Daily Mumtaz:
2025-08-14@15:57:22 GMT

سبز رنگ، مستقبل کی ترقی کا بنیادی رنگ

اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT

سبز رنگ، مستقبل کی ترقی کا بنیادی رنگ

بیجنگ :’’ماضی میں پرندے ڈھونڈنے کے لیے آپ کو دور دور جانا پڑتا تھا، لیکن اب چین میں ماحول بہتر سے بہتر ہوتا جا رہا ہے اور آپ شہر کے پارکس میں بھی پرندوں کی تصاویر کھینچ سکتے ہیں۔ ماحول کی بہتری آنکھوں کے سامنے ہے ۔”پاکستان سے تعلق رکھنے والے خالد شریف نے چینی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے حالیہ برسوں میں چین کے ماحول میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار مذکورہ بالا الفاظ میں کیا ۔خالد چین میں کئی سالوں سے مقیم ہیں ۔ 2015 میں، انہیں پرندوں کی تصویر کشی کا شوق ہوا۔ انہوں نے چین کے متعدد علاقوں کا دورہ کیا ہے اور لاکھوں پرندوں کی تصاویر کھینچی ہیں، جنہوں نے نہ صرف چین کی ماحولیاتی خوبصورتی کو محفوظ کیا ہے بلکہ چین کی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بھی عینی شاہد ہیں۔ پرندوں کی اقسام زیادہ ہو رہی ہیں اور ہوا بھی خوشبودار ہونے لگی ہے.

