Express News:
2025-11-19@00:29:15 GMT

کے پی حکومت کی بلدیاتی اداروں سے عدم دلچسپی

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

پی ٹی آئی کی کے پی حکومت کی بلدیاتی اداروں سے عدم دلچسپی اور بلدیاتی منتخب عہدیداروں کو نظرانداز کیے جانے سے تنگ آ کر لوکل کونسلز ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا نے احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔

پختون خوا کے بلدیاتی نمایندوں کی ایسوسی ایشن کے مطابق کے پی حکومت اپنے ہر بجٹ میں ترقیاتی فنڈز بلدیاتی اداروں کے لیے مختص ضرور کرتی ہے مگر تین برس سے کے پی حکومت نے بلدیاتی اداروں کو ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا جس پر ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے کہا کہ صوبائی بجٹ میں قانونی طور پر 20 فی صد حصہ مختص کرنا اور بعد میں کے پی کے منتخب اداروں کو فراہم کرنا لازمی ہے، مگر کے پی حکومت قانون پرکوئی عمل کر رہی ہے نہ صوبے کے بلدیاتی معاملات میں دلچسپی لے رہی ہے اور یہ غیر قانونی سلسلہ تین برس سے جاری ہے جس کی وجہ سے کے پی ادارے صوبائی حکومت کی طرف سے فنڈز فراہم نہ کیے جانے پر سخت پریشان ہیں اور بار بار بلدیاتی اداروں کی بدترین مالی حالت پر توجہ دلانے پر بھی کے پی حکومت توجہ نہیں دے رہی اور مسلسل عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

لوکل کونسلز ایسوسی ایشن کے پی کے مطابق صوبے کے بلدیاتی اداروں سے عدم توجہی پر ایسوسی ایشن مسلسل احتجاج کرتی آ رہی ہے جس پر کے پی حکومت نے عوام کے منتخب بلدیاتی نمایندوں پر بدترین لاٹھی چارج اور شیلنگ بھی کرائی مگر اب مجبور ہو کر لوکل کونسلز ایسوسی ایشن دوبارہ احتجاج اور احتجاجی دھرنے پر مجبورکی جا رہی ہے، اور اگر کے پی حکومت نے اب بھی کے پی کے بلدیاتی اداروں کی حالت زار پر توجہ نہ دی تو ہمیں ایک بار پھر سڑکوں پر آنا پڑے گا کیونکہ تین سالوں سے کے پی کے کی حکومت نے صوبے کے منتخب بلدیاتی اداروں کو ترقیاتی اور غیر ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کیے جس سے بلدیاتی ادارے مالی بحران کا شکار ہیں اور ترقیاتی کام بھی نہیں ہو رہے۔

واضح رہے کہ باقی صوبوں کی طرح 2009 میں جب ملک کے چاروں صوبوں میں جنرل پرویز مشرف کے بہترین ضلعی حکومتوں کے بااختیار نظام کا آئینی تحفظ ختم ہوا تھا تو 2008 میں وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تھی تو سندھ میں پیپلز پارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور کے پی میں پی پی اور اے این پی کی حکومت قائم ہوئی تھی اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی نے ماضی کی طرح اپنا اتحادی وزیر اعلیٰ منتخب کرایا تھا اور کے پی میں پی پی نے اے این پی کا وزیر اعلیٰ منتخب کرایا تھا اور چاروں حکومتوں نے سب سے پہلے جنرل پرویز مشرف کے بااختیار ضلعی حکومتوں کے بہترین نظام پر وار کرکے وہ ختم کیا تھا اور جنرل پرویز کے 2001 کے بااختیار بلدیاتی نظام کی جگہ جنرل ضیا الحق کا 1979 کا بے اختیار بلدیاتی نظام بحال کرکے اپنی صوبائی اسمبلیوں سے الگ الگ بے اختیار، کمزور اور محکمہ بلدیات کے مکمل ماتحت بلدیاتی نظام کے قوانین منظور کرائے تھے اور کمشنری نظام بحال کرکے بلدیاتی اداروں کو ماضی کی طرح ان کے کنٹرول میں دے دیا تھا۔

2001 میں جنرل پرویز مشرف نے ملک سے کمشنری نظام ختم کرکے ملک میں جو بااختیار ضلعی حکومتوں کا نظام نافذ کیا تھا اس میں ناظمین مالی اور انتظامی طور پر مکمل بااختیار تھے جن کے ماتحت کمشنری نظام کے تمام بڑے افسروں کو کردیا تھا۔ بااختیار ضلعی حکومتوں کا محکمہ بلدیات سے برائے نام تعلق تھا مگر محکمہ بلدیات ضلعی حکومتوں کے معاملات میں مداخلت کر سکتا تھا اور نہ ہی قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان بااختیار ناظمین کے کاموں میں مداخلت کر سکتے تھے۔

