اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اگست 2025ء) پاکستانی خواتین میں سروائیکل کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے لیکن اکثریت میں مرض سے متعلق آگاہی کا فقدان ہے۔ مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے 9 سے 14 عمر کی لڑکیوں میں ایچ پی وی ویکسینیشن انتہائی ضروری ہے مگر اس عمل میں کئی سماجی قدغنیں حائل ہیں۔

45 سالہ نادیہ افضال (فرضی نام) صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد کے ایک گنجان آباد حصے کی رہائشی ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''نو ماہ قبل جب مجھ میں سروائیکل کینسر کی تشخیص ہوئی تو یک دم ایسا محسوس ہوتا تھا کی زندگی یہیں ختم ہوگئی ہو۔جوائنٹ فیملی سسٹم میں ایسے مرض کے متعلق بتانا ہی ایک بڑا چیلنج تھا جہاں تعلیم کے باوجود توہمات کا راج ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''مگر پھر میری دوسرے نمبر کی بیٹی نے مجھے بہت سہارا دیا جو خود بھی میڈیکل کی طالبہ ہیں۔

وہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں اپنے ساس سسر اور ایک دیور کے ساتھ رہتی ہیں۔‘‘

نادیہ بتاتی ہیں، '' ہمارے ہاں اکثر خواتین میں40 سال کے بعد پری مینو پاز( ماہواری بند ہو جانے) کا آغاز ہو جاتا ہے۔‘‘ دس گیارہ ماہ قبل جب انہوں نے جسم میں کئی تبدیلیاں محسوس کی تو یہی خیال کیا کہ وہ پری مینو پاز کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ مگر پھر انہیں بلڈ سپاٹنگ کے ساتھ درد شروع ہوا تو انھوں نے بیٹی کے مشورے سے گائناکولوجسٹ کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔

ان کی بیٹی نمرہ لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز جامشورو میں ایم بی بی ایس کی طالبہ ہیں۔ نمرہ بتاتی ہیں کہ 2024 میں ان کی یونیورسٹی میںسروائیکل کینسر سے متعلق کئی ورکشاپس منعقد کی گئی تھیں۔ وہ مقامی طالبات کے ایسے گروپس کا حصہ بھی ہیں جو سندھ کے دیہی علاقوں میں اس کینسر سے متعلق آگاہی پھیلا رہے ہیں۔

نمرہ کہتی ہیں، ''کینسر کی دیگر اقسام کی نسبت سروائیکل کینسر کی تشخیص بہت آسان ہے۔

اس کا اسکریننگ ٹیسٹ پیپ سمیئر کہلاتا ہے، جو ہر شہر میں با آسانی کروایا جاسکتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں تو بریسٹ کینسر اور ایڈز کو بھی چھپایا جا تا ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ان کی والدہ میں جب سروائیکل کینسر کی تشخیص ہوئی تو وہ بہت زیادہ دلبرداشتہ تھیں۔ انہیں خاندان اور بڑی بہن کے سسرال میں بدنامی کا خدشہ تھا لہذا ان کا اصرار تھا کہ مرض کو چھپا لیا جائے۔

نمرہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے اپنے والدین کو بہت مشکل سے قائل کیا کہ کینسر ابھی ابتدائی سٹیج پر ہے اورکیموتھراپی اور ریڈی ایشن کے ذریعے با آسانی اس کا علاج ممکن ہے۔

سروائیکل کینسر کیا ہے؟

سروائیکل کینسر پاکستانی خواتین میں پائی جانے والی کینسر کی تیسری بڑی قسم ہے۔ عموماﹰ اس کے کیسز شادی شدہ اور 50 برس سے زائد عمر کی خواتین میں سامنے آتے ہیں مگر نوجوان شادی شدہ لڑکیاں بھی اس کا شکار ہو سکتی ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق سر ویکس خواتین کی بچہ دانی کے منہ کو کہا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام سروائیکل کینسر رکھا گیا ہے۔ بعض اوقات سرویکس میں خلیات غیر معمولی تیزی سے بڑھنے لگتے اور بے قابو ہو کر سروائیکل کینسر کا سبب بنتے ہیں۔ عموماﹰ اس کی بڑی وجہ ہیومن پیپیلوما وائرس یا ایچ پی وی ہوتا ہے جو انسانی جلد کی تہوں میں پایا جاتا ہے۔

