غزہ کو اس بھوک اور پیاس کا سامنا ہے جو اس پر اسرائیل اور امریکا نے جانتے بوجھتے مسلط کی ہے۔ غذا سے بھرے ہزاروں ٹرک عین غزہ کے سامنے قطار در قطار کھڑے ہیں مگر اسرائیل اور امریکا یہ غذا، اہل غزہ تک پہنچنے میں رکاوٹ ہیں۔ اس صورتحال میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شراکت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ جب فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے اعلان کیا کہ وہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے۔ تو ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے اس اعلان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ میکرون نے یہ اعلان غزہ کی حالیہ صورتحال کو پیش نظر رکھ کر ہی کیا تھا۔
میکرون کے بعد برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے بھی اعلان کردیا ہے کہ اگر اسرائیل نے جنگ بندی سمیت تمام تقاضے پورے نہ کیے تو وہ بھی ستمبر میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلیں گے۔ اسٹارمر نے اپنے ویڈیو خطاب میں غزہ پر مسلط کی گئی بے رحمانہ بھوک کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ اگر آپ غور کیجیے تو کیئرسٹارمر ان لوگوں میں سے ہیں جن کی ناروا سپورٹ نے صورتحال کو اس قدر بدتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اسرائیل کی حمایت کے حوالے سے ان کا اور ٹرمپ کا موقف ایک ہی چلا آیا ہے۔
سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ مشرق وسطی کی ناجائز ریاست کے متولیوں نے صورت حال کو اتنا بدتر ہونے کیوں دیا اور جب ہوگئی تو اب یہ آپسی ٹوٹ پھوٹ کا کیوں شکار ہیں؟ اور یہ کہ ان میں سے صرف 2 ممالک ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیوں کر رہے ہیں؟ باقی یورپین ممالک بالخصوص وہ جرمنی کیوں خاموش ہے جس کے نو منتخب چانسلر نے ابھی چند ہفتے قبل ہی کہا تھا ’اسرائیل ہمارے حصے کا ہی گندہ کام کر رہا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: ’اسلام کا دفاع‘
مشرق وسطی کی صورتحال کو باریکی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس جنگ کو ہمارے ہاں لوگ یوکرین کی جنگ سے بالکل الگ تھلگ کرکے دیکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ یہ معاملہ اتنا طول کیوں پکڑ رہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کی جنگ یوکرین کی جنگ سے مکمل طور پر جڑی ہوئی ہے۔ یوکرین کی جنگ کی اہمیت سمجھے بنا غزہ کی جنگ سمجھ نہیں آسکتی۔
جب بھی کوئی سلطنت زوال کا شکار ہوکر ڈوبنے کے قریب پہنچتی ہے تو دو باتیں ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ ڈوبتی سلطنت کا علاقائی اور عالمی کنٹرول اس کے ہاتھ سے سرکنا شروع ہوجاتا ہے۔ چنانچہ صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ بڑے بڑے ممالک کے کنگ سائز حکمران چھوڑیئے عرب شہزادے ہی امریکی صدر کا فون سننے سے انکار کردیتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہوتی ہے کہ ڈوبتی سلطنت کے حکمران بدحواسی میں بے مقصد قسم کی دھمکیاں ہی نہیں دینے لگتے بلکہ کوئی بڑی جنگ بھی چھیڑ بیٹھتے ہیں۔ اس کی قدیمی مثال رومن جبکہ قریبی مثال سوویت ایمپائر کی صورت موجود ہے۔ مگر ایک بار بھی ایسا نہ ہوا کہ جنگ ڈوبتی سلطنت کا زوال روک پائی ہو۔
ہر چند کہ زوال پزیر امریکا کے نزدیک زوال کو روکنے کی موزوں صورت یہ تھی کہ اس چائنا پر جنگ مسلط کردی جائے جو اس کا مقام چھیننے کی پوزیشن میں آرہا تھا۔ افغانستان سے انخلا کے چند ہی ماہ بعد وہ 30 سے زائد ممالک کی نیوی لے کر ساؤتھ چائنا سی پہنچ بھی گیا تھا تاکہ جنگ کا ماحول پیدا کیا جاسکے۔ مگر روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن نے اس غول کو یوکرین جنگ میں کھینچ لیا۔
