ایران کے ایٹمی پروگرام پر یورپی ممالک کا سخت انتباہ، دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا عندیہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT
لندن / پیرس / برلن: برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران کے بڑھتے ہوئے ایٹمی پروگرام پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کو باضابطہ خط لکھا ہے، جس میں اگست کے آخر تک کوئی سفارتی حل نہ نکلنے کی صورت میں پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔
یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ — ژاں-نوئل بارو (فرانس)، ڈیوڈ لیمی (برطانیہ) اور جوہان ویڈفل (جرمنی) — نے خط میں کہا کہ اگر ایران نے مقررہ ڈیڈ لائن تک معاہدے کی پاسداری نہ کی تو وہ "اسنیپ بیک میکانزم" استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ میکانزم 2015 کے جامع مشترکہ ایکشن پلان (JCPOA) کا حصہ تھا، جس کے تحت ایران پر عائد اقوام متحدہ کی پابندیاں نرم کی گئی تھیں۔
یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب جون 2025 میں اسرائیل نے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے 12 روزہ فوجی کارروائی کی، جس میں امریکا نے بھی فضائی حملے کیے۔ ان حملوں کے بعد ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ تمام تعاون معطل کر دیا۔
اس سے پہلے بھی ایران پر معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات لگتے رہے ہیں، جن میں یورینیم کے ذخائر کو معاہدے میں طے شدہ حد سے 40 گنا بڑھانا شامل ہے۔
یورپی وزرائے خارجہ نے زور دیا کہ بطور معاہدے کے دستخط کنندگان، انہیں مکمل قانونی جواز حاصل ہے کہ ایران کی عدم تعمیل کی صورت میں پابندیاں بحال کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سفارتی حل کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن ایران کی موجودہ روش مذاکراتی عمل کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے پچھلے ماہ اقوام متحدہ کو خط میں مؤقف اختیار کیا کہ یورپی ممالک کے پاس پابندیاں بحال کرنے کا قانونی حق نہیں ہے۔ تاہم، یورپی ممالک نے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ یورپی ممالک
پڑھیں:
شام میں مارچ میں قتل عام ’ممکنہ جنگی جرائم،‘ اقوام متحدہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اگست 2025ء) شامی ساحلی علاقوں میں 1,400 ہلاکتیں ممکنہ جنگی جرائم، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے شام کے لیے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال مارچ میں شام کے ساحلی علاقوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے دوران عبوری حکومت کے اہلکاروں اور سابق حکمرانوں کے وفادار جنگجوؤں، دونوں ہی کی جانب سے ممکنہ جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔
(جاری ہے)
رپورٹ کے مطابق اس پرتشدد لہر میں زیادہ تر علوی برادری کو نشانہ بنایا گیا اور تقریباً 1,400 افراد، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی تھی، ہلاک ہوئے۔ اس تشدد کے بعد بھی وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔
یہ واقعات گزشتہ سال صدر بشار الاسد کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد شام میں پیش آنے والا سب سے خونریز سانحہ تھے۔ اس کے بعد عبوری حکومت نے حقائق کے تعین کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کی تھی۔
ادارت: مقبول ملک، جاوید اختر