امریکا کی وفاقی اپیل کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر ملکی امداد روکنے کی پالیسی کے خلاف جاری حکم امتناع کو 2-1 کی اکثریت سے ختم کر دیا۔ 

اس عدالتی فیصلے کو ٹرمپ کے لیے ایک بڑی سیاسی اور قانونی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ اس سے انہیں اپنی متنازع پالیسی پر عمل درآمد کا راستہ مل گیا ہے۔

ٹرمپ نے 20 جنوری 2025 کو دوسری مدت کے لیے حلف اٹھانے کے بعد ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے تمام غیر ملکی امداد پر 90 دن کی عارضی پابندی عائد کر دی تھی۔ 

ان کے اس اقدام کے بعد امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (USAID) میں بڑے پیمانے پر ردوبدل شروع ہوا، جس میں متعدد ملازمین کو بغیر تنخواہ کے چھٹی پر بھیجنا، امدادی پروگراموں کو روکنا اور اس خودمختار ادارے کو محکمہ خارجہ کے ماتحت کرنے پر غور شامل تھا۔ 

ناقدین کے مطابق یہ قدم امریکی خارجہ پالیسی اور انسانی ہمدردی کے منصوبوں کو کمزور کرنے کی ایک بڑی کوشش تھی۔

دو غیر منافع بخش تنظیموں — ایڈز ویکسین ایڈووکیسی کولیشن اور جرنلزم ڈیولپمنٹ نیٹ ورک — نے عدالت سے رجوع کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ ٹرمپ کا یہ اقدام غیر قانونی ہے کیونکہ یہ کانگریس کی طرف سے پہلے سے منظور شدہ بجٹ اور امدادی منصوبوں میں غیر آئینی مداخلت ہے۔

امریکی ڈسٹرکٹ جج امیر علی، جو صدر جو بائیڈن کے نامزد کردہ ہیں، نے ابتدائی فیصلے میں ٹرمپ انتظامیہ کو دنیا بھر میں اپنے انسانی ہمدردی کے شراکت داروں کو تقریباً 2 ارب ڈالر کی بقایا امداد ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔

ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سرکٹ کی اپیل کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جج امیر علی کے فیصلے کو منسوخ کر دیا۔

اکثریتی رائے (ججز کیرن ہینڈرسن اور گریگوری کاٹساس): غیر منافع بخش تنظیمیں اپنے دعوے کو قانونی طور پر ثابت کرنے میں ناکام رہیں اور حکم امتناع کے لیے درکار شرائط پوری نہیں کر سکیں۔

ہینڈرسن، جو ریگن دور میں نامزد ہوئی تھیں، نے یہ واضح کیا کہ عدالت اس بات پر رائے نہیں دے رہی کہ آیا ٹرمپ کی پالیسی آئینی خلاف ورزی ہے یا نہیں، کیونکہ یہ معاملہ کانگریس کے اخراجات کے اختیار سے جڑا ہوا ہے۔

سرکٹ جج فلورنس پین، جو بائیڈن کی نامزد کردہ ہیں، نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ایگزیکٹو کی غیر قانونی حرکتوں کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے، جو آئین میں دیے گئے اختیارات کی تقسیم اور توازن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ان کے مطابق، یہ طرز عمل آمرانہ رجحانات کو فروغ دے سکتا ہے اور طاقت کے توازن کے نظام کو پٹڑی سے اتار دیتا ہے۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب عالمی سطح پر کئی ممالک امریکی امداد پر انحصار کرتے ہیں، خاص طور پر صحت، تعلیم اور انسانی ہمدردی کے شعبوں میں۔ ٹرمپ کی پالیسی کو بعض حلقے امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسے کے بہتر استعمال کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ ناقدین اسے دنیا میں امریکی اثرورسوخ کو کم کرنے اور انسانی بحرانوں کو مزید بڑھانے کا سبب قرار دیتے ہیں۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ٹرمپ کی

پڑھیں:

مخصوص نشستیں کیس: فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ

اسلام آباد:

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا ہے ہے کہ فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا پی ٹی آئی چاہتی تو فریق بن سکتی تھی مگر جان بوجھ کر نہیں بنی، سپریم کورٹ نے کبھی حکم نہیں دیا کہ پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جو کہ 47 صفحات پر مشتمل ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر نے وجوہات تحریر کی ہیں، تفصیلی فیصلے میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں، جسٹس صلاح الدین پنہور کی سماعت سے الگ ہونے کی وجوہات پر الگ نوٹ بھی شامل ہے۔

سپریم کورٹ نے نظر ثانی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے 27 جون کو فیصلہ سنایا تھا تاہم تفصیلی فیصلہ آج آیا ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریویو پٹیشنز صرف آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، 13 رکنی آئینی بینچ کے سامنے نظر ثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئیں، آئینی بینچ کے 11 ججوں نے فریقین اور اٹارنی جنرل ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا، بینچ کے دو ارکان نے مختلف رائے دی اور ریویو پٹیشنز مسترد کر دیں، دو ججز نے حتمی فیصلہ سنا کر مزید کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں سات غیر متنازع حقائق ہیں، سنی اتحاد کونسل کی حد تک مرکزی فیصلے میں اپیلیں متفقہ طور پر خارج ہوئیں کہ وہ مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں، مرکزی فیصلے میں پی ٹی آئی کو ریلیف دے دیا گیا جبکہ وہ فریق ہی نہیں تھی، پی ٹی آئی اگر چاہتی تو بطور فریق شامل ہو سکتی تھی مگر جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا گیا، پی ٹی آئی کیس میں کسی بھی فورم پر فریق نہیں تھی، جو ریلیف مرکزی فیصلے میں ملا برقرار نہیں رہ سکتا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی، 80 آزاد امیدواروں میں سے کسی نے بھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں یا مخصوص نشستیں انہیں ملنی چاہئیں، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دیں، مرکزی فیصلے میں ان جماعتوں کو بغیر سنے ڈی سیٹ کر دیا گیا، جو قانون اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا، مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا، آرٹیکل 187 کا استعمال اس کیس میں نہیں ہوسکتا تھا۔ 

متعلقہ مضامین

  • لاہورہائیکورٹ ، زیرحراست ملزمان کے اعترافی بیانات نشرکرنے پرپابندی عائد
  • عمر ایوب اور شبلی فراز کی ڈی سیٹ کرنے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع
  • ملکی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کیلئے لبنانی فوج و سکیورٹی فورسز کو 230 ملین ڈالر کی امریکی امداد
  • آزاد کشمیر میں قیام امن کیلئے آج پھر مذاکرات ہوں گے، حکومتی کمیٹی کامیابی کیلئے پر امید
  • مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا
  • مخصوص نشستیں کیس، فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ
  • مخصوص نشستیں کیس: فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ
  • 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا پر اعتراضات چیلنج
  • 26ویں آئینی ترمیم کیس: مصطفیٰ نواز کھوکھر کی رجسٹرار آفس کے اعتراضات کیخلاف اپیل دائر
  • سیلاب سے نقصانات کے لیے فی الحال عالمی امداد نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، وفاقی وزیر خزانہ