اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 اگست2025ء) پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما شرمیلا فاروقی نے مجوزہ فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2025 کے فوری نفاذ پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون خواتین کو ان کے شریک حیات یا گھر کے دیگر افراد کی جانب سے غیر منصفانہ یا جبری بے دخلی سے محفوظ ر کھے گا۔ ہفتہ کو اپنے ایک انٹرویو میں شرمیلا نے خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی اور گھر سے بے دخلی کے اقدامات کو مجرمانہ قرار دینے پر زور دیا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ مجوزہ فوجداری قانون (ترمیمی) بل 2025، سیکشن 498D اور شیڈول II میں اہم ترامیم متعارف کررائی گئی ہیں جس کا مقصد خواتین کی گھروں سے غیر قانونی بے دخلی کو روکنا اور ازدواجی تعلقات میں ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔

(جاری ہے)

شرمیلا فاروقی نے اس بات پر زور دیا کہ وسیع بحث کے بعد خواتین کی حفاظت اور وقارخاص طور پر میاں بیوی یا گھر کے دیگر افراد کی طرف سے جبری بے دخلی یا بدسلوکی کے معاملات کے حوالہ سے بل کو احتیاط سے تیار کیا گیا ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ بل کی جلد منظوری اور اس پر عمل درآمد سے خواتین کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں گے جو انہیں جاری سماجی چیلنجوں کے تناظر میں انتہائی ضروری قانونی تحفظ فراہم کرے گا۔ شرمیلا فاروقی نے اس بات پر زور دیا کہ وسیع بحث کے بعد بل کو ایک ضروری قانونی اقدام کے طور پر پیش کیا گیا ہے تاکہ خواتین کو ان کے گھروں میں غیر منصفانہ سلوک سے محفوظ رکھا جا سکے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ بل جلد ہی نافذ ہو جائے گا جو خواتین کے بنیادی حقوق کو محفوظ بنائے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ انہیں ان کی رہائش گاہوں سے غیر منصفانہ طور پر نکالے جانے سے بچایا جائے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس بل کا نفاذ خواتین کے وقار اور تحفظ کو یقینی بنانے کی طرف ایک بڑا قدم ہو گا، خاص طور پر ازدواجی تعلقات میں جہاں ان کے حقوق کو اکثر تسلیم نہیں کیا جاتا۔

ایک سوال کے جواب میں شرمیلا فاروقی نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں بہت سے معاملات میں شوہروں کی جانب سے خواتین کو گھروں سے بے دخل کیا گیا جس سے وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ خواتین کو اکثر ایسے حالات میں قانونی تحفظ کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ان کے لئے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک مرتبہ جب بل نافذ ہو جائے گا تو مجرموں کو سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا اور انہیں سخت قانونی طریقہ کار کا نشانہ بنایا جائے گا جس سے ان خواتین کے لیے انصاف کو یقینی بنایا جائے گا جنہیں ان کے گھروں سے غیر منصفانہ طور پر بے دخل کیا گیا ہے۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے شرمیلا فاروقی نے غیر منصفانہ خواتین کو خواتین کے انہوں نے جائے گا بے دخلی کیا گیا

پڑھیں:

بلوچستان: اعتماد کا بحران

انسانی حقوق کی بالادستی کے بغیر نہ تو غربت ختم ہوسکتی ہے، نہ ملک ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی ریاست پر آئین کی بالادستی قائم ہوسکتی ہے اور نہ ہی جمہوری ادارے تقویت پا سکتے ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) 1987 میں قائم ہوا، انصاف اور عدل کی بالا دستی کے موقف پر ساری زندگی یقین رکھنے والے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس دراب پٹیل، انسانی حقوق کی وکیل عاصمہ جہانگیر، عوامی حقوق کے علمبردار اور وزارت خزانہ کے عہدے پر پہنچنے والے ڈاکٹر مبشر حسن، آزادی صحافت کی جدوجہد کرنے والے اور انسانی حقوق کے لیے ساری زندگی وقف کرنے والے صحافی آئی اے رحمان اور حسین نقی، ترقی پسند استاد ڈاکٹر مہدی حسن کمیشن کے بانیان میں شامل تھے۔ ایچ آر سی پی کے اکابرین نے کمیشن کے قیام کے ساتھ یہ فیصلہ کیا تھا کہ کسی مسئلے پر مکمل حقائق جمع کرنے کے بعد اپنی رپورٹ تیار کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایچ آر سی پی نے اپنے قیام کے بعد ملک بھر میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں حقائق جمع کرنے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجے ۔ ایچ آر سی پی اب بھی اہم موقع پر اپنے مشنز متاثرہ علاقوں میں بھیجتی ہے۔