ایچ پی وی جنسی طور پر منتقل ہونے والا انفیکشن ہے۔

ڈاکٹر سعدیہ حکیم کا تعلق پشاور سے ہے، وہ حیات میڈیکل کمپلیکس پشاور میںگائناکولوجسٹ ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کینسر کی دیگر اقسام کی اسکریننگ ممکن نہیں ہے لیکن سروائیکل کینسر کی اسکریننگ سے اس کی ابتدائی اسٹیج میں ہی تشخیص کی جا سکتی ہے۔ اس ٹیسٹ کے لیے پیپ سمیئر تیار کیا جاتا ہے جس سے سرویکس کے خلیات بڑھنے اور بے قابو ہونے کا پتا لگتا ہے۔

یہ ایک سادہ سا ٹیسٹ ہے جس کی سہولت اب بہت سے دیہی علاقوں میں بھی دستیاب ہے۔

ایچ پی وی انفارمیشن سینٹر کے سن 2023 میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس برس پاکستان میں کل 5002 خواتین میں سروائیکل کی تشخیص ہوئی جن میں سے 3200 انتقال کرگئیں۔

اس حوالے سے ڈاکٹر سعدیہ حکیم کہتی ہیں کہ سروائیکل کینسر کی تشخیص اگر ابتدا میں ہو جائے تو با آسانی علاج ممکن ہے۔

لیکن ہمارے ہاں خواتین وجائنا سے خون یا رطوبتوں کے اخراج کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں، وہ یہی سمجھتی ہیں کہ ماہواری سے متعلق کوئی مسئلہ ہوگا۔ معالجین سے آخری وقت میں رجوع کیا جاتا ہے جب کینسر ایڈوانس اسٹیج پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اس مرض سے شرح اموات زیادہ ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ خواتین کو جنسی و تولیدی صحت سے متعلق مکمل معلومات ہونی چاہیئے۔

اگر وہ پری مینو پاز سے گزر چکی ہیں اس کے باوجود انہیں خون آئے یا پیشاب میں مسائل کا سامنا ہو تو فورا اپنا ٹیسٹ کروائیں۔ اسی طرح شادی شدہ لڑکیوں کو بھی اگر دو ماہواریوں کے درمیان خون آئے یا زرد رنگ کا پیپ خارج ہو تو اسے نظر انداز نہیں کریں کیونکہ یہ سروائیکل کیسنر کی علامات ہیں۔ نو عمرلڑکیوں کی ایچ پی وی ویکسینیشن کیوں ضروری ہے؟

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سروائیکل کینسر کی روک تھام کے لیے مسلسل سرگرم ہے۔

اس پروگرام کے تحت دنیا بھر میں9 سے 14 برس کی لڑکیوں کو ایچ پی وی ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ بہت سے معالجین شادی سے قبل ویکسین لگوانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں تاکہ بعد ازاں تولیدی مسائل اور سروائیکل کینسر کے خطرے سے بچا جا سکے۔

پاکستان کے صوبہ سندھ میں پہلی دفعہ سن 2022 میں ایچ پی وی ویکسینیشن کا اعلان کیا گیا تھا مگرعوامی رد عمل کے باعث اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

