ملک کا سب سے بڑا ڈیم پانی سے مکمل طور پر بھر گیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 05 جولائی2025ء) ملک کا سب سے بڑا ڈیم پانی سے مکمل طور پر بھر گیا، مون سون بارشوں کے آغاز کے بعد ملک کے تمام آبی ذخائر میں پانی کی صورتحال بہتر ہو گئی۔ تفصیلات کے مطابق ملک کے سب سے بڑے ڈیم تربیلا میں پانی کا ذخیرہ مکمل طور پر بھر جانے کے بعد ڈیم کے سپل وے کو کھول گیا گیا۔ واپڈا کے ترجمان نے ملک کے اہم دریاؤں میں پانی کی آمد و اخراج اور آبی ذخائر کی تازہ ترین صورتحال سے متعلق تفصیلات جاری کر دی ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ مون سون سیزن کے دوران پانی کے بہاؤ میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ترجمان کے مطابق تربیلا کے مقام پر دریائے سندھ میں پانی کی آمد 2 لاکھ 64 ہزار 100 کیوسک جبکہ اخراج 2 لاکھ 39 ہزار 300 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ منگلا کے مقام پر دریائے جہلم کی آمد 24 ہزار 100 کیوسک اور اخراج 10 ہزار کیوسک ہے۔(جاری ہے)
چشمہ بیراج میں پانی کی آمد 2 لاکھ 14 ہزار 200 کیوسک جبکہ اخراج 2 لاکھ 35 ہزار 300 کیوسک ہے۔
ترجمان کے مطابق ہیڈ مرالہ کے مقام پر دریائے چناب میں پانی کی آمد 75 ہزار 500 کیوسک اور اخراج 49 ہزار کیوسک رپورٹ کیا گیا۔ نوشہرہ کے مقام پر دریائے کابل میں پانی کی آمد و اخراج 43 ہزار کیوسک کے برابر ہے۔ ترجمان کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح 1520.94 فٹ ہے جبکہ ذخیرہ 41 لاکھ 37 ہزار ایکڑ فٹ ریکارڈ کیا گیا۔ منگلا ڈیم میں پانی کی سطح 1179.05 فٹ اور ذخیرہ 30 لاکھ 47 ہزار ایکڑ فٹ ہے۔ چشمہ ریزروائر میں پانی کی سطح 646.40 فٹ جبکہ ذخیرہ ایک لاکھ 78 ہزار ایکڑ فٹ ہے۔ ترجمان واپڈا کے مطابق تربیلا، منگلا اور چشمہ ریزروائر میں مجموعی طور پر قابل استعمال پانی کا ذخیرہ 73 لاکھ 62 ہزار ایکڑ فٹ ہے۔ واضح رہے کہ تربیلا، چشمہ، منگلا اور نوشہرہ کے مقامات پر دریاؤں میں پانی کی آمد و اخراج کا تخمینہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے اوسط بہاؤ پر مبنی ہے۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف زراعت، آبی منصوبہ بندی اور ڈیموں کے انتظام کے لیے کلیدی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ کسی ممکنہ سیلابی صورتِ حال کی پیشگی تیاری میں بھی معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے مقام پر دریائے میں پانی کی ا مد ہزار ایکڑ فٹ کے مطابق
پڑھیں:
پنجاب میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے نئے قوانین اور جرمانوں میں اضافہ
پنجاب حکومت نے صوبے میں جنگلی حیات کے تحفظ اور انسانی آبادیوں کو ممکنہ خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ نئے اقدامات میں ’’پنجاب وائلڈ لائف ہیزرڈ کنٹرول رولز 2025‘‘ کا نفاذ اور جنگلی حیات کے قوانین میں ترامیم شامل ہیں، جو ماحول اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو جدید خطوط پر استوار کریں گی۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق نئے قواعد کا مقصد انسان اور جنگلی جانوروں کے درمیان تصادم یا خطرے کی صورت میں سائنسی، منظم اور فوری کارروائی ممکن بنانا ہے۔ اگر کوئی جانور انسانی جان یا دیگر جانداروں کے لیے خطرہ بن جائے یا کسی بیماری یا چوٹ کی وجہ سے زندہ رہنے کے قابل نہ ہو، تو چیف وائلڈ لائف رینجر عوامی شکایات اور سائنسی شواہد کی بنیاد پر کارروائی کا حکم دے سکے گا۔ ہنگامی حالات میں رینجر متعلقہ ماہرین سے مشورہ کرکے جانور کو قابو میں لانے، منتقل کرنے یا ہٹانے کا فیصلہ کرے گا۔ تمام اقدامات کے لیے ویٹرنری ماہرین اور پنجاب کیپٹیو وائلڈ لائف مینجمنٹ کمیٹی سے مشاورت لازمی ہوگی۔ قوانین میں غیر قانونی شکار کے جرمانے بڑھا دیے گئے ہیں۔ فرسٹ شیڈول کے بعض پرندوں کا شکار یا قبضہ 10 ہزار روپے فی جانور، باز، ہریڑ، لگر اور الو کا معاوضہ ایک لاکھ روپے، شیڈول دوئم اور سوئم کے ممالیہ جانوروں کا معاوضہ ایک لاکھ روپے جبکہ گیدڑ، سور اور جنگلی سور کا معاوضہ 25 ہزار روپے مقرر کیا گیا ہے۔ شکار میں استعمال ہونے والے آلات پر بھی جرمانے سخت کیے گئے ہیں، شارٹ گن 25 ہزار، غیر ملکی شارٹ گن 50 ہزار، مقامی رائفل 50 ہزار، غیر ملکی رائفل ایک لاکھ، پی سی پی ائیر گن 50 ہزار، گاڑی یا جیپ 5 لاکھ، موٹر سائیکل ایک لاکھ، سائیکل یا کشتی 25 ہزار اور برقی آلات 25 ہزار روپے کا جرمانہ ہوگا۔ اعزازی گیم وارڈن کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے جبکہ کمیونٹی بیسڈ کنزروینسی کے ارکان کو قانونی اختیار حاصل ہوگا کہ وہ غیر قانونی شکار یا تجارت کی روک تھام میں مدد دے سکیں۔ شکار، بریڈنگ اور خرید و فروخت کے اجازت ناموں کی نیلامی کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم متعارف کرایا جائے گا، کتوں کی دوڑ میں زندہ خرگوش کے استعمال پر پابندی ہوگی اور صرف مشینی چارے کی اجازت دی جائے گی۔ صوبے بھر میں جدید آلات سے لیس خصوصی وائلڈ لائف پروٹیکشن سینٹرز قائم کیے جائیں گے جہاں اہلکاروں کو وارنٹ کے بغیر تلاشی اور گرفتاری کا اختیار حاصل ہوگا تاکہ جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق قوانین پر مؤثر عمل در آمد یقینی بنایا جا سکے۔ نئے قوانین کا مقصد نہ صرف جنگلی حیات کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے بلکہ انسانی زندگی اور معاشرتی تحفظ کو بھی برقرار رکھنا ہے۔