جنرل پرویز نے قومی تعمیر نو کا محکمہ بنا کر ضلعی حکومتوں کی نگرانی اور فنڈز کی فراہمی کا اختیار دیا تھا۔ ملک کی ہر یوسی کو دو لاکھ روپے ترقیاتی کاموں کے لیے اور تنخواہوں کی رقم وفاقی حکومت فراہم کرتی تھی مگر یہ بااختیار ضلعی نظام ارکان اسمبلی اور بیورو کریسی کو سخت ناپسند تھا جسے جنرل مشرف نے آئینی تحفظ دلایا تھا۔

جنرل پرویز نے ملک میں دو بار ضلعی حکومتوں کے انتخابات کرائے تھے جن میں ضلعی ناظمین کے اختیارات دیکھ کر 2005 کے ضلعی حکومتوں کے نظام کے تحت جب دوسرے انتخابات ہوئے تو متعدد ارکان اسمبلی نے اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر ناظمین کے عہدوں کا الیکشن لڑا تھا کیونکہ ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز ملنا بند ہو گئے تھے اور وہ ضلعی حکومتوں کو ملتے تھے جنھوں نے اپنے اضلاع میں زبردست ترقیاتی کام کرائے تھے اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو ضلعی حکومت میں بہترین کارکردگی پر دنیا کے 13 بہترین شہروں میں شامل کیے جانے کا اعزاز حاصل ہوا تھا جو اب سولہ سال بعد دنیا کے ایسے شہروں میں شامل کیا گیا ہے جو دنیا کے بدترین شہروں میں شامل ناقابل رہائش شہر عالمی طور پر قرار پایا ہے جس کی وجہ موجودہ سندھ کا بلدیاتی نظام ہے۔

2013ء میں کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تھی اور ملک میں کوئی صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کرانا نہیں چاہتی تھی جس پر سپریم کورٹ کے حکم پر چاروں صوبوں میں پارٹی سطح پر بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے، کے پی میں پی ٹی آئی نے بھی کمزور اور بے اختیار بلدیاتی نظام نافذ کیا تھا جو اب بھی نافذ ہے۔

کے پی حکومتوں میں پی ٹی آئی نے ضلعی حکومتوں جیسا نظام نہیں دیا اور پہلی بار کے پی میں میئروں کا انتخاب برائے راست ہوا جس میں پشاور سمیت جے یو آئی کے زیادہ میئر منتخب ہوگئے تھے جس پر اس وقت کے  وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی نے دوسرے مرحلے کی انتخابی مہم خود چلا کر پی ٹی آئی کو کامیابی تو دلائی مگر پی ٹی آئی مخالف زیادہ بلدیاتی عہدیدار منتخب ہو جانے پر بعد میں پی ٹی آئی حکومت نے ان کے اختیارات کم اور فنڈز تک روک رکھے ہیں اور کے پی کے بلدیاتی نمایندوں کو مکمل نظرانداز کر رکھا ہے جس سے کے پی کے بلدیاتی ادارے بے کار اور حکومت کے مکمل محتاج بنے ہوئے ہیں جنھیں 3 سالوں سے ترقیاتی فنڈز بھی نہیں دیا جا رہا جب کہ کے پی کے وزیر اعلیٰ کا بھائی خود ڈیرہ اسمٰعیل خان کا میئر ہے۔ پی ٹی آئی بھی بااختیار بلدیاتی نظام پر یقین نہیں رکھتی اسی لیے صوبے کے منتخب بلدیاتی نمایندے دوبارہ سڑکوں پر احتجاج پر مجبور کیے جا رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اختیار بلدیاتی نظام ضلعی حکومتوں کے بلدیاتی اداروں بااختیار ضلعی ترقیاتی فنڈز میں پی ٹی آئی ایسوسی ایشن کے پی میں پی کے پی حکومت ضلعی حکومت جنرل پرویز کے بلدیاتی اداروں کو کی حکومت حکومت نے کے منتخب سے کے پی کے پی کے تھا اور صوبے کے رہی ہے

پڑھیں:

کیا نظام بدل گیا ہے؟

27ویں ترمیم کی منظوری کے بعد یہ بحث چل رہی ہے کہ کیا ملک کا نظام حکومت مضبوط ہوا یا کمزور۔ آئینی ترامیم حکومتیں اپنے اقتدار کو مضبوط اور نظام کو استحکام دینے کے لیے کرتی ہیں۔ آئینی ترامیم کبھی اپوزیشن نہیں کرتی۔ کیونکہ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکا ر ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پا س سادہ اکثریت ہو تو آپ حکومت بنا لیتے ہیں۔ اس لیے دو تہائی کے ساتھ اپوزیشن میں ہونا نا ممکن ہے۔ اس لیے آئین میں ترمیم کرنا اور قانون سازی کرنا بنیادی طو رپر حکومت کا ہی استحقاق ہے۔ حکومت چاہے تو اپوزیشن کو شامل کر سکتی ہے۔ اس کی بھی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن زیادہ مواقع پر حکومت نے خود ہی آئین سازی اور قانون سازی کی ہے۔

قانون سازی آسان کام ہے۔ اس کے لیے سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ حکومت سادہ اکثریت پر ہی بنتی ہے۔ اگر مخلوط حکومت ہو تو قانون سازی مشکل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ آپ کو اتحادیوں کو منانا ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس خود سادہ اکثریت موجود ہو تو پھر قانون سازی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ آئین میں ترمیم کے کے لیے دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں مختلف سیاسی جماعتوں کو ملنا فطری نظر آتا ہے۔ لیکن پھر بھی اپوزیشن اس سے دور ہی رہتی ہے۔

اب موجود ترامیم کو دیکھیں۔ دوستوں کی رائے کہ اس ترمیم سے ملک میں نظام حکومت ہی بدل دیا گیا ہے۔ آئین کی بنیادی شکل ہی بدل دی گئی ہے۔ مجھے ان کی یہ بات سمجھ نہیں آرہی۔ کیا ملک میں آئینی معاملات دیکھنے کے لیے ایک الگ آئینی عدالت کے قیام سے ملک کے آئین کی شکل ہی بدل گئی ہے؟ کیا آئینی عدالت کے قیام سے نظام حکومت کی بنیادی شکل ہی بدل گئی ہے؟ آئینی عدالت میں بھی جج ہی لگائے گئے ہیں۔ آئین کی تشریح کرنا عدلیہ کا کام ہے۔

عدلیہ یہ کام ججز کے ذریعے کرتی ہے۔ اب 27ویں ترمیم کے بعد ملک کے آئین کی تشریح کاکام عدلیہ ہی کرے گا۔ جج ہی یہ کام کریں گے۔ نہ تو حکومت نے آئین کی تشریح کے راستے بند کیے ہیں۔ نہ ہی یہ کام ججز سے لے کر کسی اور کو دے دیا گیا ہے۔ مسئلہ تو تب ہوتا جب آئین کی تشریح کا کام عدلیہ سے لے کر کسی اور کو دے دیا جائے۔ ایسا نہیں ہوا۔ عدلیہ میں نئی عدالتوں کا قیام کوئی نیا کام نہیں ہے۔

کیا آئینی عدالت کے قیام سے عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ یہ کوئی دلیل نہیں ، اگر کوئی خاص جج ہی آئینی کیس سنیں گے تو عدلیہ آزاد ہے، اگر وہ کیس نہ سنیں تو عدلیہ آزاد نہیں ہے۔ سب جج برابرہیں۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے کہ جج کا نام سن کر ہمیں ان کی سیاسی سوچ کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے ۔ معاشرہ میں سیاسی تقسیم ہونا کوئی بری بات نہیں۔ لیکن نظام انصاف میں سیاسی تقسیم کوئی اچھی بات نہیں۔ نظام انصاف کو بہر حال غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہوناچاہیے۔ اس لیے آج تنازعہ یہ نظر آرہا ہے کہ اب مخصوص جج آئینی معاملات کیوں نہیں سن سکیں گے۔ کیا آئینی عدالت الگ بننے سے عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے؟ تو اس کے پیچھے کوئی دلیل نہیں ہے۔ عدلیہ میں کام کی تقسیم کی گئی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ عام آدمی کے مقدمات کی سپریم کورٹ میں باری ہی نہیں آرہی۔ ہزاروں لاکھوں مقدمات زیر التو ہیں۔ ججز آئینی معاملات میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ عام آدمی کے کیس کی باری ہی نہیں آتی۔ آج کی ترمیم ان مسائل کی وجہ سے بھی کی گئی ہے۔ میں صرف یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا عدلیہ کا سیاسی ایجنڈا نظر نہیں آرہا تھا؟ کیا عدلیہ کے چند ججز کی خاص سیاسی سوچ پوری عدلیہ پر غالب نظر ہوتی نظر نہیں آرہی تھی؟ معاملات غیرجانبدار نہیں رہے تھے۔