اب تین سال کے وقفے کے بعد صوبے میں 15 سے 27 ستمبر تک یہ مہم دوبارہ شروع کی جارہی ہے۔ یونیسف اورگلوبل الائنس فارویکسین اینڈ امیونائزیشن (گاوی) کے تعاون سے سندھ کے اسکولوں میں لڑکیوں کو یہ ویکسین لگانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ جبکہ دیہی علاقوں میں بچیوں کی سہولت کے لئے موبائل سینٹرز بنائے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر امینہ خان جانز ہاپکنز پروگرام فار انٹر نیشنل ایجوکیشن اِن گائناکولوجی اینڈ آبسٹیٹریکس کی کنٹری مینیجر ہیں اور پاکستان میں ایچ پی وی ویکسینیشن پروگرام میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایچ پی وی ویکسینیشن کامیاب نہ ہونے کی اصل وجہ عوام میں مرض سے متعلق معلومات و آگاہی کی کمی ہے۔ ان کے مطابق ایک پسماندہ معاشرے میں لوگوں کو اپنی بچیوں کو ویکسین لگوانے پر آمادہ کرنا بہت مشکل ہے مگر ہم یہ چیلنج قبول کر چکے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس مسئلے کے حل کے لیے چاروں صوبوں میں نالج، ایٹیٹیوڈ اینڈ بیہیویئر سے متعلق ایکمتنوع تحقیق کا آغاز کیا جا رہا ہے تاکہ قومی سطح پر ایچ پی وی ویکسینیشن کو کامیاب بنانے کے لیے مؤثر پالیسیاں تشکیل دی جا سکیں۔

ان کےمطابق اگلے چند ماہ میں شروع ہونے والی مہم کے لیے ملک بھر میں یہ ویکسین فری فراہم کی جائے گی جس میں یونیسف اور گاوی کی مالی معاونت شامل ہے۔

سندھ کے بعد صوبہ پنجاب میں نومبر سے شروع ہونے والی مہم میں 80 لاکھ لڑکیوں کو ویکسین لگانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں بھی اگلے چند ماہ میں ایچ پی وی ویکسینیشن کا انعقاد متوقع ہے جبکہ شورش زدہ صوبے بلوچستان میں ایسی کسی مہم کے آثار نظر نہیں آتے۔

اس حوالے سے سول ہسپتال کوئٹہ سے منسلک گائناکولوجسٹ ڈاکٹرعلیشبہ اچکزئی کہتی ہیں کہ بلوچستان میں اس مرض سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے پاس چمن بارڈر اورگرد و نواح سے ہر ماہ ایسی خواتین لائی جاتی ہیں جن میں سروائیکل کینسر آخری اسٹیج پر ہوتا ہے اور ان کا علاج ہی ممکن نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر علیشبہ کہتی ہیں کہ بلوچستان میں پسماندگی، تعلیم کی کمی اور امن و امان کی موجودہ صورتحال کے باعث فی الحال یہاں سروائیکل کینسرسے متعلق آگاہی یا ویکسینیشن مہم شروع کرنا تقریبا نا ممکن ہے۔ لیکن وہ پر امید ہیں کہ قومی سطح پر آگاہی پروگرام اور امیونائزیشن ڈرائیوز سے کچھ عرصے میں یہاں بھی سوچ میں ضرور تبدیلی آئے گی۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سروائیکل کینسر کی تشخیص میں سروائیکل کینسر میں سروائیکل کی سے متعلق آگاہی پاکستان میں خواتین میں لڑکیوں کو رہی ہیں جاتا ہے سندھ کے کے لیے

پڑھیں:

صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) دنیا میں صنفی مساوات کی جانب پیشرفت سنگین مسائل کا شکار ہے اور اس کی قیمت انسانی جانوں، حقوق، اور مواقع کی صورت میں ادا کی جا رہی ہے۔ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو رواں دہائی کے آخر تک 351 ملین سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں شدید غربت کا شکار ہوں گی۔