اگر آپ غور کیجیے تو یوکرین کی جنگ اپنے تیسرے سال میں ہے۔ اور پیوٹن نے ملٹری اپریش کی حکمت عملی سے اس کی رفتار بہت سلو رکھی ہوئی ہے۔ اس حکمت عملی سے وہ تین مقاصد تو بہت واضح طور پر حاصل کرہے ہیں۔ یوکرین کی افرادی قوت کا خاتمہ، نیٹو کے اسلحہ گوداموں کو خالی کرانا، مغربی اتحاد کی معیشتوں کو ڈبونا۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جس نے غزہ کی جنگ کو طول دے رکھا ہے۔
اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ یوکرین میں شکست کا سامنا یوکرین کو ہے تو اس کا مطلب ہے وہ نہ جنگ کو سمجھتا ہے اور نہ ہی جیوپالیٹکس کو۔ وہاں شکست کا سامنا نیٹو کو ہے۔ نیٹو کا مطلب ہے اس مغربی اتحاد کو شکست کا سامنا ہے جس کے ممبر ممالک یکے بعد دیگرے صدیوں سے دنیا پر حکمرانی کرتے آرہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ سے عین قبل برے حالات صرف امریکا کے تھے۔ وہ معاشی طور پر 30 ارب سے کچھ زائد کے قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کی شان بڑھانے والے ایئرکرافٹ کیریئرز میں سے بیشتر کی ریٹائرمنٹ سر پر تھی اور نئے کیریئر بنانے کی سکت نہ رہی تھی۔ عراق اور افغانستان میں نصیب ہونے والی شکست نے اس کی فوج کا مورال بھی زمین پر لا پٹخا تھا۔اس کے برخلاف یورپ عسکری طور پر طاقت نہ تھا مگر کم از کم معاشی طور پر مستحکم تھا۔
مزید پڑھیے: امریکی دفاع اور منی لانڈرنگ
یوکرین کی جنگ کے آغاز میں ہی جب امریکا اور یورپی یونین نے مشترکہ طور پر روس کے خلاف معاشی پابندیوں والا کارڈ چل دیا تو وقتی کے جھٹکے بعد یہ پابندیاں اس کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگئیں اور روسی معیشت کو جیسے پر لگ گئے۔ لیکن روس کے جوابی ’گیس کارڈ‘ نے یورپین معیشتوں کا بھرکس نکال دیا ہے۔ یوں جو ممکنہ زوال صرف امریکا کا زوال نظر آتا تھا وہ واضح طور پر پورے مغرب کے ممکنہ زوال کی شکل اختیار کرگیا۔ یہ 30 سے زائد ممالک پر مشتمل انسانی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی، معاشی و عسکری اتحاد کی فقط ایک ملک کے ہاتھوں شکست ہوگی۔ سو اس کے نتائج بھی ممکنہ طور پر مغرب کے لیے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی زلزلے جیسے ہوں گے۔ نیٹو بچ پائے گی اور نہ ہی مغرب کا عالمی سیاسی اثر رسوخ۔ جس کی ابتدائی جھلک 24 جولائی کو بیجنگ ایئرپورٹ پر ساری دنیا نے یوں دیکھی کہ یورپین کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا اور یورپین یونین کی صدر ارسلہ وندر لین چین کے 3 روزہ دروے پر پہنچے۔
امریکی چمچوں کے سب سے بڑے اتحاد کے یہ رہنما طیارے سے برآمد ہوئے تو ٹارمک پر جھنڈا لگی کاروں کی جگہ وہ کوسٹر کھڑی تھی جو عام مسافروں کو ارائیول لاؤنچ تک پہنچاتی ہے۔ انہیں اسی کوسٹر میں سوار کیا گیا اور ارائیول لاؤنچ کے سامنے اتار دیا گیا۔ اور ارائیول لاؤنچ سے گزار کر انہیں ایئرپورٹ کی اس خارجی سڑک پر لایا گیا جہاں عام مسافروں کی کاروں کے ساتھ ہی ان کی جھنڈا لگی کاریں کھڑی تھیں۔ اس ڈیلی گیشن نے اسی دن چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی اور 24 گھنٹے بعد چین سے نکلتا بنا۔ حالانکہ آیا یہ 3 دن کے لیے تھا۔ اس قدام کے ذریعے چین نے دنیا کو کیا بتانے کی کوشش کی؟ یہی کہ مغربی راج کا دور اپنے اختتامی مراحل میں ہے۔
اب آپ بس اتنا سوچیے کہ اسرائیل نے پچھلے 75 سال سے کن کے زور پر اودھم مچا رکھا ہے؟ اسے مشرق وسطی کا ٹھاکر بنانے کی کوشش کرنے والے جب خود ہی ٹھاکر نہ رہیں گے تو عالمی فیصلوں کا اختیار کن کے ہاتھوں میں منتقل ہوگا؟ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان سے ہی فرصت نہیں۔ چنانچہ ان کا مشرق وسطی بیانیہ سکڑ کر بس اتنے سے جملے میں سما گیا ہے ’مسلم حکمرانوں کا ضمیر کہاں مر گیا ہے؟‘
