Express News:
2025-11-18@23:52:07 GMT

راضی بہ رضائے الٰہی رہیے۔۔۔ !

اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT

اﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں صبر کو ایک عظیم صفت قرار دیا ہے جو مومن کی پہچان اور طاقت ہے۔ صبر کا مطلب ہے کہ مشکلات، آزمائشوں اور مصائب کے وقت اﷲ کی رضا پر راضی رہنا اور کسی شکایت یا بے صبری کا اظہار نہ کرنا۔ یہ صفت مومن کی زندگی کو سکون بخشتی ہے اور دنیا و آخرت میں کام یابی کا ذریعہ بنتی ہے۔

صبر کرنے والے وہ لوگ ہیں جو زندگی کے نشیب و فراز میں اﷲ کی مدد پر یقین رکھتے ہیں اور ہر مشکل کو ایک موقع سمجھتے ہیں تاکہ وہ اﷲ کی رحمت کے قریب ہو سکیں۔ صبر ایک عظیم صفت ہے جو انسان کو مشکلات اور آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے صبر کو مومن کے ایمان کی پہچان قرار دیا ہے اور اس پر بڑے انعامات کا وعدہ فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے، مفہوم: ’’اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دو۔‘‘ (البقرہ)

صبر کا مطلب صرف مشکلات کو برداشت کرنا نہیں بل کہ اس کے ساتھ اﷲ کی رضا پر راضی رہنا اور شکایت سے بچنا ہے۔ صبر ایک ایسی طاقت ہے جو انسان کو زندگی کی آزمائشوں میں مضبوطی عطا کرتی ہے اور اسے اﷲ کے قریب لے جاتی ہے۔

اسلام میں صبر کو بڑی فضیلت حاصل ہے۔ یہ وہ صفت ہے جو انسان کو نبیوں، ولیوں اور اﷲ کے مقرب بندوں کے راستے پر لے جاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں بارہا صبر کرنے والوں کی تعریف کی ہے اور انھیں انعامات کا مستحق قرار دیا ہے، مفہوم:

’’بے شک! اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (البقرہ)

صبر نہ صرف ایمان کا حصہ ہے بل کہ یہ انسان کو زندگی کے ہر شعبے میں کام یاب بناتا ہے۔ یہ انسان کو جذبات کے کنٹرول، مشکلات کا سامنا اور اﷲ کی رضا پر بھروسے کا درس دیتا ہے۔ صبر کا مفہوم مصیبتوں، مشکلات اور آزمائشوں کے وقت اﷲ کی رضا پر راضی رہنا اور اپنے نفس کو بے صبری، شکوہ یا شکایت سے باز رکھنا ہے۔ صبر مومن کی وہ صفت ہے جو اسے مشکلات کے وقت حوصلہ اور امید عطا کرتی ہے۔ دنیا میں کوئی بھی شخص آزمائشوں سے مبّرا نہیں، لیکن مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ ان آزمائشوں میں صبر سے کام لیتا ہے۔ صبر کرنے والے نہ صرف دنیاوی سکون حاصل کرتے ہیں بل کہ آخرت میں بھی ان کے لیے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔

صبر کی تین قسمیں ہیں:

(1) اطاعت پر صبر: اﷲ کے احکام کو بجا لانے میں صبر کرنا اور اپنی خواہشات کو اﷲ کی مرضی کے تابع رکھنا مومن کے لیے ضروری ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دیگر عبادات میں مستقل مزاجی صبر بر اطاعت کی بہترین مثال ہے۔

(2) معصیت پر صبر: یعنی گناہوں اور شیطانی وسوسوں سے بچنے کے لیے صبر کرنا ایک مومن کی خصوصیت ہے۔ خواہشات کے باوجود اﷲ کی نافرمانی سے دور رہنا بڑی ہمت کا کام ہے۔

(3) مصیبت پر صبر: آزمائش، بیماری، مالی مشکلات یا دیگر پریشانیوں میں مایوسی کا شکار نہ ہونا اور اﷲ کی رحمت پر یقین رکھنا صبر بر مصیبت کہلاتا ہے۔

