وفاقی وزیر اطلاعات کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ 9 مئی کو ایک سازش رچائی گئی، ریاستی اداروں پر حملے ہوئے، اس سنگین جرم پر قانون کے مطابق سزائیں سنائی گئیں، ان سزاؤں کے تمام فیصلے شفاف اور فیئر ٹرائل کے بعد ہوئے۔ اپوزیشن کو اسی بات کی تکلیف ہے کہ سازش کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے اپوزیشن راہنما اسد قیصر کی پریس کانفرنس کو گمراہ کن اور حقائق کے منافی قرار دے دیا۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کے بارے میں گمراہ کن بیانات عوام کے حق میں نہیں، کیا آپ کو یہ قابل قبول نہیں کہ ترسیلات زر 38 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ کیا آپ کو یہ بھی قبول نہیں کہ کرنٹ اکائونٹ سرپلس 2.

1 ارب ڈالر ہو گیا ہے، مہنگائی میں کمی آ رہی ہے، برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے، اسٹاک مارکیٹ مسلسل اوپر جا رہی ہے اور معیشت ترقی کر رہی ہے، کیا آپ کو یہ قبول نہیں ہے۔؟

معیشت کے حوالے سے عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی درجہ بندی میں واضح بہتری کی ہے، کیا یہ حقیقت آپ کو تسلیم نہیں ہے۔؟ انہوں نے مزید کہا کہ 9 مئی کو ایک سازش رچائی گئی، ریاستی اداروں پر حملے ہوئے، اس سنگین جرم پر قانون کے مطابق سزائیں سنائی گئیں، ان سزاؤں کے تمام فیصلے شفاف اور فیئر ٹرائل کے بعد ہوئے۔ اپوزیشن کو اسی بات کی تکلیف ہے کہ سازش کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا رہا ہے اور انہیں ان کے جرائم کی سزا مل رہی ہے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رہی ہے

پڑھیں:

چور... معیشت کے خاموش محسن؟

جب ہم معیشت کے بارے میں سوچتے ہیں تو دماغ فوراً بینکس، صنعتوں، برآمدات، زراعت اور ٹیکنالوجی کی طرف چلا جاتا ہے۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بغیر کسی بجٹ اور تنخواہ کے پوری معیشت کے کئی شعبوں کو متحرک رکھتا ہے۔ اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ ’چور‘ ہیں۔

بظاہر یہ قانون کی نظر میں مجرم ہوتے ہیں، لیکن اگر معیشت کا چشمہ لگا کر دیکھا جائے تو یہ مجرم کم اور ’خاموش محسن‘ زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔

ایک لمحے کےلیے ذرا سوچیے کہ اگر دنیا میں چوری نہ ہوتی تو کیا تالے، تجوریاں، الماریاں، ڈیجیٹل لاکس اور سیفٹی باکسز بنانے والی انڈسٹری وجود رکھتی؟ شاید نہیں۔

یہ پوری کی پوری صنعت دراصل اسی خوف کی پیداوار ہے کہ کہیں کوئی چیز چوری نہ ہوجائے۔ یہی خوف دروازوں پر مضبوط تالے لگواتا تو کھڑکیوں پرآہنی جال چڑھواتا ہےاور اسی خوف کے تحت تجوریوں میں مال و متاع محفوظ کیا جاتا ہے۔ چھوٹے کاریگروں سے لے کر ملٹی نیشنل کمپنیز تک، سب چوروں کی بدولت کماتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو روزگار مہیا کرتے ہیں۔

پھر سیکیورٹی کا شعبہ دیکھ لیجیے۔ ہر گلی محلے میں سیکیورٹی گارڈ کھڑا نظر آتا ہے۔ ہر اسکول، دفتر اور پلازے میں کیمرے نصب ہیں۔ میٹل ڈیٹیکٹر، بایومیٹرک سسٹمز، اور الارم لگانے والی کمپنیز دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں اور ان سب کی بنیاد بھی وہی ہے، ’چور کا خوف!‘۔

اگر چوری کا تصور نہ ہو تو یہ ساری ٹیکنالوجی صرف فلموں میں استعمال ہوتی نظر آئے، یا کسی میوزیم میں پڑی ہو۔

چوروں کا سب سے بڑا ’احسان‘ شاید روزگار کے میدان میں ہے۔ پولیس، وکلا، ججز، عدالتوں کا عملہ، جیل کے ملازمین، تفتیشی ادارے، انٹیلیجنس ایجنسیز ، یہ سب عموماً چوروں کے دم پر کام کرتے ہیں۔ روزانہ ہزاروں ایف آئی آرز درج ہوتی ہیں، ان کی تفتیش کی جاتی ہے، گواہوں کے بیانات اور ثبوت اکٹھے کیے جاتے ہیں، عدالتیں کیسز سنتی ہیں، فیصلے ہوتے ہیں اوراپیلیں دائر کی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ عموماً ایک واقعے کے بعد شروع ہوتا ہے، اور وہ ہے، چوری!