چھنگ حوا یونیورسٹی کی ایک تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ 10 سال پہلے کے مقابلے میں، اب ہوا میں لیمونین جیسے مرکبات زیادہ ہوتے ہیں ، پھولوں اور درختوں کی خوشبو نے بدبودار عناصر کی جگہ لے لی ہے۔ پانی بھی صاف ہو رہا ہے۔ “دریائے زرد کا گردہ” کہلانے والی وولیانگ سوہائی شمالی چین کی اہم ماحولیاتی ڈھال ہے۔ تاہم، اس جھیل کا ماحولیاتی نظام ایک بار تباہی کے دہانے پر تھا۔ دس سال سے زیادہ کے جامع انتظامات کے بعد، محققین نے حال ہی میں یہاں پانی کا نمونہ لیا اور پایا کہ ہائی پاور مائکرواسکوپی کے تحت، پانی میں موجود حیاتیات واضح طور پر نظر آتے ہیں، اور پانی کا معیار اور اس کا ماحولیاتی نظام مسلسل بہتر ہو رہا ہے. آسمان میں اڑتے ہوئے پرندوں سے لے کر ہماری زندگی کے لیے لازمی ہوا ،اور پھر جھیل میں پانی کے ایک قطرے تک، ماحولیاتی تبدیلیاں نہ صرف لوگوں کا ذاتی احساس ہے، بلکہ اسے اعداد و شمار سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے: اپریل 2025 میں جاری ہونے والی “بیجنگ زمینی جنگلی حیات کی فہرست” کے مطابق، بیجنگ میں جنگلی پرندوں کی تعداد ریکارڈ 527 تک پہنچ گئی ہے۔ پرندوں کے تنوع کے لحاظ سے جی 20 ممالک کے دارالحکومتوں میں بیجنگ دوسرے نمبر پر ہے۔ 2024 ء میں پریفیکچر کی سطح اور اس سے اوپر کے شہروں میں پی ایم 2.5 کا اوسط ارتکاز 29.3 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تھا ، جس سے چین دنیا میں ہوا کے معیار میں تیز ترین بہتری والا ملک بن گیا۔ دریائے یانگسی کے مرکزی دھارے کے پانی کا معیار لگاتار پانچ سالوں ، اور دریائے زرد کے مرکزی دھارے کا پانی لگاتار تین سالوں سے کلاس 2 پر مستحکم رہا ہے ۔ ساحلی پانی میں بہترین پانی کے معیار کا تناسب 83.7 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ مذکورہ بالا ماحولیاتی تبدیلیاں چین میں بیس سال سے جاری سبز تبدیلی کا ثمر ہیں۔ سنہ 2005 میں زے جیانگ صوبائی پارٹی کمیٹی کے اُس وقت کے سیکریٹری شی جن پھنگ نے صوبے میں ایک گاؤں کا دورہ کرتے وقت یہ تصور پیش کیا کہ ” سبز پہاڑ اورصاف پانی انمول اثاثے ہیں”، جس نے ماحولیاتی تحفظ اور معاشی ترقی کے جدلیاتی اتحاد کی گہرائی سے وضاحت کی۔چین میں گذشتہ بیس سالوں میں ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر میں نظریہ اور عمل دونوں حوالوں سے نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔گزشتہ تقریباً 20 سالوں میں ، چین نے دنیا میں نئے سبز علاقے کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ڈالا ہے ، شجرکاری کا رقبہ دنیا میں سب سے بڑا ہے ، صحرائی رقبے میں کمی لائی ہے اور نیشنل پارکس کی تعمیر میں بھی تاریخی نتائج حاصل کیے ہیں، وغیرہ ۔توانائی کے ڈھانچے کی تبدیلی اور اپ گریڈنگ میں زیادہ گہری تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں۔2012 کے بعد سے، چین نے اوسطاً 3.3 فیصد سالانہ توانائی کی کھپت کی شرح کے ساتھ اوسطاً 6.1 فیصد سے زائد معاشی ترقی کو برقرار رکھا، اور دنیا کا سب سے بڑا اور تیزی سے ترقی کرنے والا قابل تجدید توانائی کا نظام تعمیر کیا۔2024 میں، چین کے صاف توانائی میں سرمایہ کاری کا حجم دنیا میں کل سرمایہ کاری کا ایک تہائی تھا۔ فوٹو وولٹک اور ونڈ پاور کی تنصیب شدہ صلاحیت گزشتہ 10 سالوں سے مسلسل دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں، عالمی غیر فوسل توانائی کی کھپت میں اضافے میں چین کا حصہ 45 فیصد سے زیادہ رہا۔ توانائی کے تکنیکی نظام کی جدت نے عالمی توانائی کے ڈھانچے میں گہری انقلابی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے حال ہی میں زور دے کر کہا کہ توانائی کی منتقلی نہ صرف موسمیاتی بحران کا ناگزیر حل ہے، بلکہ یہ توانائی کی سلامتی، معاشی ترقی اور سماجی انصاف سے بھی گہرا تعلق رکھتی ہے۔ فی الوقت، صاف توانائی نے 35 ملین سے زائد روزگار پیدا کیے ہیں اور متعدد ممالک میں معاشی ترقی کو فروغ دیا ہے۔لہٰذا، جب ہم ماحولیاتی تحفظ کی بات کرتے ہیں، تو ہم صرف فطرت ہی نہیں، بلکہ انسانی بقاء، مفادات اور صحت کی ضمانت کو محفوظ بنا رہے ہیں۔چین کے صدر شی جن پھنگ نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ ‘اگر ماحول اچھا ہو تو لوگوں کو خوشی کا حقیقی احساس ہو گا”۔ عوام کی خواہش ہی حکومت کی ترجیح ہے ۔یہی چین میں ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کو فروغ دینے کی محرک قوت بھی ہے۔ پہاڑوں سے صرف گزربسر کے لیے فائدہ اٹھانے کے رویے سے لے کر پہاڑوں اور جنگلات کی حفاظت کرنے تک، شفاف پانی ، سبز پہاڑ، برفانی میدان ، صحرائی اور بنجر زمینیں سب سنہری پہاڑ بن چکے ہیں۔ شفاف پانی اور سرسبز پہاڑوں سے ماحولیاتی سیاحت کی آمدنی حاصل ہوئی ہے، برفانی میدانوں سے سرمائی معیشت کی ترقی ہوئی ہے، اور صحرائے گوبی میں اگائی جانے والی نقدآور فصلیں سونا بن گئی ہیں۔سبز زراعت، ماحولیاتی سیاحت اور صاف توانائی جیسی سبز صنعتیں معاشی ترقی کے “نئے انجن” بن چکی ہیں، جہاں معاشی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔عالمی سطح پر،”بیلٹ اینڈ روڈ ”  گرین ڈیولپمنٹ فنڈ سے لے کر” کھون منگ بائیو ڈائیورسٹی فنڈ تک” ، اور ریگستان کے انتظامات سے لے کر گرین انرجی سمیت دیگر تعاون کے منصوبوں تک ، چین کے اقدامات عالمی ماحولیاتی انتظام کی ساخت کو نئی شکل دے رہے ہیں۔ یہ کوششیں پائیدار ترقی کے زیادہ سبز ماڈل تشکیل دے کر عالمی ماحولیاتی گورننس پیٹرن کو نئی شکل دے رہی ہیں، جس کا مقصد ایک خوبصورت کرہ ارض کی مشترکہ تعمیر ہے۔