صبر کے بہت سارے فوائد ہیں جن میں سے چند ایک کا تذکرہ ہم یہاں پر کرتے ہیں: صبر انسان کو مایوسی اور بے چینی سے بچا کر اس کے دل میں اطمینان پیدا کرتا ہے۔ صبر کرنے والے اﷲ کے قریب ہو جاتے ہیں کیوں کہ اﷲ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ صبر کرنے والوں کو آخرت میں بڑے انعامات اور جنت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ صبر کے ذریعے انسان اپنی زندگی کو بہتر انداز میں گزار سکتا ہے کیوں کہ یہ اسے قوتِ ارادی اور استقامت عطا کرتا ہے۔ آج کے دور میں جہاں مشکلات اور دباؤ بہت زیادہ ہیں، صبر انسان کو مایوسی اور ذہنی دباؤ سے بچاتا ہے۔ صبر خاندان اور معاشرتی زندگی میں سکون کا ذریعہ بنتا ہے کیوں کہ یہ انسان کو دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا درس دیتا ہے۔ صبر کے ذریعے انسان مشکل حالات کا مقابلہ بہتر انداز میں کر سکتا ہے اور کام یاب زندگی گزار سکتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان صبر کرنے والا کیسے بنے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ صبر ایک ایسی صفت ہے جسے انسان تربیت اور محنت سے حاصل کر سکتا ہے۔ درج ذیل عملی اقدامات انسان کو صبر کرنے والا بنا سکتے ہیں: اﷲ کی ذات پر بھروسا کریں: صبر کی بنیاد اﷲ کی ذات پر کامل یقین اور بھروسا ہے۔ انسان اس وقت صبر کر سکتا ہے جب اسے یقین ہو کہ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اﷲ کی حکمت کا حصہ ہے۔ ہر مشکل وقت میں اﷲ سے دعا کریں اور اس کی مدد طلب کریں۔ یاد رکھیں! ہر آزمائش عارضی ہے اور اس کے بعد آسانی آتی ہے۔

مشکلات کو زندگی کا حصہ سمجھیں: مشکلات اور آزمائشیں زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ قرآن میں ارشاد کا مفہوم ہے: ’’ہم ضرور تمھیں خوف، بھوک، مال اور جان کے نقصان سے آزمائیں گے۔‘‘ مشکلات کو اﷲ کی طرف سے امتحان سمجھیں۔ یہ یقین رکھیں کہ آزمائشوں کے ذریعے اﷲ اپنے بندوں کو آزماتا اور پاکیزہ بناتا ہے۔ جذبات پر قابو پائیں: صبر کرنے کے لیے جذبات کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ غصہ، بے چینی اور مایوسی انسان کو بے صبرا بناتے ہیں۔ غصے کی حالت میں خاموش رہیں اور ٹھنڈا پانی پیئیں۔ جذبات کو کنٹرول کرنے کے لیے گہری سانسیں لیں اور اﷲ کا ذکر کریں۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان یاد رکھیں: ’’قوی انسان وہ نہیں جو لڑائی میں غالب ہو بل کہ وہ ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو رکھے۔‘‘ (صحیح بخاری) شکر گزاری کو اپنائیں: صبر اور شکر کا گہرا تعلق ہے۔ شکر گزاری انسان کو صبر کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اپنی موجودہ نعمتوں کو یاد کریں اور ان پر شکر ادا کریں۔ یہ سوچیں کہ آپ کی مشکلات دوسروں کے مقابلے میں کم ہیں۔

ہر حال میں ’’الحمدﷲ‘‘ کہنا اپنی عادت بنائیں۔ صبر کے فضائل کو یاد رکھیں: صبر کے بارے میں قرآن اور حدیث میں بیان کیے گئے انعامات کو یاد رکھیں۔ اﷲ کی معیت کا تصور کریں۔ جنت کے انعامات کو اپنی نگاہ میں رکھیں اور یہ یاد رکھیں کہ صبر کا بدلہ جنت ہے۔ مثبت سوچ اپنائیں: مثبت سوچ انسان کو صبر کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ہر مشکل میں خیر تلاش کریں اور اسے اﷲ کی حکمت سمجھیں۔ مایوسی اور شکایت سے گریز کریں۔ یہ سوچیں کہ ہر آزمائش کے بعد آسانی آتی ہے: ’’بے شک! مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ (انشراح) صبر کے عملی مظاہرے کریں: عملی طور پر صبر کرنے کے لیے درج ذیل عادات اپنائیں۔ ناپسندیدہ حالات میں جلدی ردعمل دینے کے بہ جائے سوچ سمجھ کر عمل کریں۔ روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی آزمائشوں میں صبر کریں، جیسے ٹریفک میں انتظار یا دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنا۔ بچوں اور اہل خانہ کے ساتھ نرمی اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔ دعا اور ذکر کریں: صبر کے لیے اﷲ سے مدد طلب کرنا سب سے موثر ذریعہ ہے۔

