پاکستان کا ارب پتی بزنس ٹائیکون اور خاندان کون؟ فہرست سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
وقاص عظیم: پاکستان کے ارب پتی بزنس ٹائیکون کی فہرست منظر عام پر آگئی۔
معاشی تھنک ٹینک ایکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ نے پاکستان کی کاروباری گروپس کی مالیت بارے رپورٹ جاری کردی، بیسٹ وے گروپ کے سر انور پرویز پاکستان کے امیر ترین کاروباری شخصیت ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سر انور پرویز نے پاکستان میں 3 ارب 62 کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے جو پہلے نمبر پر ہیں، فوجی فاؤنڈیشن گروپ پاکستان کا دوسرا بڑا امیر ترین گروپ ہے، فوجی فاؤنڈیشن کی سرمایہ کاری 2 ارب 25 کروڑ ڈالرز ہے۔
مغوی کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت 20 اگست کو مقرر
ٹبہ گروپ پاکستان کا تیسرا امیر ترین کاروباری خاندان ہے، ٹبہ گروپ 1 ارب 88 کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کاری کے ساتھ تیسرا امیر ترین گروپ ہے۔
پاکستان ٹوبیکو گروپ پاکستان کا چوتھا امیر ترین کاروباری گروپ ہے، پاکستان ٹوبیکو نے ایک ارب 18 کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔
ابراہیم گروپ کے میر شکیل پاکستان کی پانچویں امیر ترین کاروباری شخصیت ہیں، ابراہیم گروپ نے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
سی سی ڈی کوتوالی کے مبینہ مقابلے میں 2 ملزمان ہلاک
آغا خان گروپ 954 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کے ساتھ چھٹا امیر ترین گروپ ہے، میاں منشاء پاکستان کی ساتویں امیر ترین کاروباری شخصیت ہیں ۔
میاں منشاء نے پاکستان میں 920 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، سید بابر علی کا شمار 40 ارب پتی کاروباری خاندانوں میں پہلے نمبر ہے، پیکجز گروپ کے سید بابر علی 1 ارب 60 کروڑ ڈالرز کے مالک ہیں۔
فاطمہ گروپ کے فواد مختار دوسری بڑی کاروباری شخصیت ہیں، گوہر اعجاز پاکستان کی پانچویں بڑی کاروباری شخصیت ہیں، لیک سٹی ہولڈنگ کے مالک گوہر اعجاز 2 ارب 50 کروڑ ڈالرز کے کاروباری مالک ہیں۔
مودی کا جنگی جنون کم نہ ہوا، بھارتی یومِ آزادی کی تقریب میں ایک اور مشن لانے کا اعلان
پاکستان کے 40 بڑے ارب پتی کاروباری گروپس کی رینکنگ جاری کردی گئی، پاکستان کی 20 بڑی پبلک لسٹڈ کمپنیوں کی رینکنگ بھی جاری کر دی گئی۔
سردار یاسین ملک ، حبیب اللہ خان ، شیخ محمد جاوید پاکستان کی ارب پتی کاروباری شخصیات ہیں، عقیل کریم ڈھیڈی ، بشیر جان محمد میاں عامر محمود پاکستان کی ارب پتی کاروباری شخصیات ہیں۔
نسرین قصوری ، جہانگیر ترین اور علیم خان کا شمار پاکستان کی امیر ترین کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے، داود گروپ کی کاروباری مالیت 2 ارب 39 کروڑ ڈالرز ہے۔
رافیل سمیت بھارتی طیارے گرانے والے شاہین پہلی بار منظر عام پر آگئے
میزان گروپ کی کاروباری مالیت 2 ارب 38 کروڑ ڈالرز ہے، عارف حبیب گروپ ایک ارب 57 کروڑ ڈالرز ، آغا خان گروپ ایک ارب 56 کروڑ ڈالرز کا مالک ہے۔
اٹک گروپ ایک ارب 35 کروڑ ڈالرز کا مالک ہے، پاکستان ٹوبیکو گروپ ایک ارب 24 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کا مالک ہے، سفائر گروپ کے میاں عبداللہ ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز کے کاروبار کے مالک ہیں۔
