اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اگست 2025ء) جب سے طالبان نے دوبارہ اقتدار سنبھالا اور ملک پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے، تب سے انہوں نے افغانستان میں پانی کی خود مختاری کے لیے کوششیں تیز کر رکھی ہیں، جبکہ خشک علاقوں میں قیمتی وسائل کے استعمال کے لیے بنیادی ڈھانچے کے متعدد منصوبوں کا آغاز بھی کیا جا چکا ہے۔

ڈیموں اور نئی نہروں کی تعمیر نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تناؤ کو جنم دیا ہے، جبکہ طالبان کو پہلے ہی علاقائی سطح پر تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے کئی چیلنج درپیش ہے، کیونکہ 2021ء میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وہ عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہیں۔

اسی دوران یہ خطہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے مشترکہ اثرات کا سامنا بھی کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

خطے کے ممالک کو پانی کی قلت کا سامنا ہے، کیونکہ درجہ حرارت میں اضافے اور بے وقت بارشوں کے عمل سے گلیشیئرز کے ساتھ ساتھ برف کے قدرتی ذخائر کو بھی خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔

دریائے آمو سے متعلق مشکل مذاکرات

’واٹر سٹریسڈ‘ وسطی ایشیا میں فصلوں کے لیے اہم دو بڑے دریاؤں میں سے ایک، آمو دریا کے پانی کے استعمال کے حوالے سے افغانستان کشیدہ مذاکرات میں ایک نئے کھلاڑی کے طور پر ابھر رہا ہے۔

اس دریا کے پانی کی تقسیم سوویت دور میں طے پانے والے نازک معاہدوں پر منحصر ہے۔

وسطی ایشیائی ممالک نے طالبان کے قوش تپہ میگا کینال منصوبے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ طالبان کا یہ منصوبہ آمو دریا کے کل بہاؤ کے 21 فیصد تک پانی کو افغانستان کے خشک شمالی علاقوں (پانچ لاکھ ساٹھ ہزار ہیکٹر اراضی کی آبپاشی) کے لیے موڑ سکتا ہے اور بحیرہ ارال کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔

ازبکستان اور ترکمانستان پر اثرات

اس منصوبے سے سب سے زیادہ ازبکستان اور ترکمانستان کے متاثر ہونے کا امکان ہے، جبکہ قازقستان نے بھی طالبان کے ساتھ گہرے سفارتی تعلقات کے باوجود تشویش کا اظہار کیا ہے۔ واٹر گورننس نامی ادارے کے ماہر محمد فیضی کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا، ''چاہے اب بات چیت کا لہجہ کتنا ہی دوستانہ کیوں نہ ہو، نہر کے فعال ہونے پر ازبکستان اور ترکمانستان کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

‘‘

طالبان حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ اس منصوبے سے آمو دریا کے پانی کی سطح پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، جبکہ یہ ملک میں فوڈ سکیورٹی کو بہتر بنائے گا، جس کا انحصار ماحولیاتی خطرات سے دوچار زراعت پر ہے۔

پروجیکٹ مینیجر سید ذبیح اللہ میری نے فریاب صوبے میں نہر کے تعمیراتی کاموں کے دورے کے دوران کہا، ''گرم مہینوں میں، خاص طور پر جب آمو دریا میں سیلاب آتا ہے اور گلیشیئرز کا پگھلا ہوا پانی اس میں شامل ہوتا ہے، پانی کی فراوانی ہوتی ہے۔

‘‘ دریائے ہلمند اور ایران کے ساتھ معاہدہ

ایران وہ واحد ملک ہے، جس کے ساتھ افغانستان کا ہلمند دریا کے حوالے سے 1973ء میں پانی کی تقسیم کا ایک رسمی معاہدہ طے پایا تھا۔ یہ دریا طالبان کے گڑھ ہلمند سے گزرتا ہے لیکن یہ معاہدہ کبھی بھی مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔

ہلمند کے وسائل پر دیرینہ تناؤ، خاص طور پر خشک سالی کے حالیہ ادوار میں مزید بڑھ چکا ہے۔

ایران، جو اپنے خشک جنوب مشرقی علاقوں میں دباؤ کا شکار ہے، نے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان اس کے حقوق کا احترام کرے۔ ایران کا الزام ہے کہ بالائی ڈیمز ہلمند کے بہاؤ کو سرحدی جھیل تک محدود کر رہے ہیں۔

طالبان حکام کا اصرار ہے کہ ایران کو فراہم کرنے کے لیے مزید پانی ہی نہیں ہے اور ایسا ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