کیا مسلم حکمران عالمی طاقت ہیں؟ جب وہ عالمی طاقت ہی نہیں ہیں تو عالمی فیصلے ان کی منشا کے مطابق کیوں ہوں گے؟ یہ فیصلے تو وہی کریں گے جو عالمی طاقت ہوں گے۔ اب تک مغرب نے کیے ہیں۔ اور جلد وہ وقت آرہا ہے جب ان فیصلوں کا اختیار گلوبل نارتھ سے گلوبل ساؤتھ کو منتقل ہوجائے گا۔ وہی گلوبل ساؤتھ جسے چین اور روس مل کر لیڈ کر رہے ہیں۔ 2 برس قبل جب اسرائیل سے لوٹنے والے روسی یہودیوں پر روس کی مسلم ریاست داغستان میں حملے کی کوشش ہوئی تو اس واقعے پر پیوٹن نے کہا تھا ’اگر کسی کی غیرت جاگ ہی گئی ہے تو وہ ہتھیار اٹھائے اور یوکرین کی اس جنگ میں شریک ہو، جس کی فتح پر فلسطین کی فتح کا دارومدار ہے‘۔
اب آپ اندازہ لگا لیجئے کہ گزشتہ ماہ روس کے سٹریٹیجک بمبار طیاروں پر ہونے والے ڈرون حملے اور ایران اسرائیل جنگ کے دوران ایران میں ہونے والے ڈرون حملوں میں مکمل یکسانیت کیوں تھی؟اگر کبھی نیویارک ٹائمز اور بی بی سی سے فرصت ملے تو ان آزاد مغربی صحافیوں اور عسکری دانشوروں کو بھی سن پڑھ لیجئے جو بتا رہے ہیں کہ دونوں حملے مربوط تھے، اور دونوں ہی جگہ سی آئی اے اور موساد کا اشتراک تھا۔ کیا یہ سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ آخر اسرائیل نے ایران پر حملے سے قبل روسی سٹریٹیجک بمبارز کو نشانہ بنانے کی کوشش میں حصہ کیوں لیا؟
ہم پہلے بھی کئی بار عرض کرچکے کہ فلسطین نہیں اسرائیل کا وجود داؤ پر لگا ہوا ہے۔ مشرق وسطی میں اگر کسی کی بقا خطرے سے دوچار ہے تو وہ صرف اسرائیل ہے۔ اسی لیے اپنی بقا کے لیے وہ اب اس حد تک چلا گیا ہے کہ جب ٹینک اور طیارے فیل ہوگئے تو موت بانٹنے کے لیے بھوک کا سہارا لیا گیا۔ کوشش کی جارہی ہے کہ مغربی زوال سے قبل کسی طرح فلسطینیوں سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑا لی جائے۔ مگر صورتحال اتنی نازک ہوگئی ہے کہ میکرون اور اسٹارمر کو اپنے ہی گھروں میں بڑی عوامی بغاوتوں کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ اور یہی ان کے تازہ مؤقف کی وجہ بنی ہے۔
مزید پڑھیں: ’غلامی آج بھی موجود ہے‘
مگر سوال یہ ہے کہ کون بچائے گا اسرائیل کو؟ وہ ٹرمپ جو دعوے کے باوجود زلنسکی جیسے پپٹ سے بھی معافی نامہ نہ لکھوا سکا؟ جس کی نیوی کو بحیرہ احمر میں محض ایک ’گروپ‘ کے ہاتھوں شکست کا مزہ چکھ کر فرار ہونا پڑا؟ جس نے چین پر لگایا ٹیرف اسقدر جلد واپس لیا کہ سمجھ ہی نہ آیا لگا کب اور ہٹا کب؟ جسے ‘نیست و نابود کردیا’ والے ڈرامے کے لیے ایران سے پیشگی اجازت حاصل کرنی پڑی؟ جس کے ایئرڈیفنس سسٹم نے ایرانی میزائلوں کے آگے کسی مرید کی طرح گھٹنے ٹیکے وہ بچائے گا؟ بچا سکتا تو تل ابیب اور حیفہ ملبے کا ڈھیر بنتے؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا فلسطین فلسطین بھوک یوکرین کی جنگ کا سامنا شکست کا کی کوشش رہے ہیں کے لیے غزہ کی گیا ہے
پڑھیں:
کس پہ اعتبار کیا؟
اسلام ٹائمز: ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
اسلامی انقلاب سے قبل ایران اور اسرائیل کے مابین تعلقات استوار تھے۔ ایران میں اسرائیل کا سفارت خانہ قائم تھا۔ امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کے افق میں مشرق مغرب کا فرق آگیا۔ اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایران اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی بساط بھی لپٹ گئی۔ جو ایران کبھی اسرائیل سے یگانگت رکھتا تھا اب اس کی اسرائیل سے مخاصمت اس کی پہچان اور اسرائیل سے دشمنی اس کے ایمان کا تقاضا ٹھہری۔
