پروفیسر خالد ہمایوں ان دنوں اپنی آپ بیتی قلمبند کر رہے ہیں۔ اگرچہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اسے جلد سے جلد مکمل کرنا چاہتے ہیں، مگر چونکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی دفتری اورگھریلو ذمے داریوں میں کمی نہیں ہوئی، لہٰذا جو تاخیر ہے، وہ قابل فہم ہے۔
آپ بیتیاں لوگ لکھتے رہتے ہیں، مگر خالد ہمایوںکی آپ بیتی کی اہمیت یہ ہے کہ ان کی تمام عمر سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل کا تجزیہ کرتے، اور اس تناظر میں مودودی صاحب کے فلسفہ و فکر اور جماعت اسلامی کے لائحہ عمل پر پیہم غوروفکر کرتے گزری ہے، اور ان کا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے اس طویل غوروفکر کا نتیجہ حوالہ ء تاریخ کر دیں۔
خالد ہمایوں کا تعلق پاکستان کی اس پہلی نسل سے ہے، جس نے شعور کی آنکھ کھولی، تو ملک پر آمریت کا راج تھا۔ ان کا بچپن گوجرانوالا کے محلہ بختے والا میںگزرا۔ ان کی عمر دس برس تھی، جب ان کے والد محمد اسماعیل کشمیری گوجرانوالا سے نقل مکانی کرکے گجرات آباد ہو گئے؛ مگر اس سے پہلے کہ نئے شہر میں اپناکاروبار جمانے اور چمکانے میں کامیاب ہوتے، راہی ملک عدم ہو گئے۔ اس طرح لڑکپن کا وہ سہانا دور جو موج مستی کرنے کا ہوتا ہے، خالد ہمایوں کے لیے یہ کڑی دھوپ کا سفر تھا ۔ آٹھویں تک گھر کے پاس ہی کھیتوں میں واقع ایک اسکول میں پڑھتے رہے۔
پڑھائی میں ان کی لگن دیکھ کر ماموں نے ان کو شہر کے پبلک ہائی اسکول میں داخل کرا دیا۔ یہاں سے میٹرک کرنے کے بعد سرسید کالج سے بی اے کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات اور قائداعظم یونیورسٹی سے ایم اے تاریخ کر چکے، تو معلوم ہوا کہ پنجاب یونیورسٹی ہی میں ان کو لیکچرر شپ مل سکتی ہے، بشرطیکہ ایم اے پنجابی ہوں۔ چنانچہ ایم اے پنجابی بھی کر لیا، اور ستمبر 1982ء میں اورینٹل کالج میں لیکچرر ہو گئے۔
خالد ہمایوں سے میری راہ و رسم اسی زمانے میں پیدا ہوئی۔ وہ گجرات اپنے گھر آئے ہوئے تھے۔ ان کے دوست مشتاق فاروقی بھی اتفاق سے ان دنوں شہر میںتھے، جو میرے اسکول ٹیچر سہیل انور سید کے بے تکلف دوست اور جماعت اسلامی کے کارکن تھے۔ ایک روز خالد ہمایوں سر راہ مل گئے، تو مشتاق فاروقی اور میں اُن کے گھر پہنچ گئے، جو جامع مسجد کالری دروازہ کے پہلو میں ایک گلی کے اندر تھا۔ گھر مقفل تھا۔
خالد ہمایوں نے جیب سے چابی نکالی اور تالا کھولا۔ اندرداخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ اب اس گھر میں صرف ان کی کتابیں ہی سکونت پذیر ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کتابوں کے اسی ڈھیر میں سے، انھوں نے ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ کا مجموعہ اٹھایا، اور میری طرف بڑھا دیا۔ کافی عرصہ تک یہ مجموعہ میرے پاس محفوظ رہالیکن آج میرے پاس نہیں۔ یوں، اشفاق احمد اور خالد ہمایوں سے میرا ایک ساتھ ہی تعارف ہوا۔
ان چند ملاقاتوں کے دس برس بعد ، خالد ہمایوں سے لاہور میں ایک ہفت روزہ کے دفتر میں پھر ملنا ہوا، جہاں وہ ڈائجسٹ کی مجلس ادارت کے سینئر بلکہ واحد رکن تھے۔
اس کے بعد ان سے رابطہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ لاہور آ کے یہ انھی کی مشفقانہ رفاقت ہے، جس کی بدولت علم و مطالعہ کا شوق وذوق کبھی ماند نہیں پڑا، بلکہ کتابوں کے انتخاب، حصول اور ان کی حفاظت کا قرینہ بھی انھی سے سیکھا ہے۔ ان کا ذاتی کتب خانہ آج بھی نادر و نایاب کتب سے بھرا ہوا ہے، حالانکہ اس ذخیرہ میں سے ہزاروں کتابیں یو ایم ٹی یونیورسٹی اور میر ٹرسٹ گجرات کو منتقل کر چکے ہیں۔ یہ جو صاحبان علم کی مدح میں کہا جاتا ہے کہ ’علم ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہوتاہے ‘‘یہ محاورہ خالد ہمایوں کا کمرہ دیکھیں، تو لغوی اور معنوی دونوں اعتبار سے، ان پر صادق آتا ہے۔ علم و مطالعہ اورکتب خانہ سے ان کے عشق کی بھی ایک کہانی ہے۔
