۔۔۔۔۔۔۔
شعیب واجد
سن48میں جب اسرائیل نے اپنے قیام کے بعد فلسطینی علاقوں پر قبضہ شروع کیا تو مغرب کی جانب سے اس قبضے کے خلاف آواز اُٹھی۔ ہم خوش ہو گئے اور ان کی آواز کو توانا سمجھتے ہوئے اعتماد کیا اوراپنی کوششیں ترک کردیں۔۔بات ختم ہو گئی۔۔ ہم بھول گئے ۔۔
سن 67 میں اسرائیل نے بیک وقت مصر، شام اور اُردن پہ حملہ کیا اور تینوں ملکوں کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔۔امریکہ اس بار بھی اسرائیل کا سب سے بڑا سپورٹر تھا۔۔ ہم تڑپ اٹھے لیکن مغربی ملکوں کو اسرائیل کی مذمت کرتے دیکھ کے ہم خاموش ہو گئے کہ اب تو یہ معاملہ حل ہی کرا لیں گے ۔۔مگر وقت گزرا ، معاملہ اقوام متحدہ کی یاترا بھی کر آیا۔۔اور بات ختم ہوگئی۔۔
سن73 کی عرب اسرائیل جنگ میں یہ تنازع پھر گرم ہوا۔۔ امریکا بدستور اسرائیل کی مدد اس طرح کر رہا تھا کہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان جنگی ہتھیاروں کی فراہمی کا ایک پل قائم تھا ، ہر چار منٹ بعد ایک امریکی طیارہ ہتھیار لیکر اسرائیل اتر رہا تھا۔۔۔ادھر کئی مغربی ملکوں سے آوازیں آرہی تھیں کہ عرب ممالک کا غصہ بجا ہے کیونکہ ان کے علاقوں پہ قبضہ ہوا ہے ۔۔ اور 25برس سے مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ ہم خوش ہو گئے کہ امریکی اتحادی امریکہ کے موقف کے خلاف بات کر رہے ہیں اب مسئلہ حل ہو جائے گا۔یورپ میں فلسطین کے حق میں مظاہرے ہمارا دل بڑھا رہے تھے ۔مگر وقت گزرا اور بات ختم ہو گئی۔۔
34 برس گزر چکے تھے ۔1982میں اسرائیل نے لبنان کے خلاف بھی محاذ کھول دیا۔ فلسطینیوں کے صابرہ اور شتیلہ کیمپ میں قتل عام کیا۔ بے یارو مددگار فلسطینیوں کی ہزاروں لاشیں دیکھ کے مغرب تڑپ اٹھا۔مغربی ملکوں نے سخت مذمت کی اس بار امریکہ بھی بول اٹھا۔ یورپی ملکوں میں اتنے بڑے مظاہرے ہوئے کہ ہم خوش ہو گئے ۔ اور ان کی انسانیت دوستی کو داد دی۔بات ختم ہو گئی۔ ہم بھول گئے ۔ 1987میں فلسطینیوں نے مظاہرے شروع کیے جسے انتفاضہ تحریک کا نام دیا گیا۔۔یہ پُرامن مظاہروں کی ایک بے مثال تحریک تھی، جو بنیادی طور پر ایک سول نافرمانی کی تحریک کہی جاتی ہے ۔لیکن اس کی بدولت فلسطینی اپنے مقبوضہ علاقے واپس لینے اور بیت المقدس کی آزادی کی جدوجہد کو دنیا کے آگے روشناس کرانے میں ایک بار پھر کامیاب ہو گئے ۔ ان مظاہروں پر اسرائیل کی فائرنگ سے روزانہ فلسطینی زخمی اور شہید ہوتے تھے پرامن مظاہرین پر اسرائیلی فائرنگ کی پوری مغربی دنیا میں شدید مذمت کی گئی۔فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کا معاملہ پھر زندہ ہو گیا مغربی ملکوں سے اوازیں آنے لگی فلسطینیوں کو آزاد مملکت کا حق دیا جائے ۔ہم سمجھے دنیا بدل رہی ہے ۔ان دنوں مشرقی اور مغربی جرمنی ایک ہوئے تھے اور سوویت یونین ٹوٹ چکاتھا، ہم سمجھے عالمی تنازعات حل ہورہے ہیں۔فلسطین کو بھی حق مل جائے گا۔ مگر وقت گزرا اور بات پھر ختم ہو گئی۔