پنجاب اسمبلی: ایک سال کے اندر 17 پرائیویٹ یونیوسٹیز کے بل کیسے منظور ہوئے؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اس وقت پبلک سیکٹر کی 160 یو نیورسٹیز بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہی ہیں۔ پنجاب میں 109 پرائیویٹ یونیورسٹیز الگ سے تعلیم کے میدان میں کام کر رہی ہیں۔
پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیز بنانے کے لیے پنجاب حکومت نے رولز میں بھی نرمی کر رکھی ہے، پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹی کے لیے سب سے اہم شرط تھی کہ جہاں بھی یونیورسٹی بنے گی اس کی کم سے کم جگہ 10 ایکڑ مختص کی جائے گئی۔ اور وہ 10 ایکڑ جگہ ایک ہی جگہ پر ہو، مگر اب رولز کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں اگر 3 ایکڑ زمین شہر میں موجود ہے اور 70 ایکٹر زمین کسی اور جگہ پر یو نیورسٹی کے نام پر رکھی ہوئی ہے تو نئی یونیورسٹی بن سکتی ہے۔ ایک ہی جگہ پر 10 ایکڑ زمین ہونا لازمی شرط اب نہیں رہی۔ اگر کسی کے پاس اپنی زمین نہیں ہے تو وہ لیز پر زمین لے کر بھی یونیورسٹی بنا سکتا ہے۔ جس کے بعد پنجاب اسمبلی میں 2024 سے لے کر جولائی 2025 تک 17 پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے بل ایوان سے منظور کروائے گئے ہیں۔ 2024 میں 3 پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیز کے ترمیمی چارٹر منظور کیے گئے مگر 2025 میں 7 ماہ کے اندر 14 نئی یونیورسٹیوں کے قیام اور بعض ترمیمی بل منظور کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے پنجاب اسمبلی: لیگی ایم پی اے نے اپنے ہی وزیر کیخلاف تحریک استحقاق جمع کردی، وجہ کیا بنی؟
2024 میں پرائیویٹ سیکٹر کی لاہور لیڈز یونیورسٹی (ترمیمی) بل، سینیٹ ہل یونیورسٹی بل۔ انسٹی ٹیوٹ آف سدرن پنجاب ملتان (ترمیمی) بل۔ 2025 میں اے جی این یونیورسٹی بل، ایشین یونیورسٹی فار ریسرچ اینڈ اڈوانسمنٹ بل ، مصرت انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی بل، دی ٹائمز انسٹیوٹ ملتان بل، مکبر یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، گجرات بل، رائت بہرہ پروفیشنل یونیورسٹی، ہوشیارپور بل، گلوبس یونیورسٹی کمالیہ بل سمیت دیگر یونیورسٹیوں کے بل منظور کیے گئے۔
یہ تمام بلز پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پرائیویٹ ممبرز ڈے پر پیش ہوئے اور ان کو منظور کر لیا گیا۔
پنجاب میں تعلیم نعروں کی حدد تک نظر آتی ہےماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر امجد مگسی کا وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے پہلے ہی پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیز کو مالی مشکلات کا سامنا ہے، ان کی فنڈنگ کم کر دی گئی ہیں جبکہ بعض یونیورسٹیوں کے فنڈز روک دئیے گئے ہیں۔ پہلے اضلاع کی سطح پر یونیورسٹیز بنائی گئیں۔ اب تحصیل لیول تک یونیورسٹیز بنائی جارہی ہیں۔ اور پرائیویٹ یونیورسٹیز کے چارٹر بڑی تعداد میں منظور کروائے جارہے ہیں۔ پیسے والے لوگ اسمبلیوں سے چارٹر منظور کروا لیتے ہیں اور یونیورسٹیز بناتے نہیں ہیں۔ پھر وہ چارٹر کسی کو بیچ دیتے ہیں۔ حکومت کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ پنجاب میں تعلیم کے فروغ سے زیادہ یونیورسٹیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ معیار تعلیم کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