دعاؤں کو اپنی عادت بنائیں اور اﷲ سے صبر عطا کرنے کی التجا کریں۔ نبی کریم ﷺ کی دعائیں یاد کریں، جیسا کہ یہ دعا: ’’اے اﷲ! مجھے صبر کرنے والوں میں شامل فرما۔‘‘ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں: صبر کرنے والے لوگوں کے ساتھ رہنے سے آپ کو صبر کی ترغیب ملتی ہے۔ قرآن و حدیث کے مطالعے کے ذریعے انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرامؓ کے صبر کے واقعات پڑھیں۔ ایسے دوستوں اور ساتھیوں کا انتخاب کریں جو مثبت رویہ رکھتے ہوں اور آپ کو صبر کی نصیحت کریں۔ آزمائش کو مواقع سمجھیں: مشکل حالات کو اپنی ترقی اور تربیت کا ذریعہ بنائیں۔ آزمائشوں کو اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کا ذریعہ سمجھیں۔ یہ سوچیں کہ ہر آزمائش کے ذریعے اﷲ آپ کو بلند درجات پر فائز کرنا چاہتا ہے۔ نیز نبی کریم ﷺ کی پاکیزہ زندگی کو سامنے رکھیں۔ نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی صبر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔

طائف کے واقعے میں جب آپؐ پر پتھر برسائے گئے، آپؐ نے بددعا کے بہ جائے ان کے لیے ہدایت کی دعا کی۔ غزوہ احد، مکی دور کی مشکلات، اور اہل خانہ کی جدائی کے وقت آپؐ نے صبر کا اعلیٰ مظاہرہ کیا۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’مومن کا معاملہ عجیب ہے، اگر اسے خوشی پہنچے تو وہ شکر کرتا ہے، اور اگر اسے غم پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے، اور یہ دونوں اس کے لیے خیر ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم) اسلام کی تاریخ صبر کے بے شمار واقعات سے مزین ہے۔ صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ نے مشکلات اور آزمائشوں میں جس صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی زندگی سے سبق حاصل کریں اور اپنے دل کو اﷲ کی رضا پر راضی رکھیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنی معیت نصیب کرے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اﷲ کی رضا پر راضی صبر کرنے والوں صبر کرنے والے مشکلات اور ا یاد رکھیں مشکلات ا انسان کو کریں اور کے ذریعے کا ذریعہ مومن کی سکتا ہے کرتا ہے کے ساتھ اور اﷲ صبر کی صبر کا ہے اور کو صبر صبر کے صفت ہے کے وقت کے لیے اور اس

پڑھیں:

عرفان صدیقی کی زندگی کا سب بڑا راز

عرفان صدیقی مسکراتے ہوئے روسٹرم پر آئے اور کہا:

' جو جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے، جان لیں کہ فاروق عادل مجھ سے سینئر ہے۔'

پاک چائنا فرینڈ شپ سینٹر کا آڈیٹوریم اس وقت لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور اسٹیج پر وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان کے علاوہ مخدومی عطا الحق قاسمی،مرشدی سید سعود ساحر، ڈاکٹر خلیل طوقار، ڈاکٹر زاہد منیر عامر اور ڈاکٹر فاطمہ حسن سمیت صف اول کے ادیب اور شاعر موجود تھے۔ عرفان صدیقی صاحب نے جب یہ کہا تو محفل میں حیرت کا سناٹا چھا گیا۔ عرفان صاحب شاید چاہتے بھی یہی تھے۔ سامعین ان کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔ عطا الحق قاسمی تو باقاعدہ گردن موڑ کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔ عین اسی لمحے عرفان صاحب نے قاسمی کو مخاطب کیا اور کہا:

' قاسمی صاحب!آپ بھی گواہ رہئے گا، فاروق عادل ' تکبیر' میرا سینیئر رہا ہے۔'

قاسمی صاحب مسکرانے لگے اور محفل زعفران زار بن گئی۔ یہ واقعہ 2017 ء کا ہے جب مخدومی انعام الحق جاوید نیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے۔ ان کی قیادت میں فاؤنڈیشن کا کتاب میلہ اس شان سے ہوا کرتا تھا کہ باید و شاید۔ شخصی خاکوں پر مشتمل میری پہلی کتاب ' جو صورت نظر آئی' ان ہی دنوں شائع ہوئی تھی۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے ازراہ محبت کتاب میلے میں دیگر کتابوں کے ساتھ اس کی تقریب اجرا بھی رکھ دی جس میں ہمارے ادب کی کہکشاں جمع تھی۔

یہ درست ہے کہ'تکبیر' میں عرفان صاحب کی آمد میرے بعد ہوئی لیکن ان کی مقفع و مسجع تحریر کا شہرہ اسی زمانے میں ہوا۔ وہ ہر ہفتے ایک انٹرویو کیا کرتے۔ انٹرویو ' تکبیر' کی پالیسی کے عین مطابق ہوتا۔ انٹرویو سے قبل وہ اس کا پیش لفظ یعنی انٹرو لکھا کرتے۔ یہی تحریر ان کی کالم نگاری کی ابتدائی صورت ہے۔

وہ انٹرویو کا ابتدائیہ ایسی پر تکلف نثر میں لکھتے کہ کلاسیکل نثر کا لطف تازہ ہو جاتا۔ سر سید علیہ رحمہ ہماری فکری اور تہذیبی روایت کے ہی مجدد نہیں بلکہ وہ ہماری موجودہ اردو نثر کے بھی بانی اور جد امجد ہیں جنھوں نے پر تکلف زبان کو سادہ اور سلیس زبان میں بدل دیا۔ ہماری صحافتی اور ادبی زبان سرسید کے راستے پر چلتے ہوئے جیسے جیسے ترقی کرتی گئی، لوگ کلاسیکی روایت کی نثر کو بھولتے چلے گئے۔ یہ عرفان صدیقی تھے جنھوں نے پہلے انٹرویو کا ابتدائیہ اس مہکتی ہوئی زبان میں لکھا پھر صحافتی کالم کو اس کی رعنائی سے روشناس کرایا۔

یہی عرفان صدیقی جن کی نثر کا شہرہ چار دانگ عالم میں بج رہا تھا، اس وقت ایک مبتدی کے بارے میں ایسے کلمات کہہ رہے تھے۔ انھوں نے ایک صحافتی ادارے میں اس کی سنیارٹی کا اعتراف ہی نہیں کیا، کچھ اور بھی کہا۔ان کا کہنا تھا کہ لوگ میری تحریر کی تعریف کرتے ہیں لیکن میں اعتراف کرتا ہوں کہ فاروق بہتر لکھتا ہے جب وہ کسی شخصیت کے بارے میں قلم اٹھاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ اسے دیکھ رہے ہیں۔ کسی واقعے کا بیان کرتا ہے تو آنکھوں کے سامنے اس کی فلم چلنے لگتی ہے۔

یہ تھے عرفان صدیقی جو اپنے جونئیر بلکہ اولاد کی عمر کے لوگوں کی حوصلہ افزائی کھلے دل سے کرتے اور ان کی تعریف میں مبالغے کو جا چھوتے۔ اچھے اساتذہ کا یہی وصف ہوتا ہے۔ وہ شاگرد کی تربیت کے لیے جہاں سختی سے کام لیتے ہیں، وہیں کھلے دل سے تعریف کر کے اس کا حوصلہ بھی بڑھاتے ہیں۔ مجھے براہ راست ان کی شاگردی کا اعزاز تو حاصل نہیں رہا لیکن ان کی حوصلہ افزائی نے مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کیا۔ یوں اگر میں انھیں استاد تسلیم کرلوں تو اسی میں میری عزت افزائی ہے۔عرفان صدیقی صاحب نے صحافت میں قدم رکھا تو بے مثال ترقی کی یہاں تک کہ دائیں بازو کے سرخیل صحافیوں میں شمار کیے گئے۔