واٹر ریسورس مینجمنٹ سے وابستہ ماہر عاصم میئر کی ایک رپورٹ کے مطابق طویل عرصے سے ناقص واٹر مینجمنٹ کی وجہ سے افغانستان کو اس کا پورا حصہ نہیں مل سکا۔ ہریرود اور دریائے مورغاب کے پانی کا مسئلہ

ایران اور افغانستان کے درمیان دوسرے مشترکہ دریائی طاس ہریرود، جو ترکمانستان میں بھی بہتا ہے اور اکثر دریائے مورغاب کے ساتھ جا ملتا ہے، پر بھی کوئی رسمی معاہدہ موجود نہیں ہے۔

فیضی کے مطابق اس طاس کے افغان حصوں پر بنیادی ڈھانچہ موجود ہے لیکن اس کا کبھی بھی مکمل استعمال نہیں کیا گیا لیکن افغانستان میں جنگ کے خاتمے سے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر سکیورٹی کے بھاری اخراجات ختم ہو گئے ہیں، جس سے ہریرود پر پشدان ڈیم جیسے منصوبوں کی ترقی کے لیے راہ ہموار ہوئی۔ اس ڈیم کا افتتاح اگست میں ہوا۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان پانی کے مسائل

افغانستان اور پاکستان کے درمیان پانی کے وسائل کبھی بھی کشیدہ تعلقات کا مرکزی موضوع نہیں رہے۔

دریائے کابل، جو انڈس طاس کے معاون دریاؤں میں شمار ہوتا ہے اور سب سے بڑے شہر کابل کو پانی فراہم کرتا ہے، پاکستان کے ساتھ مشترک ہے۔

تاہم دونوں ممالک کے درمیان کوئی رسمی تعاون کا طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ کابل میں پانی کے شدید بحران کے باعث طالبان حکام نے پرانے منصوبوں کو بحال اور نئے منصوبوں کا آغاز کیا ہے، جو پاکستان کے ساتھ نئے تناؤ کا باعث بن سکتے ہیں۔

فی الحال فنڈز اور تکنیکی صلاحیت کی کمی کی وجہ سے طالبان کے بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں کو مکمل ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

ادارت: مقبول ملک

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان کے طالبان کے کے درمیان آمو دریا میں پانی دریا کے پانی کی کے پانی کے ساتھ پانی کے ہے اور کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

