WE News:
2025-09-18@21:45:00 GMT

کون بچائے گا اسرائیل کو؟

اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT

غزہ کو اس بھوک اور پیاس کا سامنا ہے جو اس پر اسرائیل اور امریکا نے جانتے بوجھتے مسلط کی ہے۔ غذا سے بھرے ہزاروں ٹرک عین غزہ کے سامنے قطار در قطار کھڑے ہیں مگر اسرائیل اور امریکا یہ غذا، اہل غزہ تک پہنچنے میں رکاوٹ ہیں۔ اس صورتحال میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شراکت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ جب فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے اعلان کیا کہ وہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے۔ تو ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے اس اعلان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔  میکرون نے یہ اعلان غزہ کی حالیہ صورتحال کو پیش نظر رکھ کر ہی کیا تھا۔

میکرون کے بعد  برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے بھی اعلان کردیا ہے کہ اگر اسرائیل نے جنگ بندی سمیت تمام تقاضے پورے نہ کیے تو وہ بھی ستمبر میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلیں گے۔ اسٹارمر نے اپنے ویڈیو خطاب میں غزہ پر مسلط کی گئی بے رحمانہ بھوک کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ اگر آپ غور کیجیے تو کیئرسٹارمر ان لوگوں میں سے ہیں جن کی ناروا سپورٹ نے صورتحال کو اس قدر بدتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اسرائیل کی حمایت کے حوالے سے ان کا اور ٹرمپ کا موقف ایک ہی چلا آیا ہے۔

سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ مشرق وسطی کی ناجائز ریاست کے متولیوں نے صورت حال کو اتنا بدتر ہونے کیوں دیا اور جب ہوگئی تو اب یہ آپسی ٹوٹ پھوٹ کا کیوں شکار ہیں؟ اور یہ کہ ان میں سے صرف 2 ممالک ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیوں کر رہے ہیں؟ باقی یورپین ممالک بالخصوص وہ جرمنی کیوں خاموش ہے جس کے نو منتخب چانسلر نے ابھی چند ہفتے قبل ہی کہا تھا ’اسرائیل ہمارے حصے کا ہی گندہ کام کر رہا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ’اسلام کا دفاع‘

مشرق وسطی کی صورتحال کو باریکی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس جنگ کو ہمارے ہاں لوگ یوکرین کی جنگ سے بالکل الگ تھلگ کرکے دیکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ یہ معاملہ اتنا طول کیوں پکڑ رہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کی جنگ یوکرین کی جنگ سے مکمل طور پر جڑی ہوئی ہے۔  یوکرین کی جنگ کی اہمیت سمجھے بنا غزہ کی جنگ سمجھ نہیں آسکتی۔

جب بھی کوئی سلطنت زوال کا شکار ہوکر ڈوبنے کے قریب پہنچتی ہے تو دو باتیں ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ ڈوبتی سلطنت کا علاقائی اور عالمی کنٹرول اس کے ہاتھ سے سرکنا شروع ہوجاتا ہے۔ چنانچہ صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ بڑے بڑے ممالک کے کنگ سائز حکمران چھوڑیئے عرب شہزادے ہی امریکی صدر کا فون سننے سے انکار کردیتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہوتی ہے کہ ڈوبتی سلطنت کے حکمران بدحواسی میں بے مقصد قسم کی دھمکیاں ہی نہیں دینے لگتے بلکہ کوئی بڑی جنگ بھی چھیڑ بیٹھتے ہیں۔ اس کی قدیمی مثال رومن جبکہ قریبی مثال سوویت ایمپائر کی صورت موجود ہے۔ مگر ایک بار بھی ایسا نہ ہوا کہ جنگ ڈوبتی سلطنت کا زوال روک پائی ہو۔