بُھولی دنیا کو جگانے کیلئے سن 2000میں فلسطینیوں نے ایک نئی انتفاضہ کا آغاز کیا۔اس باریہ مزاحمتی احتجاج تھا۔فلسطینیوں کی اسرائیل سے روزانہ جھڑپیں ہوتیں۔پتھراؤ کے جواب میں اسرائیلی فوج کی جانب سے فائرنگ کی جاتی۔یہ تحریک پانچ سال چلی۔تین ہزار نوجوانوں نے جانیں دیں۔مغربی ممالک میں فلسطینی مظاہرین کے حق میں احتجاج ہوئے ۔مظاہرے دیکھ کر ہم خوش ہوئے ۔کہ دنیا اس بار تو جاگ ہی جائے گی۔امریکا نے بھی مذاکرات کی بات کی۔ وقت گزرا،بات ختم ہو گئی۔ ہم بھول گئے۔
فلسطین پر قبضے کو2008میں نصف صدی بیت چکی تھی۔ مسلم دنیا کو سمجھ آنے لگا تھا کہ مغرب کی فلسطین کی زبانی حمایت،مذمت اور مظاہرے لولی پاپ سے ذیادہ نہیں۔2008میں اسرائیلی فوج نے غزہ میں فوجی کارروائی کی۔جس میں 1300فلسطینی شہری شہید ہوئے۔ یہ اس دور کا بڑا قتل عام تھا۔جس پر دنیا چیخ اٹھی۔ٹی وی میڈیا اس دور میں عروج پاچکاتھا۔ہم نے سمجھا یہ تصویریں دنیا کو ہلا دیں گی۔ مگر وقت گزرا اور بات پھر ختم ہو گئی۔2012میں حماس لیڈر کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی،اسرائیل نے فلسطین پر شدید بمباری بھی کی۔ 167 افراد کی شہادت کے بعد دنیا میں مظاہرے ہوئے ۔ہم چپ رہے ۔بات ختم ہوگئی۔
اور پھر 2014آگیا۔دنیا نے پہلی بار فلسطینی بچے مرتے دیکھے ۔نئی صدی کا بدترین قتل عام ہوا۔2200 شہید شہریوں میں 1300 بچے تھے ۔دنیا ہل گئی۔اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ بھی پھٹ پڑی۔لندن اور پیرس کے مظاہرے ہمارا حوصلہ بڑھا گئے ۔ ہم نے سوچا دنیا بچوں کا قتل تو برداشت نہیں کرے گی۔ مگرپھر وہی ہوا۔سب مذمتیں،قراردادیں اور مظاہرے وقت گزاری کا بہانہ نکلے ۔ہم تاریخ کی بدترین مکاری اور دوغلے پن کا شکار ہوچکے تھے ۔2018میں فلسطینیوں نے غزہ اسرائیل سرحد پر احتجاج شروع کیا۔200 لاشیں گریں۔بات ختم ہوگئی۔7اکتوبر2023کو حماس نے اسرائیل کے اندر پہلی بڑی کارروائی کی۔1200اسرائیلی مارے گئے ۔دنیا نے اس کی بڑی مذمت کی۔کسی نے نہیں کہا کہ 75سال سے جاری اسرائیلی دہشت گردی کے جواب میں یہ ردعمل کیوں نہیں آتا؟دنیا کا ردعمل عجیب تھا۔فلسطینیوں کو کٹہرے میں کھڑا کردیاگیاتھا۔اسرائیل کوفلسطینیوں کے کسی قتل عام کیلئے کبھی کوئی جواز درکار نہیں رہا تھا۔لیکن اس بار تو جواز موجود بھی تھا۔12سو اسرائیلی جومرگئے تھے ۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔۔صرف اگلے دس دن میں 2700فلسطینی مارے جا چکے تھے ۔اکثریت بچوں اور خواتین کی تھی۔ دنیا میں مظاہرے ہوئے ۔مذمتیں ہوئیں۔ہم سمجھے اسرائیل کے لہو کی پیاس اب بجھ گئی ہوگئی۔ لیکن اسرائیل جو سوچ رہا تھا وہ پکچرتو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی تھی۔ اور پھر کسی مشین سے کٹ کر گرتی گاجر مولی کی طرح فلسطینیوں کی لاشیں گرنا شروع ہوگئیں۔آج اس جاری قتل عام کو ایک سال نو ماہ بیت چکے ہیں۔