کراچی:پاکستان اور ترکیہ کی بحری افواج کی اسپیشل فورسز کے مابین پہلی دو طرفہ مشق کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگئی، یہ مشق دونوں دوست ممالک کی بحری افواج کے مابین بحری تعاون اور باہمی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی جانب ایک اہم سنگ میل ہے۔ترجمان پاک بحریہ کے مطابق مشق میں مختلف تربیتی سرگرمیاں شامل تھیں، جن میں مختلف ہتھیاروں کی فائرنگ، سمندر اور خشکی میں مختلف آپریشنز کے مظاہرے اور شہری علاقوں میں فوجی کارروائیاں شامل تھیں۔مشق کے دوران لائیو فائرنگ اور جنگی منظرناموں پر مشتمل آپریشنز کے مظاہرے بھی شامل کیے گئے، جن کا مقصد ساحلی علاقوں میں مشترکہ آپریشنز کی تیاری اور حکمتِ عملی کو مزید مؤثر بنانا تھا۔ترجمان نے بتایا کہ مشق کا اختتام مخصوص ساحلی علاقے میں ایک جامع ڈرل پر ہوا جس میں خشکی اور سمندر دونوں میں خطرات سے نبرد آزما ہونے کی مشق کی گئی اور دونوں بحری افواج کی عملی تیاری اور حربی صلاحیتوں کی جانچ کی گئی۔ترجمان کے مطابق اس دوطرفہ مشق کا انعقاد پاکستان اور ترکیہ کے مابین گہرے اور مضبوط دفاعی تعلقات کا مظہر ہے، جو مشترکہ اقدامات کے ذریعے خطے میں امن و استحکام کے لیے دونوں ممالک کے عزم کی توثیق کرتا ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: بحری افواج کے مابین مشق کا

پڑھیں:

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین معاہدہ

اسلام ٹائمز: پاکستان و سعودی عرب کے مابین طے پانے والا معاہدہ اگر اسرائیل کے مقابلے میں سعودی عرب کے دفاع سے جڑا ہوا ہے تو اس سے بہتر بات کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن اگر اس معاہدے کی ڈوری سے مبینہ طور پر یمن کے گرد شکنجہ کسنے کی کوشش کی گئی تو پھر یہ معاہدہ خود پاکستان کے لیے ایک ایسا ”ٹریپ“ ثابت ہوگا جس سے باہر نکلنا پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد جو خبر عالمی ذرائع ابلاغ کا سرنامہ بنی ہوئی ہے وہ سعودی عرب اور پاکستان کے مابین طے پانے والا تاریخی دفاعی معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ”کسی ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا“۔ گویا پاکستان پر اگر کوئی بیرونی طاقت حملہ آور ہوتی ہے تو یہ حملہ سعودی عرب پر بھی حملہ سمجھا جائے گا اور معاہدے کی رو سے سعودی عرب پر لازم ہوگا کہ وہ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو۔ پاکستان کو اپنے جنم دن کے بعد سے ہی جس ملک کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا وہ ہندوستان تھا۔

پاک و ہند کے مابین لڑی جانے والی جنگوں میں اگرچہ سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کی لیکن یہ مدد اسلامی بھائی چارے کے جذبے کے تحت تھی۔ ان جنگوں میں سعودی عرب پر پاکستان کی مدد کے حوالے سے ایک اخلاقی دباؤ ضرور تھا لیکن اس پر کسی معاہدے کی رو سے کوئی ایسی آئینی پابندی عائد نہیں تھی کہ وہ پاکستان کی حتماً مدد کرے لیکن اب اگر پاکستان پر کوئی ملک جارحیت کرتا ہے تو پھر سعودی عرب کی حکومت کی یہ آئینی ذمے داری ہوگی کہ وہ پاکستان پر حملہ خود پر حملہ اور پاکستان کے دفاع کو اپنا دفاع سمجھتے ہوئے پاکستان پر حملہ آور طاقت کو پاکستان کے ساتھ کھڑے ہو کر جواب دے۔