خالد ہمایوں ابھی دوسری جماعت میں تھے، جب گوجرانوالا میں گھر کے قریب مسجد میں مولانا عبدالرحمان جامی کی دلگداز تقریروں نے ان کو اس قدر متاثر کیا کہ آج تک ان کے سحر سے باہر نہیں نکل پائے۔ ایک بار جامی صاحب کو ان کے کتب خانہ میں، مسند پر دراز، چاروں طرف سے کتابوں میں گھرے ہوئے، دنیا وما فیہا سے بے نیاز، مطالعے میں محو پایا، تو یہ منظر خالد ہمایوں کے دل میں اس طرح کھب گیا کہ ان کی آیندہ زندگی اسی کا منظر نامہ بن گئی۔ وہ گوجرانوالا اورگجرات کے مذہبی مناظروں سے اکتا چکے تھے، جب مودودی صاحب کے متوازن، عام فہم اور مدلل دینی لٹریچر کی طرف مائل ہوئے، اور جماعت کے اجتماعات میں جانا شروع ہو گئے۔ کالج دور میں اس کے شعبہ اطلاعات کی مرکزی کانفرنس میں گجرات جماعت کی نمایندگی بھی کی۔پنجاب یونیورسٹی میں دوران تعلیم جمعیت سے وابستہ رہے، بلکہ ہوسٹل نمبر7 کے ناظم تھے۔ اچھرہ میں مودودی صاحب کی رہایش گاہ پر ان کی روزانہ مجلسوں سے بھی مستفید ہوتے رہے۔
اورینٹل کالج میں تقرر کے بعد ابتدائی طور پر تنظیم اساتذہ پاکستان میںبھی فعال رہے۔ لیکن یہی وہ دور ہے، جب وہ سوشلسٹ دانشور آفتاب مفتی ایڈوکیٹ کی علمی و فکری محفلوں میں شرکت کے لیے خاص طور پر لاہور سے گجرات آتے تھے۔ بقول ان کے، یہ مفتی صاحب ہی کا فیضان ِ نظر تھا کہ انھوں نے مودودی صاحب کے فلسفہ و فکرکو پہلی بار تنقیدی کسوٹی پر پرکھنا شروع کیا، اور اُن پر جماعت کے سماجی و معاشی نظریات کا کھوکھلا پن آشکار ہوا۔ یوں، خالد ہمایوں کا وہ فکری سفر، جو عبدالرحمان جامی کے مسحورکن خطاب جمعہ کی سماعت سے شروع ہوتا ہے، عنایت اللہ گجراتی اور محمود شاہ گجراتی کے جنگجویانہ مناظروں سے ہوتا ہوا،مودودی صاحب و جماعت اسلامی کی فکری وادیوں سے گزرتا ہوا، اپنے پیر و مرشد آفتاب مفتی ایڈوکیٹ کے فلسفہ و فکر پر ، ان کے آستانہ عالیہ پر لنگر انداز ہو جاتا ہے۔
خالد ہمایوں کے اس ذہنی سفر کا خلاصہ یہ ہے کہ مودودی صاحب چونکہ بوجوہ جدید دور کے سیاسی، معاشرتی، خاص طور پر معاشی تقاضوں کو پوری طرح سمجھ ہی نہیں سکے ، لہٰذا ان کی اسلام کی تعبیر وتشریح بھی روح عصر سے خالی اور سطحی ہے، اور یہی ان کی فکری وارث جماعت کا المیہ اور ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس سوچ کا اظہار اس خط سے بھی ہوتا ہے، جو انھوں نے حافظ نعیم الرحمان کو نیا امیر جماعت منتخب ہونے پر ارسال کیا تھا:’’حافظ صاحب، شاید آپ نے پڑھا ہو، مولانا مودودی نے ’سیاسی کشمکش، حصہ سوم‘میں لکھا تھا کہ ہماری لڑائی اس فاسد نظام سے ہے، ہم اس میں پیچ ورک کے قائل نہیں، ہم تو اسے جڑ سے اکھاڑ پھیکنا چاہتے ہیں، پھر جماعت بن گئی اور وہ پاکستان چلے آئے، فاسد نظام والی بات کہیں اُدھر ہی رہ گئی، اُن کے جانشین بھی بھول گئے، آپ کے خطاب سے معلوم ہوا کہ آپ بھی اسی راستے کے مسافر ہیں۔‘‘ خالد ہمایوں کے اس خط کو مگر انھوں نے اتنی اہمیت بھی نہیں دی کہ رسید کے طور پرسہی، جواباًدو سطریں لکھ کے ان کو بھیج دیتے۔
خالد ہمایوں کے فکری نشیب و فراز کی کہانی، جو گزشتہ ساٹھ برس پر پھیلی ہوئی ہے، ہر اس درد مند، صاحب شعور اور حساس فرد کی کہانی ہے، جو اپنے عہد کی ظالمانہ ناہمواریوں کو محض تقدیر کا لکھا سمجھ کر آگے نہیں بڑھ سکتا، اور اس کے حقیقی محرکات تک پہنچنے کی جستجو کرتا ہے، بھلے اس کے نتیجہ مستقبل کے حوالہ سے زندگی بھر امیدو بیم کی کیفیت سے دوچار رہے کہ نہ آس ٹوٹتی ہو تی ہے، نہ امید بر آتی ہے، اور اس کے دل ِزار سے فقط یہی پکار اٹھتی ہے کہ
یارب کجاست محرم رازے کہ یک زمان
دل شرح آں دہدکہ چہ دید و چہا شنید
