اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) حریت رہنما یاسین ملک کی بیٹی رضیہ سلطانہ نے عالمی رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ چین، امریکہ، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں میرے والد یاسین ملک کی جان بچائیں۔ بھارت میرے والد یاسین ملک کو اگلے ماہ پھانسی دینا چاہتا ہے۔ بھارت یاسین ملک کو سچ بولنے کے جرم میں سزا دینا چاہتا ہے۔ میرے والد کو کشمیر کی آزادی کی بات کرنے پر بھارت سزا دینا چاہتا ہے۔ میرے والد نے اپنی ساری زندگی کشمیر کاز کیلئے وقف کی ان کی جان بچائی جائے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: دینا چاہتا میرے والد یاسین ملک

پڑھیں:

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

سلطانہ کی عمر ستر سال ہے، شوہر کا انتقال ہو چکا ہے، اپنی بیٹی کے ہاں مقیم ہیں، یہ ایک ایسی خاتون ہیں جو ہر کسی کے کام آتی تھیں، کہیں کسی کے بارے میں سنا کہ وہ بیمار ہے، یہ فوراً وہاں پہنچ جاتی تھیں۔

نہ پیسے کی لالچ نہ کسی اور چیز کی، میرا جب چار سال پہلے ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو اسپتال میں یہی میرے ساتھ تھیں، پھر دو سال پہلے میرا پتّے کا آپریشن ہوا تو بھی میرے ساتھ تھیں، اور انھوں نے میری بڑی خدمت کی، مجھے بستر سے نہیں اٹھنے دیا۔

اسی طرح ان کا دال دلیہ چلتا رہتا تھا، شوہر جب ملازمت کرتے تھے تو ایک آدمی کے کمانے سے پورا نہیں پڑتا تھا، یہ بھی اپنے شوہر کا ساتھ دینے کے لیے گھر سے نکل پڑیں۔

پڑھی لکھی زیادہ تھیں نہیں، اس لیے کوئی اچھی ملازمت تو نہ کر سکیں، البتہ بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کھانا پکانے کی نوکری کر لی۔

طارق روڈ پر ایک گھر میں انھوں نے ملازمت کر لی۔ ہاتھ میں ذائقہ ہے، تعلق دہلی سے ہے، اس لیے جو ان کے ہاتھ کا کھانا کھاتا ہے وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ طارق روڈ پر ہی تین گھروں میں یہ کھانا پکاتی تھیں۔

اچھی خاصی گزر بسر ہو رہی تھی، اسی نوکری میں انھوں نے بیٹیوں کی شادیاں کیں، خود غریب تھیں اس لیے بیٹیاں بھی غربت میں بیاہی گئیں۔ پھر شوہر کو شوگر ہو گئی اور زیادہ سگریٹ نوشی سے ان کے پھیپھڑے متاثر ہو گئے تو انھوں نے نوکری چھوڑ دی۔

اب سلطانہ پر زیادہ ذمے داری آن پڑی، غیرت مند تھیں اس لیے کسی سے کچھ کہتی نہ تھیں، البتہ خوشی اور غم دونوں میں یہ شریک ہو جاتی تھیں، شوہر کو غصہ بھی بہت آتا تھا، سلطانہ غریب گھر کی غریب بیٹی تھیں، اس لیے دکھ سہنے کا تجربہ تھا۔

شوہر گھر میں رہنے کی وجہ سے چڑچڑے ہو گئے تھے، انھیں صبح صبح ناشتہ درکار ہوتا تھا، یہ فجر کے بعد اٹھ کر شوہر کو ناشتہ بنا کر دیتی تھیں، پھر اپنے کام پر چلی جاتی تھیں، شوہر بھی پنج وقتہ نمازی تھے، چونکہ بیوی نوکری کر رہی تھی، اس سے ان کی ایکو ہرٹ ہوتی تھی لہٰذا اکثر و بیشتر غصہ کیا کرتے تھے۔

ایک بیٹی قریب ہی رہتی تھی لہٰذا دوپہر کا کھانا وہ باپ کو نکال کر دے دیتی تھی۔ سلطانہ فجر کے بعد کھانا پکا کر جاتی تھیں اور شام کو آ کر شوہر کی ٹانگوں کی مالش کرتیں، انھیں چائے بنا کر دیتیں اور پھر رات کا کھانا تیار کرتیں، میاں بیوی دونوں نمازی تھے، سلطانہ تو تہجد گزار بھی تھیں، میں انھیں طویل عرصے سے جانتی ہوں۔