پاکستان کو اپنی مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ اپنی مغربی سرحد کی جانب سے بھی خطرات لاحق ہیں۔ آئے روز اس طرف سے بھی پاکستان کی سرحدوں کی پامالی ہوتی رہتی ہے۔ ٹھوس شواہد کی بنا پر اس قسم کی جارحانہ کاروائیوں میں ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان کا برابر کا ہاتھ ہے۔ پاک سعودی عرب نئے معاہدے کے تحت اگر آئندہ کبھی افغانستان، ہندوستان کے تعاون سے پاکستان کے خلاف کوئی بڑی کاروائی کرتا ہے تو پھر سعودی عرب کے لیے ناممکن ہو گا کہ وہ اس جھگڑے میں غیر جانبدار رہے۔ لہذا ہندوستان اور افغانستان کو یقینی طور پر اس معاہدے سے پریشانی لاحق ہو سکتی ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اس دفاعی نوعیت کے اہم معاہدے کا محرک قطر پر اسرائیل کا حملہ بنا۔ اسرائیل کا یہ حملہ جہاں خلیجی ریاستوں کے دفاع پر کاری ضرب تھا وہاں یہ سعودی عرب کے لیے بھی باعث تشویش تھا۔ قطر پر اسرائیلی حملے کا ایک سبب وہاں حماس کے قائدین کی موجودگی تھی۔ اس حملے کے بعد اب اسرائیل نے کھل کر اعلان کیا ہے کہ جس ملک میں بھی اسے حماس کا وجود نظر آئے گا وہ اس پر حملہ آور ہوگا۔ اس حوالے سے فی الحال جن ممالک کو اسرائیل کی جانب سے زیادہ خطرہ ہے وہ ترکی اور مصر ہیں۔ ان دونوں ممالک میں حماس کی قیادت کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔

سعودی عرب میں حماس یا کسی فلسطینی قیادت کی اس طرح سے میزبانی کے لیے دروازے کھلے نہیں ہیں۔ لہذاء سعودی عرب کو فوری طور پر اسرائیل کی جانب سے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ بلکہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد بھی یمن کے جانب سے اسرائیل کے طرف داغے گئے میزائل کو سعودی عرب نے راستے میں ہی امریکہ کے دیے گئے تھاڈ دفاعی سسٹم کے ذریعے انٹرسیپٹ کر کے یہ ثابت کیا ہے اس کی حیثیت اب بھی اسرائیل کے لیے قائم کیے گئے ایک دفاعی حصار کی سی ہے۔ پاکستان و سعودی عرب کے مابین طے پانے والا معاہدہ اگر اسرائیل کے مقابلے میں سعودی عرب کے دفاع سے جڑا ہوا ہے تو اس سے بہتر بات کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن اگر اس معاہدے کی ڈوری سے مبینہ طور پر یمن کے گرد شکنجہ کسنے کی کوشش کی گئی تو پھر یہ معاہدہ خود پاکستان کے لیے ایک ایسا ”ٹریپ“ ثابت ہوگا جس سے باہر نکلنا پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • ترکیہ: پاکستانی سفارت خانے میں عالمی سیرت کانفرنس کا انعقاد
  • ہمت ہے تو اپنی کشتیوں پر اسرائیلی پرچم لہرا کر دکھاو
  • پاکستان اورسعودی عرب کے مابین طے پانے والاتاریخی معاہدہ دونوں برادرممالک کے تاریخی تعلقات میں ایک نئے دورکا آغازہے ، شیخ آفتاب احمد
  • پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دفاعی معاہدہ سنگ میل ثابت ہوگا، زبیر موتی والا
  • پاک سعودی عرب معاہدہ دفاعی ہے، کسی ملک کے خلاف نہیں،ترجمان دفترخارجہ
  • پاک سعودی دفاعی معاہدے کے تحت ایک ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور ہو گا؛ ترجمان دفتر خارجہ
  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں: ترجمان دفتر خارجہ
  • صدر مملکت آصف علی زرداری کا ارومچی کے اربن آپریشنز اینڈ مینجمنٹ سینٹر کا دورہ ، ارومچی کے میئر اور سنکیانگ کے نائب گورنر نے استقبال کیا
  • پاکستان اور سعودی عرب کے مابین معاہدہ
  • ٹرمپ کا دبائو برطرف، دو طرفہ تعلقات کو بڑھائیں گے ، پیوتن اور مودی کا اتفاق