ہر چند کہ زوال پزیر امریکا کے نزدیک زوال کو روکنے کی موزوں صورت یہ تھی کہ اس چائنا پر جنگ مسلط کردی جائے جو اس کا مقام چھیننے کی پوزیشن میں آرہا تھا۔ افغانستان سے انخلا کے چند ہی ماہ بعد وہ 30 سے زائد ممالک کی نیوی لے کر ساؤتھ چائنا سی پہنچ بھی گیا تھا تاکہ جنگ کا ماحول پیدا کیا جاسکے۔ مگر روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن نے اس غول کو یوکرین جنگ میں کھینچ لیا۔

اگر آپ غور کیجیے تو یوکرین کی جنگ اپنے تیسرے سال میں ہے۔ اور پیوٹن نے ملٹری اپریش کی حکمت عملی سے اس کی رفتار بہت سلو رکھی ہوئی ہے۔ اس حکمت عملی سے وہ تین مقاصد تو بہت واضح طور پر حاصل کرہے ہیں۔ یوکرین کی افرادی قوت کا خاتمہ، نیٹو کے اسلحہ گوداموں کو خالی کرانا، مغربی اتحاد کی معیشتوں کو ڈبونا۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جس نے غزہ کی جنگ کو طول دے رکھا ہے۔

اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ یوکرین میں شکست کا سامنا یوکرین کو ہے تو اس کا مطلب ہے وہ نہ جنگ کو سمجھتا ہے اور نہ ہی جیوپالیٹکس کو۔ وہاں شکست کا سامنا نیٹو کو ہے۔ نیٹو کا مطلب ہے اس مغربی اتحاد کو شکست کا سامنا ہے جس کے ممبر ممالک یکے بعد دیگرے صدیوں سے دنیا پر حکمرانی کرتے آرہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ سے عین قبل برے حالات صرف امریکا کے تھے۔ وہ معاشی طور پر 30 ارب سے کچھ زائد کے قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا۔  اس کی شان بڑھانے والے ایئرکرافٹ کیریئرز میں سے بیشتر کی ریٹائرمنٹ سر پر تھی اور نئے کیریئر بنانے کی سکت نہ رہی تھی۔ عراق اور افغانستان میں نصیب ہونے والی شکست نے اس کی فوج کا مورال بھی زمین پر لا پٹخا تھا۔اس کے برخلاف یورپ عسکری طور پر طاقت نہ تھا مگر کم از کم معاشی طور پر مستحکم تھا۔

مزید پڑھیے: امریکی دفاع اور منی لانڈرنگ

یوکرین کی جنگ کے آغاز میں ہی جب امریکا اور یورپی یونین نے مشترکہ طور پر روس کے خلاف معاشی پابندیوں والا کارڈ چل دیا تو وقتی کے جھٹکے بعد یہ پابندیاں اس کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگئیں اور روسی معیشت کو جیسے پر لگ گئے۔ لیکن روس کے جوابی ’گیس کارڈ‘ نے یورپین معیشتوں کا بھرکس نکال دیا ہے۔  یوں جو ممکنہ زوال صرف امریکا کا زوال نظر آتا تھا وہ واضح طور پر پورے مغرب کے ممکنہ زوال کی شکل اختیار کرگیا۔ یہ 30 سے زائد ممالک پر مشتمل انسانی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی، معاشی و عسکری اتحاد کی فقط ایک ملک کے ہاتھوں شکست ہوگی۔ سو اس کے نتائج بھی ممکنہ طور پر مغرب کے لیے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی زلزلے جیسے ہوں گے۔ نیٹو بچ پائے گی اور نہ ہی مغرب کا عالمی سیاسی اثر رسوخ۔ جس کی ابتدائی جھلک 24 جولائی کو بیجنگ ایئرپورٹ پر ساری دنیا نے یوں دیکھی کہ یورپین کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا اور یورپین یونین کی صدر ارسلہ وندر لین چین کے 3 روزہ دروے پر پہنچے۔