محکمہ تعلیم کا موقف کیا ہے؟وی نیوز نے اس حوالے سے صوبائی وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات سے رابط کیا، انہیں سوالنامہ بھیجا گیا مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا، مگر کچھ عرصہ قبل ہائر ایجوکیشن کی اسٹیڈنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ دوران اجلاس صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر نے اسٹینڈنگ کمیٹی کے عہدیداروں سے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں ایک ماہ میں 25، 25 پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے بل پاس ہوتے ہیں۔ یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ اب تو صوبہ کے لوگ چوک چوراہوں میں باتیں کر رہے ہیں کہ اسمبلی میں 2، 2 کروڑ روپے لے کر یونیورسٹیوں کے بل پاس کروائے جاتے ہیں۔ بل آنے سے قبل طے ہوتا ہے کہ بل آئے گا اور پاس ہو جائے گا۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ پرائیویٹ ممبر بل کا روٹ کیوں لیا جارہا ہے۔ ہم یونیورسٹی مالکان سے رابطے میں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بل کہاں سے آ رہے ہیں۔ 32 پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کے بل 3 ہفتوں میں منظور کروائے گئے۔ پاکستان کو بنے 77 سال ہو گئے ہیں اتنے بل تاریخ میں کبھی منظور نہیں ہوئے جتنے 3 ہفتوں میں ہوئے ہیں۔
صوبائی وزیر تعلیم کے اس بیان کے بعد اراکین نے پنجاب اسمبلی میں اپنے ہی وزیر کے خلاف تحریک استحقاق جمع کروا دی۔
یہ بھی پڑھیے فروغ تعلیم کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب نے کیا انقلابی فیصلے کیے ہیں؟
صوبائی وزیر تعلیم کے اس خطاب کے خلاف مسلم لیگ ن کے ایم پی اے امجد علی جاوید نے تحریک استحقاق جمع کروا رکھی ہے جس میں کہا گیا ہے پنجاب اسمبلی کے معزز اراکین کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے اور ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ یہ خطاب ایوان کی حرمت، وقار اور استحقاق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اراکین اسمبلی پر بدعنوانی کا عمومی الزام لگایا ہے اور الزام لگانے سے پہلے کوئی ثبوت بھی نہیں دیا گیا۔ اس خطاب سے ہمارا عوامی اعتماد مجروح ہوا اور ایوان کی ساکھ کو دھچکا پہنچا ہے۔
ذرائع کے مطابق تحریک استحقاق آنے کے بعد صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز کے بل منظور ہونے پر خاموش ہوگئے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب اسمبلی صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پنجاب اسمبلی صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات سیکٹر کی یونیورسٹی صوبائی وزیر تعلیم پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں کے بل تحریک استحقاق پنجاب اسمبلی اسمبلی میں تعلیم کے دیا گیا گئے ہیں کے لیے
پڑھیں:
بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے27 ویں ترمیم کی بازگشت
مقامی حکومتوں کے معاملے پر کھل کر بات ہونی چاہئے، تحفظ کیلئے آئین میں ترمیم کرکے نیا باب شامل کیا جائے،اسپیکرپنجاب اسمبلی
مقررہ وقت پر انتخابات کرانا لازمی قرار دیا جائے،بے اختیار پارلیمنٹ سے بہتر ہے پارلیمنٹ ہو ہی نہیں،ملک احمد خان کی پریس کانفرنس
اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ مقامی حکومتوں کے معاملے پر کھل کر بات ہونی چاہئے، مقامی حکومتوں کے تحفظ کے لیے آئین میں ترمیم کرکے نیا باب شامل کیا جائے، مقررہ وقت پر انتخابات کرانا لازمی قرار دیا جائے۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے سپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ منگل کے روز صوبائی اسمبلی پنجاب نے ایک متفقہ قرارداد پاس کی، ایسی قرارداد جس میں سیاسی اورآئینی پیچیدگیاں ہوں اس کا متفقہ طور پر منظور ہونا اہمیت کی بات ہے، اپوزیشن کے 35اراکین نے متن میں حصہ لیا۔ملک احمد خان نے کہا کہ میں پوری ذمہ داری سے بات کررہا ہوں، مقامی حکومتوں کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے، مقامی حکومتوں کے ایک درجن کے قریب قوانین سے گزرے ہیں، کوئی بھی سیاسی حکومت ہو لیکن مقامی حکومتوں کا تحفظ، انتخابات کا وقت طے ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل کہتا ہے صوبے مقامی حکومتیں قائم کریں گے، کچھ مسائل اٹھارہویں ترمیم نے بھی حل کیے، جو مسائل درپیش آتے رہے، ان کا ذکر کررہا ہوں، قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایسی ترمیم ہوجو لوکل گورنمنٹ کو تحفظ دے۔