اقوام متحدہ کے شعبہ معاشی و سماجی امور اور خواتین کے لیے ادارے 'یو این ویمن' کی جانب سے پائیدار ترقی کے اہداف سے متعلق شائع کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت صنفی مساوات کے بارے میں کسی بھی ہدف کا حصول ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین میں غربت کی شرح گزشتہ پانچ برس میں تقریباً 10 فیصد پر ہی برقرار ہے۔ اس غربت سے سب سے زیادہ متاثرہ خواتین ذیلی صحارا افریقہ اور وسطی و جنوبی ایشیا میں رہتی ہیں۔

(جاری ہے)

گزشتہ سال ہی 67 کروڑ 60 لاکھ خواتین اور بچیاں ایسے علاقوں میں یا ان کے قریب رہتی تھیں جو مہلک تنازعات کی زد میں تھے۔ یہ 1990 کی دہائی کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔

جنگ زدہ علاقوں میں پھنس جانے والی خواتین کے لیے صرف بے گھر ہونا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ان کے لیے خوراک کی قلت، طبی خطرات اور تشدد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد اب بھی دنیا بھر میں سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔گزشتہ سال ہر آٹھ میں سے ایک خاتون کو اپنے شریکِ حیات کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ہر پانچ میں سے ایک نوجوان لڑکی 18 سال کی عمر سے پہلے بیاہی گئی۔

علاوہ ازیں، ہر سال تقریباً 40 لاکھ بچیوں کو جنسی اعضا کی قطع و برید کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سے نصف کی عمر پانچ سال سے کم ہوتی ہے۔ UN Photo/Manuel Elías بہتری کی مثال

مایوس کن اعداد و شمار کے باوجود، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب حکومتیں صنفی مساوات کو ترجیح دیتی ہیں تو کیا کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔

2000 سے اب تک زچگی کے دوران اموات میں تقریباً 40 فیصد کمی آئی ہے اور لڑکیوں کے لیے سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے امکانات پہلے سے کہیں بڑھ گئے ہیں۔

یو این ویمن میں پالیسی ڈویژن کی ڈائریکٹر سارہ ہینڈرکس نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب وہ 1997 میں زمبابوے منتقل ہوئیں تو وہاں بچے کی پیدائش زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتی تھی۔

تاہم، آج وہاں یہ صورتحال نہیں رہی اور یہ صرف 25 یا 30 سال کے عرصے میں ہونے والی شاندار پیش رفت ہے۔صنفی ڈیجیٹل تقسیم

صنفی مساوات کے معاملے میں جدید ٹیکنالوجی نے بھی امید کی کرن دکھائی ہے۔آج 70 فیصد مرد انٹرنیٹ سے جڑے ہیں جبکہ خواتین کی شرح 65 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اگر یہ ڈیجیٹل فرق ختم کر دیا جائے تو 2050 تک مزید 34 کروڑ 35 لاکھ خواتین اور بچیاں انٹرنیٹ سے مستفید ہو سکتی ہیں اور 3 کروڑ خواتین کو غربت سے نکالا جا سکتا ہے۔

اس طرح 2030 تک عالمی معیشت میں 1.5 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو گا۔

یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث کا کہنا ہے کہ جہاں صنفی مساوات کو ترجیح دی جاتی ہے وہاں معاشرے اور معیشتیں ترقی کرتے ہیں۔ صنفی مساوات پر کی جانے والی مخصوص سرمایہ کاری سے معاشروں اور معیشتوں میں تبدیلی آتی ہے۔ تاہم، خواتین کے حقوق کی مخالفت، شہری آزادیوں کو محدود کیے جانے اور صنفی مساوات کے منصوبوں کے لیے مالی وسائل کی کمی نے برسوں کی محنت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