ایران اب آزادیء فلسطین کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کو کسی مقبوضہ علاقے کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی بجائے الہی فریضہ کے طور پر دیکھنے لگا۔ امام خمینی فلسطینیوں کی کامیابی کو محض ان کے اسلامی تشخص اور ان کی دین سے وابستگی میں دیکھتے تھے۔ جب کہ اس وقت فلسطینیوں کی سب سے بڑی تنظیم ”پی ایل او“ بنیادی طور پر سیکولر تشخص کی حامل تحریک تھی جس کا مقصد محض فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانا تھا۔
ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔
ایران کی مدد کو مسترد کرنے کی وجہ ایک ہی تھی اور وہ یہ کہ یاسر عرفات کو خطرہ تھا کہ کہیں فلسطینی ایران کے انقلابی نظریات سے متاثر نہ ہو جائیں۔ ایران کی اسلامی حکومت شروع دن سے ہی مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صیہونی حکومت کی مخالفت میں حالت جنگ میں ہے اور قربانیاں دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کی نمائندہ جماعتیں کبھی بھی اسے اس کا اصل مقام دینے کے لیے آمادہ نہیں رہیں۔ فلسطین کی جماعتوں نے اب تک اسرائیل سے جو معاہدے کیے ہیں وہ ایران کو بائی پاس کرکے کیے ہیں۔ مثلاً فلسطینیوں کی سب سے بڑی جماعت ”پی ایل او“ اور اسرائیل کے مابین جو ”اوسلو امن معاہدہ“ ہوا، ایران کو اس سے الگ رکھا گیا۔
ایران نے اس وقت ہی یہ کہ دیا تھا کہ ایران کو الگ تھلگ کر کے جو بھی معاہدہ کیا جائے گا اس کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے مخلصانہ کردار ادا کرنے والے ایران کے مقابلے میں وقتاً وقتاً نام نہاد کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ جعلی کردار ایران کے حقیقی کردار کے مقابلے میں آخرکار فلاپ ہوگئے۔ ایران کے مقابلے میں جو بھی کردار منظر عام پر آیا، چاہے وہ اسامہ بن لادن کی شکل میں ہو، صدام حسین کے روپ میں ہو یا اردگان کی صورت میں، اس نے فلسطینیوں کو ورغلانے کی کوشش کی ہے۔
حتیٰ کہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب حماس بھی داعش جیسے گروہ کے دام میں آگئی اور شام میں اس کے اراکین بشار الاسد کے خلاف لڑے۔ ایران اور حزب اللہ نے اس پر حماس سے اپنے راستے جدا کر لیے تھے لیکن بعد میں حماس کو احساس ہوا کہ اس سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور پھر دوبارہ ایران سے اس کے تعلقات بحال ہوگئے۔ اب لمحہء موجود میں ایک بار پھر فلسطینی اپنے بعض نام نہاد ہمدردوں کے ٹریپ میں آگئے۔
ایسے میں جبکہ کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ ایران کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کر چکا تھا، فلسطینی تنظیموں نے ایران کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ٹرمپ کے دھوکے میں آ کر اور قطر، ترکی اور مصر جیسی دوہرے معیار رکھنے والی حکومتوں کو درمیان میں لاکر ایک امن معاہدہ کیا اور اسرائیل کے وہ تمام قیدی چھوڑ دیے جو حماس کے پاس ” ٹرمپ کارڈ “ کے طور پر تھے۔ لیکن اسرائیل نے آخر وہی کچھ کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے اور اپنے وعدے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر ایک بار پھر آتش و آہن کی بارش شروع کردی ہے اور غزہ کے لوگوں نے جو جشن منایا تھا وہ ایک بار پھر ان کے سوگ میں بدل گیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اگر آج آزادیء فلسطین کے لیے لڑنے والی کوئی بھی فلسطینی تحریک یا قیادت، مظلومین جہان کی سب سے بڑی حامی قوت، اسلامی جمہوری ایران سے مکمل ہم آھنگی نہیں رکھتی اور اس کی قیادت، جو تمام عالم اسلام کی حقیقی قیادت ہے، اس کے فرمائے ہوئے کو اپنے لیے حکم کا درجہ نہیں دیتی، عالمی فریب کاروں کے دام فریب میں آتی رہے گی۔
خود آپ اپنی ہی گردن پہ گویا وار کیا
جو معتبر ہی نہ تھا اس پہ اعتبار کیا