جب کوئی چور کسی کا موبائل، لیپ ٹاپ، پرس یا گاڑی چرا لیتا ہے تو متاثرہ فرد مجبوری میں نئی چیز خریدتا ہے، یوں مارکیٹ میں نئی خریداری ہوتی ہے۔ دکاندار خوش، کمپنی خوش اورحکومت بھی خوش، کیونکہ اسے سیلز اور انکم ٹیکس دونوں کی مد میں وصولیاں ہو جاتی ہیں اور موبائل ٹریکرز، انشورنس کمپنیز، ریپلیسمنٹ سروسز، سب ایکٹیو ہوجاتی ہیں۔ گویا ایک چوری کئی کاروباروں کو زندہ کر دیتی ہے۔

اور بات صرف یہاں نہیں رُکتی بلکہ اگر چور پکڑا جائے تو جیل جاتا ہے اور جیل کے اندر بھی ایک مکمل نظام چلتا ہے۔ جیلر، وارڈن، کُک، طبی عملہ، اصلاحی پروگرامز چلانے والے، کھانے کی سپلائی اور یونیفارمز وغیرہ، سب کی نوکری چور سے جڑی ہے۔ اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ جیلیں بھی بجٹ کھاتی ہیں اور وہ بجٹ چلتا ہے معیشت سے، یعنی چور صرف جیل سے باہر ہی نہیں بلکہ جیل کےاندر بھی معیشت چلاتے ہیں۔

کچھ چور تو اپنی ’قابلیت‘ کے باعث سیاست میں آ جاتے ہیں اوروہاں آکر وہ چھوٹی موٹی چوریاں چھوڑ کر بڑے پیمانے پر مالیاتی اعدادو شمار سے کھیلتے ہیں۔ منصوبوں کے فنڈز، ٹینڈر، کِکس بیکس اور کمیشن، یہ سب ان کے دائرہ اختیار میں آجاتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ چور قانونی کَور کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ستم ظریفی کی انتہا تو یہ ہے کہ اکثر تو خود ہی قانون ساز بن جاتےہیں۔ ان کی چوریاں ملک کے بجٹ کو زیادہ متاثر کرتی ہیں لیکن ان ہی کے فیصلوں سے معیشت کی سمت طے ہوتی ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ تحریر چوری کو جائز قرار دینے کی کوشش نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ چوری ہر دَور، مذہب اور معاشرے میں ایک بڑا جُرم رہی ہے اور اس سے فرد، معاشرہ اور اخلاقی اقدار متاثر ہوتی ہیں لیکن عمومی سچ یہی ہے کہ اگر چور نہ ہوں تو معیشت میں ایک عجیب سا خلا پیدا ہوجائے، کئی صنعتیں بند ہو جائیں، ہزاروں لوگ بے روزگار ہوجائیں اور پولیس اسٹیشنز پر شاید ہُو کا عالم ہو۔ یہ بلاگ صرف ایک طنزیہ تحریر نہیں بلکہ ہم اس میں سچائی کا عکس بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جرم اور معیشت کا تعلق بعض اوقات اتنا گہرا ہوجاتا ہے کہ دونوں کو الگ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

چور اگرچہ قانون کی نظر میں مجرم ہوتا ہے لیکن معیشت کی نظر میں اکثر ایک غیر اعلانیہ اسٹیک ہولڈر بھی ثابت ہوتا ہے۔

تو اگلی بار جب آپ اپنا دروازہ بند کرتے وقت تالا لگائیں یا کیمرے کی ریکارڈنگ چیک کریں تو ایک لمحے کو رکیے گا اور سوچئے گا کہ کہیں نہ کہیں ایک چور نہ چاہتے ہوئے بھی معیشت کا پہیہ گھما رہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اسد قیصر کی پریس کانفرنس کوحقائق کے منافی قراردیدیا
  • اسد قیصر کی پریس کانفرنس گمراہ کن اور حقائق کے منافی ہے،عطاء اللہ تارڑ
  • چاہتے ہیں زائرین کے مسائل جلد از جلد حل ہوں، گورنر سندھ اور علامہ احمد اقبال رضوی کی پریس کانفرنس
  • دو طیاروں سے مزید 200 ٹن امداد غزہ بھیج رہے ہیں: عطاء تارڑ 
  • زائرین اربعین حسینی مارچ کے مطالبات منظور، حکومت نے بارڈر بندش پر معافی مانگ لی، احتجاج ختم، مکمل پریس کانفرنس
  • غزہ کے نہتے شہریوں کیلئے اب تک امدادی سامان پر مشتمل 18 جہازروانہ کیے جا چکے ہیں:عطاء اللہ تارڑ
  • وزیراعظم شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پر فلسطین کے مظلوم اور نہتے شہریوں کیلئے امدادی سامان کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے، اب تک امدادی سامان کی 18 کھیپیں غزہ روانہ کی جا چکی ہیں، عطاء اللہ تارڑ
  • دشمن کو واضح پیغام گیا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اپنی افواج کے ساتھ کھڑی ہے: عطا اللہ تارڑ
  • چور... معیشت کے خاموش محسن؟