اوپن اے آئی نے انٹرنیٹ کے بغیر چلنے والا نیا اے آئی ماڈل متعارف کرا دیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
ٹیکنالوجی کمپنی اوپن اے آئی نے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کا نیا ماڈل متعارف کرایا ہے جس کو استعمال کرنے کے لیے کسی انٹرنیٹ کنیکشن یا بڑے ڈیٹا سینٹرز کی ضرورت نہیں ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کی مالک کمپنی کے مطابق جدید gpt-oss-120b اور gpt-oss-20b ماڈلز لیپ ٹاپ یا اسمارٹ فونز جیسی ڈیوائسز پر بغیر انٹرنیٹ کے چل سکیں گی۔
کم وسائل کے استعمال کا مطلب ہے نئے ماڈلز روایتی کلاؤڈ پر مبنی ماڈلز کے مقابلے میں ماحول پر کم اثر انداز ہوں گے۔ تاہم، یہ صرف تحریری جواب دے سکیں گے۔
اوپن اے آئی کے باس سیم آلٹمن نے gpt-oss کو اربوں ڈالر کی تحقیق کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ان کا کہنا تھا کہ کمپنی کا ماننا ہے کہ یہ دنیا کا بہترین اور سب سے زیادہ قابلِ استعمال اوپن ماڈل ہے۔ کمپنی اس ماڈل کو دنیا کے لیے دستیاب کرنے کے لیے بہت پُر جوش ہیں تاکہ اے آئی تک زیادہ سے زیادہ لوگوں کی رسائی ہو سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اے ا ئی
پڑھیں:
ایلون مسک کی کمپنی ایکس نے مودی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا
بھارت میں انٹرنیٹ پر بڑھتی ہوئی سنسرشپ کے خلاف ایلون مسک کی کمپنی ایکس (سابقہ ٹوئٹر) نے بھارتی حکومت کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا ۔
انٹرنیٹ پالیسی کو “غیر آئینی” قرار
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایکس نے مودی حکومت کی انٹرنیٹ پالیسی** کو بھارتی آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے۔
ایکس کا مؤقف ہے کہ حکومت سوشل میڈیا پر ہزاروں پوسٹس ہٹانے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے، جن میں زیادہ تر مواد مودی حکومت پر تنقید، سیاسی کارٹونز، اور صحافتی رپورٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔
ایلون مسک کا کہنا ہے کہ بھارت میں آزادیٔ اظہار کو دبانے کی منظم کوششیں ہو رہی ہیں، اور حکومتی اداروں کو اس مقصد کے لیے غیر معمولی اختیارات دیے جا رہے ہیں۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ستمبر 2023 سے بھارتی حکومت ایک مخصوص ویب سائٹ سہیوگ کے ذریعے ٹیک کمپنیوں کو مواد ہٹانے کی ہدایات دے رہی ہے۔
ایکس نے اس پورٹل کو سنسرشپ کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش؟
آزادیٔ اظہار کے حامی حلقوں نے مودی حکومت کی ان پالیسیوں کو اختلافِ رائے کو دبانے کی حکمت عملی قرار دیا ہے، جو ایک جمہوری معاشرے کے لیے خطرناک مثال قائم کر سکتی ہے۔
یہ مقدمہ نہ صرف بھارت میں اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی انٹرنیٹ آزادی کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