تحقیقی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سائنس میں جعلی تحقیق کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے جو نہ صرف سائنسی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ انسانی صحت سے متعلق تحقیق کو بھی متاثر کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کم عمری میں اسمارٹ فون کا استعمال ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ، تحقیق

ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مخصوص ایڈیٹرز اور پبلشرز پر مشتمل منظم نیٹ ورکس سائنسی جرائد میں جان بوجھ کر کم معیار کی تحقیق شائع کر رہے ہیں۔ یہ مطالعہ معروف جریدے پی این اے ایس میں شائع ہوا جس کے دوران 70 ہزار مختلف سائنسی جرائد میں شائع ہونے والے 50 لاکھ سے زائد مضامین کا تجزیہ کیا گیا۔

امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سے وابستہ سماجی سائنسدان ریس رچرڈسن، جو اس تحقیق کے سرکردہ مصنف ہیں، کہتے ہیں کہ تحقیق میں ایسے ایڈیٹوریل نیٹ ورکس کے ثبوت سامنے آئے ہیں جو کمزور یا غیر معیاری مضامین کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت شائع کرتے ہیں۔ ان نیٹ ورکس سے وابستہ کئی ’مڈل مین‘ افراد ایسے مصنفین کو ایڈیٹرز تک رسائی دلاتے ہیں جو کسی سائنسی معیار پر پورے نہیں اترتے۔

تحقیق میں شامل جرمنی کی فری یونیورسٹی برلن سے تعلق رکھنے والی سماجی سائنسدان اینا ابالکینا کا کہنا ہے کہ اس قسم کی علمی بددیانتی سائنس پر اعتماد کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ان کے مطابق جب ناقص یا جعلی ڈیٹا کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں تو اس سے علاج اور تحقیق دونوں میں تاخیر پیدا ہوتی ہے۔

سائنس میں فراڈ کے بڑھتے آثار

تحقیقی مضامین، سائنسی ترقی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ انہیں جرائد میں شائع کرنا محققین کا اہم ہدف ہوتا ہے مگر اب کچھ اندازوں کے مطابق ہر سات میں سے ایک تحقیقی اشاعت میں ڈیٹا جعلی پایا جاتا ہے اور اس رجحان کو مصنوعی ذہانت بھی مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔

ان تحقیقات میں جھوٹے نتائج، چوری شدہ یا ہیرا پھیری شدہ مواد اور ڈیجیٹل تصویری ترمیم جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیے: بِھڑوں کے حملے سے بچنے کا آسان طریقہ، انہیں تھوڑا ’بھتہ‘ دیں!

رچرڈسن کے مطابق جب آپ ہزاروں تحقیقی مضامین کا ایک ڈیٹا بیس بناتے ہیں تو یہ جعلی نیٹ ورکس اور ان کے آپسی روابط کا نقشہ خود بخود سامنے آجاتا ہے۔

دھوکہ دہی کے نقصانات اور مثال

کووڈ 19 کے دوران جعلی تحقیق کا اثر نمایاں انداز میں سامنے آیا جب بعض مضامین میں ہائیڈروکسی کلوروکوئن کو کووڈ کا ممکنہ علاج قرار دیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تحقیقات ناقابل اعتبار ذرائع پر مبنی تھیں جن کا مقصد سائنسی کم اور ذاتی تشہیر زیادہ تھا۔ ماہرین نے اسے سیلف پروموشن جرنلز کا مسئلہ قرار دیا جہاں مضمون لکھنے والے ہی اس جریدے کے ایڈیٹر بھی ہوتے ہیں۔

نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے ہی ایک اور محقق، لوئس امرال، جو اس تحقیق کے سینیئر مصنف ہیں، اسے اپنے کیریئر کا سب سے تکلیف دہ منصوبہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر سائنس کو انسانیت کے فائدے کے لیے برقرار رکھنا ہے تو اسے بچانے کی جنگ لڑنی پڑے گی۔

سائنسی پبلشرز بھی اس خطرے سے باخبر ہیں۔ ایک بڑے سائنسی ادارے اسپرنگر نیچر نے صرف سال 2024 میں اپنی 2،923 اشاعتیں واپس لے لیں۔ مگر ان مضامین کی اشاعت سے پہلے ہی وہ تحقیق پبلک ہو چکی ہوتی ہے اور اس کے اثرات پھیل چکے ہوتے ہیں۔

مسئلے کی جڑ کہاں ہے؟

ماہرین کے مطابق اصل مسئلہ اس سوچ میں ہے جہاں سائنسی تحقیق کی قدر صرف شائع شدہ مضامین کی تعداد یا حوالہ جات (citations) کی بنیاد پر ناپی جاتی ہے۔ رچرڈسن کا کہنا ہے کہ جب فنڈنگ اور نوکریاں اشاعت پر منحصر ہوں، تو بہت سے سائنسدانوں کے پاس صرف 2 راستے بچتے ہیں جن میں یا تو دھوکہ دہی یا پھر سائنسی کیریئر کا خاتمہ شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: ناسا کا طلبہ کے لیے چاند و مریخ روور چیلنج کا اعلان