صدارتی استثنیٰ: اختیار اور جواب دہی کے درمیان نازک توازن

صدارتی استثنیٰ: اختیار اور جواب دہی کے درمیان نازک توازن WhatsAppFacebookTwitter 0 16 November, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال
مدتوں سے صدارتی استثنیٰ کا تصور دنیا بھر کے آئینی مباحث میں اہم مقام رکھتا آیا ہے۔ اگرچہ مختلف ممالک میں اس کی صورتیں مختلف ہیں، مگر اس کی بنیادی منطق ایک ہی رہی ہے؛ سربراہِ ریاست کو روزمرہ سیاسی مقدمات یا قانونی خوف سے آزاد ہو کر اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں، لیکن کوئی بھی عہدہ دار ہمیشہ کے لیے احتساب سے مبرا نہیں ہو سکتا۔ اختیار اور جواب دہی کے درمیان یہی نازک توازن جدید آئینی نظامات کی روح ہے۔ اخلاقی سطح پر یہ اصول قرآن کی اس تعلیم سے ہم آہنگ ہے کہ تمام انسان، خواہ ان کا منصب کچھ بھی ہو، اللہ کے حضور جواب دہ ہیں: ”اور ہر جان کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور وہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔” (الزمر 70)۔ رسول اکرم ۖ نے بھی امتیازی احتساب کی سختی سے نفی کرتے ہوئے فرمایا: ”اللہ کی قسم! اگر فاطمہ، محمدۖ کی بیٹی بھی چوری کرتی، تو میں اُس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔” یہ تعلیمات یاد دلاتی ہیں کہ انتظامی ضرورت کے تحت استثنیٰ تو ممکن ہے، مگر اسے کبھی بے حساب آزادی میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔
دنیا بھر میں صدارتی استثنیٰ عموماً دو شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ پہلی شکل جسے ”مطلق استثنیٰ” کہا جاتا ہے، ایک موجودہ صدر کو فوجداری مقدمات یا دیوانی کارروائیوں سے محفوظ رکھتی ہے، تاکہ حکمرانی سیاسی مقدمات کے دباؤ سے مفلوج نہ ہو۔ دوسری شکل ”عملی استثنیٰ” کہلاتی ہے، جس کے تحت صدر اپنے دورِ صدارت میں سرکاری ذمہ داریوں کے تحت کیے گئے اقدامات پر منصب سے ہٹنے کے بعد بھی قانونی کارروائی سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ سربراہِ ریاست اہم اور کبھی کبھار غیر مقبول فیصلے بے خوفی سے کر سکے۔ تاہم عالمی رجحان واضح ہے کہ ریاستیں اپنے حکمرانوں کو ہمیشہ کے لیے قانون کی دسترس سے باہر رکھنے پر آمادہ نہیں رہیں۔
کئی ممالک میں صدر کو بہت مضبوط اور تقریباً مطلق استثنیٰ حاصل ہے۔ امریکہ میں ایک طویل عرصے سے یہ قانونی تعبیر رائج ہے کہ موجودہ صدر کے خلاف فوجداری مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے سرکاری اعمال کے لیے مطلق استثنیٰ تو برقرار رکھا ہے لیکن ذاتی افعال پر اسے تسلیم نہیں کیا۔ روس میں صدر کو کسی بھی فوجداری یا انتظامی جرم میں گرفتاری، تلاشی یا مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور کچھ صورتوں میں یہ استثنیٰ منصب چھوڑنے کے بعد بھی برقرار رہتا ہے۔ ترکی میں بھی اسی نوعیت کی حفاظت موجود ہے، جہاں بعض اعمال کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری ضروری ہے۔ کینیا میں بھی صدر کو دورِ صدارت کے دوران وسیع قانونی تحفظ حاصل ہے۔
بعض ممالک میں استثنیٰ محدود یا قابلِ تنسیخ ہے۔ بھارت کے صدر کو فوجداری کارروائی اور عدالتی طلبی سے تحفظ ضرور حاصل ہے، لیکن دیوانی مقدمات نوٹس کے ذریعے آگے بڑھ سکتے ہیں اور آئین شکنی پر مواخذے کی راہ کھلی ہے۔ اٹلی میں صدر صرف غداری یا سنگین آئینی خلاف ورزی پر مقدمے کا سامنا کر سکتا ہے۔ جرمنی نے استثنیٰ صرف سرکاری اعمال تک محدود کیا ہے اور وفاقی قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں دستوری عدالت صدر کو برطرف کر سکتی ہے۔ جنوبی افریقہ عملی استثنیٰ تو دیتا ہے مگر پارلیمانی طریقِ کار کے ذریعے ہٹانے کا اختیار برقرار رکھتا ہے۔ سری لنکا میں استثنیٰ ہے لیکن سپریم کورٹ بنیادی حقوق کی درخواستیں صدر کے خلاف بھی سن سکتی ہے۔
کئی ممالک نے استثنیٰ کو صرف سرکاری ذمہ داریوں تک محدود کیا ہے۔ برازیل میں عام جرائم پر کارروائی پارلیمانی منظوری سے ہو سکتی ہے، جبکہ ارجنٹینا میں استثنیٰ زیادہ تر مواخذے تک محدود ہے، جس کے بعد صدر سپریم کورٹ کے سامنے مقدمے کا سامنا کر سکتا ہے۔ ان تمام مثالوں میں اصول واضح ہے: صدر قانون سے بالاتر نہیں، بلکہ صرف اس حد تک محفوظ ہے جس سے ریاستی نظام کی روانی برقرار رہے۔