لاکھانی گروپ ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز کا مالک ہے، ہاوس آف حبیب ایک ارب 17 کروڑ ڈالرز کا مالک ہے، میر ابراہیم گروپ ایک ارب 12 کروڑ ڈالرز کا مالک ہے، پاکستان کے 22 کھرب پتی کاروباری خاندانوں میں سے آج 5 خاندان موجود ہیں، گذشتہ 50 سالوں میں 35 نئے ارب پتی کاروباری خاندان سامنے آچکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سید بابر علی ، حبیب رفیق ، حسین داود اور طارق سیگل گروپ کا شمار آج بھی ارب پتی خاندان میں ہوتا ہے۔
ذریعہ: City 42
پڑھیں:
4 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 733 ملین ڈالرز تک پہنچ گیا
کراچی:پاکستان کی کمزور بیرونی پوزیشن ایک بار پھر دباؤمیں آگئی ہے،کیونکہ مالی سال 2026 کی پہلی چار ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر 733 ملین ڈالر تک جاپہنچا،جوگزشتہ سال اسی دوران کے 206 ملین ڈالرزکے مقابلے میں تین گنا سے زائد ہے۔
اکتوبر میں صورتحال مزید خراب ہوئی اورکرنٹ اکاؤنٹ 112ملین ڈالر خسارے میں چلاگیا، جبکہ ستمبر میں یہ 83 ملین ڈالر سرپلس تھا۔
اسٹیٹ بینک کے جاری تازہ اعداد وشمار کے مطابق جولائی تا ستمبر FY26 کے دوران پہلے ہی 621 ملین ڈالر خسارہ ریکارڈ ہو چکا تھا، جو گزشتہ سال اسی عرصے کے 83 ملین ڈالرکے سرپلس کے برعکس ہے۔
بیرونی شعبے پر دباؤ کی بڑی وجہ درآمدات میں نمایاں اضافہ اور برآمدات کی سست رفتاری رہی، جولائی تا اکتوبر FY26 میں پاکستان کا مجموعی تجارتی خسارہ (اشیا و خدمات) بڑھ کر 11.26 ارب ڈالر ہو گیا، جو گزشتہ سال 9.61 ارب ڈالر تھا۔
اشیاء کی برآمدات میں صرف معمولی بہتری دیکھنے میں آئی اور یہ 10.63 ارب ڈالر رہیں، جوگزشتہ سال کے 10.42 ارب ڈالرسے صرف 2 فیصد زیادہ ہیں۔
اکتوبر میں برآمدات 2.75 ارب ڈالر رہیں،جو گزشتہ سال اکتوبر کے 3 ارب ڈالر سے کم ہیں۔ خدمات کی برآمدات نے کچھ سہارا فراہم کیا اور 3.03 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جن میں آئی ٹی و ٹیلی کام کی برآمدات 1.44 ارب ڈالر رہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔
دوسری جانب اشیا کی درآمدات بڑھ کر 20.72 ارب ڈالر ہوگئیں، جو گزشتہ سال کے 18.90 ارب ڈالر سے 9.6 فیصد زیادہ ہیں۔
خدمات کی درآمدات بھی بڑھ کر 4.20 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، بنیادی آمدنی کا خسارہ اب بھی بڑا چیلنج ہے، جو چار ماہ میں 3.09 ارب ڈالر رہا۔
اکتوبر میں ہی اس مد میں 905 ملین ڈالرکا خسارہ ریکارڈ ہوا۔ ترسیلات زر نے بیرونی کھاتوں کو سب سے زیادہ سہارا دیا، جو بڑھ کر 12.96 ارب ڈالر ہوگئیں، تاہم تیزی سے بڑھتے تجارتی خسارے کو پورانہ کر سکیں۔
مالی کھاتہ بھی دباؤ میں رہا اور چار ماہ میں 605 ملین ڈالر خسارہ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ ایف ڈی آئی کم ہوکر 748 ملین ڈالر رہ گئی۔
اگرچہ زرمبادلہ کے ذخائر اکتوبر کے اختتام تک بڑھ کر 14.64ارب ڈالر ہوگئے تھے، تاہم بڑھتا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور آئندہ مہینوں میں بھاری قرض ادائیگیاں بیرونی استحکام کیلیے نئے خطرات پیدا کر رہی ہیں۔