 ان مشنز کے اراکین جمع کردہ حقائق اور مشاہدات پر مبنی رپورٹ تیار کرتے ہیں، ایچ آر سی پی کی پالیسی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرزکے خیالات ان رپورٹوں میں شامل ہوں۔ ایچ آر سی پی نے اپنے موجودہ چیئرپرسن اسد اقبال بٹ کی قیادت میں ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن بلوچستان بھیجا۔ یہ رپورٹ ایچ آر سی پی کے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن کی بنیاد پر مرتب کی گئی، جو 9  سے 12 جولائی 2025 کے درمیان بلوچستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کر کے انسانی حقوق کی صورت حال، شہری آزادیوں اور مسلح کارروائیوں کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ترتیب دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ریاستی رویے، بالخصوص جبری گمشدگیاں، سیاسی بے دخلی، شہری دائرہ کار کی سکڑتی ہوئی حدود اور صوبائی خود مختاری کی مسلسل پامالی، بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام کو بڑھا رہے ہیں۔

بلوچستان، ایک ایسا خطہ جسے وسائل کی فراوانی تو ملی، مگر ریاستی انصاف کا سایہ نہ مل سکا۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (HRCP)کی حالیہ رپورٹ ’’بلوچستان میں اعتماد کا بحران‘‘ نہ صرف اس محرومی کی گواہ ہے، بلکہ یہ اس جبر، سیاسی استحصال اور مسلسل پھیلتے ہوئے انسانی المیے کی دستاویز ہے، جس نے بلوچ معاشرے کو بے یقینی، خوف اور بے بسی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ رپورٹ میں سب سے زیادہ توجہ جس سنگین مسئلے پر دی گئی ہے، وہ ہے جبری گمشدگیوں کا تسلسل۔ ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق انسانیت کے خلاف جرم کے زمرے میں آتا ہے، مگر پاکستان میں اسے معمول بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

بلوچستان پولیس کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف 2025 میں جبری گمشدگیوں کے 46  نئے کیسز رجسٹر ہوئے جب کہ مجموعی طور پر 356  افراد کی گمشدگی رپورٹ ہوئی، جن میں سے 116کو بازیاب کر لیا گیا، 12 افراد پولیس مقابلوں میں مارے گئے اور 192 کیسز تاحال حل طلب ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہ سرکاری اعداد و شمار ہیں جو اکثر اوقات زمینی حقیقت سے بہت کم ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کئی متاثرہ خاندانوں کو نہ صرف انصاف سے محروم رکھا گیا بلکہ انھیں ہراساں بھی کیا گیا۔ کچھ کو پیشہ ورانہ اسناد سے محروم کردیا گیا تو بعض کو نگرانی، حراست یا دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے تسلیم کیا کہ جبری گمشدگی ایک مسئلہ ہے، لیکن اسے پیچیدہ اور متنازع قرار دے کر ریاستی جبر کو ایک متبادل سچائی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔

انھوں نے بلوچ مزاحمتی تنظیموں جیسے بلوچ لبریشن آرمی پر اغوا ء کا الزام لگایا مگر رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ ان الزامات کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی۔ گورنر شیخ جعفر خان مندوخیل کا بیان کہ جب بغاوتیں ہوتی ہیں تو گمشدگیاں بھی ہوتی ہیں، اس ریاستی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو جبری گمشدگی کو ایک انسانی المیے کے بجائے جنگی حکمتِ عملی کے طور پر دیکھتی ہے۔ ایچ آر سی پی نے انسدادِ دہشت گردی (بلوچستان ترمیمی) ایکٹ 2025 کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے تحت افراد کو بغیر کسی عدالتی نگرانی کے 90 دن تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ قانون تشدد،بدسلوکی اور ماورائے عدالت کارروائیوں کے امکانات میں اضافہ کرتا ہے اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی راہ ہموار کرتا ہے۔ HRCP نے اس قانون کو واپس لینے اور تمام انسدادِ دہشت گردی قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کا مطالبہ کیا۔