اسی لیے محققین اس نظام کی اصلاح چاہتے ہیں جہاں اشاعت کی تعداد کے بجائے تحقیق کے معیار اور ساکھ کو اصل بنیاد بنایا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جعلی تحقیق جعلی جعلی ریسرچ سائنسی ریسرچ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جعلی تحقیق جعلی جعلی ریسرچ جعلی تحقیق کے مطابق نیٹ ورکس رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

موت کی وادی میں پنپنے والا پودا انسانوں کی بقا میں اہم کردا ادا کر سکتا ہے، مگر کیسے؟

کیلیفورنیا کے گرم ترین صحرائی علاقے ڈیتھ ویلی میں ایک ایسا پودا پایا جاتا ہے جو فطرت کے تمام اصولوں کو چیلنج کرتے ہوئے وہاں بڑھتا ہے جہاں زیادہ تر جانداروں کی بقا ممکن نہیں۔

یہ پودا Tidestromia oblongifolia ہے جو سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے کیونکہ یہ انتہائی درجہ حرارت میں جینے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے جو مستقبل کی زرعی تحقیق میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتا ہے۔

مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا کہ یہ پودا اپنے اندرونی عمل کو مکمل طور پر دوبارہ ترتیب دیتا ہے تاکہ شدید گرمی سے بچا جا سکے۔

ڈیتھ ویلی کے انتہائی حالات کو تجربہ گاہ میں نقل کرتے ہوئے محققین نے مشاہدہ کیا کہ یہ پودا محض دس دنوں میں اپنی پودے کی مقدار تین گنا بڑھا لیتا ہے جبکہ وہ دوسرے پودے جو گرمی کے خلاف مزاحمت رکھتے ہیں اپنی نشوونما کو روک دیتے ہیں۔ اس تیز رفتار تطبیق کی وجہ اس کے میٹابولزم اور جینیاتی اظہار میں گہرے تبدیلیوں کا عمل ہے۔

اس پودے کی فزیالوجی کا گہرا مطالعہ کرنے پر پتا چلا کہ حرارت کے اثر سے اس کے خلیوں میں نمایاں تبدیلیاں آتی ہیں۔

مائٹوکونڈریا جو خلیے کی توانائی کی پیداوار کے ذمہ دار ہیں، کلوراپلاسٹس کے قریب منتقل ہو جاتے ہیں جہاں فوٹوسنتھسس ہوتا ہے۔

کلوراپلاسٹس ایک منفرد پیالہ نما شکل اختیار کر لیتے ہیں، جو شاید کاربن ڈائی آکسائیڈ کے قبضے میں مددگار ثابت ہو۔ اسی دوران ہزاروں جینز اپنے فعل کو پورے دن میں تبدیل کرتے ہیں، اہم ساختوں کا تحفظ کرتے ہیں اور توانائی کی پیداوار کو برقرار رکھتے ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج کی عالمی زرعی دنیا کے لیے اہمیت بے حد اہم ہیں کیونکہ دنیا بھر میں درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ، گندم اور مکئی جیسے فصلوں کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے۔

 T. oblongifolia کے اس موافقتی طریقہ کار کو سمجھنے سے زیادہ مضبوط فصلوں کی نسلوں کی ترقی ممکن ہو سکتی ہے جو بدلتے ہوئے ماحول میں خوراک کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔

یہ تحقیق پودوں کی حیاتیات کے ایک نئے راستے کا آغاز کرتی ہے جو روایتی ماڈلز کی بجائے انتہائی حالات میں جینے والی اقسام پر مرکوز ہے۔

صحرائی پودے جو لاکھوں سال کی ارتقاء کے نتیجے میں ڈھالے گئے ہیں، سائنس کو ایسے حل فراہم کر رہے ہیں جن کو ابھی تک مکمل طور پر سمجھا نہیں گیا، اور یہ ہمیں مستقبل کے ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے امید فراہم کر رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان برقرار، انڈیکس میں 500 پوائنٹس کا اضافہ
  • پاکستان کی میزبانی میں عالمی خلائی کانفرنس 2025 کا انعقاد
  • پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کاروبارکے آغاز پر مثبت رجحان
  • جیمس ڈیومے واٹسن کی علمی خدمات
  • نادرا کارڈ سینٹر نامی جعلی ویب سائٹ سے متعلق شکایت جمع
  • نارووال میں گرین ٹریکٹر تقسیم، سائنسی اصولوں کے بغیر ترقی ناممکن: احسن اقبال
  • تحقیق کے جدید تقاضوں کے عنوان سے ڈاکٹر رازق حسین میثم کی گفتگو
  • الٹرا پروسیسڈ غذاؤں کی کثرت، خواتین میں آنتوں کا کینسر بڑھنے کا انکشاف
  • الٹرا وائلٹ شعاعیں سوزش کو بڑھا کر جلد کے کینسر کا سبب بنتی ہیں: تحقیق
  • موت کی وادی میں پنپنے والا پودا انسانوں کی بقا میں اہم کردا ادا کر سکتا ہے، مگر کیسے؟