دوسرا مسئلہ ججز کے تبادلے کا ہے۔ کیا جج کا ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلے سے عدلیہ کی غیر جانبد اری ختم ہو جاتی ہے؟ یہ کیا منطق ہے کہ اگر جج صاحب ایک ہا ئی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ چلے جائیں گے تو ان کی آزادی ختم ہو جائے گی۔کیس تو ملک کے عام آدمی کا سننا ہے۔ انصاف تو عام آدمی کو دینا ہے۔ اب عام آدمی کا تعلق کس صوبے سے ہے، یہ کیوں اہم ہے۔ ایک ہائی کورٹ میں ہی جج کے فرائض دینا ہی کیوں عدلیہ کی آزادی سے مشروط ہے۔ تبادلہ ایک روٹین کا عمل ہے۔ فوج کے بڑے افسران کے تبادلے ہوتے ہیں۔

افسر شاہی میں تبادلے ہوتے ہیں۔ تبادلے کو انتقامی کارروائی کب سے سمجھا جانے لگا ہے، خاص جگہ پر فرائض دینے سے آپ آزاد ہیں۔ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ خاص کیس سنیں گے تو آزاد ہیں۔ ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ خاس بنچ میں ہونگے تو آزاد ہیں ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ یہ منطق کوئی قابل فہم نہیں ہے۔ ایک تبادلے کے اختیار سے نہ تو عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے اور نہ ہی ملک میں عدالتی نظام میں کوئی بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ وہی نظام ہے۔ پھر جج کے تبادلے کا نظام اٹھارویں ترمیم سے پہلے آئین میں موجود تھا۔ دوبارہ آگیا ہے۔ اس میں ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ اب ججز کے استعفوں کی بھی بات کر لیں۔ ابھی تک استعفے کم آئے ہیں۔ توقع سے کم آئے ہیں۔ جو آئے ہیں ان کی وجوہات الگ ہیں۔ وہ صرف 27ویں ترمیم کی وجہ سے نہیں آئے ہیں۔

اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔ ان ججز کی رائے ہم سب کے سامنے ہی ہے۔ ان کے فیصلے ان کی سوچ کے عکا س رہے ہیں۔ اب ان کے استفعوں کو بھی ان کی اسی سوچ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیا اور استعفیٰ آئیں گے؟ حکومت کہہ رہی ہے کہ نہیں آئیں گے۔

عام رائے ہے کہ آئیں گے۔ لیکن لگتا ہے کہ استعفوں کو روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت نہیں چاہتی کہ زیادہ استعفیٰ آئیں۔ اس لیے معاملا ت رک گئے ہیں۔ بات ہو رہی ہے۔ورنہ استعفے تو اکٹھے ہی آنے چاہیے تھے۔ ایک سوال سب پوچھتے ہیں کہ کتنے استعفے آئیں تو بات بن جائے گی۔ میں کہتا ہوں اگر استعفوں کا عدلیہ کے تناظر میں دیکھنا ہے تو سب کو دینے ہوںگے ورنہ سیاسی تقسیم کے تناظر میں ہی دیکھے جائیں گے۔ ہم خیال ججز کے تناظر میں ہی دیکھے جائیں گے۔ ابھی تک جتنے آئے ہیں، وہ بہت ہی ناکافی ہیں۔ اسی لیے کسی تحریک کا کوئی ماحول نظر نہیں آرہا۔ بات سمجھیں۔ لوگ اتنے بیوقوف نہیں کہ چند استعفوں کے جھانسے میں آجائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • کیا نظام بدل گیا ہے؟
  • اہم ریاستی اداروں پر 2بڑے سائبر حملے ناکام بنائے جانے کا انکشاف
  • کلاؤڈفیئر نظام میں تکنیکی خرابی،پاکستانی اہم اداروں کی ویب سائٹس غیرفعال
  • پی پی نے بلدیاتی نظام پر بات نہ کی تو 18ویں ترمیم ختم ہوگی ‘سندھ میں صوبہ بھی بنے گا‘ایم کیو ایم
  • الیکشن کمیشن کا اسلام آباد میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے کا فیصلہ
  • کراچی دودھ دینے والی گائے ،سندھ میں بھی صوبہ بنے گا،مصطفیٰ کمال
  • پیپلز پارٹی نے بلدیاتی نظام سے متعلق بل پر بات نہ کی تو 18ویں ترمیم بھی ختم ہوگی اور سندھ میں صوبہ بھی بنے گا، مصطفیٰ کمال
  • اٹھائیسویں آئینی ترمیم میں بلدیاتی نظام سے متعلق ترامیم شامل کی جائیں گی، مصطفی کمال
  • پی پی نے بلدیاتی نظام پر بات نہ کی تو 18ویں ترمیم ختم ہوگی اور سندھ میں صوبہ بھی بنے گا، مصطفیٰ کمال
  • ایم کیو ایم کے 27ویں ترمیم میں بلدیاتی ترامیم شامل نہ کرنے پر تحفظات