سیاست میں آئے تو اس شعبے میں بھی ان کی ترقی کی رفتار بے مثال تھی۔ اس وجہ سے ان کے حاسدوں کی تعداد میں بھی ان کی کام یابیوں اور فتوحات کی رفتار سے اضافہ ہوا۔ حسد اور رشک کی کیفیات میں بہت سی ضروری باتیں پردہ کر جاتی ہیں اور کچھ مصنوعی تصورات پختہ ہو جاتے ہیں۔ عرفان صدیقی کے معاملے میں بھی یہی کچھ ہوا۔ صحافت میں میرے رشتے اور دوستیاں ان کے مخالفین سے زیادہ تھیں۔ اس وجہ سے دفتری سیاست میں بھی میرا شمار ان کے مخالف دھڑے میں کیا گیا لیکن اس کے باوجود میں نے یہ ضرور سوچا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مخالفت کے باوجود یہ شخص آگے ہی بڑھتا جاتا ہے؟

عرفان صدیقی اچھا لکھتے تھے اور بہت محنت کرتے تھے۔ یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں لیکن میں ایک ایسی بات جانتا ہوں جس کا تعلق ہماری تہذیب کی اس روایت سے ہے جس سے تصوف کے پاکیزہ چشمے پھوٹتے ہیں۔ یہ شاید 1998 کی بات ہے، پروفیسر احسن اقبال ان دنوں پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین تھے جب انھوں نے وژن 2010 پر کام شروع کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے ملک بھر کے صحافیوں اور اہل فکر کو ایک اجتماع میں مدعو کیا۔

ممکن ہے، مخدومی مجیب الرحمن شامی کو یاد ہو کہ اس موقع پر ایک سینئر صحافی نے موقع و محل کا لحاظ رکھے بغیر عرفان صاحب کے لتے لینے شروع کیے۔ صورت حال کافی بگڑ گئی۔ کوئی اور موقع ہوتا تو نوبت یقینا ہاتھا پائی تک جا پہنچتی ۔ عین اس وقت جب وہ صاحب صدیقی صاحب کی شان میں ' رطب اللساں ' تھے، میری آنکھیں عرفان صدیقی صاحب سے چار ہوئیں۔ شاید میں اس وقت میں ان کے چہرے پر پریشانی، شرمندگی،غصے اور انتقام کی کیفیات دیکھنا چاہتا تھا لیکن میں نے اس دم انھیں مسکراتے ہوئے پایا۔ اس واقعے کو چوتھائی صدی گزری ہے لیکن ان کا مسکراتا ہوا چہرہ آج بھی میرے سامنے ہے۔

عرفان صاحب اس وقت راؤنڈ ٹیبل کی آخری نشست پر بیٹھے تھے، ان کے ' کرم فرما' میز کے دائیں جانب بہتر جگہ پر تھے لیکن آنے والے چند برسوں میں منظر بدل گیا۔ کرم فرما تو اپنے منصب پر ہی فروکش رہے لیکن ان کا تختہ مشق آگے بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ اسے دیکھنے کے لیے سر اٹھا کر دیکھنا پڑا۔ عرفان صدیقی کو یہ عروج کیسے حاصل ہوا۔ اس سوال پر بہ قدر ظرف خیال آرائی کے لیے لوگ آزاد ہیں لیکن میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ برداشت کی وہ صلاحیت رہی ہو گی جو صرف مقربین کو ودیعت ہوتی ہے۔