معلومات میں کمی کا مسئلہ

یو این ویمن کے مطابق، اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو خواتین پالیسی سازی اور ڈیٹا میں نظروں سے اوجھل رہیں گی کیونکہ جائزوں کے لیے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل میں کمی کے باعث اب صنفی امور پر دستیاب معلومات میں 25 فیصد کمی آ گئی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے اقتصادی و سماجی امور لی جن ہوا نے کہا ہے کہ اگر نگہداشت، تعلیم، ماحول دوست معیشت، افرادی قوت کی منڈی اور سماجی تحفظ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تیز رفتار اقدامات کیے جائیں تو 2050 تک شدید غربت میں مبتلا خواتین اور بچیوں کی تعداد میں 11 کروڑ کی کمی ممکن ہے اور اس کے نتیجے میں 342 ٹریلین ڈالر کے معاشی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔

© UNICEF/Maldives امن، ترقی اور حقوق کی بنیاد

تاہم اس حوالے سے موجودہ پیش رفت غیر متوازن اور تکلیف دہ حد تک سست ہے۔

دنیا بھر میں خواتین کے پاس صرف 27.2 فیصد پارلیمانی نشستیں ہیں جبکہ مقامی حکومتوں میں ان کی نمائندگی 35.5 فیصد پر آ کر تھم گئی ہے۔ انتظامی عہدوں میں خواتین کا حصہ صرف 30 فیصد ہے اور موجودہ رفتار سے دیکھا جائے تو حقیقی مساوات حاصل کرنے میں تقریباً ایک صدی لگ سکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنفی مساوات کوئی نظریہ نہیں بلکہ یہ امن، ترقی، اور انسانی حقوق کی بنیاد ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اہم ترین ہفتہ شروع ہونے سے قبل جاری کردہ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اب صنفی مساوات کے لیے فیصلہ کن اقدام کا وقت آ پہنچا ہے۔ اب یا تو خواتین اور لڑکیوں پر سرمایہ کاری کی جائے گی یا ایک اور نسل ترقی سے محروم رہ جائے گی۔

سارہ ہینڈرکس نے عالمی رہنماؤں کو 'یو این ویمن کا پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ تبدیلی ممکن ہے اور نیا راستہ بھی موجود ہے لیکن یہ خودبخود حاصل نہیں ہو گی۔

یہ تبھی ممکن ہے جب دنیا بھر کی حکومتیں سیاسی عزم اور پختہ ارادے کے ساتھ صنفی مساوات، خواتین کے حقوق اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے کام کریں گی۔

رپورٹ میں 2030 تک تمام خواتین اور لڑکیوں کے لیے صنفی مساوات کی خاطر چھ ترجیحی شعبوں میں کام کی سفارش کی گئی ہے جن میں ڈیجیٹل انقلاب، غربت سے آزادی، تشدد سے مکمل تحفظ، فیصلہ سازی میں برابر شرکت، امن و سلامتی اور ماحولیاتی انصاف شامل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ
  • والدین بیٹیوں کو کینسر سے بچاؤ کی ویکسین ضرور لگوائیں: آصفہ بھٹو 
  • ٹنڈوالٰہیار میں سروائیکل کینسر بچائو مہم کا افتتاح کردیا گیا
  • خیرپور،ضلعی انتظامیہ کی جانب سے سروائیکل کینسر سے بچائو کی مہم کا آغاز
  • سندھ میں ایچ پی وی ویکسینیشن مہم، پاکستان ویکسین فراہم کرنیوالا 149واں ملک بن گیا
  • فاروق اعوان اور رومہ مشتاق مٹو کے ہاتھوں سروائیکل کینسرسے بچاؤ کی ویکسینیشن کمپین کا افتتاح
  • آصفہ بھٹو نے سروائیکل کینسر سے بچاؤ کی ویکسین کی مہم کو سنگ میل قرار دیدیا
  • ڈسٹرکٹ سینٹرل میں سروائیکل کینسر سے بچاؤ کی خصوصی مہم
  • سروائیکل کینسر ویکسین تولیدی صحت کے لیے کتنی محفوظ ہے؟
  • سندھ میں ایچ پی وی ویکسینیشن مہم کا آغاز کردیا گیا