امریکی چمچوں کے سب سے بڑے اتحاد کے یہ رہنما طیارے سے برآمد ہوئے تو ٹارمک پر جھنڈا لگی کاروں کی جگہ وہ کوسٹر کھڑی تھی جو عام مسافروں کو ارائیول لاؤنچ تک پہنچاتی ہے۔ انہیں اسی کوسٹر میں سوار کیا گیا اور ارائیول لاؤنچ کے سامنے اتار دیا گیا۔ اور ارائیول لاؤنچ سے گزار کر انہیں ایئرپورٹ کی اس خارجی سڑک پر لایا گیا جہاں عام مسافروں کی کاروں کے ساتھ ہی ان کی جھنڈا لگی کاریں کھڑی تھیں۔ اس ڈیلی گیشن نے اسی دن چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی اور 24 گھنٹے بعد چین سے نکلتا بنا۔ حالانکہ آیا یہ 3 دن کے لیے تھا۔ اس قدام کے ذریعے چین نے دنیا کو کیا بتانے کی کوشش کی؟ یہی کہ مغربی راج کا دور اپنے اختتامی مراحل میں ہے۔

اب آپ بس اتنا سوچیے کہ اسرائیل نے پچھلے 75 سال سے کن کے زور پر اودھم مچا رکھا ہے؟ اسے مشرق وسطی کا ٹھاکر بنانے کی کوشش کرنے والے جب خود ہی ٹھاکر نہ رہیں گے تو عالمی فیصلوں کا اختیار کن کے ہاتھوں میں منتقل ہوگا؟ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان سے ہی فرصت نہیں۔ چنانچہ ان کا مشرق وسطی بیانیہ سکڑ کر بس اتنے سے جملے میں سما گیا ہے ’مسلم حکمرانوں کا ضمیر کہاں مر گیا ہے؟‘

کیا مسلم حکمران عالمی طاقت ہیں؟ جب وہ عالمی طاقت ہی نہیں ہیں تو عالمی فیصلے ان کی منشا کے مطابق کیوں ہوں گے؟ یہ فیصلے تو وہی کریں گے جو عالمی طاقت ہوں گے۔ اب تک مغرب نے کیے ہیں۔ اور جلد وہ وقت آرہا ہے جب ان فیصلوں کا اختیار گلوبل نارتھ سے گلوبل ساؤتھ کو منتقل ہوجائے گا۔ وہی گلوبل ساؤتھ جسے چین اور روس مل کر لیڈ کر رہے ہیں۔ 2 برس قبل جب اسرائیل سے لوٹنے والے روسی یہودیوں پر روس کی مسلم ریاست داغستان میں حملے کی کوشش ہوئی تو اس واقعے پر پیوٹن نے کہا تھا ’اگر کسی کی غیرت جاگ ہی گئی ہے تو وہ ہتھیار اٹھائے اور یوکرین کی اس جنگ میں شریک ہو، جس کی فتح پر فلسطین کی فتح کا دارومدار ہے‘۔

اب آپ اندازہ لگا لیجئے کہ گزشتہ ماہ روس کے سٹریٹیجک بمبار طیاروں پر ہونے والے ڈرون حملے اور ایران اسرائیل جنگ کے دوران ایران میں ہونے والے ڈرون حملوں میں مکمل یکسانیت کیوں تھی؟اگر کبھی نیویارک ٹائمز اور بی بی سی سے فرصت ملے تو ان آزاد مغربی صحافیوں اور عسکری دانشوروں کو بھی سن پڑھ لیجئے جو بتا رہے ہیں کہ دونوں حملے مربوط تھے، اور  دونوں ہی جگہ سی آئی اے اور موساد کا اشتراک تھا۔ کیا یہ سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ آخر اسرائیل نے ایران پر حملے سے قبل روسی سٹریٹیجک بمبارز کو  نشانہ بنانے کی کوشش میں حصہ کیوں لیا؟