انھوں نے کچھ عرصہ میرے گھر بھی کھانا پکایا ہے، میرے شوہر تو ان کے ہاتھ کے کھانوں کے شیدائی تھے۔ انھوں نے کبھی کسی سے کچھ مانگا نہیں، اس لیے مجھے بھی ان کے ان حالات کا علم نہ ہو سکا جس کی شکار یہ شوہر کے انتقال کے بعد ہوئیں۔

میں ان کے شوہر کے انتقال پر ان کے گھر بھی گئی، انھوں نے عدت کے دن گھر پر گزارے جب کہ ان کی جو عمر تھی اس میں مولوی صاحب نے بتایا کہ ان پر عدت لازم نہیں ہے لیکن ایک اور مولوی صاحب نے کہا کہ عدت واجب تو نہیں ہے لیکن کر لیں تو شوہر کی روح کو ثواب ملے گا سو انھوں نے پوری مدت کی عدت کی اور گھر بیٹھی رہیں۔

جو جمع پونجی تھی وہ ختم ہو گئی، ان کی ملازمت ختم ہو گئی، کون اتنے لمبے عرصے کی غیر حاضری برداشت کرتا، مجھ سے جو کچھ ہو سکتا تھا وہ میں کر دیتی تھی۔ چند دن پہلے ان کی بیٹی میرے پاس گھر آئی اور مجھے ساتھ لے کر سلطانہ کے پاس پہنچ گئی۔

یہ وہ سلطانہ نہیں لگ رہی تھیں جن سے میں واقف تھی، پتا چلا کہ شوہر کے انتقال کے بعد ایک صاحب حیثیت رشتے دار نے انھیں دس ہزار روپے دینا شروع کیا، لیکن کچھ عرصہ قبل ان کا بھی انتقال ہو گیا اور یہ مدد سے محروم ہو گئیں۔

یہ بہت بیمار رہنے لگی ہیں، دل کی تکلیف ہے، بڑی باہمت خاتون ہیں، یہ جناح اسپتال جاتی تھیں اور اپنی دوائیں لے کر آتی تھیں۔ اسپتال جانے کے لیے یہ رکشہ کرتی تھیں اور رات کو ہی وہاں جا کر دری بچھا کر لیٹ جاتی تھیں۔

پھر صبح فجر کے وقت ٹوکن ملتے تھے اور پھر صبح نو دس بجے ڈاکٹروں کے پاس جانا ہوتا تھا۔ یہ ہفتے بھر کی دوائیں لے آتی تھیں، پھر یوں ہوا کہ دو بار یہ سیڑھیوں سے گر گئیں، ان کے کولہے میں چوٹ لگی۔

اب علاج کرائیں تو کیسے؟ ان کی بیٹی بھی غریب ہے وہ بھی جاب کرتی ہے، اس کے حالات بھی ایسے نہیں ہیں کہ وہ ماں کا علاج کرا سکے۔ مجھے یہ سب دیکھ کر بہت افسوس ہوا، لاچاری اور بے چارگی کی تصویر بنی سلطانہ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

گزشتہ ایک سال سے ان کی دوائیں بند ہیں، ایک ہفتے کی دوائیں پانچ ہزار کی آتی ہیں، چوٹ لگ جانے کی وجہ سے اب اسپتال نہیں جا سکتیں، پھر اسی پر اکتفا نہیں بلکہ دایاں ہاتھ ان کا کام نہیں کرتا۔ بیٹی نے کسی نہ کسی طرح ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے فزیو تھراپی کا مشورہ دیا۔

اب پیسے تو ہیں نہیں فزیو تھراپسٹ کوئی بھی گھر آنے کے ایک دن کے دو ہزار سے کم نہیں لیتے۔ فی زمانہ لوگوں میں ہمدردی کا جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے، پھر بھی میں نے ایک اسپتال میں بات کی تو ایک صاحبہ پندرہ سو پہ راضی ہو گئیں، لیکن روزانہ کے پندرہ سو آئیں کہاں سے؟ آج ہر انسان ضرورت مند ہے، مہنگائی نے ناطقہ بند کیا ہوا ہے، مجھے بہت افسوس ہوا یہ سب دیکھ کر۔

ایک بے سہارا، لاچار اور مجبور عورت جسے بڑھاپے اور مہنگائی نے مار دیا ہے۔ میں نے جب بھی کسی ضرورت مند کے لیے کالم لکھا ہے تو قارئین نے بھرپور ساتھ دیا ہے، اس بار بھی آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ زکوٰۃ، خیرات یا کسی بھی مد میں جو بھی رقم آپ نکالیں وہ سلطانہ کو دے دیں۔

