مظفرآباد کے قریب نیلم روڈ پر واقع وائلڈ لائف پارک سیاحوں کی توجہ کا مرکز
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے 17 کلومیٹر کے فاصلے پر نیلم روڈ پر واقع پٹہکہ کے مقام پر گھنے جنگلات میں قائم خوبصورت وائلڈ لائف پارک قدرتی حسن کا دلکش نمونہ پیش کرتا ہے۔
یہ پارک 1980 کی دہائی میں قائم کیا گیا تھا اور آج بھی اپنی دلکشی اور جنگلی حیات کی موجودگی کی بدولت سیاحوں کی دلچسپی کا اہم مرکز ہے۔
پارک میں نایاب نسل کے ہرن، دلکش مور، مختلف خوبصورت پرندے اور کالے ریچھ موجود ہیں، جو یہاں آنے والے افراد کو قدرتی حیات کے قریب تر کرنے کے ساتھ ساتھ تفریح کا بہترین موقع فراہم کرتے ہیں۔ قدرتی ماحول، ٹھنڈی ہوائیں اور جنگلی حیات کی دل فریب موجودگی اس مقام کو ایک منفرد سیاحتی مقام بناتی ہے۔
یہ پارک نہ صرف مقامی افراد کے لیے بلکہ بیرونِ شہر سے آنے والے سیاحوں کے لیے بھی قدرتی نظاروں اور جنگلی حیات سے لطف اندوز ہونے کا بہترین ذریعہ ہے۔ مزید جانیے ہاشم اعوان کی اس رپورٹ میں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews دلکش نمونہ سیاح قدرتی حسن مظفرآباد نیلم روڈ وائلڈ لائف پارک وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: دلکش نمونہ سیاح قدرتی حسن نیلم روڈ وائلڈ لائف پارک وی نیوز
پڑھیں:
توجہ کا اندھا پن
مورخہ 4 ستمبر 2025 کو جاوید چوہدری کا ایک کالم بعنوان International Blindness پر لکھا تھا جس میں سوسائٹی میں بڑھتی ہوئی ’’بے توجہی‘‘ پر بات کی گئی تھی، مغرب کے لوگ اپنی سوسائٹی میں بڑھتی ہوئی بے توجہی سے تشویش میں مبتلا ہیں۔
اسی لیے نفسیات دانوں نے ایک نئی تھیوری ’’توجہ کا اندھاپن‘‘ کو ٹیسٹ کرنے کے لیے کیا تھا، اور ایک آٹھ سالہ بچے کو بطور چائلڈ ایکٹر روم کے سینٹرل پارک میں بٹھا دیا اور چاروں طرف اس کی گمشدگی کے پوسٹر لگا دیے، لیکن سارا دن گزر گیا، لوگ آتے رہے، جاتے رہے، لیکن کسی نے بھی اس بچے کی طرف توجہ نہ دی جو گمشدہ تھا، ایک خاتون نے تو پوسٹر بھی پڑھا اور بچے کے پاس جا کر اس کا موازنہ بھی کیا، لیکن بجائے دیے ہوئے فون نمبر پہ مسنگ بچے کے بارے میں اطلاع دیتی، کندھے اچکائے وہاں سے چلی گئی۔
مجھے یہ کالم پڑھ کر خیال آیا کہ ہماری سوسائٹی بھی توجہ کے اندھے پن کا شکار ہے، ہم بہت بری طرح توجہ کے فقدان یا اندھے پن کا شکار ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ تلاش گمشدہ پر چھپنے والے اشتہاروں پر کسی نے توجہ دی ہو؟ ہم ہر لحاظ سے توجہ کے اندھے پن کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد ایک ایسا شہر ہے جس کے بارے میں ماہرین نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہاں زلزلے کے فالٹ لائن ہے، یہاں زلزلے آ سکتے ہیں۔
پھر سب نے 2008 کا زلزلہ دیکھا ۔ گزشتہ سال جب میں اسلام آباد اپنے بیٹے کے پاس گئی، تو وہ شام کو مجھے اور بیوی بچوں کو لانگ ڈرائیو پر لے گیا، تب میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بلند و بالا فلیٹ بنائے جا رہے ہیں، خاص کر چکری روڈ کے ہر جگہ فلیٹ ہی فلیٹ نظر آئے، ہاؤسنگ اسکیمیں نظر آئیں، درخت کاٹے گئے اور پہاڑوں کو توڑا گیا، اور بنگلوز بن گئے، فلیٹ بن گئے، اسے توجہ کا اندھا پن ہی کہیں گے کہ درختوں کے کاٹنے سے پتھر اپنی جگہ چھوڑیں گے اور اگر خدا نخواستہ کلاؤڈ برسٹ ہوا اور بے تحاشا بارش سے سیلاب آ گیا تو کیا ہوگا۔ جب میں نے اپنے بیٹے سے یہ بات کی کہ زلزلوں والی زمین پر بلند و بالا فلیٹ تعمیر کرنے کی اجازت محکمے نے کیوں دے دی؟ تو وہ بولا ’’امی! آپ جانتی تو ہیں کہ اس ملک میں سب کام ہو جاتے ہیں۔‘‘