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خالد ہمایوں کے انھوں نے ہو گئے کے بعد ایم اے
پڑھیں:
ہم پانی، بجلی نہیں، صرف امن لینے کے لیے گھروں سے نکلے ہیں، مولانا ہدایت الرحمن
ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے کہا کہ اگر مودی بلوچستان میں پیسہ لگا سکتا ہے تو پاکستان کے حکمران بلوچ نوجوانوں پر سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے؟ ہم سوال پوچھنے جا رہے ہیں کہ بلوچستان کو میدانِ جنگ کیوں بنا دیا گیا ہے؟ را کو ختم کس نے کرنا ہے؟ ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیوں کر رہی ہے؟ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی کے زیراہتمام بلوچستان کے حقوق کے لیے جاری "حق دو بلوچستان لانگ مارچ" مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت میں ملتان سے خانیوال روانہ، لانگ مارچ کا پرتپاک استقبال مدرسہ جامعہ العلوم میں کیا گیا، جہاں امیر جماعت اسلامی بلوچستان نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کی محرومیوں، بدامنی اور ریاستی جبر پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بلوچستان کی فریاد لے کر نکلے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو جینے کا حق دیا جائے، تعلیم و صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں اور جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پانی یا بجلی نہیں مانگ رہے، صرف انسانی زندگی کی ضمانت چاہتے ہیں۔ اس موقع پر سید ذیشان اختر امیر جماعت اسلامی جنوبی پنجاب، صہیب عمار صدیقی امیر جماعت اسلامی ملتان، زاہد اختر بلوچ نائب امیر جماعت اسلامی بلوچستان، مولانا عبد الرزاق مہتمم جامع العلوم، حافظ محمد اسلم نائب امیر جماعت اسلامی ملتان، چوہدری اطہر عزیز ایڈوکیٹ نائب امیر ضلع اور حق دو بلوچستان مارچ کے شرکاء سمیت ملتان جماعت کے دیگر ذمہ دران بھی موجود تھے۔
مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ بلوچستان میں حکومتی رٹ صرف چند گھنٹے نظر آتی ہے، باقی وقت بدامنی، خوف اور لاقانونیت کا راج ہے۔ 249 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں سے 83 ارب صرف سیکیورٹی پر خرچ ہوتے ہیں جبکہ عوام صحت، تعلیم اور روزگار سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کا آغاز بلوچستان سے ہوا، لیکن آج تک ہمیں ایک منصوبہ بھی نہیں ملا۔ کوئٹہ کراچی ہائی وے پر ہر سال ہزاروں لوگ جان سے جاتے ہیں، لیکن حکومت ایک کلومیٹر سڑک دینے کو تیار نہیں۔ بلوچستان کے ساتھ یہ مسلسل زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوئی غیرآئینی تحریک نہیں چلا رہے، ہم پرامن جدوجہد کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں گوریلا کمانڈر بنا کر پیش کرنا سراسر ظلم ہے۔ ہماری بہنوں پر اسلام آباد میں تشدد کیا جا رہا ہے، ہمارے معدنی وسائل پر قبضہ کیا گیا ہے اور ہمیں اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنا دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر مودی بلوچستان میں پیسہ لگا سکتا ہے تو پاکستان کے حکمران بلوچ نوجوانوں پر سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے؟ ہم سوال پوچھنے جا رہے ہیں کہ بلوچستان کو میدانِ جنگ کیوں بنا دیا گیا ہے؟ را کو ختم کس نے کرنا ہے؟ ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیوں کر رہی ہے؟ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ماہرنگ بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کو فوری رہا کیا جائے۔ ہم اسلام آباد جا کر اپنی بہنوں کے دھرنے میں شامل ہوں گے اور ان مظلوم ماوں، بہنوں، بچوں کی آواز ایوانوں تک پہنچائیں گے۔ بلوچستان کے عوام پروفیسر، ڈاکٹر اور امن چاہتے ہیں، جنگ نہیں۔