چور... معیشت کے خاموش محسن؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
جب ہم معیشت کے بارے میں سوچتے ہیں تو دماغ فوراً بینکس، صنعتوں، برآمدات، زراعت اور ٹیکنالوجی کی طرف چلا جاتا ہے۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بغیر کسی بجٹ اور تنخواہ کے پوری معیشت کے کئی شعبوں کو متحرک رکھتا ہے۔ اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ ’چور‘ ہیں۔
بظاہر یہ قانون کی نظر میں مجرم ہوتے ہیں، لیکن اگر معیشت کا چشمہ لگا کر دیکھا جائے تو یہ مجرم کم اور ’خاموش محسن‘ زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔
ایک لمحے کےلیے ذرا سوچیے کہ اگر دنیا میں چوری نہ ہوتی تو کیا تالے، تجوریاں، الماریاں، ڈیجیٹل لاکس اور سیفٹی باکسز بنانے والی انڈسٹری وجود رکھتی؟ شاید نہیں۔
یہ پوری کی پوری صنعت دراصل اسی خوف کی پیداوار ہے کہ کہیں کوئی چیز چوری نہ ہوجائے۔ یہی خوف دروازوں پر مضبوط تالے لگواتا تو کھڑکیوں پرآہنی جال چڑھواتا ہےاور اسی خوف کے تحت تجوریوں میں مال و متاع محفوظ کیا جاتا ہے۔ چھوٹے کاریگروں سے لے کر ملٹی نیشنل کمپنیز تک، سب چوروں کی بدولت کماتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو روزگار مہیا کرتے ہیں۔
پھر سیکیورٹی کا شعبہ دیکھ لیجیے۔ ہر گلی محلے میں سیکیورٹی گارڈ کھڑا نظر آتا ہے۔ ہر اسکول، دفتر اور پلازے میں کیمرے نصب ہیں۔ میٹل ڈیٹیکٹر، بایومیٹرک سسٹمز، اور الارم لگانے والی کمپنیز دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں اور ان سب کی بنیاد بھی وہی ہے، ’چور کا خوف!‘۔
اگر چوری کا تصور نہ ہو تو یہ ساری ٹیکنالوجی صرف فلموں میں استعمال ہوتی نظر آئے، یا کسی میوزیم میں پڑی ہو۔
چوروں کا سب سے بڑا ’احسان‘ شاید روزگار کے میدان میں ہے۔ پولیس، وکلا، ججز، عدالتوں کا عملہ، جیل کے ملازمین، تفتیشی ادارے، انٹیلیجنس ایجنسیز ، یہ سب عموماً چوروں کے دم پر کام کرتے ہیں۔ روزانہ ہزاروں ایف آئی آرز درج ہوتی ہیں، ان کی تفتیش کی جاتی ہے، گواہوں کے بیانات اور ثبوت اکٹھے کیے جاتے ہیں، عدالتیں کیسز سنتی ہیں، فیصلے ہوتے ہیں اوراپیلیں دائر کی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ عموماً ایک واقعے کے بعد شروع ہوتا ہے، اور وہ ہے، چوری!
جب کوئی چور کسی کا موبائل، لیپ ٹاپ، پرس یا گاڑی چرا لیتا ہے تو متاثرہ فرد مجبوری میں نئی چیز خریدتا ہے، یوں مارکیٹ میں نئی خریداری ہوتی ہے۔ دکاندار خوش، کمپنی خوش اورحکومت بھی خوش، کیونکہ اسے سیلز اور انکم ٹیکس دونوں کی مد میں وصولیاں ہو جاتی ہیں اور موبائل ٹریکرز، انشورنس کمپنیز، ریپلیسمنٹ سروسز، سب ایکٹیو ہوجاتی ہیں۔ گویا ایک چوری کئی کاروباروں کو زندہ کر دیتی ہے۔
اور بات صرف یہاں نہیں رُکتی بلکہ اگر چور پکڑا جائے تو جیل جاتا ہے اور جیل کے اندر بھی ایک مکمل نظام چلتا ہے۔ جیلر، وارڈن، کُک، طبی عملہ، اصلاحی پروگرامز چلانے والے، کھانے کی سپلائی اور یونیفارمز وغیرہ، سب کی نوکری چور سے جڑی ہے۔ اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ جیلیں بھی بجٹ کھاتی ہیں اور وہ بجٹ چلتا ہے معیشت سے، یعنی چور صرف جیل سے باہر ہی نہیں بلکہ جیل کےاندر بھی معیشت چلاتے ہیں۔
