data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
عالمی سطح پر برکس (BRICS) گروپ کے بڑھتے ہوئے اثرات نے دنیا کی اقتصادیات پر امریکا کے اثر رسوخ کو چیلنج سے دوچار کردیا ہے، یہ گروپ دنیا کی نصف آبادی اور تقریباً 35 فی صد عالمی جی ڈی پی کی نمائندگی کرتا ہے، گزشتہ دنوں برکس نے ڈیویلپمنٹ بینک سے منسلک سرمایہ کاری کا نیا پلیٹ فارم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جسے بڑی طاقتوں کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لیے اسے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے مقابل ایک متبادل سمجھا جا رہا ہے۔ نیو ڈیولپمنٹ بینک (NDB) کے تحت بننے والا ’’ملٹی لیٹرل گارنٹی فنڈ‘‘ رکن ممالک میں بنیادی ڈھانچے، ماحولیاتی اور پائیدار ترقی کے منصوبوں کے لیے سرمایہ کاری کو فروغ دے گا۔ یہ فنڈ فنانسنگ کے اخراجات اور نجی سرمایہ کاروں کے لیے خطرات کم کرے گا۔ یہ پلیٹ فارم ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے مقابل ایک متبادل کے طور پر کام کرے گا، جس سے مغربی مالیاتی اداروں پر انحصار میں کمی ہوگی۔ یہ فنڈ مقامی کرنسیوں میں فنانسنگ کو فروغ دے گا، جو ڈالر کی بالادستی کو کم کرے گا اور کرنسی کے خطرات سے بچائے گا۔ علاوہ ازیں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں منعقدہ برکس (BRICS) سربراہ اجلاس میں جاری ہونے والے سخت پیغامات نے نہ صرف معیشت بلکہ عالمی نظام کے از سرِ نو تعین کی نشاندہی کی ہے۔ اس اجلاس میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی دوٹوک گفتگو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں پر تنقید نے اس بات کی طرف اشارہ دیا ہے کہ دنیا یک قطبی نظام سے کثیر قطبی دنیا کی طرف بڑھ رہی ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کی اہم معیشتوں پر مشتمل برکس گروپ میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقا شامل ہیں۔ 2009 میں برکس گروپ کی پہلی کانفرنس میں برازیل، روس، بھارت اور چین شامل تھے، بعد ازاں جنوبی افریقا بھی شامل ہوا۔ پچھلے سال مصر، ایتھوپیا، انڈونیشیا، ایران اور متحدہ عرب امارات کو بھی رکنیت دی گئی۔ سعودی عرب نے تاحال باضابطہ شمولیت اختیار نہیں کی، جب کہ 30 سے زائد ممالک برکس میں شمولیت یا شراکت داری میں دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں۔ آٹھ ارب پر مشتمل دنیا کی مجموعی آبادی میں تین ارب تیس کروڑ افراد برکس گروپ سے وابستہ ممالک میں رہتے ہیں، اور ان ممالک کی قومی پیداوار 26 ٹرلین ڈالر ہے۔ برکس کی اصطلاح سب سے پہلے برطانیہ کے ایک ماہر معیشت، جم اونیل نے وضع کی تھی، جم اونیل نے سال 2001 میں ایک تحقیق میں’’برکس‘‘ کی اصطلاح ایجاد کی تھی جب انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ برازیل، روس، بھارت اور چین کا ترقی کا بہت بڑا پوٹینشل ہے اور عالمی نظام میں اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ ان ملکوں کو اس نظام میں شامل کیا جائے۔ واضح رہے کہ برکس ممالک ماحولیاتی تحفظ اور مصنوعی ذہانت کے شعبے میں بھی تعاون کر رہے ہیں، جبکہ روس اور چین مغربی سیاسی بالادستی کے خلاف کھل کر بیانیہ قائم کر رہے ہیں۔ روس کی کوشش ہے کہ برکس کے ارکان کو اس پر مائل کیا جائے کہ بین الاقوامی لین دین کا ایک ایسا متبادل نظام بنایا جائے جو مغربی پابندیوں کے زیر اثر نہ ہو۔ اس صورتحال پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برکس کو دھمکی دی ہے کہ امریکا ان تمام ممالک پر اضافی 10 فی صد ٹیرف عائد کرے گا جو ترقی پذیر ممالک کے گروپ برکس کی ’’امریکا مخالف پالیسیوں‘‘ کی حمایت کریں گے۔ امریکی صدر کی اس دھمکی پر برکس سربراہ اجلاس میں نوٹس لیتے ہوئے ایک مشترکہ اعلامیے میں گروپ نے عالمی تجارتی نظام کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹیرف میں اضافے سے عالمی تجارت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ برکس کی حالیہ پیش رفت اور مالیاتی اقدامات سے بظاہر یہ تاثر ضرور مل رہا ہے کہ یہ گروپ موجودہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام، خاص طور پر امریکا کی قیادت میں چلنے والے معاشی ڈھانچے کے لیے ایک بڑا چیلنج بننے جارہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ برکس اگرچہ معاشی سطح پر مضبوط ہو چکا ہے، لیکن وہ ابھی تک ایک مکمل سیاسی اور عسکری اتحاد میں تبدیل نہیں ہوا، امریکا کی عسکری برتری آج بھی مسلمہ ہے وہ کوئی فیصلہ کرتا ہے، تو دنیا اس پر عمل کرتی ہے، چاہے وہ ایران ہو یا اسرائیل۔ ایک ایسے تناظر میں جب G7 اور G20 جیسے فورمز اندرونی اختلافات کی وجہ سے کمزور ہورہے ہیں، برکس کی پیش رفت ایک مثبت اشارہ ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: دنیا کی برکس کی کے لیے کرے گا
پڑھیں:
اسلامی دنیا کو جوہری ٹیکنالوجی سے محروم کرنے کیلئے مغرب کی تہذیبی جنگ
اسلام ٹائمز: ان دوغلی پالیسیوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی ممالک کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی کی اجازت نہ دینے کی اصل وجہ قانونی یا سیکورٹی نوعیت کی نہیں بلکہ اس کی جڑیں مذہبی تعصب اور اسلام دشمنی میں ہیں۔ مغربی ممالک یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مشرق وسطی میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی اس خطے کے ناامن ہو جانے کا باعث بنے گی۔ لہذا ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق سامنے آنے والے حالات و واقعات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ ٹکراو ایک وسیع تہذیبی جنگ کا حصہ ہے جس کی بنیاد اسلام دشمنی پر استوار ہے اور اس کا مقصد اسلامی دنیا کو طاقتور ہونے سے روکنا ہے، چاہے اس کے لیے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ تحریر: محمود سلطان (مصری صحافی اور تجزیہ کار)
ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق گذشتہ چند ہفتوں کے دوران رونما ہونے والے حالات و واقعات نے ایک بار پھر اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ جوہری توانائی سے متعلق تنازعات دراصل ایک وسیع تر تہذیبی ٹکراو کے ذیل میں ہے اور اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ مغربی دنیا کی جانب سے ایران کو جوہری پروگرام پوری طرح ختم کر دینے پر اتفاق نے ایک بار پھر اس بنیادی سوال کو اجاگر کر دیا ہے کہ کیا مشرق وسطی کے ممالک کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ گذشتہ چند عشروں کے دوران عرب دنیا کی رائے عامہ اس بنیاد پر استوار تھی کہ کسی بھی عرب یا مسلمان ملک کی جانب سے جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک کے کلب میں شمولیت کے حق کے خلاف "مغربی ویٹو" دراصل اس جنگ طلب روح کا تسلسل ہے جو 1096ء سے 1291ء تک جاری رہنے والی صلیبی جنگوں میں حکمفرما تھی۔
یہ سوچ ایک طرح سے مذہبی انداز میں اس محرومیت کو دیکھتی ہے اور اس کی درستگی ان شواہد پر مبنی ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف مسلمانوں کو ہی ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت جوہری ہتھیاروں سمیت ہر قسم کی جوہری ٹیکنالوجی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ "اینٹ کا جواب پتھر سے دینے" کا اصول بین الاقوامی قانون کا حصہ ہے اور اس کے تحت ہر قوم تزویراتی اور اہم ٹیکنالوجیز حاصل کرنے کا مکمل حق رکھتی ہیں۔ اسرائیل سے متعلق مغربی دنیا کا دوغلا رویہ نیز اکثر مسلمان ممالک میں وسیع پیمانے پر اسلامی قوانین کے اجرا سے ان کی لاعلمی کے باعث اس مغربی سوچ میں مزید شدت آئی ہے۔ اگرچہ اکثر عرب ممالک جوہری ٹیکنالوجی کے حقیقی حصول سے بہت دور ہیں لیکن مغربی ممالک خطے میں جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کی ہر کوشش کو بدبینی اور شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اس بارے میں قوم پرست تجزیہ کار اکثر اس مسئلے کے سیاسی پہلو پر روشنی ڈالنے سے غفلت برتتے ہیں جو خطے میں حکومتوں کے ڈھانچے سیاسی نظاموں کی نوعیت پر مشتمل ہے۔ کیا اسلامی ممالک کی جانب سے ممکنہ طور پر جوہری ہتھیاروں کے حصول کے بارے میں مغرب کی تشویش اس وجہ سے ہے کہ ان کے استعمال کا اختیار صرف ایک شخص کے پاس ہے اور اس پر کوئی پارلیمانی یا عدلیہ کی نگرانی نہیں پائی جاتی؟ لیکن یہ توجیہہ بھی قابل قبول نہیں ہے چونکہ چین، روس اور شمالی کوریا جیسے ممالک بھی جمہوری ڈھانچے سے برخوردار نہیں ہیں جبکہ ان کے پاس گذشتہ کئی سالوں سے جوہری ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اسی طرح انڈیا اور پاکستان جوہری ہتھیاروں کی روک تھام سے متعلق عالمی معاہدوں میں شامل نہ ہونے کے باوجود ان ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب کے معیار دوہرے ہیں۔
پاکستان کے بارے میں کچھ کا خیال ہے کہ یہ مسلمان ملک ایسے وقت ایٹمی طاقت بننے میں کامیاب ہو گیا جب دیوار برلن گر جانے کے باعث جیوپولیٹیکل عدم استحکام حکمفرما تھا۔ شاید جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کا دور ہونا یا اس وقت مغرب کی فضائیہ کا کمزور ہونا ان کی جانب سے پاکستان کے خلاف فوجی مداخلت نہ کرنے کا باعث بن گئے تھے۔ مغرب کی متعصبانہ مذہبی نگاہ ثابت کرنے کے لیے بہترین مثال "اسرائیل" ہے۔ یہ رژیم اگرچہ مذہبی رنگ کی حامل ہے اور اس پر دائیں بازو کی شدت پسند جماعتوں کا غلبہ ہے لیکن وہ بین الاقوامی نظارت کے بغیر اور مغرب کی مکمل خاموشی کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کی مالک ہے۔ غزہ کے خلاف حالیہ جنگ میں حتی صیہونی رژیم کے وزیر ثقافت عمیحای الیاہو نے غزہ پر ایٹم بم گرا دینے کی پیشکش بھی کر دی تھی۔
ان تمام حقائق کے باوجود مغربی ممالک اسرائیل کے پاس موجود جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کو مزید مضبوط بنانے میں براہ راست کردار ادا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس نے ڈیمونا نیوکلیئر ری ایکٹر بنا کر دیا، برطانیہ اور ناروے اسرائیل کو بھاری پانی فراہم کرتے ہیں جبکہ امریکہ نے براہ راست اور بالواسطہ طور پر اسرائیل کو افزودہ یورینیم، جوہری تنصیبات کی ٹیکنالوجی اور میزائل ایئرڈیفنس سسٹم فراہم کیا ہے۔ اسی طرح جرمنی نے جوہری توانائی سے چلنے والی جدید ترین "ڈولفن" سب میرینز اسرائیل کو دی ہیں اور بیلجیئم اپنے زیر تسلط افریقی ملک زائر سے یورینیم کی کچ دھات اسرائیل کو فراہم کر رہا ہے۔ دوسری طرف عرب ممالک کے جوہری پروگرام مغربی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں۔ جیسا کہ 1979ء میں فرانس کی انٹیلی جنس ایجنسی نے موساد کی مدد سے عراق کو بیچے گئے جوہری ری ایکٹر کو ناکارہ بنا دیا تھا۔
یا لیبیا شدید اقتصادی پابندیوں کا نشانہ بنا اور آخرکار معمر قذافی کی حکومت گرا دی گئی۔ ان دوغلی پالیسیوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی ممالک کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی کی اجازت نہ دینے کی اصل وجہ قانونی یا سیکورٹی نوعیت کی نہیں بلکہ اس کی جڑیں مذہبی تعصب اور اسلام دشمنی میں ہیں۔ مغربی ممالک یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مشرق وسطی میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی اس خطے کے ناامن ہو جانے کا باعث بنے گی۔ لہذا ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق سامنے آنے والے حالات و واقعات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ ٹکراو ایک وسیع تہذیبی جنگ کا حصہ ہے جس کی بنیاد اسلام دشمنی پر استوار ہے اور اس کا مقصد اسلامی دنیا کو طاقتور ہونے سے روکنا ہے، چاہے اس کے لیے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