لاہور:

پنجاب بھر میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائی گئی 17 ڈسٹرکٹ کنزیومر عدالتیں 19 سال بعد باقاعدہ ختم کر دی گئیں، ججز کو لاہور ہائی کورٹ رپورٹ پیش کرنے کا حکم کردیا گیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب بھر میں 2006ء میں صارفین کے حقوق کے لیے یہ عدالتیں بنائی گئی تھیں، منگل 29 جولائی سے پنجاب بھر کی یہ تمام اسپیشل کنزیومر کورٹس مکمل بند ہوگئی ہیں، ان عدالتوں کا ریگولر اسٹاف دیگر عدالتوں دفاتر میں تبدیل کیا جارہا ہے جبکہ کنٹریکٹ اور عارضی تمام اسٹاف کو برطرف کر دیا گیا ہے۔

ان عدالتوں میں مجموعی طور پر 1682 کیسز زیر سماعت تھے، اسپیشل کنزیومر کورٹ راولپنڈی میں زیر سماعت مقدمات کی تعداد 97 تھی، ان عدالتوں میں زیر سماعت تمام مقدمات ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی کو ارسال کئے جارہے ہیں۔

راولپنڈی کنزیومر کورٹ اسٹاف نے بتایا کہ ان کیسوں کی فہرست فائلوں کے ساتھ تیار کی جارہی ہے، آئندہ دو روز میں یہ مکمل ریکارڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پاس پیش کر دیا جائے گا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز ان عدالتوں کے مقدمات ایڈیشنل سیشن ججز کی عدالتوں میں ٹرانسفر کر دیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ان عدالتوں

پڑھیں:

ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار

لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔

عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔

درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔

پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔

عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

متعلقہ مضامین

  • نمبر پلیٹس کا ڈیزائن  تبدیل کرنے  کی تجویز
  • افغانیوں کو دکان و گھر کرائے پر دینے والے مالکان پر 79 مقدمات درج
  • عمران خان کیخلاف مقدمات انسداد دہشتگردی عدالت منتقل
  • ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
  • پنجاب میں زمین کے مقدمات کا 90 دن میں فیصلہ، آرڈیننس منظور
  • عمران خان کے مقدمات کی سماعت اب اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے ہوگی
  • پنجاب حکومت کابانی پی ٹی آئی کے 11مقدمات اے ٹی سی راولپنڈی منتقل کرنے کا فیصلہ
  • 9 مئی کے مقدمات: عمران خان کے ٹرائل کا نیا شیڈول جاری
  • عمران خان کیخلاف 9 مئی کے 11 مقدمات کے ٹرائل کا نیا نوٹیفکیشن جاری
  • قبضہ مافیا کا خاتمہ؛ پنجاب میں پراپرٹی آرڈیننس منظور، مقدمات کے فیصلے 90 دن میں ہوں گے