Daily Mumtaz:
2025-10-04@20:26:35 GMT

سبز رنگ، مستقبل کی ترقی کا بنیادی رنگ

اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT

سبز رنگ، مستقبل کی ترقی کا بنیادی رنگ

بیجنگ :’’ماضی میں پرندے ڈھونڈنے کے لیے آپ کو دور دور جانا پڑتا تھا، لیکن اب چین میں ماحول بہتر سے بہتر ہوتا جا رہا ہے اور آپ شہر کے پارکس میں بھی پرندوں کی تصاویر کھینچ سکتے ہیں۔ ماحول کی بہتری آنکھوں کے سامنے ہے ۔”پاکستان سے تعلق رکھنے والے خالد شریف نے چینی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے حالیہ برسوں میں چین کے ماحول میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار مذکورہ بالا الفاظ میں کیا ۔خالد چین میں کئی سالوں سے مقیم ہیں ۔ 2015 میں، انہیں پرندوں کی تصویر کشی کا شوق ہوا۔ انہوں نے چین کے متعدد علاقوں کا دورہ کیا ہے اور لاکھوں پرندوں کی تصاویر کھینچی ہیں، جنہوں نے نہ صرف چین کی ماحولیاتی خوبصورتی کو محفوظ کیا ہے بلکہ چین کی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بھی عینی شاہد ہیں۔ پرندوں کی اقسام زیادہ ہو رہی ہیں اور ہوا بھی خوشبودار ہونے لگی ہے.

