لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینے پر پابندی، مسلمانوں نے حل بھی تلاش کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
بھارتی شہر ممبئی میں انتہا پسند حکومت کی جانب سے بذریعہ لاؤڈ اسپیکر اذان دینے پر عائد پابندی کے بعد ممبئی کی مساجد ڈیجیٹلائز ہو گئیں۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ممبئی میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر عائد پابندی کے جواب میں چھ مساجد نے ایک نئی موبائل ایپ، ’آن لائن اذان‘ کا رخ کرلیا ہے، تاکہ نمازیوں تک بروقت اذان پہنچائی جاسکے۔
تامل ناڈو کی ایک فرم نے اس ایپ کو ڈیزائن کیا ہے، جس پر مفت میں رجسٹرڈ مساجد سے براہ راست اذان کی آڈیو کو اسٹریم کیا جاتا ہے۔
اس ایپلی کیشن کے ذریعے مسلمان گھر پر یا کسی بھی پُرسکون ماحول میں اذان سن سکتے ہیں، خاص طور پر رمضان کے دوران جب لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر پابندیوں کا سامنا ہو۔
واضح رہے کہ ممبئی میں مذہبی مقامات سے لاؤڈ اسپیکرز ہٹا دیے گئے ہیں، اب صرف مذہبی تہواروں کے دوران لاؤڈ اسپیکرز کے استعمال کی عارضی اجازت دی جائے گی۔
یہ کارروائی رواں سال جنوری میں بمبئی ہائی کورٹ کے حکم پر کی گئی ہے۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: لاؤڈ اسپیکر
پڑھیں:
لاہور میں مقیم مہمان ہندوؤں کے لیے دیوالی کی تقریب کا انعقاد
لاہور:روشنیوں، رنگوں اور مسکراہٹوں سے جگمگاتی ایک شام مقامی این جی او، برگد کے زیر اہتمام دیوالی کی تقریب لاہور میں اس وقت ایک خوبصورت منظر پیش کر رہی تھی جب مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد ایک ہی چھت تلے امن، محبت اور ہم آہنگی کا پیغام دے رہے تھے۔
اگرچہ پاکستان بھر میں دیوالی کی مرکزی تقریبات 21 اکتوبر کو منائی جا چکی تھیں، تاہم برگد نے یہ جشن خاص طور پر ان ہندو نوجوانوں اور شہریوں کے لیے سجایا جو تعلیم یا ملازمت کے باعث اپنے آبائی شہروں میں دیوالی نہیں منا سکے تھے۔
برگد کی پروگرام کوارڈینیٹر رابعہ سعید کے مطابق تقریب کا مقصد بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا اور لاہور میں مقیم اُن شہریوں کو گھروں جیسا احساس دینا تھا جو اپنے خاندانوں سے دور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دیوالی محض ایک مذہبی تہوار نہیں بلکہ امید، روشنی اور باہمی احترام کی علامت ہے۔
تقریب میں صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور سردار رمیش سنگھ اروڑا، پارلیمانی سیکرٹری سونیا عاشر، رکن پنجاب اسمبلی فرزانہ عباس، علامہ اصغر چشتی، علامہ محمود غزنوی، پادری سیموئیل اور پادری آصف کھوکھر سمیت مختلف مذاہب کے نمائندوں نے شرکت کی۔ مقررین نے اپنے پیغامات میں کہا کہ پاکستان میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں اور مذہبی ہم آہنگی ہی قومی یکجہتی کی بنیاد ہے۔
صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور سردار رمیش سنگھ اروڑا نے کہا کہ حکومتِ پنجاب اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور تمام شہریوں کے لیے مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے وژن کے تحت اقلیتی کارڈکا اجرا ایک فلاحی اقدام ہے جس کے ذریعے پسماندہ غیر مسلم برادریوں جیسے مسیحی، ہندو، سکھ اور دیگر طبقات کو مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔
پارلیمانی سیکرٹری محترمہ سونیا عاشر نے قائداعظم محمد علی جناح کے 11 اگست 1947 کے تاریخی خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ رکنِ صوبائی اسمبلی محترمہ فرزانہ عباس نے کہا کہ ایسے مواقع قوم کے اندر اتحاد اور تنوع کی خوبصورتی کو اجاگر کرتے ہیں۔
علامہ اصغر چشتی نے کہا کہ مذہبی اقلیتوں کی شمولیت اور ان کے کردار کو فروغ دینا قومی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
دیوالی کا آغاز پنڈت بھگت لال کی دعائیہ کلمات سے ہوا۔ انہوں نے دیوالی کی روحانی و تاریخی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ تہوار نیکی کی برائی پر فتح اور روشنی کے اندھیرے پر غلبے کی یاد دلاتا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے ہندو طلبہ مہیش لال، سالار سکندر، پرمانند پرمار جن کا تعلق رحیم یار خان اور تھرپارکر سے تھا۔ انہوں بتایا کہ وہ امتحانات کے باعث اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکے، لیکن برگد کی تقریب نے انہیں اپنے خاندانوں کے قریب ہونے کا احساس دلایا۔ ان کے مطابق یہ شام نہ صرف خوشی بلکہ قبولیت اور دوستی کا پیغام تھی۔
نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق اور میثاق سینٹر کے نمائندوں نے برگد کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات معاشرتی امن اور باہمی احترام کو مضبوط بناتے ہیں۔
دیوالی، جسے روشنیوں کا تہوار کہا جاتا ہے، ہندو برادری کا سب سے اہم مذہبی جشن ہے۔ اسے خوشی، شکرگزاری اور نئے آغاز کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ گھروں اور مندروں میں چراغ جلائے جاتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں، اور یہ دعا کی جاتی ہے کہ روشنی ہمیشہ تاریکی پر غالب رہے۔