قتل عام مستقل بنیادوں پر جاری ہے ، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ فلسطینیوں کی لاشیں نہ گرتی ہوں۔ساٹھ ہزار سے زائد وہ شہری شہید ہوچکے ہیں۔جو نہ مسلح جنگجو تھے یا حماس کے رکن۔ انہیں گھروں میں شہید کیا گیا۔روٹی اور پانی کیلئے بنی قطاروں میں شہید کیا گیا۔قتل عام سے بات نسل کشی تک آن پہنچی۔اب غزہ پر قبضہ کرکے مزید قتل عام اور فلسطینیوں کو سرحد سے باہر دھکلینے کا منصوبہ ہے ۔دنیا چیخ رہی ہے ۔بڑے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں۔ہفتے کو سڈنی اور ٹوکیو کے مظاہروں نے ‘دل خوش’ کردیا۔ خوب نعرے لگے تھے ۔لاکھوں لوگ نکلے تھے ۔ہم 77سال کے ماضی کی عینگ لگائے ،ان مظاہروں کو دیکھتے رہ گئے ۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: بات ختم ہو گئی فلسطینیوں کی میں اسرائیل مغربی ملکوں میں فلسطینی اسرائیل نے میں فلسطین ہم خوش ہو کے خلاف اور بات رہا تھا قتل عام ہو گئے
پڑھیں:
دنیا بھر کے اہل عقیدت کربلا جا رہے ہیں اور اہل پاکستان
اسلام ٹائمز: برادر مکرم سبوخ سید جو رحمۃ اللعالمین اتھارٹی پاکستان کے وفد کے ساتھ عراق گئے تھے کے پاس حاضر ہوئے، انہوں نے اپنے سفر عراق کے ایسے عالی شان واقعات سنائے کہ بار بار آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ کہنے لگے ہم نجف میں تھے ایک خاتون ہماری طرف آئی، ہم سمجھے کوئی مانگنے والی ہے۔ ذرا گریز کرنے لگے، پھر سوچا کہ اتنی وجیہ خاتون مانگنے والی تو نہیں ہو سکتی۔ وہ ہمارے پاس آئی اور کہا آپ دور سے آئے ہیں میرا گھر آپ کے لیے حاضر ہے، میرے گھر میں نہانے کے لیے حمام اور آرام دہ کمرے موجود ہیں۔ آپ کو چلنا بھی نہیں پڑے گا میں سواری کا بندو بست بھی کرکے آئی ہوں۔ شاہ جی بتا رہے تھے کہ وہ یہ سب ایسے کہہ رہی تھی جیسے بھیک مانگ رہی ہو۔ اللہ اکبر، محبت حسینؑ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلا رہی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
مشہور امریکی صحافی جکسن ہینکل نے ٹویٹ کیا کہ میں اربعین واک کے لیے عراق جا رہا ہوں، ان کی اس ٹویٹ سے کمنٹس کا ایک طوفان آگیا۔ جکسن امریکہ میں رہتے ہیں مگر یوں سمجھیے ان کی روح فلسطین میں رہتی ہے۔ وہ ہر وقت اہل فلسطین کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اور امریکی فیصلہ سازوں کی منافقت اور اسرائیلی مظالم کا پردہ چاک کرتے رہتے ہیں۔ غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف مسلسل مہم چلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب نوجوانوں میں کافی مقبول ہیں مگر جیسے ہی انہوں نے عراق اور مشی پر جانے کا اعلان کیا آل سعود اور استعمار کے گماشتے ان پر حملہ آور ہوگئے کہ وہ آخر کیوں اس واک میں شریک ہو رہے ہیں؟ سب سے قابل رحم حالت ان کوتاہ فکر لوگوں کی تھی جو ایک مذہب سے بھی آزاد خیال جکسن کو یہ سمجھا رہے تھے کہ کربلا جانا شرعی طور پر حرام ہے اس لیے آپ کو وہاں نہیں جانا چاہیئے۔ یہ خطے پر امریکی اسلام کے اثرات ہیں جو لوگوں کو حریت پسندوں کے امام کی زیارت سے روکتے ہیں۔ جکسن نے عراق پہنچ کر فلسطین کانفرنس میں شرکت کی اور بہت بہترین انداز میں اہل فلسطین کا مقدمہ پیش کیا۔ اب وہ مسلسل اپڈیٹ کر رہے ہیں کہ کیسے اربعین واک دنیا بھر کے مظلوموں بالخصوص اہل فلسطین کے لیے آواز بن رہی ہے۔ بچے، جوان اور مزاحمت کار کیسے نسل پرستوں اور نسل کشی کرنے والوں کے خلاف ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔
سچی بات ہے آج کل سوشل میڈیا کو اس لیے نہیں دیکھ رہا کہ ہر طرف اربعین کی ویڈیوز اور مشی کے تذکرے ہیں۔ جسم یہاں اور دل اسی راستے پر ہے، یوں لگتا ہے وہیں کہیں ہم بھی عازم کربلا ہیں۔ اللہ کے تکوینی ارادے کی طاقت کا عملی اظہار ہے آج لوگ عراقی صحرا کی پچپن درجہ حرارت گرمی میں سوئے کربلا بڑھ رہے ہیں۔اہل عراق کے جود و سخی اور محبت اہلبیتؑ بلکہ عشق اہلبیتؑ کی ایسی حیرت انگیز مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ کل برادر مکرم سبوخ سید جو رحمۃ اللعالمین اتھارٹی پاکستان کے وفد کے ساتھ عراق گئے تھے کے پاس حاضر ہوئے، انہوں نے اپنے سفر عراق کے ایسے عالی شان واقعات سنائے کہ بار بار آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ کہنے لگے ہم نجف میں تھے ایک خاتون ہماری طرف آئی، ہم سمجھے کوئی مانگنے والی ہے۔ ذرا گریز کرنے لگے، پھر سوچا کہ اتنی وجیہ خاتون مانگنے والی تو نہیں ہو سکتی۔ وہ ہمارے پاس آئی اور کہا آپ دور سے آئے ہیں میرا گھر آپ کے لیے حاضر ہے، میرے گھر میں نہانے کے لیے حمام اور آرام دہ کمرے موجود ہیں۔ آپ کو چلنا بھی نہیں پڑے گا میں سواری کا بندو بست بھی کرکے آئی ہوں۔ شاہ جی بتا رہے تھے کہ وہ یہ سب ایسے کہہ رہی تھی جیسے بھیک مانگ رہی ہو۔ اللہ اکبر، محبت حسینؑ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلا رہی ہے۔ جب سماج اپنے والدین کو گھروں سے باہر نکال رہا ہے تو محبت حسینؑ یہ تربیت کر رہی ہے کہ سنت ابراہیمیؑ پر عمل کرتے ہوئے مہمانوں کو تلاش کرو اور گھر لا کر ان کی بہترین خدمت کرو۔
اس بار اہل پاکستان کی کمی کو ایران و عراق ہر جگہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ کچھ فلائٹس چلیں اور خوش قسمت عشاق حسینؑ مشی میں کربلا پہنچ گئے مگر ہزاروں کی تعداد میں غریب زائرین اپنی حسرتیں لیے وطن میں ہی منتظر رہ گئے، حکومت نے بلوچستان میں جو مسائل بتائے ہیں وہ یقینا ہوں گے اور پچھلے ایک ہفتے میں بلوچستان میں ایک سو سے زیادہ دہشتگردوں کی ہلاکتیں بھی یہی بتاتی ہیں کہ واقعات کچھ بڑی پلاننگ کی گئی تھی جس کی بھنک ہمارے اداروں کو پڑ گئی۔ اس سب سے زائرین کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوتا۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ فوری طور پر فلائٹس چلیں گی۔ آج کی تاریخ تک اس میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی غالبا صرف ایک فلائٹ غالبا کوئٹہ سے تفتان ہوئی ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں بار بار اس پر بحث ہو رہی ہے اور حکومت سے وضاحت طلب کی جا رہی ہے۔ یہ بہت بڑی نااہلی ہے بلوچستان کے حالات سب کے سامنے تھے اور ہمارے وزیر داخلہ محترم جناب محسن نقوی صاحب کبھی ایران اور کبھی عراق اربعین کے حوالے سے مسلسل مصروف نظر آئے۔ سچ پوچھیں تو ہم پر امید تھے کہ اس بار ہمیں اربعین میں زیادہ سہولیات مسیر آئیں گی اور بڑی تعداد میں اہل وطن اربعین کے موقع پر شریک مشی ہو سکیں گے۔ ویزے اور چند ابتدائی معاملات کے حوالے سے کچھ اچھی خبریں بھی سننے کو ملیں۔
میٹنگز اور ساری دوڑ دھوپ کا نتیجہ صفر نکلا کہ زائرین کے سفرِ اربعین پر ہی پابندی لگا دی گئی۔ حکومت پورا سال سوئی رہتی ہے اور آخری ماہ میں بہت سے ایس او پیز یاد آ جاتے ہیں۔ اللہ کے بندوں لاکھوں اہل وطن کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا رہے ہو، کسی نے عمر بھر پائی پائی جمع کرکے نواسہ پیغمبرﷺ کے پاس جانے کے وسائل مہیا کیے ہیں، کچھ نے کمیٹیاں ڈالی ہیں، کچھ نے جانور فروخت کیے ہیں اور کچھ تو قرض لے کر عازم کربلا ہونا چاہتے تھے مگر بیروکریسی کی نااہلیوں کی وجہ سے ان جذبات کا خون کیا گیا۔ ہر سال یہ شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے کہ فیری سروس شروع کی جائے گی۔ اب تو یہ لگنے لگا ہے کہ یہ باقاعدہ ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ ہے کہ اس طرح کے بیانات دے کر اہل وطن کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے اور جیسے ہی اربعین گزر جائے پھر سے خواب خرگوش میں مبتلا ہو جائیں۔
یہاں ہر طرح کا مافیا عروج پر ہے ،بائی ائر روٹ والے اور بسوں کے کاروبار سے وابستہ طاقتور گروہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ فیری سروس شروع ہو، اس سے ان کے استحصال کا راستہ بند ہو جائے گا۔ بہت سے اور لوگ بھی ہیں جن کا کاروبار زائرین کے نام پر حکومتی خزانہ لوٹنے سے چلتا ہے ان کا ذریعہ آمدن بھی بند ہونے کا خطرہ ہے۔ اس لیے یہ گروہ زائرین کے لیے کسی بھی آسانی کے خلاف ہیں۔ زاہدان سے کوئٹہ دو اڑھائی گھنٹے کی فلائٹ ہے، ایک بہت موثر آپریشن ڈیزائن کیا جا سکتا ہے جس سے زائرین بروقت منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔ کراچی سے ایرانی بندرہ گاہ چاہ بہار تک فاصلہ 347 ناٹیکل میل ہے اور یہ سفر چودہ گھنٹے میں مکمل ہو سکتا ہے۔ یہ مہنگا بھی ہو تو پندرہ سے بیس ہزار کرایہ لگے گا۔ کراچی سے بصرہ بھی دو دنوں کا سفر ہے جس میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حکومت جلد از جلد اہل پاکستان کے اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے گا جب مختلف آپشنر ہوں گے تو سفری اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