کیونکہ ایک ماہ کی فزیوتھراپی کے لیے جو رقم جائے گی اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ پھر ہارٹ کی دوائیوں کے اخراجات الگ ہیں۔ میں نے انھیں دیکھا تو ان کی حالت پہ رونا آگیا، دل کی تکلیف کی وجہ سے ان کی زبان میں لکنت آگئی ہے۔

ان سے بولا نہیں جاتا، مجھے دیکھ کر انھوں نے دونوں ہاتھ جوڑ دیے اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ ان کی کسمپرسی پر میرا دل رو اٹھا، تب میں نے سوچا کہ ان کے لیے قارئین سے اپیل کروں، یہاں مخیر لوگوں کی کمی نہیں ہے، دو سال پہلے جب میں نے ’’سیما کی کہانی‘‘ والا کالم لکھا تھا تو لندن، کینیڈا اور پنجاب کے شہروں سے اتنی مدد آگئی تھی کہ سیما نے اپنے بیٹے کو یونیورسٹی میں داخلہ دلوا دیا تھا، لندن کی شاہدہ صدیقی مسلسل دس ہزار روپے ماہانہ بھیجتی رہیں۔

اب وہ بیمار ہیں لیکن ہم سب ان کی صحت کے لیے دعاگو رہتے ہیں۔ سلطانہ کی مدد کے لیے میں نے ان کے نواسے کا بینک اکاؤنٹ لکھوا دیا ہے۔ نواسے کا نام شہباز ہے، اس کا موبائل نمبر 0317-1092481 ہے، بینک اکاؤنٹ نمبر IBAN-PK37MEZN 0001520113080624 ہے۔ حالی نے کہا ہے:

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

سب کچھ یہیں رہ جائے گا، ساتھ جائے گا تو صرف اعمال نامہ جس میں سب سے زیادہ اہمیت ہوگی حقوق العباد کی۔ سلطانہ کی مدد کیجیے، میں چاہتی ہوں کہ جب تک سلطانہ زندہ ہیں ان کا دایاں ہاتھ کام کرنے لگے اور ان کی ہارٹ کی دوائیاں انھیں مل جائیں۔

سلطانہ پر بہت برا وقت پڑا ہے، بیٹی کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں، پھر بھی اس نے ماں کو رکھا ہوا ہے۔ سلطانہ کو ابھی میں نے کچھ نہیں بتایا ہے، اگر کہیں سے کوئی مدد آئی تو انھیں بتا دیں گے۔ انھوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ کبھی ایسی بھی افتاد ان پر پڑے گی، وہ کہتی ہیں کہ ان کا ہاتھ ٹھیک ہو جائے تو وہ طارق روڈ پر دوبارہ کھانا پکانے کا کام شروع کر دیں گی۔

لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا کہ اب وہ دوبارہ نوکری کر سکیں گی۔ ان کے حالات اور صحت بالکل اچھے نہیں ہیں، بس آپ لوگ رحم کیجیے، ایک بار پھر آپ کی شکر گزار ہوں گی۔

متعلقہ مضامین

  • ایران نے اسرائیل سے روابط کے الزام میں 6 مبینہ دہشت گردوں کو پھانسی دے دی
  • ایران؛ سیکیورٹی فورسز پر حملے پر 6 اور سُنّی عالم کے قتل پر 1 ملزم کو پھانسی دیدی گئی
  • پاکستان کو سوچناپڑے گا   دنیا کے نقشے پر رہنا چاہتا ہے یا نہیں ،بھارتی آرمی چیف کی بڑھک
  • افغان وزیر خارجہ امیر متقی کا اگلے ہفتے دورہ ِبھارت
  • سنہری الفاظ کو سیاسی رنگ دینا افسوسناک ہے، ثنا میر
  • طالبان کے وزیرِ خارجہ کا اگلے ہفتے بھارت کا دورہ
  • کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
  • ’مریخ پر جینا اور مرنا چاہتا ہوں‘، ایلون مسک مسک کی خواہش
  • ’میری امی کو لازوال عشق پسند آیا، میرے لیے یہی اہم ہے‘، پابندی کے مطالبے پر عائشہ عمر کا ردعمل
  • پاکستان فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانا چاہتا، فیصلہ حماس نے کرنا ہے، خرم دستگیر