پاکستان نے بھارتی وزارت خارجہ کے فیلڈ مارشل سے منسوب بیانات مسترد کر دیے
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے بھارتی وزارت خارجہ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان بھارت کی دیرینہ عادت کا عکاس ہے، جس میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ہمیشہ بیانات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کرتا ہے۔
شفقت علی خان نے کہا کہ بھارت کا مبینہ ایٹمی بلیک میل کا بیانیہ گمراہ کن اور خود ساختہ دعویٰ ہے۔ پاکستان طاقت کے استعمال یا دھمکی دینے کی پالیسی کی سخت مخالفت کرتا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے جس کا جامع کمانڈ اور کنٹرول نظام مکمل طور پر سول نگرانی میں کام کرتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ ان اہم معاملات میں نظم و ضبط اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششیں عالمی سطح پر تسلیم کی گئی ہیں اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط ڈھال ہیں۔ بھارتی وزارت خارجہ کے الزامات حقیقت سے بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی نے بھارت میں فرقہ واریت میں خطرناک اضافہ کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی: بھارت میں حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی کھلی نفرت انگیز تقاریر اور عسکری و مذہبی حلقوں کے باہمی رابطوں نے ایک بار پھر ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو زہر آلود کر دیا ہے اور ملک کے اندر اقلیتوں، خصوصاً مسلم کمیونٹی میں خوف و بے چینی فروغ پا رہی ہے۔
مختلف ذرائع اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ریکارڈنگز اور بیانات کے مطابق چند متحرک ہندو مذہبی رہنماؤں نے ایسی زبان استعمال کی ہے جسے انسانی حقوق تنظیموں اور متعدد سول سوسائٹی گروپس نے اشتعال انگیز اور انتہا پسند قرار دیا ہے۔
ان متنازع بیانات میں بعض رہنماؤں کے ایسے الفاظ شامل ہیں جو اسلام کو ملک یا دنیا سے ختم کرنے کی دھمکیوں کے مترادف سمجھے گئے ہیں، جس نے عام طور پر تحمل اور برداشت کے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق یہ رجحان محض چند شرپسند اور انتہا پسند گروپوں تک محدود نہیں رہا بلکہ بعض سرکاری یا نیم سرکاری عہدیداروں کے اقدامات اور تقاربات سے ان گروپوں کو تقویت ملی ہے۔
اس سلسلے میں فوجی سربراہ کے حالیہ دورے اور بعض مذہبی مقامات کی وردی میں زیارت کو بھی مختلف حلقوں نے تشویش انگیز قرار دیا ہے۔
سیاسی منظرنامے میں یہ کشیدگی اس وقت اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے جب اتر پردیش کے ایک بااثر وزیراعلیٰ کے بیانات میں ایسا پیغام ملتا ہے جسے بعض مبصرین سناتن دھرم کو فروغ دیتے ہوئے تنوع اور مذہبی آزادیاں محدود کرنے کی سمت قدم تصور کر رہے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف اقلیتی نمائندوں نے حکومت اور سیکورٹی اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے بیانات اور مظاہروں کو قانون کے دائرے میں رکھتے ہوئے فوری کارروائی کریں اور مذہبی منافرت کو ہوا دینے والوں کے خلاف مؤثر تحقیقات کروائیں۔
قانون دانوں اور تجزیہ کاروں کا مؤقف ہے کہ آئین و قانون اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کے تحت مذہبی آزادی اور اقلیتی تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور حکومت کو ایسے تمام اقدامات سے باز رکھنا چاہیے جو فرقہ وارانہ تقسیم کو ملک میں مزید گہرا کریں۔