ملک احمد خان نے کہا کہ صوبائی اسمبلی پنجاب آئین میں تبدیلی نہیں کرسکتی، یہ پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے، لازمی قراردیا جائے کہ مقررہ مدت میں انتخابات ہوں، ہم کہتے ہیں کہ آئینی اورانتظامی اختیارات گراس روٹ تک پہنچنے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ سیاسی سہولت کے تحت سیاسی جماعت ایسا نہ کرسکے کہ مقامی حکومت کی مدت کم کردی جائے، تقریباً ایک صدی سے معاملات طے نہیں پائے جاسکے،پنجاب کی 77سالہ تاریخ اٹھائوں تو 50سال مقامی حکومتوں کا وجود نہیں جوبہت بڑی الارمنگ بات ہے۔انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں پر بات ضروری ہے، بات چیت کا آغاز کرنے پر معزز اراکین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اراکین کی جانب سے آنے والی آئینی وقانونی تجاویز پر تحسین پیش کرتا ہوں، توقع کرتا ہوں وزیر قانون، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اوردیگر جماعتیں اس کو اہمیت دیں کی۔اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ تمام جماعتوں کے نمائندوں نے یہ معاملہ پنجاب اسمبلی سے وفاق کو بھیجا ہے، توقع ہے اس کو اہمیت دی جائے گی، لوکل گورنمنٹ کے ساتھ گزشتہ صورتحال سے آگاہ کیا،ا سپیڈ بریکر آتے رہے، یہ ٹوٹتی رہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ مقامی حکومتوں، لوکل گورنمنٹ کا گراس روٹ لیول پر نہ ہونا ریاست کے شہری سے معاہدے کو بالکل کمزور کرتا ہے، ریاست کا میرے ساتھ ایک سوشل کنٹریکٹ ہے، ریاست نے بنیادی طور پر مجھے کچھ چیزیں لازمی دینی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر مجھ سے میری مقامی حکومت ٹیکس وصول کرے تو مجھے پتہ ہے کہ یہ میرے علاقے میں خرچ ہوگا، کسی بڑی سوسائٹی میں رہنے والے کے سامنے مسائل نہیں، متوسط طبقے کے ساتھ کئی مسائل ہیں، مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ ملنا چاہئے، پارلیمان اس پر ضرور غور کرے۔سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے کہا کہ ہم پارلیمان سے کہہ رہے ہیں اگر 27ویں ترمیم کرنی ہے تو شہریوں کے ساتھ ریاست کا معاہدہ مضبوط کریں، اگر آل پارٹیز کانفرنس بھی کرنا پڑتی ہے تو مہربانی کرکے فوری کرائیں، یہ شہری اورریاست کے معاہدے کو مضبوط رکھنے کیلئے لازم ہے۔اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ متفقہ قرارداد میں کہا گیا کہ 140 اے نامکمل ہے، صوبے مقامی حکومتیں قائم کریں گے، نئی حکومت نے آتے ہی لوکل گورنمنٹ کو ختم کردیا پھر کیا قانون بنانے میں 3 سال کا عرصہ لگا، لازمی قرار دیا جائے کہ مقررہ مدت میں بلدیاتی انتخابات ہوں۔انہوںنے کہا کہ پنجاب اسمبلی آئین میں تبدیلی نہیں کر سکتی، بلدیاتی اداروں کو سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات دیے جائیں، لوکل گورنمنٹ کے لیے اگر 27ویں ترمیم کرنا پڑتی ہے تو فوراً کریں۔انہوں نے کہا کہ میں نے فیض آباد اور مری روڈ کو جلتے ہوئے دیکھا، مجھے تشویش ہوتی تھی کہ پاکستان میں لاقانونیت کیوں ہے، میں نے دیکھا کہ کچھ بلوائیوں نے سڑک پر گڑھے کھودے، پولیس پر سیدھے فائر کیے، امن و امان کا قیام حکومت کی ذمہ داری ہے۔ملک احمد خان نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو بڑا سیاست دان سمجھتا ہوں، مولانا نے جو کہا وہ ان کی رائے ہے ، ملک میں 27ویں آئینی ترمیم کی بہت بازگشت ہے ، بے اختیار پارلیمنٹ سے بہتر ہے کہ پارلیمنٹ ہو ہی نہیں، مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ ملنا چاہیے۔