Post Views: 10

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: توانائی کی پرندوں کی دنیا میں سے لے کر نے والی چین میں رہا ہے چین کے

پڑھیں:

پی آئی اے کی نجکاری اور سماجی و معاشی روٹس کا مستقبل

گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر برائے نجکاری، مسٹر عبدالعلیم خان نے ایک اہم پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ حکومت تقریباً 8 مختلف سرکاری اداروں کو نجکاری کی فہرست میں شامل کر چکی ہے، جن میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (PIA) بھی شامل ہے۔

یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب قومی ایوی ایشن پالیسی میں ’سماجی و معاشی روٹ (socio economic routes)کا مستقبل جو پہلے ہی غیر یقینی کا شکار ہے، ایک مرتبہ پھر خدشات کے دھانے پر آ گیا۔

بغیر socio eco پالیسی کے پی آئی اے  کی نجکاری کا فیصلہ نہ صرف مالی اور انتظامی پہلوؤں سے اہمیت رکھتا ہے، بلکہ ملک کے دور دراز اور مشکل رسائی والے علاقوں کی فضائی رابطہ کاری پر بھی براہِ راست اثر ڈال سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر پی آئی اے کا انتظام نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا تو کیا یہ روٹس برقرار رہیں گے یا پھر منافع نہ ہونے کے باعث ختم کر دیے جائیں گے؟

پالیسی کا بنیادی ڈھانچہ — وعدے کاغذ تک محدود:

پاکستان کی قومی ایوی ایشن پالیسی میں ایک اہم مگر بار بار نظرانداز ہونے والا پہلو ’سماجی و معاشی روٹس‘ ہیں۔ یہ وہ فضائی راستے ہیں جو ملک کے انتہائی دور دراز اور دشوار گزار علاقوں — اسکردو، گلگت، چترال، سوات، گوادر اور بلوچستان کے ساحلی شہروں کو ملک کے دیگر حصوں سے جوڑتے ہیں۔

پالیسی میں یہ واضح شرط رکھی گئی تھی کہ ملکی ایئرلائنز اپنی گنجائش کا کم از کم ایک مخصوص حصہ یعنی 10 فیصد پرائمری روٹس پر اور 5 فیصد سماجی و معاشی روٹس پر استعمال کریں گے۔

دراصل یہ روٹس نہ صرف سیاحتی اور تجارتی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ ان علاقوں کے لیے زندگی کی شہ رگ ہیں، خاص طور پر برفباری یا طویل زمینی فاصلوں کے باعث یا زمینی سفر متاثر ہونے کی صورت میں یہ روٹس بہت زیادہ اہم ہوتے ہیں۔

2019 کی پالیسی — ایک ادھورا وعدہ؛

2019 کی قومی ایوی ایشن پالیسی میں تجویز دی گئی تھی کہ غیر منافع بخش مگر اہم روٹس کو مراعات اور مالی معاونت دی جائے۔ مسودے میں کہا گیا تھا کہ ایسے روٹس پر پرواز کرنے والے آپریٹرز کو آپریشنل ٹیکسز اور چارجز میں رعایت دی جائے، اور حکومت یا پی سی اے اے ایک باقاعدہ نظام کے تحت ایئرلائنز کو ادائیگی کرے۔

تاہم یہ معاوضہ اسکیم حتمی پالیسی میں شامل نہ ہو سکی اور نہ ہی اس پر عملدرآمد ہوا، جس کے نتیجے میں پی آئی اے اور دیگر چند ایئرلائنز کو ان روٹس پر مالی نقصان کے باوجود سروس جاری رکھنی پڑی۔