اسی طرح سپریم کورٹ کے معروف فیصلے محبت شاہ کیس (2013) میں دی گئی ہدایات پر عمل نہ کرنا بھی ریاستی اداروں کی عدالتی فیصلوں سے انکار اور احتساب سے فرار کو ظاہر کرتا ہے۔ بلوچستان میں انتخابی عمل کو بھی رپورٹ میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ HRCP کا کہنا ہے کہ قومی پرست جماعتوں کو دیوار سے لگانا، انتخابات میں دھاندلی،اور ریاستی مشینری کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال عوام کے جمہوری نظام سے اعتماد اٹھانے کا سبب بن رہا ہے۔ رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ انتخابات میں شفافیت، غیر جانبداری اور جوابدہی کو یقینی بنایا جائے۔ ایچ آر سی پی نے اس رپورٹ میں تمام سیاسی رہنماؤں کی رہائی پر زور دیا اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے والوں کو دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کی شکایات صرف گمشدگیوں یا سیاسی بے دخلی تک محدود نہیں۔ HRCP نے اٹھارویں ترمیم کے تحت دی گئی صوبائی خود مختاری کی پامالی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور معدنیات سے متعلق متنازعہ منصوبوں کو بھی عوامی ناراضی کی وجوہات میں شامل کیا ہے۔

رپورٹ کا اختتام اس انتباہ پر ہوتا ہے کہ اگر ریاست نے بلوچستان کے عوام کی شکایات کا شفاف، حقوق پر مبنی اور سیاسی حل تلاش نہ کیا تو یہ شورش مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ ریاستی سیکیورٹی پالیسیوں کو قومی اتحاد کے تحفظ کے بجائے مزید تقسیم کا باعث نہ بننے دیا جائے۔

ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا کہ جبری گمشدگیوں کو فی الفور ختم کیا جائے، 2022 میں پاس ہونے والی قانون سازی پر عمل کیا جائے، ناکام کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈس اپیرنس کو تحلیل کر کے موثر نیا کمیشن قائم کیا جائے، انسدادِ دہشتگردی کے قوانین کو انسانی حقوق کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنایا جائے، انسانی حقوق کے محافظین کو تحفظ اور آزادی دی جائے۔ 2000 میں منظور ہونے والے قانون پر عمل کیا جائے۔ بلوچستان میں حالات اتنے خراب ہیں کہ گزشتہ ایک ہفتے سے بلوچستان کے عوام انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں اور بلوچستان آنے جانے والی ٹریفک کو ہمیشہ دہشت گردوں کے حملے کا خوف رہتا ہے۔ اس صورت حال میں اسلام آباد کی حکومت اس رپورٹ پر سنجیدگی سے غور کرے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان نے گریٹر اسرائیل اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی سازش مسترد کردی
  • بلوچستان: اعتماد کا بحران
  • فلسطینی ریاست کے قیام میں رکاوٹ ڈالنا عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، سعودی عرب
  • عزاداری ہمارا قانونی و آئینی حق ہے جس پر کوئی قدغن برداشت نہیں کی جائے گی، علامہ قاضی نادر
  • بلوچستان میں دہشتگردی کا خاتمہ قریب، امن کا سورج جلد طلوع ہوگا، وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی
  • 2024 میں 80 لاکھ خواتین نے پہلی بار موبائل انٹرنیٹ استعمال کرنا شروع کیا،ڈیجی سکلز 3.0 کے تحت تین سال میں 33 لاکھ آئی ٹی پروفیشنلز کو تربیت دیں گے،وفاقی وزیر شزہ فاطمہ خواجہ
  • جرمنی کے چند دلچسپ و عجیب قوانین
  • قومی اسمبلی نے انسداد دہشت گردی ایکٹ ترمیمی بل منظور کرلیا
  • قومی اسمبلی: انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2024ء کثرت رائے سے منظور