جنوبی کوریا میں ماں اور ٹیوٹر امتحانی پرچے چراتے ہوئے پکڑے گئے
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
جنوبی کوریا میں طالبہ کی ماں اور خاتون ٹیوٹر امتحانی پرچے چرانے کی کوشش کے دوران گرفتار ہوگئے ہیں۔
یہ واقعہ شہیر آنڈونگ میں تقریباً دوپہر 1:20 پر پیش آیا جہاں 48 سالہ ماں نے باقاعدہ اپنی بیٹی کو ہائی اسکول میں اس غرض سے داخل کرایا تاکہ فائنل ایگزام کے پرچے چوری کیے جائیں۔
تاہم اس دوران اسکول کی سیکورٹی الرٹ ہو گئی اور دونوں کی چوری کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔ ماں کے ساتھ اسکول میں داخل ہونے والی 31 ٹیوٹر 2024 میں اس اسکول سے رخصت ہو چکی تھی مگر اس کی فنگر پرنٹ ڈیٹا ابھی بھی ایکسیس کے لیے فعال تھے۔ ساتھ ہی اسکول کا مینٹیننس عملہ بھی گرفت میں آیا، جس پر چوری میں مدد کرنے کا الزام ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ والدہ کی بیٹی اسکول میں پہلی پوزیشن پر رہتے آئی ہے۔ تحقیقات میں پایا گیا کہ ماں اور ٹیوٹر کے درمیان مالی لین دین ہوا تھا۔ تقریبا ہر امتحانی دورانیے میں 20 لاکھ وون ادا کیے گئے۔
تفتیش کار کو شک ہے کہ یہ چوری چار سال سے جاری ہوسکتی ہے کیونکہ ٹیوٹر نے متعدد بار اسکول کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی ہے، کم از کم سات مرتبہ ہر امتحانی سیزن کے دوران۔
اسکول کی انتظامیہ اور والدین نے اس واقعہ پر شدید احتجاج کیا ہے اور سخت سیکورٹی اور قوانین کا مطالبہ کیا جارہا ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
شمالی کوریا: حکمران خاندان کے وفادار سابق علامتی سربراہِ مملکت انتقال کر گئے
شمالی کوریا کے سابق علامتی سربراہِ مملکت اور حکمران خاندان کے ساری عمر وفادار حامی رہنے والے کِم یونگ نام 97 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
کورین سینٹرل نیوز ایجنسی (کے س این اے) کے مطابق یم یونگ نام 3 نومبر کو متعدد اعضا کی ناکامی کے باعث وفات پا گئے، وہ 1998 سے 2019 تک پیانگ یانگ کی سپریم پیپلز اسمبلی (پارلیمنٹ) کے صدر رہے۔
کِم یونگ نام نے شمالی کوریا کے بانی کِم اِل سُنگ، ان کے بیٹے کِم جونگ اِل، اور موجودہ رہنما کِم جونگ اُن، تینوں کے ادوار میں مختلف سفارتی عہدوں پر خدمات انجام دیں، حالاں کہ وہ کِم خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔
کورین سرکاری خبر ایجنسی نے انہیں ایک ’پرانے دور کے انقلابی‘ کے طور پر خراجِ تحسین پیش کیا، جنہوں نے پارٹی اور ملک کی ترقی کی تاریخ میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے، ان کا جنازہ ریاستی سطح پر ادا کیا گیا۔
کے سی این اے کے مطابق کِم یونگ نام کی پیدائش اُس وقت ہوئی تھی، جب کوریا جاپانی نوآبادیاتی دور میں تھا، وہ ایک ’جاپان مخالف محبِ وطن خاندان‘ میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے کِم اِل سُنگ یونیورسٹی (پیانگ یانگ) سے تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں ماسکو میں بھی تعلیم جاری رکھی، جس کے بعد انہوں نے 1950 کی دہائی میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔
ابتدائی طور پر وہ حکمران جماعت کے نچلے درجے کے عہدیدار تھے، مگر آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ بنے اور بعد ازاں تقریباً پورے کِم جونگ اِل کے دورِ اقتدار میں سپریم پیپلز اسمبلی کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔
اگرچہ اصل طاقت ہمیشہ کِم خاندان کے ہاتھوں میں رہی، مگر کِم یونگ نام کو اکثر بین الاقوامی سطح پر شمالی کوریا کا چہرہ سمجھا جاتا تھا۔
2018 میں انہوں نے سرمائی اولمپکس کے موقع پر جنوبی کوریا میں شمالی کوریا کے وفد کی قیادت کی، جہاں انہوں نے اُس وقت کے جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن سے ملاقات کی تھی، اس وفد میں کِم جونگ اُن کی بااثر بہن، کِم یو جونگ بھی شامل تھیں۔
کِم یونگ نام نے اس سے قبل 2 سابق جنوبی کوریائی صدور کِم ڈی جونگ (2000) اور رو مو ہْیون (2007) سے بھی بین الکوریائی سربراہی اجلاسوں میں ملاقات کی تھی۔
جنوبی کوریا کے وزیر برائے اتحاد چُنگ ڈونگ یونگ نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کِم یونگ نام کے ساتھ ’کورین جزیرہ نما میں امن کے بارے میں بامعنی گفتگو‘ ہوئی تھی۔
شمالی کوریا کے سابق سفارتکار تھے یونگ ہو (جو اب جنوبی کوریا میں آباد ہیں) نے بی بی سی کو بتایا کہ کِم یونگ نام نے کبھی ایسا لفظ نہیں کہا جو حکومت کو ناپسند ہو۔
انہوں نے کہا کہ ’آنجہانی نے کبھی اپنی رائے ظاہر نہیں کی، ان کے قریبی حامی تھے نہ دشمن، اُنہوں نے کبھی کوئی نیا نظریہ یا پالیسی پیش نہیں کی، صرف وہی دہراتے رہے جو کِم خاندان کہتا تھا‘۔
تھے یونگ ہو کے مطابق کِم یونگ نام اس بات کی بہترین مثال ہیں کہ شمالی کوریا میں طویل عرصہ زندہ اور محفوظ کیسے رہا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے اپنی شہرت صاف ستھری رکھ کر پارٹی کے اندرونی تنقید سے اپنا بچاؤ کیا۔
شمالی کوریا کے دیگر اعلیٰ حکام کے برعکس، کِم یونگ نام کو کبھی برطرف یا تنزلی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، حتیٰ کہ اقتدار کِم خاندان کی 3 نسلوں تک منتقل ہوتا رہا۔
انہوں نے اپریل 2019 میں ریٹائرمنٹ اختیار کرلی تھی۔
ان کی طویل سروس غیر معمولی تھی، کیوں کہ دیگر کئی اعلیٰ عہدیداروں پر ریاستی پالیسیوں کی خلاف ورزی کا شبہ کیا گیا تو انہیں برطرف، جبری مشقت کیمپوں میں بھیجا یا قتل کر دیا گیا تھا۔
مثال کے طور پر، کِم جونگ اُن نے 2013 میں اپنے ماموں چانگ سونگ تھایک کو ’غداری کے اقدامات‘ کے الزام میں سزائے موت دلوا دی تھی۔