالف سازش میں اسرائیلی شمولیت سے اس کے عزائم عیاں ہیں۔بلوچستان میں علیحدگی پسندی کو ہوا دینے کے لیے بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ جبر و تسلط اور علاقائی عدم استحکام کا ٹریک ریکارڈ رکھنے والے ملکوں کے مفادات کا سنگم ہے اور میر یار بلوچ جیسی جعلسازی ایک مصنوعی شناخت ہے،جو بھارتی خفیہ ایجنسی را جیسے اداروں کے ذریعے چلائی جا رہی ہے۔
قومی بحران کے لمحات میں جعلی آزادی کے اعلانات دراصل اس کی اصل نیت یعنی کہ پاکستان میں انتشار پھیلانا اور دشمن ممالک کے مفادات کو آگے بڑھانا ہے نہ کہ یہ بلوچ عوام کی بھلائی کو عیاں کرتے ہیں۔میر یار بلوچ جیسی جعلی شناخت کو MEMR کے”بلوچستان اسٹڈیز پراجیکٹ” کا "خصوصی مشیر” مقرر کیا جانا دراصل سازش کی ایک اور پرت کو بے نقاب کرتا ہے۔ MEMRI کوئی غیر جانبدار علمی ادارہ نہیں بلکہ ایسا ادارہ ہے جو عموماً ایسے بیانیے پھیلاتا ہے جو پاکستان مخالف ریاستوں کے مفادات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