اسلام آباد میں بارش کے بعد سیلابی صورتحال، وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ہنگامی اقدامات کا حکم دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے وفاقی دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں حالیہ بارشوں کے بعد نالوں سے ملحقہ نشیبی علاقوں میں پیدا ہونے والی سیلابی کیفیت کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے فوری امدادی اقدامات کی ہدایت جاری کر دی ہے۔
وزیرِ اعظم نے ضلعی انتظامیہ اور سی ڈی اے کو حکم دیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں رہنے والے شہریوں کو فوری طور پر ریسکیو کیا جائے اور نکاسیٔ آب کے مؤثر انتظامات یقینی بنائے جائیں تاکہ جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکے۔
انہوں نے ندی نالوں کے اطراف نشیبی علاقوں میں بسنے والی آبادیوں کے لیے حفاظتی اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں میں پیشگی الرٹ جاری کیے جائیں اور ممکنہ خطرات سے بچاؤ کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائی جائے۔
وزیرِ اعظم نے پانی سے پھیلنے والے امراض کے ممکنہ خطرات کو دیکھتے ہوئے شعبہ صحت کو بھی ہائی الرٹ پر رہنے اور ضروری طبی اقدامات فوری شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔
سیلابی صورتحال سے مؤثر طور پر نمٹنے اور امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے وزیرِ اعظم نے ایک خصوصی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے، جو فوری طور پر صورتحال کا جائزہ لے کر متعلقہ اداروں سے رابطہ رکھے گی اور رپورٹ پیش کرے گی۔
حکومتی ذرائع کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر تمام متعلقہ محکموں کو الرٹ کر دیا گیا ہے تاکہ شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
Ask ChatGPT
Post Views: 7.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: علاقوں میں
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز نے چیف جسٹس کے اختیارات اور عدالتی اقدامات سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیے
اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز نے چیف جسٹس جسٹس سرفراز ڈوگر کے مختلف اقدامات اور اختیارات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے انفرادی طور پر اپیلیں دائر کر دی ہیں۔
ججز کی جانب سے دائر آئینی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ جج کو کام سے روکنے کی درخواست ہائیکورٹ میں قابل سماعت نہیں، کسی جج کو صرف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ہی کام سے روکا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے اختیارات کے خلاف جسٹس محسن اختر کیانی کی آئینی درخواست
درخواست میں کہا گیا ہے کہ پانچوں ججز نے یہ آئینی درخواست آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر کی ہے۔ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 202 کے تحت بنے رولز کے مطابق ہی چیف جسٹس بینچ تشکیل دے سکتے ہیں، جبکہ ’ماسٹر آف روسٹر‘ کا نظریہ سپریم کورٹ پہلے ہی کالعدم قرار دے چکی ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ انتظامی کمیٹیوں کے 3 فروری اور 15 جولائی کے نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیے جائیں، ان کمیٹیوں کے اقدامات بھی کالعدم قرار دیے جائیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے حالیہ رولز غیر قانونی قرار دیے جائیں۔
درخواست میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ ہائیکورٹ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اپنے آپ کو رِٹ جاری نہیں کر سکتی۔
اسی روز پانچوں ججز نے اپنے خلاف فیصلے کے خلاف انفرادی طور پر اپیلیں بھی سپریم کورٹ میں دائر کیں۔
جمعہ کو جسٹس طارق محمود جہانگیری سائلین کے گیٹ سے کارڈ لیکر سپریم کورٹ پہنچے۔
یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی عدم دستیابی، اہم مقدمات کی سماعت لٹک گئی
ان کے ہمراہ جسٹس بابر ستار، جسٹس ثمن رفعت، جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس محسن اختر کیانی بھی عدالتِ عظمیٰ میں موجود رہے۔ ججز نے اپیلیں دائر کرنے کے لیے بائیو میٹرک بھی کرایا۔
اس موقع پر جسٹس محسن اختر کیانی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ رولز کے مطابق ایک ہی درخواست میں تمام ججز فریق نہیں بن سکتے، اسی لیے الگ الگ اپیلیں دائر کی گئی ہیں۔ پانچوں ججز اپیلیں دائر کرنے کے بعد سپریم کورٹ سے روانہ ہوگئے۔
جسٹس محسن اختر کیانیواضح رہے کہ آج ہی کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی۔درخواست میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور ریاست پاکستان کو فریق بنایا گیا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے مؤقف اپنایا کہ انتظامی اختیارات عدالتی اختیارات پر حاوی نہیں ہوسکتے، چیف جسٹس پہلے سے تشکیل شدہ بینچ میں تبدیلی کرنے کے مجاز نہیں، اپنی منشاء کے مطابق دستیاب ججز کو روسٹر سے الگ نہیں کرسکتے اور نہ ہی ججز کو عدالتی فرائض کی انجام دہی سے روک سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس سرفراز ڈوگر جسٹس محسن اختر کیانی سپریم کورٹ ہائیکورٹ