چھنگ حوا یونیورسٹی کی ایک تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ 10 سال پہلے کے مقابلے میں، اب ہوا میں لیمونین جیسے مرکبات زیادہ ہوتے ہیں ، پھولوں اور درختوں کی خوشبو نے بدبودار عناصر کی جگہ لے لی ہے۔ پانی بھی صاف ہو رہا ہے۔ “دریائے زرد کا گردہ” کہلانے والی وولیانگ سوہائی شمالی چین کی اہم ماحولیاتی ڈھال ہے۔ تاہم، اس جھیل کا ماحولیاتی نظام ایک بار تباہی کے دہانے پر تھا۔ دس سال سے زیادہ کے جامع انتظامات کے بعد، محققین نے حال ہی میں یہاں پانی کا نمونہ لیا اور پایا کہ ہائی پاور مائکرواسکوپی کے تحت، پانی میں موجود حیاتیات واضح طور پر نظر آتے ہیں، اور پانی کا معیار اور اس کا ماحولیاتی نظام مسلسل بہتر ہو رہا ہے. آسمان میں اڑتے ہوئے پرندوں سے لے کر ہماری زندگی کے لیے لازمی ہوا ،اور پھر جھیل میں پانی کے ایک قطرے تک، ماحولیاتی تبدیلیاں نہ صرف لوگوں کا ذاتی احساس ہے، بلکہ اسے اعداد و شمار سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے: اپریل 2025 میں جاری ہونے والی “بیجنگ زمینی جنگلی حیات کی فہرست” کے مطابق، بیجنگ میں جنگلی پرندوں کی تعداد ریکارڈ 527 تک پہنچ گئی ہے۔ پرندوں کے تنوع کے لحاظ سے جی 20 ممالک کے دارالحکومتوں میں بیجنگ دوسرے نمبر پر ہے۔ 2024 ء میں پریفیکچر کی سطح اور اس سے اوپر کے شہروں میں پی ایم 2.5 کا اوسط ارتکاز 29.3 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تھا ، جس سے چین دنیا میں ہوا کے معیار میں تیز ترین بہتری والا ملک بن گیا۔ دریائے یانگسی کے مرکزی دھارے کے پانی کا معیار لگاتار پانچ سالوں ، اور دریائے زرد کے مرکزی دھارے کا پانی لگاتار تین سالوں سے کلاس 2 پر مستحکم رہا ہے ۔ ساحلی پانی میں بہترین پانی کے معیار کا تناسب 83.7 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ مذکورہ بالا ماحولیاتی تبدیلیاں چین میں بیس سال سے جاری سبز تبدیلی کا ثمر ہیں۔ سنہ 2005 میں زے جیانگ صوبائی پارٹی کمیٹی کے اُس وقت کے سیکریٹری شی جن پھنگ نے صوبے میں ایک گاؤں کا دورہ کرتے وقت یہ تصور پیش کیا کہ ” سبز پہاڑ اورصاف پانی انمول اثاثے ہیں”، جس نے ماحولیاتی تحفظ اور معاشی ترقی کے جدلیاتی اتحاد کی گہرائی سے وضاحت کی۔چین میں گذشتہ بیس سالوں میں ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر میں نظریہ اور عمل دونوں حوالوں سے نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔گزشتہ تقریباً 20 سالوں میں ، چین نے دنیا میں نئے سبز علاقے کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ڈالا ہے ، شجرکاری کا رقبہ دنیا میں سب سے بڑا ہے ، صحرائی رقبے میں کمی لائی ہے اور نیشنل پارکس کی تعمیر میں بھی تاریخی نتائج حاصل کیے ہیں، وغیرہ ۔توانائی کے ڈھانچے کی تبدیلی اور اپ گریڈنگ میں زیادہ گہری تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں۔2012 کے بعد سے، چین نے اوسطاً 3.3 فیصد سالانہ توانائی کی کھپت کی شرح کے ساتھ اوسطاً 6.1 فیصد سے زائد معاشی ترقی کو برقرار رکھا، اور دنیا کا سب سے بڑا اور تیزی سے ترقی کرنے والا قابل تجدید توانائی کا نظام تعمیر کیا۔2024 میں، چین کے صاف توانائی میں سرمایہ کاری کا حجم دنیا میں کل سرمایہ کاری کا ایک تہائی تھا۔ فوٹو وولٹک اور ونڈ پاور کی تنصیب شدہ صلاحیت گزشتہ 10 سالوں سے مسلسل دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں، عالمی غیر فوسل توانائی کی کھپت میں اضافے میں چین کا حصہ 45 فیصد سے زیادہ رہا۔ توانائی کے تکنیکی نظام کی جدت نے عالمی توانائی کے ڈھانچے میں گہری انقلابی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے حال ہی میں زور دے کر کہا کہ توانائی کی منتقلی نہ صرف موسمیاتی بحران کا ناگزیر حل ہے، بلکہ یہ توانائی کی سلامتی، معاشی ترقی اور سماجی انصاف سے بھی گہرا تعلق رکھتی ہے۔ فی الوقت، صاف توانائی نے 35 ملین سے زائد روزگار پیدا کیے ہیں اور متعدد ممالک میں معاشی ترقی کو فروغ دیا ہے۔لہٰذا، جب ہم ماحولیاتی تحفظ کی بات کرتے ہیں، تو ہم صرف فطرت ہی نہیں، بلکہ انسانی بقاء، مفادات اور صحت کی ضمانت کو محفوظ بنا رہے ہیں۔چین کے صدر شی جن پھنگ نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ ‘اگر ماحول اچھا ہو تو لوگوں کو خوشی کا حقیقی احساس ہو گا”۔ عوام کی خواہش ہی حکومت کی ترجیح ہے ۔یہی چین میں ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کو فروغ دینے کی محرک قوت بھی ہے۔ پہاڑوں سے صرف گزربسر کے لیے فائدہ اٹھانے کے رویے سے لے کر پہاڑوں اور جنگلات کی حفاظت کرنے تک، شفاف پانی ، سبز پہاڑ، برفانی میدان ، صحرائی اور بنجر زمینیں سب سنہری پہاڑ بن چکے ہیں۔ شفاف پانی اور سرسبز پہاڑوں سے ماحولیاتی سیاحت کی آمدنی حاصل ہوئی ہے، برفانی میدانوں سے سرمائی معیشت کی ترقی ہوئی ہے، اور صحرائے گوبی میں اگائی جانے والی نقدآور فصلیں سونا بن گئی ہیں۔سبز زراعت، ماحولیاتی سیاحت اور صاف توانائی جیسی سبز صنعتیں معاشی ترقی کے “نئے انجن” بن چکی ہیں، جہاں معاشی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔عالمی سطح پر،”بیلٹ اینڈ روڈ ”  گرین ڈیولپمنٹ فنڈ سے لے کر” کھون منگ بائیو ڈائیورسٹی فنڈ تک” ، اور ریگستان کے انتظامات سے لے کر گرین انرجی سمیت دیگر تعاون کے منصوبوں تک ، چین کے اقدامات عالمی ماحولیاتی انتظام کی ساخت کو نئی شکل دے رہے ہیں۔ یہ کوششیں پائیدار ترقی کے زیادہ سبز ماڈل تشکیل دے کر عالمی ماحولیاتی گورننس پیٹرن کو نئی شکل دے رہی ہیں، جس کا مقصد ایک خوبصورت کرہ ارض کی مشترکہ تعمیر ہے۔