کچھ چور تو اپنی ’قابلیت‘ کے باعث سیاست میں آ جاتے ہیں اوروہاں آکر وہ چھوٹی موٹی چوریاں چھوڑ کر بڑے پیمانے پر مالیاتی اعدادو شمار سے کھیلتے ہیں۔ منصوبوں کے فنڈز، ٹینڈر، کِکس بیکس اور کمیشن، یہ سب ان کے دائرہ اختیار میں آجاتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ چور قانونی کَور کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ستم ظریفی کی انتہا تو یہ ہے کہ اکثر تو خود ہی قانون ساز بن جاتےہیں۔ ان کی چوریاں ملک کے بجٹ کو زیادہ متاثر کرتی ہیں لیکن ان ہی کے فیصلوں سے معیشت کی سمت طے ہوتی ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ تحریر چوری کو جائز قرار دینے کی کوشش نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ چوری ہر دَور، مذہب اور معاشرے میں ایک بڑا جُرم رہی ہے اور اس سے فرد، معاشرہ اور اخلاقی اقدار متاثر ہوتی ہیں لیکن عمومی سچ یہی ہے کہ اگر چور نہ ہوں تو معیشت میں ایک عجیب سا خلا پیدا ہوجائے، کئی صنعتیں بند ہو جائیں، ہزاروں لوگ بے روزگار ہوجائیں اور پولیس اسٹیشنز پر شاید ہُو کا عالم ہو۔ یہ بلاگ صرف ایک طنزیہ تحریر نہیں بلکہ ہم اس میں سچائی کا عکس بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جرم اور معیشت کا تعلق بعض اوقات اتنا گہرا ہوجاتا ہے کہ دونوں کو الگ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
چور اگرچہ قانون کی نظر میں مجرم ہوتا ہے لیکن معیشت کی نظر میں اکثر ایک غیر اعلانیہ اسٹیک ہولڈر بھی ثابت ہوتا ہے۔
تو اگلی بار جب آپ اپنا دروازہ بند کرتے وقت تالا لگائیں یا کیمرے کی ریکارڈنگ چیک کریں تو ایک لمحے کو رکیے گا اور سوچئے گا کہ کہیں نہ کہیں ایک چور نہ چاہتے ہوئے بھی معیشت کا پہیہ گھما رہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہیں اور
پڑھیں:
عدالتیں کرپشن کا حصہ، کونسا جج کرپٹ اچھی طرح جانتا ہوں: جسٹس محسن اختر کیانی
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے عدالتی حکم پر عملدرآمد کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ عدالتیں کرپشن کا حصہ ہیں، ہمارا کونسا جج کرپٹ ہے، اچھے طریقے سے جانتا ہوں۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق اسلام آباد میں زمین کے لین دین سے متعلق عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر جسٹس محسن اختر کیانی سٹیٹ کونسل اور ضلعی انتظامیہ پر برہم ہو گئے، ریمارکس دیے کہ مجھے سب پتہ ہے کہ اداروں میں پیسے کیسے بٹورے جاتے ہیں، ہمارا کونسا جج کرپٹ ہے میں اچھے طریقے سے جانتا ہوں، ان کا بس نہیں چلتا، نہیں تو یہ رشوت کو قانونی طور پر لاگو کر دیں۔
تحریک انصاف کی احتجاج کی کال ؛سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی گھر پر پولیس کی کارروائی پر کھل کر بول پڑے
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتیں بھی کرپشن کا حصہ ہیں، تین مرتبہ عدالتی ہدایات کے باوجود ادائیگی کیوں نہیں کی گئی، ڈپٹی کمشنر اور چیف کمشنر عملدرآمد کیوں نہیں کروا رہے، ڈپٹی کمشنر اس نظام کا حصہ ہے اور سارا دن جو کچھ ہوتا ہے مجھے پتہ ہے۔
فاضل جج نے مزید کہا کہ میں چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو عدالت بلا کر 2 منٹ میں قانون سکھا دوں گا، اگر اگلی سماعت پر میرے آرڈر پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو ڈپٹی کمشنر اور چیف کمشنر عدالت پیش ہوں۔
عدالت نے اپنے حکم پر عمل درآمد کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
شہناز گل ہسپتال میں داخل ، کرن ویر مہرا کی مداحوں سے جذباتی اپیل
مزید :