سی ڈی اے میں اعلیٰ سطح پر اکھاڑ پچھاڑ ، سردار خان زمری کو ڈائریکٹر واٹر ڈسٹری بیوشن کا چارج سونپ دیا گیا ،کس افسر کا کون سا چارج ملا، نوٹیفکیشن سب نیوز پر
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
سی ڈی اے میں اعلیٰ سطح پر اکھاڑ پچھاڑ ، سردار خان زمری کو ڈائریکٹر واٹر ڈسٹری بیوشن کا چارج سونپ دیا گیا ،کس افسر کا کون سا چارج ملا، نوٹیفکیشن سب نیوز پر WhatsAppFacebookTwitter 0 30 July, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)سی ڈی اے میں اعلیٰ سطح پر اکھاڑ پچھاڑ ، نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ۔ جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق سردار خان زمری کو ڈائریکٹر واٹر ڈسٹری بیوشن کا چارج سونپ دیا گیا ہے۔
عدنان یونس کو ڈائریکٹر کیو ایس کا چارج سونپ دیا گیا ہے ، علاہ ازیں انہیں ڈائریکٹر واٹر ریسورسزکا اضافی چارج بھی دیدیا گیا ہے ۔ڈپٹی ڈائریکٹر جاوید اختر زہری کو ڈائریکٹر ڈبلیو اینڈ ایس ڈویلپمنٹ کے چارج کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر سیورج کا اضافی چارج دیا گیا ہے ۔محمد عمران علی کو ڈپٹی ڈائریکٹر فنانشل ایڈوائزر ٹو اور محمد عرفان خان کو ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمن اینڈ ایچ آر کا چارج دیدیا گیا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارت سے جنگ جیتنے پر دنیا آج تک حیران ہے اور پاکستان کی تعریف کررہی ہے، وزیراعظم بھارت سے جنگ جیتنے پر دنیا آج تک حیران ہے اور پاکستان کی تعریف کررہی ہے، وزیراعظم راولپنڈی میں انسانیت کو شرما دینے والاواقعہ، سرکاری ملازم مبینہ طور پر نوجوان بیٹی سے زیادتی کرتا رہا،مقدمہ درج اسٹیٹ بینک نے نئے کرنسی نوٹوں کا ڈیزائن منتخب کرلیا اسٹیٹ بینک کا شرح سود کو برقرار رکھنے کا اعلان مایوس کن اور حکومت کی معیشت کے حوالے سے بدترین پالیسیوں کا آئینہ دارہے،... نیشنل پریس کلب اور سی ڈی اے کی ملکر سرسبز اسلام آباد مہم کے تحت ون ملین درخت لگانے کی مہم کا آغاز پھپھو کی خواہش پوری نہ ہوسکی، بھتیجے پاکستان نہیں آرہے،عظمی بخاری کا علیمہ خان پر طنز
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کا چارج سونپ دیا گیا کو ڈائریکٹر سی ڈی اے سب نیوز
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس میں کرپشن الزامات، حیران کن موڑ سامنے آ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کی گمشدگی اور کرپشن الزامات کا کیس ایک نیا اور ڈرامائی موڑ اختیار کر گیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران ایسے انکشافات سامنے آئے جنہوں نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ عدالت میں پولیس، وکیلِ صفائی اور درخواست گزار کی جانب سے پیش کیے گئے دلائل نے اس کیس کے مختلف پہلوؤں پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
سماعت کے دوران ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف باقاعدہ کرپشن کیس درج ہو چکا ہے، ان کی گرفتاری عمل میں آچکی ہے اور ان کا بیان بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عثمان نے خود اپنے تحریری بیان میں تسلیم کیا کہ وہ جاری انکوائری کے باعث روپوش تھے۔ پولیس کے مطابق عثمان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک مشہور ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی تھی۔
درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل رضوان عباسی نے اس مؤقف کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ عثمان کو 15 دن تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں گرفتاری ظاہر کی گئی۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے عثمان کو اغوا کیا گیا اور ان کی گرفتاری بعد میں ظاہر کر کے قانونی کارروائی کا لبادہ اوڑھا گیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کے دستخط زبردستی لیے گئے اور ان کے تحریری بیان کی ہینڈ رائٹنگ بھی ان سے مطابقت نہیں رکھتی۔
وکیل نے الزام لگایا کہ اغوا کے شواہد موجود ہیں، جن میں ایک ویڈیو بھی شامل ہے جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ چار افراد نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ ایک عام طریقہ کار بنتا جا رہا ہے کہ پہلے کسی کو اٹھا لیا جاتا ہے اور بعد میں اس کی گرفتاری ظاہر کر دی جاتی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ چونکہ اب مقدمہ درج ہو چکا ہے اور عثمان جسمانی ریمانڈ پر ہے، اس لیے عدالت کے لیے اسے یہاں طلب کرنا ممکن نہیں، تاہم وکیل نے مؤقف اپنایا کہ چونکہ واقعہ اسلام آباد کے دائرہ اختیار میں پیش آیا، اس لیے ہائی کورٹ کو معاملے پر سماعت کا حق حاصل ہے۔
دوسری جانب پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ ملزم کے خلاف باقاعدہ انکوائری اور ایف آئی آر دونوں موجود ہیں، اس لیے بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔ وکیلِ صفائی نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر عثمان نے واقعی رشوت لی ہے تو قانون کے مطابق کارروائی ضرور کی جائے، مگر کسی شہری کو اغوا کر کے یا غیر قانونی طور پر حراست میں رکھ کر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔
دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