اس نے ٹھیک ہی کہا تھا، جب کوئی امیر آدمی پیسہ خرچ کرکے سینیٹر بن سکتا ہے تو کیا نہیں ہو سکتا؟ اس کی بلا سے شہر ڈوب جائے، اس کی جیب خالی نہ ہو۔ مجھے اسلام آباد بالکل پسند نہیں ہے، ایک عجیب سی بے چینی طاری رہتی ہے۔ جب کبھی کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہوا تو یہ شہر سمٹا ہوا لگتا تھا، کانفرنس میں جاتے تھے تو وہیں سے واپس آ جاتے تھے، لیکن جب بیٹے کے پاس جاتی تھی تو وہ گھمانے لے جاتا تھا، اس شہر کی ایک ایک تفریح گاہ میری دیکھی ہوئی ہے، جب وہ گزشتہ سال جون 24 میں لانگ ڈرائیو پر لے کر گیا تو بلند و بالا عمارتیں دیکھ کر میرا تو دل دہل گیا۔ سب سے زیادہ مجھے ان لوگوں کی عقل پہ ماتم کرنے کو جی چاہا جنھوں نے ان فلیٹوں اور بستیوں میں بکنگ کروا کے رہائش اختیار کرنے کا سوچا ہے۔ یہ بھی توجہ کا زوال یا اندھا پن ہے ۔ لاہور میں راوی کنارے بنائی گئی بستی کا جو حال ہوا ہے، اس کے بعد لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ بقول دلاور فگار:
لے کے رشوت پھنس گیا ہے
دے کے رشوت چھوٹ جا
اب آتے ہیں توجہ کے ایک اور فقدان کی طرف، یہ ہے بزرگ شہریوں اور معمر افراد کے تعلق سے بیگانگی۔ کسی بھی دفتر میں، کسی بینک میں یا کسی بھی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے میں کہیں بھی آپ چلے جائیں، بزرگ شہری اور معمر افراد دھکے کھا رہے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی نشست نہیں، کوئی علیحدہ کاؤنٹر نہیں۔ ایک بار میں نے ایک بینک منیجر سے یہ کہا کہ آپ سینئر سٹیزن کے لیے علیحدہ کاؤنٹر کر دیں تو انھوں نے بڑی بدتمیزی سے جواب دیا کہ لوگ صرف بینکوں سے کیوں توقع رکھتے ہیں کہ وہ سینئر سٹیزن کا خیال رکھیں۔
پھر ایک اسی بینک کی دوسری برانچ سے جہاں میرا اکاؤنٹ ہے یہی سوال کیا تو منیجر آپریشن بہت شائستگی سے بولے کہ ’’میڈم! ہمارے پاس عملہ کم ہے، ورنہ پہلے یہاں بھی ایک علیحدہ کاؤنٹر ہوتا تھا‘‘ جسے میں نے بھی دیکھا تھا، لیکن اب صرف لکڑی کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا ضرور ایک طرف رکھا نظر آتا ہے جس پر لکھا ہے، معذور اور بزرگ شہریوں کے لیے۔زندگی کے جس شعبے میں بھی آپ نظر دوڑائیں توجہ کا اندھا پن ہر جگہ نظر آتا ہے۔ ہجرت کے بعد معاشرہ جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہے، اس کے اثرات دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں اور جب سے موبائل فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے تباہی مچائی ہے تب سے توجہ کا فقدان بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک اپارٹمنٹ میں جو اٹھائیس فلیٹوں پر مشتمل ہے، اس میں ایک خاتون تنہا رہتی ہیں۔
ملازمہ کام کرکے چلی جاتی ہے، بچے ملک سے باہر ہیں، ایک فلور پر چار فلیٹ ہیں، لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ ان خاتون سے یہی پوچھ لیں کہ انھیں بازار سے کچھ منگوانا تو نہیں ہے، یا ان کی طبیعت ٹھیک ہے۔ انھیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔ بچے بہتر مستقبل کے لیے بیرون ملک چلے گئے، ماں باپ اکیلے رہ گئے، اگر صاحب حیثیت ہیں تو ملازمہ رکھ لی یا چوکیدار کو پیسے دے کر جو کچھ منگوانا ہو منگوا لیا، ورنہ تنہا پڑے رہے۔ سڑکوں اور شاپنگ مالز کے گیٹ پر آپ نے موٹر سائیکلیں اور کاریں کھڑی دیکھی ہوں گی، مجال ہے جو کسی کو خیال آ جائے کہ اس نے غلط پارکنگ کی ہے۔
چند ماہ کے دوران ملک میں برساتی اور سیلابی صورت حال کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، اب رخ سندھ کی طرف ہے لیکن خواہ اسلام آباد ہو یا کراچی، نالوں پر بلڈنگیں بنائی جا رہی ہیں، کراچی تو ویسے بھی سطح سمندر سے نیچے ہے۔ سمندر کے کنارے ہوٹل بن گئے ہیں، نالے بند ہو گئے ہیں، اگر کراچی میں کلاؤڈ برسٹ ہوا تو یہ خدائی قہر ہوگا۔
مجھے تو لگتا ہے کہ بادلوں کا پھٹنا، سیلاب کا آنا، بستیاں اجڑنا سب اسی وجہ سے ہے کہ ہم فطرت کے خلاف جا رہے ہیں، جب آبی گزرگاہیں بند ہو جائیں گی، دریاؤں کی زمین پر بستیاں بنا دی جائیں گی، نالے بند کر دیے جائیں گے تو یہ پانی کہاں جائے گا؟ باران رحمت صرف ایک نقطے کے فرق سے ’’ زحمت‘‘ بن جاتا ہے۔ ہماری قوم ہر معاملے میں توجہ کے اندھے پن کا شکار ہو رہی ہے۔ ہم ایک بے حس قوم ہیں اور وہ قوم ہیں جو جس شاخ پہ بیٹھتی ہے اسی پر کلہاڑا چلاتی ہے۔