Post Views: 10

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: توانائی کی پرندوں کی دنیا میں سے لے کر نے والی چین میں رہا ہے چین کے

پڑھیں:

پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات محض دو ممالک کے درمیان ایک سفارتی رشتہ نہیں بلکہ خطے کی سیاست، سلامتی اور امتِ مسلمہ کی اجتماعی قوت کا مظہر ہیں۔ 7 دہائیوں سے زائد پر محیط یہ رشتہ وقت کے ہر امتحان میں مزید مضبوط ہوا ہے۔

حال ہی میں سعودی صحافی عبد اللہ المدیفر نے اپنے معروف پروگرام (فی الصوره) میں سعودی عرب کے سینیئر رہنما شاہ فیصل کے بیٹے شہزادہ ترکی الفیصل کا انٹرویو کیا، جو اس تعلق کی گہرائی اور مستقبل کے امکانات کو سمجھنے کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔

عبد اللہ المدیفر سعودی عرب کے نمایاں صحافی ہیں، جو اپنے بے لاگ سوالات اور گہرے تجزیاتی انداز کے باعث سعودی میڈیا میں ایک معتبر حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا پروگرام (فی الصوره) محض ایک انٹرویو شو نہیں بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جسے سعودی عرب میں ریاستی مکالمے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی پروگرام میں شہزادہ ترکی الفیصل جیسے رہنما کی گفتگو براہِ راست خطے کی سیاست پر اثر انداز ہوتی ہے۔

شہزادہ ترکی الفیصل سعودی عرب کی قومی سلامتی کے ایک اہم ستون رہے ہیں۔ وہ برسوں تک مملکت کی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ رہے اور عالمی سطح پر ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جن کی بات کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ ان کا پس منظر انہیں صرف ایک سابق عہدے دار نہیں بلکہ ایک دانشور اور عالمی تجزیہ کار بھی بناتا ہے، جن کی بصیرت خطے کے مستقبل پر روشنی ڈالتی ہے۔

انٹرویو میں جب پاکستان کا ذکر آیا تو شہزادہ ترکی الفیصل نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو محض رسمی نہیں بلکہ قدرتی قرار دیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ مرحوم شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز نے پاکستان کے جوہری پروگرام کی اہم تنصیبات کا دورہ کیا تھا، اور اس موقع پر ڈاکٹر عبد القدیر خان بھی موجود تھے۔ سعودی عرب نے اس دور میں پاکستان کی مالی اور عسکری مدد کی، مگر کبھی اس پر کوئی شرط عائد نہ کی۔ ہو سکتا ہے پاکستان نے اس تعاون کو اپنی تحقیق اور دفاعی صلاحیت کو جلا بخشنے میں استعمال کیا ہو۔ یہ پہلو دونوں ملکوں کے درمیان بے لوث اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔

شہزادہ ترکی الفیصل نے ماضی کی ان یادوں کے ساتھ ساتھ عسکری تعاون کی تفصیلات بھی بتائیں کہ کس طرح پاکستانی فوجی دستے سعودی عرب کے مختلف علاقوں، بالخصوص تبوک اور خمیس مشیط میں تعینات ہوئے، جب کہ سعودی عرب نے پاکستان کو مادی وسائل فراہم کیے۔ یہ تعاون صرف فوجی سطح پر نہ تھا بلکہ بھائی چارے اور یکجہتی کی بنیاد پر پروان چڑھا۔

پاکستان کے کردار کو شہزادہ ترکی الفیصل نے ایک قدرتی حلیف کے طور پر اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آزادی کے فوراً بعد سے سعودی عرب کے قریب رہا ہے، اور خطے کے توازنِ قوت میں اس کا کردار فیصلہ کن ہے۔ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی مسلم فوجی طاقت ہے اور واحد اسلامی جوہری ملک بھی، اس لیے اس کا اتحادی بننا محض ایک انتخاب نہیں بلکہ ایک فطری امر ہے۔

انٹرویو میں اسلامی اتحاد کا حوالہ بھی آیا، جو سعودی عرب نے دہشتگردی کے خلاف تشکیل دیا تھا۔ شہزادہ ترکی الفیصل نے اس امکان کا اظہار کیا کہ مستقبل میں یہ اتحاد صرف دہشتگردی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ دیگر خطروں کے مقابلے میں بھی ایک اجتماعی قوت بنے گا۔ یہ سوچ ایک وسیع تر اسلامی نیٹو کی جھلک دیتی ہے۔

انٹرویو کا اہم ترین حصہ پاک سعودی دفاعی معاہدہ تھا، جس میں نیٹو معاہدے کی پانچویں شق جیسے اصول کو شامل کیا گیا ہے۔ یعنی اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوتا ہے تو اسے دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو محض دوستانہ سطح سے بڑھا کر باقاعدہ دفاعی ڈھانچے میں ڈھالتا ہے۔

شہزادہ ترکی الفیصل نے اسرائیل کے جارحانہ رویے کو بھی خطے کے لیے بڑا چیلنج قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل اپنے آپ کو خطے کی سب سے بڑی طاقت ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے اجتماعی قوت اختیار کرنا ناگزیر ہے، اور پاکستان و سعودی عرب کا حالیہ معاہدہ اسی اجتماعی حکمتِ عملی کی ایک بڑی کڑی ہے۔

یوں عبد اللہ المدیفر کے پروگرام میں ہونے والی یہ گفتگو نہ صرف ماضی کے سنہرے ابواب یاد دلاتی ہے بلکہ مستقبل کی سمت بھی واضح کرتی ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کا رشتہ اب سفارت کاری کی رسمی حدوں سے نکل کر خطے کی سلامتی، امت کی اجتماعی طاقت اور توازنِ قوت کا ضامن بن چکا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

طلحہ الکشمیری

متعلقہ مضامین

  • سیلاب سے 2لاکھ گھر متاثر ہوئے‘ عالمی برادری مدد کرے: حافظ عبدالکریم
  • سیلاب اور مستقبل کے لیے پلاننگ
  • ماحولیاتی تبدیلی اور آبادی میں اضافہ پاکستان کے لیے بڑے چیلنجز ہیں، وزیر خزانہ
  • چین کا مستقبل تابناک، پورا مشرق ساتھ، دنیا جنگ نہیں امن کا سوچے: زرداری
  • پرندوں کا انوکھا ملاپ: ماحولیاتی تبدیلی سے مخلوط نسل بچے پیدا ہونے لگے؟
  • چین کا مستقبل تابناک ہے، پورا مشرق ساتھ مل کر کام کرے گا، صدر زرداری
  • پاکستان اور چین آہنی بھائی ہیں، جن کا مستقبل ایک دوسرے کیساتھ جڑا ہوا ہے؛ صدرِ مملکت
  • حکومت ٹرانسپورٹ، انفراسٹرکچر اور ریل کے نظام کی ترقی پر تیزی سے کام کر رہی ہے، بلال اظہر کیانی
  • پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی
  • پاکستان کا اسرائیلی جارحیت پر سخت ردعمل، صمود فلوٹیلا کے کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