2024 کی پالیسی — خاموشی یا غفلت؟

قومی ایوی ایشن پالیسی 2024 میں سماجی و معاشی روٹس کے معاوضے کے حوالے سے کوئی واضح عوامی اپ ڈیٹ موجود نہیں۔ اگرچہ 2024 کے آخر میں کابینہ نے بعض پالیسی حصوں میں نرمی کرتے ہوئے سیرین ایئر اور ایئر بلیو کو بین الاقوامی پروازیں شروع کرنے کی اجازت دی، مگر سماجی و معاشی روٹس کے لیے سبسڈی یا قانونی ذمہ داری پر خاموشی برقرار رہی۔

نجکاری کے بعد کیا ہوگا؟

نجکاری کے بعد نجی سرمایہ کار تجارتی منافع کو ترجیح دیں گے، اور غیر منافع بخش روٹس عموماً ان کے بزنس ماڈل میں شامل نہیں ہوتے۔ اگر پالیسی میں مضبوط قانونی شق نہ ہوئی تو:

ان روٹس پر پروازیں کم یا بند ہو جائیں گی۔ مقامی آبادی سیاحت اور تجارت کے مواقع سے محروم ہو جائے گی۔ ہنگامی طبی سہولتوں اور اشیائے ضروریہ کی ترسیل میں مشکلات پیدا ہوں گی۔ بین الاقوامی ماڈلز کیا کہتے ہیں؟

آسٹریلیا، کینیڈا اور یورپی یونین میں Public Service Obligation (PSO) پروگرام نافذ ہے، جس کے تحت حکومت نجی ایئرلائنز کو سبسڈی دیتی ہے، اور یہ قانون کے تحت لازمی ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس نوعیت کا کوئی مؤثر قانونی ڈھانچہ نہیں۔

سفارشات:

سماجی و معاشی روٹس کو قانونی لازمی خدمت کا درجہ دیا جائے۔

شفاف سبسڈی اسکیم بنائی جائے جو نجکاری کے بعد بھی برقرار رہے۔

بجٹ میں اس مقصد کے لیے مستقل فنڈ مختص ہو اور سالانہ عوامی رپورٹ شائع ہو۔

نجکاری معاہدے میں لازمی شق رکھی جائے کہ خریدار یہ روٹس برقرار رکھے، بصورت دیگر جرمانہ ہو۔

2019 میں جو وعدہ کاغذ پر کیا گیا، وہ کبھی حقیقت نہ بن سکا۔ 2024 کی پالیسی نے بھی اس خامی کو برقرار رکھا۔ اگر نجکاری سے قبل مضبوط قانونی و مالی تحفظات شامل نہ کیے گئے تو شمالی اور ساحلی علاقوں کے عوام فضائی تنہائی کا شکار ہو جائیں گے۔

یہ صرف ایک پالیسی کی ناکامی نہیں، بلکہ قومی یکجہتی اور علاقائی ترقی پر کاری ضرب ہوگی۔ظرورت اس امر کی ہے کہ اس confusion کو فوری طور پر ختم کر کے ایک پالیسی مرتب کی جائے۔

تحریر: عبید الرحمٰن عباسی

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایوی ایشن پی آئی اے نجکاری

متعلقہ مضامین

  • ’’دو پہاڑوں‘‘کے تصور اور چین کی ماحولیاتی پالیسیوں پر عالمی سروے نتائج
  • ’مسلح افواج اور عوام کا اٹوٹ رشتہ اجتماعی قوت کا بنیادی ستون ہے‘: عسکری قیادت کا 78ویں یومِ آزادی پر پیغام
  • پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے اتحاد کا مستقبل
  • ملکی معیشت مثبت سمت میں گامزن ،اہم معاشی اشاریے بہتر ہو رہے ،وفاقی وزیرخزانہ
  • پی آئی اے کی نجکاری اور سماجی و معاشی روٹس کا مستقبل
  • کان کنی کے بعد زمین کے استعمال میں مصنوعی ذہانت کے انضمام کی ضرورت ہے. ویلتھ پاک
  • پیٹرولیم لیوی کی مد میں عوام سے کتنی رقم وصول کی گئی؟ رپورٹ جاری
  • وزیر توانائی نےپروٹیکٹڈ صارفین کی حد 300 یونٹس تک بڑھانے کی خبریں مسترد کر دیں
  • جیلی فش نے فرانس کا سب سے بڑا جوہری پلانٹ بند کرا دیا