حکومت نے شوگر ملز کو نومبر کے پہلے ہفتے کرشنگ شروع کرنے کی ڈیڈ لائن دے دی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
—فائل فوٹو
حکومت نے شوگر ملز کو نومبر کے پہلے ہفتے کرشنگ شروع کرنے کی ڈیڈ لائن دے دی اور چینی کے خفیہ ذخائر کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کے احکامات جاری کر دیے۔
کرشنگ شروع نہ کرنے کی صورت میں 3 کی بجائے 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کا پلان بنایا گیا ہے۔
حکام کے مطابق کرشنگ بروقت شروع نہ ہوئی تو 2 لاکھ 60 ہزار ٹن چینی کی قلت ہو سکتی ہے، حکومت نے وزارت فوڈ کو 5 لاکھ ٹن چینی کی درآمد کی اجازت دے رکھی ہے تاہم نومبر کے پہلے ہفتے میں کرشنگ شروع ہوگئی تو 3 لاکھ ٹن درآمد ہوگی۔
اسلام آباد پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کہا کہ.
حکام نے بتایا کہ اگست، ستمبر اور اکتوبر کے لیے ملکی ضرورت 16 لاکھ 20 ہزار میٹرک ٹن ہے، کرشنگ لیٹ ہونے کی صورت میں 21 لاکھ 60 ہزار ٹن چینی کا ذخیرہ چاہیے۔
حکام وزارت فوڈ کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں بھی 2 سے اڑھائی لاکھ ٹن چینی موجود ہوتی ہے، خفیہ اسٹاک کی تلاش کے لیے صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔
حکام نے کہا کہ خفیہ ذخائر میں ملوث شوگر ڈیلرز کے خلاف ایف آئی آرز درج کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے، حکومت نے چینی کے 19 لاکھ ٹن کے ذخائر کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے، اب بھی خدشہ ہے چند شوگر ڈیلرز نے چینی کے خفیہ ذخائر رکھے ہوئے ہیں۔
وزارت فوڈ کے حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبائی حکومتوں کو کسی کا بھی لحاظ کیے بغیر کارروائیوں کی ہدایت کی ہے، ملک میں گزشتہ 8 ماہ سے ماہانہ 5 لاکھ 40 ہزار ٹن چینی کی کھپت ہے، اس وقت ملک میں موجود 19 لاکھ ٹن چینی ساڑھے 3 ماہ کے لیے کافی ہے، 3 لاکھ ٹن درآمد سے نومبر میں بھی چینی کی قلت نہیں ہو گی۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: لاکھ ٹن چینی شوگر ملز حکومت نے چینی کی
پڑھیں:
یو این چیف کا عالمی مسائل کے حل میں سنجیدگی اختیار کرنے پر زور
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے سے قبل سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھائیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہےکہ دنیا میں پائی جانے والی تقسیم، جنگوں اور بحرانوں نے بین الاقوامی تعاون کے ہر اصول کو اس قدر کمزور کر دیا ہے جس کی گزشتہ دہائیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
Tweet URLان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ جنرل اسمبلی کے اس ہفتے کو سفارت کاری کا عالمی مقابلہ کہتے ہیں لیکن یہ پوائنٹ سکور کرنے کا موقع نہیں بلکہ مسائل کو حل کرنے کا وقت ہے کیونکہ اس وقت دنیا کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔
(جاری ہے)
متلاطم اور ان دیکھے حالاتسیکرٹری جنرل نے کہا کہ دنیا کو متلاطم اور ان دیکھے حالات کا سامنا ہے۔ جغرافیائی سیاسی تقسیم بڑھ رہی ہے، تنازعات میں شدت آ رہی ہے، موسمیاتی تبدیلی زوروں پر ہے، ٹیکنالوجی سے خطرات لاحق ہیں اور عدم مساوات بڑھتی جا رہی ہے جبکہ یہ تمام مسائل فوری حل کا تقاضا کرتے ہیں۔
جنرل اسمبلی میں آئندہ ہفتے 150 سے زیادہ ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت اور ہزاروں حکام و سفارت کار شرکت کر رہے ہیں۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس دوران وہ خود بھی 150 سے زیادہ دوطرفہ ملاقاتیں کریں گے اور عالمی رہنماؤں سے ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے کو کہیں گے تاکہ تقسیم کا خاتمہ ہو، خطرات میں کمی لائی جائے اور مسائل کا حل ڈھونڈا جا سکے۔جنرل اسمبلی کے مرکزی موضوعاتسیکرٹری جنرل نے امن، موسمیات، ذمہ دارانہ اختراع، صنفی مساوات، ترقیاتی مالیات اور اقوام متحدہ میں اصلاحات کو اس ہفتے کے مرکزی موضوعات قرار دیا۔
انہوں نے غزہ، یوکرین، سوڈان اور دیگر علاقوں میں جنگیں روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات پر زور دیا اور مشرق وسطیٰ میں فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کی بنیاد پر منصفانہ و پائیدار امن قائم کرنےکی ضرورت کو دہرایا۔
موسمیاتی مسئلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد سے نیچے رکھنے کے لیے مضبوط قومی منصوبے پیش کریں۔
سیکرٹری جنرل نے مصنوعی ذہانت کے انتظام پر عالمگیر مکالمہ شروع کرنے کا اعلان بھی کیا تاکہ جدید ٹیکنالوجی کا انسانیت کے فائدے کے لیے استعمال یقینی بنایا جا سکے۔
محض وعدے نہیں، ٹھوس پیش رفتجنرل اسمبلی کے اس اعلیٰ سطحی ہفتے میں منعقد ہونے والی پہلی دو سالہ کانفرنس میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے حکام اور عالمی رہنما پائیدار ترقی کے ا ہداف کی تکمیل کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کے وعدے کریں گے کہ فی الوقت ان میں تمام اہداف کا حصول ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
علاوہ ازیں اس موقع پر صنفی مساوات پر تاریخی بیجنگ کانفرنس کی 30ویں سالگرہ کی مناسبت سے اجلاس بھی ہوں گے۔انتونیو گوتیرش نے کہا کہ اجلاسوں کی فہرست بہت طویل ہے کیونکہ ضروریات بہت زیادہ ہیں۔ موجودہ عالمی بحران خالی خولی باتوں اور محض وعدوں کے بجائے ایسی قیادت کا تقاضا کرتے ہیں جو ٹھوس پیش رفت کے لیے پرعزم ہو۔