غیر سرکاری موسمیاتی ادارے نے 17 اگست کو مون سون کے پہلے طاقت ور سسٹم کی سندھ میں آمد کا امکان ظاہرکردیا جب کہ محکمہ موسمیات نے کہا ہے کہ اتنی دور کی پیشگوئی ممکن نہیں صورتحال مانیٹر کر رہے ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق موسم کی پیش گوئی کرنے والے غیرسرکاری پلیٹ فارم ویدراپ ڈیٹ کے مطابق ایم جے ویو (بارش اور ہواؤں سے منسلک ایک استوائی نظام) کی آمد کے سبب بحیرہ عرب میں جنوبی پاکستان کے لیے مثبت ردعمل آنے کا امکان ہے جس کے نتیجے میں راجستھان پر ایک کمزور سرکولیشن (گردش) بن سکتی ہے جوکہ 9 تا 10 اگست کے دوران سندھ کی جانب بڑھ سکتی ہے۔

غیر سرکاری موسمیاتی ادارے کے مطابق مذکورہ موسمیاتی صورتحال کی وجہ سے سمندری ہواوں کی روانی میں کچھ تعطل آسکتا ہے جس کے نتیجے میں کراچی سمیت سندھ بھرمیں درجہ حرارت بڑھنے اور حبس کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے، سرکولیشن کی وجہ سے سندھ کے ساحلی علاقوں میں ہلکی سے درمیانی شدت کی بارش ہوسکتی ہے، کراچی میں بھی اس سسٹم کے زیراثرکچھ موسمیاتی سرگرمیاں متوقع ہیں۔

غیرسرکاری سطح پر موسم کی پیش گوئی کرنے والے پلیٹ فارم نے17 اگست کو پہلے طاقتور مون سون کی سندھ میں داخل ہونے کی پیش گوئی کی ہے، مذکورہ صورتحال کے بارے میں محکمہ موسمیات کراچی کا کہنا ہے کہ مون سون کے 15 اگست تا 15 ستمبرکے دورانیے میں سسٹم کی آمد ایک معمول کی بات ہے مگر اتنی طویل پیش گوئی مون سون کے حوالے سے ممکن نہیں ہے۔

ترجمان محکمہ موسمیات انجم نذیر ضیغم کا ایکسپریس نیوز سے گفتگو میں کہنا تھا کہ 15 اگست تک کراچی میں کسی بھی تیزبارش جیسی صورتحال پیدا ہونے کا کوئی بھی امکان نہیں ہے، البتہ اس دوران ہلکی بارش اور پھوار کا سلسلہ برقرار رہ سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مون سون کے پیش گوئی کی پیش

پڑھیں:

بنیادی  انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی میں ٹریفک کے نظم و نسق کو بہتر بنانے کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے نافذ کیے گئے ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم (ٹریکس) نے شہریوں، ماہرین اور سیاسی حلقوں میں شدید تحفظات کو جنم دیا ہے۔

27 اکتوبر سے نافذ العمل ہونے والے اس ڈیجیٹل ای چالان نظام کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ شہر میں ٹریفک سے متعلق بنیادی انفرا اسٹرکچر کا تباہ حال ہونا ہے۔ اربن پلانرز اور سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کی 60 فیصد سے زائد سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جب کہ اندازاً 80 فیصد سے زائد شاہراہوں پر ٹریفک کے اشارے (سگنلز) اور علامات نصب ہی نہیں ہیں، یا درست کام نہیں کررہے۔ ایسے میں ٹریفک مینجمنٹ قائم کیے بغیر جدید ترین مصنوعی ذہانت   پر مبنی یہ خودکار نظام (ٹریکس) کس طرح کامیابی سے کام کرے گا، یہ ایک بڑا سوال ہے۔

شہری حلقوں کی جانب سے تحفظات کا دوسرا اہم نکتہ جرمانوں کی غیر معمولی حد تک زیادہ شرح ہے، جو 5 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک مقرر کی گئی ہے۔ شہریوں کی جانب سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ بے روزگاری اور کم آمدنی والے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے بھاری جرمانے کیسے ادا کر پائیں گے۔

قانون دانوں اور سیاسی رہنماؤں نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ جب ملک کے دیگر شہروں مثلاً  لاہور  میں چالان کی شرح بہت کم ہے تو کراچی کے شہریوں پر اتنا بوجھ کیوں ڈالا جا رہا ہے، جو آئینی طور پر ایک ملک میں دو قوانین کی موجودگی پر سوال کھڑا کرتا ہے۔

سیاسی جماعتوں نے اس نظام کو ظالمانہ رویہ قرار دیتے ہوئے نہ صرف عوامی احتجاج بلکہ عدالتوں میں قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کر دیا ہے، جس کے بعد اس نظام کا مستقبل اب سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے سے منسلک ہو گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان کے ضلع پشین میں15 یوم کے لئے دفعہ 144 نافذ،نوٹیفکیشن جاری
  • ای چالان سسٹم پر تحفظات: سیاسی جماعتیں اور سندھ حکومت آمنے سامنے
  • پنجاب میں بارش کی پیشگوئی، کن علاقوں میں بادل برسنے کا امکان؟
  • کراچی، معافی مانگنے پر پہلے ای چالان پر چھوٹ، 14 دن میں ادائیگی پر جرمانہ آدھا کرنے کا فیصلہ
  • کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلانے پر عوام کیلئے چالان نہیں انعام ہونا چاہیے، نبیل ظفر
  • کراچی میں ای چالان سسٹم پر نبیل ظفر کا تبصرہ: “چالان نہیں، عوام کو انعام ملنا چاہیے”
  • بنیادی  انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان
  • کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلانے پر عوام کیلئے جرمانہ نہیں انعام ہونا چاہیے، نبیل ظفر
  • آزادیِ اظہار اور حقِ گوئی جمہوری معاشروں کی پہچان اور بنیاد ہیں، کامران ٹیسوری
  • عوام پر اضافی بوجھ ڈالا جارہا ہے: حافظ نعیم سندھ حکومت کے ای چالان سسٹم کے خلاف بول پڑے