ان کی بے مثال ترقی کا ایک راز اور بھی ہو سکتا ہے۔ میرے عزیز بھائی ارشد ملک محمد علی درانی صاحب سے ایک بات روایت کرتے ہیں۔ محمد علی درانی کہتے ہیں عرفان صدیقی صاحب کی سب سے بڑی خوبی جدت خیال تھی۔ ان کی یہی خوبی ہے جس نے انھیں کبھی Irrelevant نہیں ہونے دیا، وہ وقت کے دھارے سے ہمیشہ ایک قدم آگے اورحالات کی نبض پر ہمیشہ ان کا ہاتھ رہا یوں کسی مشکل صورت حال میں ان کے ہم عصر ٹھٹھک کر کھڑے ہو جاتے لیکن عرفان صدیقی کی گدڑی میں اسی مشکل کا کوئی نہ کوئی حل موجود ہوتا۔ عرفان صاحب کی یہی خوبی تھی، میاں محمد نواز شریف جس کے گرویدہ ہوئے۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ مشکل سے مشکل صورت حال میں ان کے اوسان کبھی خطا نہ ہوتے اور وہ ہمیشہ منفرد اور درست مشورہ دیتے۔

عرفان صاحب کی سیاسی بصیرت کی شناخت جنرل مشرف کے زمانے میں ہوئی۔ اس زمانے میں وہ ' نوائے وقت ' میں لکھا کرتے تھے۔ نہیں معلوم وہ تحریریں محفوظ ہیں یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کی جمہوری جدوجہد نے ان کی تحریروں سے حوصلہ پایا۔ یہ ان کی صحافت اور فکری توانائی کا ایک منفرد عہد ہے۔ اس سے پہلے کہا جاتا تھا کہ ان کی مرنجان مرنج طبیعت اور وضع داری ان کی تحریر پر غالب آ جاتی ہے لیکن اس زمانے میں وہ ننگی تلوار تھے۔ اس عہد کی لفظیات میں بات کی جائے تو یہ حقیقت ہے کہ ان کے کالموں نے اس زمانے میں آمریت کے خلاف جدوجہد کی بیانیہ سازی کی۔ اس زمانے کے بعد انھوں نے یہ کام بہت انداز دگر کیا۔ ' ووٹ کو عزت دو, اور , پاکستان کو نواز دو, جیسے شاندار نعرے یا بیانیے ان ہی کے ذہن رسا کی پیداوار تھے۔

اسی طرح بعض سیاسی جوڑ توڑ خاص طور پر 2013 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کا تجربہ اور صحافت کے زمانے کے تعلقات نے اہم کردار ادا کیا۔ میاں نواز شریف عرفان صاحب ایسی ہی خوبیوں پر فریفتہ تھے۔

آخری عمرمیں عرفان صاحب اور ارشد ملک کا ساتھ بہت گہرا رہا ہے۔ ان کا مشاہدہ ہے کہ کہولت کو پہنچ جانے کے باوجود ان میں جستجو کا جذبہ ہمیشہ توانا رہا۔ یہ بات یوں سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے شاگردوں نے بہت ترقی کی اور وہ اپنے اپنے شعبے کی معراج پر پہنچے لیکن اس کے باوجود عرفان صدیقی ان سب سے ممتاز دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی یہی خوبی تھی جس نے انھیں وقت سے ہمیشہ آگے رکھا یوں وہ اپنے ہم عصروں سے کہیں آگے نکل گئے۔ اتنا آگے کہ آج انھیں یاد کرتے ہوئے ہماری آنکھیں نم ہوئی جاتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • موٹروے ایم ون پشاور سے صوابی انٹرچینج تک بند
  • میری بوا مہرو!
  • پی ٹی اے انتباہ،غیر رجسٹرڈ فون استعمال کرنے والے ہو جائیں خبردار!
  • امریکی سفارتخانے کے 3 رکنی وفد کی اڈیالہ جیل آمد
  • روزانہ 500 کیلوریز کی کمی سے ہفتے میں ایک پاؤنڈ وزن گھٹ سکتا ہے: ماہرین
  • پاکستان انویسٹرز فورم جدہ کی نئی قیادت کے لیے اہم نامزدگیاں
  • شدید دھند کی وجہ سے پشاور موٹر وے بند
  • اللہ نے زندگی دی ہے وہی اسے لے گا، کارکنوں سے کہتی ہوںفکر نہ کریں،شیخ حسینہ واجد
  • عرفان صدیقی کی زندگی کا سب بڑا راز
  • شدید دھند کی وجہ سے موٹر وے ایم ون پشاور سے رشکئی تک بند