عالمی قانون میں بین الاقوامی فوجداری عدالت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ روم اسٹیچوٹ واضح طور پر کہتا ہے کہ قومی یا بین الاقوامی سطح پر حاصل کوئی بھی استثنیٰ نسل کشی، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم یا جارحیت کے جرم پر موجودہ یا سابق سربراہِ ریاست کے خلاف کارروائی کو نہیں روک سکتا۔ یہ اصول بتاتا ہے کہ بعض جرائم سرحدوں سے ماورا ہوتے ہیں اور انسانی حرمت کی پامالی منصب کی بلندی سے نہیں چھپ سکتی۔ یہ اسی قرآنی ہدایت کی یاد دہانی ہے: ”اے ایمان والو! اللہ کے لیے انصاف پر ڈٹ جانے والے بنو، خواہ وہ تمہارے اپنے خلاف ہو یا والدین اور رشتہ داروں کے خلاف۔” (النساء 135)
پاکستان میں روایتی طور پر صدر کو فوجداری کارروائی سے استثنیٰ حاصل رہا ہے۔ تاہم حال ہی میں منظور ہونے والی 27ویں آئینی ترمیم نے اس استثنیٰ کی وضاحت اور توثیق کی ہے۔ اس ترمیم نے صدر کو دورِ صدارت میں فوجداری کارروائی سے محفوظ رکھا ہے اور سرکاری اعمال کو عدالتی جانچ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے، تاکہ ریاستی تسلسل سیاسی دباؤ سے متاثر نہ ہو۔
تنقید نگاروں کا مؤقف ہے کہ جمہوریت کو غیر محدود اختیارات کے محفوظ ٹھکانے نہیں بنانے چاہئیں۔ ان کے نزدیک استثنیٰ کا مقصد سہولتِ حکمرانی ہے، نہ کہ غلط کاریوں کو ڈھال فراہم کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ترمیم نے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ ادارہ جاتی استحکام اور عوامی احتساب کے درمیان توازن کیسے قائم رکھا جائے۔
مگر کوئی بھی آئینی استثنیٰ اخلاقی جواب دہی سے مبرا نہیں کر سکتا۔ اسلامی تاریخ اس بارے میں نہایت روشن مثالیں رکھتی ہے۔ خلافتِ فاروقی کے دور میں مسجدِ نبویۖ میں ایک واقعہ پیش آیا جو رہنماؤں کی شفافیت کا بے مثال اثبوت ہے۔ جب حضرت عمر نے کپڑا تقسیم کیا تو ایک شخص کھڑا ہو کر پوچھ بیٹھا کہ جب سب کو ایک ایک ٹکڑا ملا ہے تو امیرالمؤمنین نے پورا کرتا کیسے بنا لیا؟ حضرت عمر نے فوراً اپنے بیٹے عبداللہ کو وضاحت کے لیے بلایا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنا حصہ اپنے والد کو دے دیا تھا۔ یہ سن کر سائل مطمئن ہو کر بیٹھ گیا۔ ایک عام شہری کے سامنے حکمران کا اس طرح جواب دہ ہونا ہمیں بتاتا ہے کہ اصل قیادت اختیار سے نہیں، اعتماد اور دیانت سے قائم ہوتی ہے۔
رسول اکرم ۖ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔” استثنیٰ صدر کو قانونی کارروائی سے وقتی تحفظ تو دیتا ہے، لیکن اسے قوم یا خدا کے سامنے جواب دہی سے معاف نہیں کرتا۔ اسلامی روایت میں اختیار ایک امانت ہے، مراعات نہیں۔
دنیا بھر میں آئینی نظام صدارتی استثنیٰ کی حدود کو مسلسل بہتر بنا رہے ہیں۔ شکلیں مختلف سہی، مگر اصول ایک ہی ہے: حکمرانی کو وقار درکار ہے، اور انصاف کو احتساب۔ ریاستوں، خصوصاً پاکستان، کے لیے اصل امتحان یہی ہے کہ وہ ایسا توازن برقرار رکھیں جس میں نہ تو ادارے سیاسی انتقام سے کمزور ہوں، اور نہ کوئی فرد قانون یا اخلاق سے بالاتر ہو جائے۔ اسی توازن میں ریاست کی قوت اور عوام کا اعتماد پوشیدہ ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعارضہ قلب سمیت دیگر امراض میں مبتلا افراد حج نہیں کرسکیں گے، ڈپورٹ کرنےکی پالیسی بھی لاگو ایوب خان ۔۔۔ کمانڈر ان چیف سے وزیرِاعظم اور صدرِپاکستان تک ستائیسویں آئینی ترامیم۔ مجسٹریٹی نظام کی واپسی ،بیورو کریسی کو مزید طاقتور بنانے کا منصوبہ۔ بھارتی سازش 1947 نومبر 6 مسلمانوں کا جموں میں قتل عام “ژالہ باری کی سرد چپ” میرا لاہور ایسا تو نہ تھا سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے. TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • بنگلا دیش کا سیاسی بحران؛ جماعت ِ اسلامی کا ابھرتا ہوا کردار
  • گلشن معمار میں پانی کے بحران کو فوری ختم کیا جائے‘ابوالضیاپرویز
  • شیخ حسینہ واجد کی سزائے موت کے ساتھ ہی مودی کا علاقائی تسلط کا قیام زمین بوس
  • پاکستان سے تجارت کم کرنا طالبان رجیم کو کتنا مہنگا پڑے گا؟
  • اہل تشیع کیساتھ دینی اقدار کے فروغ کے لئے تعاون برقرار رہیگا، افغان طالبان
  • طالبان نے افغانستان میں منشیات فیکٹریاں بند کیں تو یہاں شروع ہوگئیں، جج سپریم کورٹ
  • پاکستان میں بدامنی کی جڑ افغانستان سے مسلح گروہوں کی دراندازی ہے، رانا ثنا اللہ
  • ایران میں تاریخی خشک سالی، بارش کے لیے کلاؤڈ سیڈنگ کا آغاز
  • صدارتی استثنیٰ: اختیار اور جواب دہی کے درمیان نازک توازن
  • ایران میں بدترین خشک سالی، شہریوں کو تہران خالی کرنا پڑسکتا ہے، ایرانی صدر