 ہم پہلے بھی کئی بار عرض کرچکے کہ فلسطین نہیں اسرائیل کا وجود داؤ پر لگا ہوا ہے۔ مشرق وسطی میں اگر کسی کی بقا خطرے سے دوچار ہے تو وہ صرف اسرائیل ہے۔  اسی لیے اپنی بقا کے لیے وہ اب اس حد تک چلا گیا ہے کہ جب ٹینک اور طیارے فیل ہوگئے تو  موت بانٹنے کے لیے بھوک کا سہارا لیا گیا۔ کوشش کی جارہی ہے کہ مغربی زوال سے قبل کسی طرح فلسطینیوں سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑا لی جائے۔ مگر صورتحال اتنی نازک ہوگئی ہے کہ میکرون اور اسٹارمر کو اپنے ہی گھروں میں بڑی عوامی بغاوتوں کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ اور یہی ان کے تازہ مؤقف کی وجہ بنی ہے۔

مزید پڑھیں: ’غلامی آج بھی موجود ہے‘

مگر سوال یہ ہے کہ کون بچائے گا اسرائیل کو؟ وہ ٹرمپ جو دعوے کے باوجود زلنسکی جیسے پپٹ سے بھی معافی نامہ نہ لکھوا سکا؟ جس کی نیوی کو بحیرہ احمر میں محض ایک ’گروپ‘ کے ہاتھوں شکست کا مزہ چکھ کر فرار ہونا پڑا؟ جس نے چین پر لگایا ٹیرف اسقدر جلد واپس لیا کہ سمجھ ہی نہ آیا لگا کب اور ہٹا کب؟ جسے ‘نیست و نابود کردیا’ والے ڈرامے کے لیے ایران سے پیشگی اجازت حاصل کرنی پڑی؟ جس کے ایئرڈیفنس سسٹم نے ایرانی میزائلوں کے آگے کسی مرید کی طرح گھٹنے ٹیکے وہ بچائے گا؟ بچا سکتا تو تل ابیب اور حیفہ ملبے کا ڈھیر بنتے؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

اسرائیل امریکا غزہ فلسطین فلسطین بھوک.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا فلسطین فلسطین بھوک یوکرین کی جنگ کا سامنا شکست کا کی کوشش رہے ہیں کے لیے غزہ کی گیا ہے

پڑھیں:

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین معاہدہ

اسلام ٹائمز: پاکستان و سعودی عرب کے مابین طے پانے والا معاہدہ اگر اسرائیل کے مقابلے میں سعودی عرب کے دفاع سے جڑا ہوا ہے تو اس سے بہتر بات کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن اگر اس معاہدے کی ڈوری سے مبینہ طور پر یمن کے گرد شکنجہ کسنے کی کوشش کی گئی تو پھر یہ معاہدہ خود پاکستان کے لیے ایک ایسا ”ٹریپ“ ثابت ہوگا جس سے باہر نکلنا پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد جو خبر عالمی ذرائع ابلاغ کا سرنامہ بنی ہوئی ہے وہ سعودی عرب اور پاکستان کے مابین طے پانے والا تاریخی دفاعی معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ”کسی ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا“۔ گویا پاکستان پر اگر کوئی بیرونی طاقت حملہ آور ہوتی ہے تو یہ حملہ سعودی عرب پر بھی حملہ سمجھا جائے گا اور معاہدے کی رو سے سعودی عرب پر لازم ہوگا کہ وہ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو۔ پاکستان کو اپنے جنم دن کے بعد سے ہی جس ملک کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا وہ ہندوستان تھا۔

پاک و ہند کے مابین لڑی جانے والی جنگوں میں اگرچہ سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کی لیکن یہ مدد اسلامی بھائی چارے کے جذبے کے تحت تھی۔ ان جنگوں میں سعودی عرب پر پاکستان کی مدد کے حوالے سے ایک اخلاقی دباؤ ضرور تھا لیکن اس پر کسی معاہدے کی رو سے کوئی ایسی آئینی پابندی عائد نہیں تھی کہ وہ پاکستان کی حتماً مدد کرے لیکن اب اگر پاکستان پر کوئی ملک جارحیت کرتا ہے تو پھر سعودی عرب کی حکومت کی یہ آئینی ذمے داری ہوگی کہ وہ پاکستان پر حملہ خود پر حملہ اور پاکستان کے دفاع کو اپنا دفاع سمجھتے ہوئے پاکستان پر حملہ آور طاقت کو پاکستان کے ساتھ کھڑے ہو کر جواب دے۔

