خیبر پختونخوا میں قیامِ امن کے لیے فوجی آپریشن کیا جائے یا نہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
خیبرپختونخوا میں شدید بے امنی کے دوران رائے اس بات پر واضح طور پر منقسم ہے کہ قیامِ امن کے لیے فوجی آپریشن کیا جائے یا نہیں۔
ایک رائے یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی کے سوا کوئی اور حل موجود نہیں، اور آپریشن ہی آخری راستہ ہے۔ ان کے مطابق، طاقت کا استعمال ہی وہ ذریعہ ہے جو دہشت گرد نیٹ ورکس کو توڑ سکتا ہے اور عوام کو فوری ریلیف دے سکتا ہے۔ لیکن دوسری جانب، فوجی آپریشنز کے خلاف مقامی سطح پر کیے جانے والے مظاہروں (امن مارچ) میں یہ مطالبہ بار بار دہرایا جاتا ہے کہ اگر آپریشن ہی آخری حل ہے تو یہ وضاحت دی جائے کہ اب تک کیے گئے بائیس بڑے فوجی آپریشنز کے باوجود امن کیوں قائم نہیں ہو سکا۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ طاقت کے استعمال کے باوجود اگر پائیدار امن حاصل نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ حکمتِ عملی میں بنیادی خامی موجود ہے۔ خیبر پختونخوا کے بندوبستی اور قبائلی اضلاع میں موجودہ صورتحال کے تناظر میں اگر 7نکات پر عمل درآمد کیا جائے تو امن و امان کے قیام کی تمام کوششوں پر کافی حد تک اتفاق رائے پیدا کیا جاسکتا ہے۔
ملک کی سطح پر ایک جامع گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے، جس میں تمام سیاسی جماعتوں، تمام فریقین اور جملہ شعبہ ہائے زندگی کے نمائندوں کی رائے کو مقدم رکھتے ہوئے ایک نیا نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا جائے۔ اس ڈائیلاگ میں صرف دہشت گردی کے خاتمے کی پالیسی نہیں بلکہ اس کے اسباب، خطے کی سماجی و معاشی صورتحال، اور پڑوسی ممالک سے تعلقات کے اثرات پر بھی کھل کر بحث کی جائے۔ فوج اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کے لیے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ فوجی آپریشن کسی اور مقصد یا کسی کے ایما پر نہیں بلکہ خالصتاً دہشت گردوں کے خلاف ہورہا ہے، اور اس بار اس میں کسی بھی ’اچھے‘ یا ’بُرے‘ طالبان کی تمیز نہیں کی جائے گی۔ ماضی میں ’اچھے‘ اور ’برے‘ طالبان کی پالیسی نے عوام کے اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا، اس لیے اس بار شفافیت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ جامع فوجی کارروائی (کائنیٹک ایکشن) کے ساتھ ساتھ متاثرہ علاقوں میں غیر فوجی اقدامات (نان کائنیٹک ایکشن) بھی ضروری ہیں۔ تمام قبائلی اضلاع میں 2008ء کے بعد فوجی آپریشنز تو باقاعدگی سے ہوئے، لیکن بحالی، بنیادی ڈھانچے کی بہتری، بہتر طرزِ حکومت کے نفاذ اور مقامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے، جس کے باعث مسائل حل ہونے کے بجائے مزید سنگین ہوگئے۔ مثال کے طور پر، بے گھر ہونے والے ہزاروں خاندان آج بھی مستقل رہائش اور روزگار کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، جس سے مقامی ناراضگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ سیکورٹی فورسز کسی بھی طور اندرونی سلامتی کی براہِ راست ذمہ دار نہیں، لیکن یہ سوال اہم ہے کہ کیا پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس قابل ہیں کہ داخلی سلامتی کے مسائل مؤثر طریقے سے حل کرسکیں؟ فی الحال، پولیس فورس کی تربیت، وسائل اور ٹیکنالوجی کے معیار میں نمایاں کمی ہے، جو دہشت گردوں کے جدید نیٹ ورک سے نمٹنے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ داخلی سلامتی بہتر بنانے کے لیے پولیس اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ میں سرمایہ کاری اور ان کی استعدادِ کار میں اضافہ ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اب مکمل طور پر سامنے آنا ہوگا۔ خاص طور پر 3 بڑی جماعتوں، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی، کو باہمی اختلافات ختم کرکے اسٹریٹیجک نکات پر اتفاق کرنا ہوگا۔ انہیں سیکیورٹی فورسز کے پیچھے نہیں بلکہ فرنٹ پر آ کر، پالیسی کے مطابق، قیادت سنبھالنی ہوگی۔ اگر یہ سیاسی قوتیں سیکیورٹی ایجنڈے پر یکساں موقف اپنائیں تو نہ صرف عوام کا اعتماد بڑھے گا بلکہ دہشت گرد گروپوں کو بھی واضح پیغام ملے گا کہ ریاست ایک پیج پرہے۔ پچھلی 2دہائیوں سے جاری فوجی آپریشنز میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان عوام نے اٹھایا ہے۔ اگر فوجی کارروائی کے دوران صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جائے تو عوام ان آپریشنز کی باقاعدہ حمایت کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے شہری علاقوں میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کو ترجیح دی جائے اور بے گناہ شہریوں کے نقصان کو ہرممکن حد تک روکا جائے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قیامِ امن کے لیے ریاستی کوششوں میں مقامی لوگوں کی رائے کو مقدم رکھا جائے، اور ریاستی فیصلوں میں ان دونوں صوبوں کے آئینی حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ گیس، بجلی اور دیگر قدرتی وسائل سے متعلق فیصلوں میں مقامی آبادی کو لازماً شامل کیا جائے۔ اس شمولیت سے نہ صرف عوامی اعتماد بڑھے گا بلکہ وسائل کے منصفانہ استعمال سے احساسِ محرومی میں بھی کمی آئے گی۔آخر میں، یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ محض بندوق اور گولی سے امن قائم نہیں ہوتا۔ امن اس وقت پائیدار بنتا ہے جب طاقت کے ساتھ انصاف، معاشی ترقی اور عوامی شمولیت کا امتزاج پیش کیا جائے۔ اگر ریاست یہ جامع حکمتِ عملی اپنائے تو خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ایک نئے دور کے آغاز کی امید کی جا سکتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خیبرپختونخوا سیاسی جماعتیں فوجی ا پریشن قیام امن خیبر پختونخوا فوجی آپریشنز فوجی آپریشن کیا جائے کے لیے
پڑھیں:
خیبر پختونخوا میں حکومت کی تبدیلی ممکن ہے، امیر مقام کا دعویٰ
مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا کے صدر اور وفاقی وزیر امورِ کشمیر انجینئر امیر مقام نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں حکومت کی تبدیلی خارج از امکان نہیں، مناسب وقت پر اسمبلی میں اکثریت ثابت کرکے سیاسی صورتحال کو بدل سکتے ہیں ، 53 اراکین پر مشتمل مضبوط اپوزیشن اتحاد پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
امیر مقام نے یہ گفتگو صوابی میں ن لیگ کے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری حاجی دلدار خان کی رہائش گاہ پر ان کے بھائی کے انتقال پر تعزیت کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کی۔
انہوں نےکہا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بات چیت کی خواہاں ہے، لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف مذاکرات سے گریزاں ہے۔ عمران خان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات زیرِ سماعت ہیں اور انہیں قانون کے مطابق عدالتوں کا سامنا کرنا چاہیے۔
امیر مقام نے واضح کیا کہ 9 مئی کے واقعات اور ان سے متعلق عدالتی فیصلوں کا مسلم لیگ (ن) سے کوئی تعلق نہیں، جبکہ ن لیگ قومی مفاد میں تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہے۔
یومِ استحصال کشمیر پر تحریک انصاف کے احتجاج پر تنقید کرتے ہوئے امیر مقام نے کہا کہ اس دن احتجاج کر کے پی ٹی آئی نے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچایا، اور اب 14 اگست جیسے اہم دن پر احتجاج کی کال دینا سراسر ملک دشمنی کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت بھارت اور اسرائیل کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت یومِ آزادی بھرپور طریقے سے منائے گی اور افواجِ پاکستان سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا جائے گا۔
امیر مقام نے کہا کہ پاکستانی عوام نے ہمیشہ مسلم لیگ (ن) کو ملک دوست جماعت سمجھ کر ووٹ دیا ہے، اور آئندہ بھی حکومت “سبز ہلالی پرچم” کی ہوگی۔