کیا بھارت پاکستان کا دریائی پانی روک سکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
بھارت نے 1960 کے انڈس واٹرز ٹریٹی کو معطل کرنے کے بعد پاکستان کے دریائی پانی کو روکنے یا گنجائش کم کرنے کی دھمکی دی ہے۔ بھارتی ہوم منسٹر امت شاہ نے اعلان کیا ہے کہ بھارت راجستھان کے لیے پانی موڑنے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے اور پاکستان کو پانی سے محروم رکھے گا۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت سندھ طاس معاہدے کو معمول کے طور پر بحال کرے، ترجمان دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ
معاہدے کی معطلی اور اس کا پس منظر
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق پاک بھارت کے درمیان انڈس واٹرز ٹریٹی کا بنیادی مقصد دریاؤں کا پائیدار اشتراک تھا، جسے بھارت نے محفوظ انداز میں مؤخر کرنے کا اعلان کیا۔ بھارت اس فیصلے کو نئے حالات اور قومی مفاد کا جواز دیتا ہے، مگر پاکستان نے اسے بین الاقوامی قانون اور پانی کے حق کی خلاف ورزی تصور کیا ہے۔
کیا بھارت پانی روک سکتا ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ فوری طور پر پانی روکنا عملی طور پر ممکن نہیں، کیونکہ بھارت کے پاس ڈیم یا ذخائر موجود نہیں۔
پاکستان کی فصلوں اور معیشت کے لیے خطرہ
پاکستان 80 فہصد زرعی پیداوار اور توانائی کا انحصار انڈیا کی جانب سے آنے والی نہروں پر کرتا ہے۔ ان دھمکیوں سے پاکستان کی زرعی پیداوار، معاشی استحکام اور عوامی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔
’پانی بند کرنا ایک جنگ ہے‘، پاکستان کا ردعمل
پاکستانی فوجی ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر سمیت دیگر رہنماؤں نے اس اقدام کو ’پاگل پن‘ قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر شدید ردعمل کا عندیہ دیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ دریائی پانی روکنے کی کوشش ریڈ لائن عبور کرے گی ۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الجزیرہ امت شاہ انڈس واٹر ٹریٹی بھارت پاکستان سندھ طاس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: الجزیرہ امت شاہ انڈس واٹر ٹریٹی بھارت پاکستان
پڑھیں:
مولانا مسعود ازہر ‘حافظ سعید اور بلاول زرداری
’’اگر بھارت تعاون کرے تو مخصوص افراد (مولانا مسعود ازہر اور حافظ سعید)کی حوالگی پر پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا‘‘ الجزیرہ کو دیا گیا یہ بیان کسی ایئرے ،غیرے، نتھو خیرے کا نہیں بلکہ اس سیاستدان کا ہے کہ جس کی ماں اور نانا ، پاکستان کے وزیراعظم رہے اور والد آج بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ہیں، یعنی مسٹر بلاول زرداری ، بلاول زرداری کے اس بیان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر خاصی بحث جاری ہے اور مختلف تجزیہ کار اس بیان کو متنازعہ ، سفارتی بدحواسی ، بلکہ آئین پاکستان، ریاستی خودمختاری، قومی عزت اور پاکستان کی مستقل پالیسی کی کھلی توہین قرار دے رہے ہیں، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پوری پاکستانی قوم میں غم و غصہ اور بے چینی پیدا کرنے والا یہ بیان بلاول زرداری کی ذہنی اختراع ہے،یا پھر اسکے پیچھے کسی مخصوص طاقتور لابی کا ذہن کار فرما ہے ؟مولانا محمد مسعود ازہر اور حافظ محمد سعید سڑک چھاپ سیاست دان یا بڑھک مار شخصیات تو ہیں نہیں،کہ بلاول زرداری جنہیں انڈیا کے حوالے کرنے کی بات کر رہے ہیں ،بلکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ مولانا ازہر سے صرف پاکستانی قوم ہی نہیں بلکہ انڈیا کے لاکھوں مظلوم انسان بھی محبت کرتے ہیں ،یاد رہے کہ اس خاکسار نے صرف ’’مسلمان‘‘نہیں بلکہ ’’انسان‘‘لکھا ہے،اور حافظ سعید کی بھی یہی کیفیت ہے،یہ بات واضح ہے کہ پاکستانی آئین کا آرٹیکل 9 ہر شہری کے جان و مال کی حفاظت کو ریاست کی بنیادی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ کسی بھی پاکستانی شہری کو کسی غیر ملکی حکومت کے کہنے پر حوالگی کی بات کرنا آئین کی صریحا ًخلاف ورزی ہے۔ پاکستانی قانون کے تحت کسی شہری کو کسی دشمن ریاست کے حوالے کرنا نہ صرف قانونی بغاوت کے زمرے میں آتا ہے بلکہ قومی سلامتی کے مفادات سے کھلا انحراف بھی ہے۔ہم جس بھارت کی بات کر رہے ہیں، وہ کوئی عام ہمسایہ ملک نہیں ، بلکہ وہ ایک ریاستی دہشت گرد ہے، جس نے کلبھوشن یادیو جیسے دہشت گردوں کو پاکستان میں بھیجا۔ جس کے ایجنٹ پاکستان کے طول و عرض میں دہشت گردی کی آگ بھڑکانے میں مصروف رہتے ہیں،جو آج بھی بلوچستان، کراچی، فاٹا اور دیگر علاقوں میں بدامنی کے نیٹ ورک چلارہا ہے، جو کشمیر میں نسل کشی اور انسانیت سوز مظالم کا مرتکب ہے۔جس بھارت کی ظالم فوج ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو شہید کر چکی ہے، جس بھارت کی ظالم فوج ہزاروں کشمیری خواتین کو بے آبرو کر چکی ہے ، جس بھارت میں گائے کو ذبح کرنے کے نام پر مسلمانوں کو قتل کر دیا جاتا ہے، جس بھارت میں صرف ایک بابری مسجد ہی نہیں بلکہ بابری مسجد جیسی درجنوں تاریخی مساجد پر نریندر مودی حکومت کی سرپرستی میں شدت پسند ہندو قبضہ کر چکے ہیں اور ابھی ان کا مزید یہ اعلان ہے کہ وہ ہر تاریخی مسجد پر قبضہ کر کے اسے مندر میں تبدیل کریں گے،جس بھارت نے ابھی حالیہ مہینوں میں پاکستانی سرحدات کو روندتے ہوئے بہاولپور ‘مظفرآباد ‘مرید کے تک مساجد کو نشانہ بنایا اور معصوم بچوں اور عورتوں کو شہید کیا،جس بھارت کا وزیر اعظم نریندر مودی بذات خود خطے کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے جس کے لئے بھارت کے اندر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی جانوں سے کھیلنا اور املاک پر قبضہ کرنا حکومتی پالیسی کا حصہ ہے اس بھارت کو مولانا محمد مسعود ازہر اور حافظ محمد سعید کی حوالگی کی بات کرنا نرم سے نرم لفظوں میں بھی پاکستان کے آئین اور ریاست پاکستان کی غیرت سے بغاوت ہی کہلائے گا،بھارت جیسے دہشت گرد ملک کے گرفتار پائلٹ ’’ابھی نندن‘‘کو ’’کڑک چائے‘‘پلا کر پروٹوکول کے ساتھ رخصت کرنا اور اسی دشمن ریاست کی جھوٹی خوشنودی کے لئے اپنے شہریوں کی حوالگی کی پیشکش کرنا صرف سفارتی جہالت ہی نہیں بلکہ پاکستان کے عالمی موقف، سفارتی بیانیے اور آئینی حلف سے بھی انحراف کے مترادف ہے۔بلاول زرداری آپ ہی اپنی ادائوں پہ غور کریں ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی‘ کیا بلاول بھٹو کو معلوم نہیں کہ پاکستان کی حوالگی کی پالیسی واضح ہے، پاکستان صرف ایکسٹراڈیشن ٹریٹی (Extradition Treaty) کے تحت اور وہ بھی صرف غیر متنازع معاملات میں حوالگی کر سکتا ہے، وہ بھی دوست ممالک کو، دشمن ریاست کو نہیں!پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ کوئی حوالگی معاہدہ موجود ہے، نہ سفارتی اعتماد، نہ قانونی بنیاد۔ ایسی صورت میں یہ پیشکش کرنا سفارتی خودکشی ہے۔یہ وہی طرزِ عمل ہے جو 9/11 کے بعد رسوا کن ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے تاریک دور میں ڈالروں کے عوض اپنے شہریوں کو بیچنے والوں نے اپنایا تھا۔
آج شائد وہی سوداگری ایک نئی شکل میں بھارت کی خوشنودی کے لئے کی جا رہی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا بلاول زرداری اپنے اس متنازعہ بیان سے رجوع کریں گے ؟ پاکستان ایک غیرت مند ریاست ہے‘ اس غیرت مند ریاست کے 25کروڑ غیرت مند باسی کبھی نہیں چاہیں گے کہ ہمارے حکمران نریندر مودی حکومت کے دم چھلے بن کر پاکستان کے عظیم بیٹوں کو بھارت کے حوالے کر دیں، رسوا کن ڈکٹیٹر اپنے سیاہ ترین کارناموں سمیت قبر کی پاتال میں گم ہو گیا، اس لئے اس کی بدنام زمانہ اور کفریہ طاقتوں کی خوشامدانہ پالیسیوں کو دفن کر دینا چاہیے۔اس معاملے پر پارلیمنٹ، دفتر خارجہ اور قومی سلامتی کمیٹی کو بلاول زرداری کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کی وضاحت کرنی چاہیے۔
مولانا مسعود ازہر نےجموں ،کورٹ بلوال اور تہاڑ جیل قومی خزانہ لوٹنے یا منی لانڈرنگ کیس کی وجہ سے نہیں کاٹی ، نہ ہی ان پر پر سکھ حریت پسندوں کی لسٹیں دہلی حکومت کے حوالے کرنے کا کبھی کوئی الزام لگا، مولانا محمد مسعود ازہر اور حافظ محمد سعید کے خاندانوں کے 80سالہ تاریخی ریکارڈ کو کھنگال لیں، ان کے کسی رشتے دار پر ریاست پاکستان کے خلاف کام کرنے، اسلحہ اٹھانے یا پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا کوئی الزام بھی نہیں ہے،ہاں انہوں نے ایک کروڑ کے لگ بھگ مظلوم و مجبور اور مقہور کشمیری مسلمانوں کی غلامی کو آزادی میں بدلنے کے خواب اپنی انکھوں میں ضرور سجا رکھیں ہیں، پاکستان کے یہ دونوں عظیم بیٹے سچے محب وطن ہیں، انہیں ہندوستان کے حوالے کرنے کی باتیں کرنے والے اگر ملکی سلامتی کو دا ئو پہ لگانے کی کوشش کریں گے تو یہ قوم اسکی انہیں کبھی اجازت نہیں دے گی۔