پاکستان کو اپنی مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ اپنی مغربی سرحد کی جانب سے بھی خطرات لاحق ہیں۔ آئے روز اس طرف سے بھی پاکستان کی سرحدوں کی پامالی ہوتی رہتی ہے۔ ٹھوس شواہد کی بنا پر اس قسم کی جارحانہ کاروائیوں میں ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان کا برابر کا ہاتھ ہے۔ پاک سعودی عرب نئے معاہدے کے تحت اگر آئندہ کبھی افغانستان، ہندوستان کے تعاون سے پاکستان کے خلاف کوئی بڑی کاروائی کرتا ہے تو پھر سعودی عرب کے لیے ناممکن ہو گا کہ وہ اس جھگڑے میں غیر جانبدار رہے۔ لہذا ہندوستان اور افغانستان کو یقینی طور پر اس معاہدے سے پریشانی لاحق ہو سکتی ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اس دفاعی نوعیت کے اہم معاہدے کا محرک قطر پر اسرائیل کا حملہ بنا۔ اسرائیل کا یہ حملہ جہاں خلیجی ریاستوں کے دفاع پر کاری ضرب تھا وہاں یہ سعودی عرب کے لیے بھی باعث تشویش تھا۔ قطر پر اسرائیلی حملے کا ایک سبب وہاں حماس کے قائدین کی موجودگی تھی۔ اس حملے کے بعد اب اسرائیل نے کھل کر اعلان کیا ہے کہ جس ملک میں بھی اسے حماس کا وجود نظر آئے گا وہ اس پر حملہ آور ہوگا۔ اس حوالے سے فی الحال جن ممالک کو اسرائیل کی جانب سے زیادہ خطرہ ہے وہ ترکی اور مصر ہیں۔ ان دونوں ممالک میں حماس کی قیادت کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔

سعودی عرب میں حماس یا کسی فلسطینی قیادت کی اس طرح سے میزبانی کے لیے دروازے کھلے نہیں ہیں۔ لہذاء سعودی عرب کو فوری طور پر اسرائیل کی جانب سے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ بلکہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد بھی یمن کے جانب سے اسرائیل کے طرف داغے گئے میزائل کو سعودی عرب نے راستے میں ہی امریکہ کے دیے گئے تھاڈ دفاعی سسٹم کے ذریعے انٹرسیپٹ کر کے یہ ثابت کیا ہے اس کی حیثیت اب بھی اسرائیل کے لیے قائم کیے گئے ایک دفاعی حصار کی سی ہے۔ پاکستان و سعودی عرب کے مابین طے پانے والا معاہدہ اگر اسرائیل کے مقابلے میں سعودی عرب کے دفاع سے جڑا ہوا ہے تو اس سے بہتر بات کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن اگر اس معاہدے کی ڈوری سے مبینہ طور پر یمن کے گرد شکنجہ کسنے کی کوشش کی گئی تو پھر یہ معاہدہ خود پاکستان کے لیے ایک ایسا ”ٹریپ“ ثابت ہوگا جس سے باہر نکلنا پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • یو اے ای کا اسرائیل سے سفارتی تعلقات میں کمی کا عندیہ
  • پاکستان اور سعودی عرب کے مابین معاہدہ
  • ڈرون کا مقابلہ کرنے کیلیے ناٹو کا مزید اقدامات پر غور
  • اسپین میں یوکرین کی حمایت جائز فلسطین کی ممنوع قرار،اسکولوں سے پرچم ہٹانے کا حکم
  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی کا مرتکب، تحقیقاتی کمیشن
  • ہمارے منجمد اثاثوں کو یوکرین کی جنگی امداد کیلئے استعمال کرنے پر سخت کارروائی کریں گے، روس
  • اسلامی کانفرنس ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘
  • عرب اسلامی سربراہ اجلاس!
  • نارڈ اسٹریم گیس پائپ لائن دھماکوں کے ملزم کی جرمنی حوالگی
  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو مٹانے کے لیے نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