ہمیں علاقائی بھیڑیوں کے سامنے غیر مسلح نہیں ہونا چاہیئے، لبنانی مفتی
اشاعت کی تاریخ: 18th, August 2025 GMT
امریکی و صیہونی دباؤ اور لالچ کے زیر اثر صدر کیجانب سے ملکی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی قرارداد کے حق میں لبنانی ووٹ ڈالے جانے پر ملکی صدر کو پیغام ارسال کرتے ہوئے لبنانی مفتی نے اعلان کیا ہے کہ ہم نے اپنے ہاتھ میں ہتھیار اٹھا رکھے ہیں کیونکہ آپ لبنان بالخصوص جنوبی علاقے کی حمایت نہیں کرنا چاہتے.. درحالیکہ لبنان اور اسکے تمام دکھ درد کے ذمہ دار ہم ہیں!! اسلام ٹائمز۔ لبنان کے جعفری مفتی شیخ احمد قبلان نے صدر جوزف عون کو پیغام ارسال کرتے ہوئے ملک میں امریکہ و غاصب صیہونی رژیم کی فتنہ انگیزیوں پر سختی کے ساتھ متنبہ کیا ہے۔ اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ خطے کی حالیہ صورتحال کا دارومدار اُن ممالک پر منحصر ہو چکا ہے جو انسانوں، مذاہب، فرق اور حتی لبنان کی بھی کوئی پروا نہیں کرتے ہیں، اپنے پیغام میں شیخ احمد قبلان نے تاکید کی کہ بین الاقوامی و علاقائی سطح پر ایسے ایسے منصوبے بنائے جا چکے ہیں کہ جن کا ہدف لبنان کو تباہ و برباد کر دینا ہے۔ لبنانی مفتی نے بھوکے بین الاقوامی و علاقائی بھیڑیوں کے وجود پر سختی کے ساتھ خبردار کرتے ہوئے کہ جو اس ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کے درپے ہیں، کہا کہ سلامتی کے مسائل کو صدر کی ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں کوئی ایسا عقلمند انسان موجود نہیں جو ان جنگلی جانوروں کے سامنے اپنی طاقت سے دستبردار ہو جائے؛ ایسے جانور کہ جو ناجائز قبضے، جارحیت اور قتل عام سے کبھی سیر نہیں ہوتے!
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ فوج و دیگر قومی گروہوں کے ساتھ ہم آہنگ حزب اللہ لبنان کے ہتھیار؛ اس ملک کے وجود کے لئے ضروری ہیں، شیخ احمد قبلان نے تاکید کی کہ جناب صدر! ہمارے لئے جو چیز اہم ہے وہ قومی خدشات کو سمجھنا ہے، نہ کہ فرقہ وارانہ؛ نیز ملک کی حمایت کرنا ہے، اسے غیر مسلح کرنا نہیں؛ طاقت میں اضافہ کرنا ہے، گھٹنے ٹیکنا نہیں نیز ملک کو متحد کرنا ہے، اسے تقسیم کرنا نہیں! انہوں نے کہا کہ ظلم و پاگل پن سے بھری اس دنیا میں کوئی بھی عقلمند شخص "اسلحے" کے بدلے "سکیورٹی معاہدے" کو ہرگز قبول نہیں کرے گا؛ فلسطین، جنوبی شام اور دنیا بھر کے دیگر خطے آپ کی آنکھوں کے سامنے ہیں (اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ غاصب صہیونیوں نے ان کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا)۔ لبنانی مفتی نے لکھا کہ آپ جانتے ہیں کہ دنیا بھر اور ہمارے خطے میں سلامتی؛ صرف "ہتھیاروں" اور "قومی صلاحیتوں" کی بنیاد پر ہی حاصل کی جا سکتی ہے لہذا آزادی و اقتدار کی قیمت بہت زیادہ ہے!
حزب اللہ لبنان کی صلاحیتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ حالیہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم اور نیٹو کے ہتھیاروں کے مقابلے میں حزب اللہ لبنان کی عظیم مزاحمت نے یہ ثابت کر دکھایا کہ حزب اللہ کی اسٹریٹجک ڈیٹرنس پر مبنی عظیم طاقت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ جس کے مقابلے میں غاصب اسرائیلی رژیم نے الخیام جیسے ایک چھوٹے سے سرحدی قصبے پر قبضے کے لئے اپنی تمام طاقت صرف کر دی، لیکن آخر کار وہ کامیاب نہ ہو سکی۔ اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ سلامتی کونسل محض ایک آپریشن روم اور سپر پاورز کے مفادات کو محفوظ بنانے کا ہتھکنڈہ ہے، اپنے پیغام کے آخر میں شیخ احمد قبلان نے تاکید کی کہ ہم نے اپنے ہاتھ میں ہتھیار اٹھا رکھے ہیں کیونکہ آپ لبنان بالخصوص جنوبی علاقے کی حمایت نہیں کرنا چاہتے.
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: شیخ احمد قبلان نے لبنانی مفتی کرتے ہوئے حزب اللہ کے ساتھ ہوئے کہ
پڑھیں:
خشک سالی اور ڈیم: افغانستان میں پانی کا بحران علاقائی شکل اختیار کر گیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اگست 2025ء) جب سے طالبان نے دوبارہ اقتدار سنبھالا اور ملک پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے، تب سے انہوں نے افغانستان میں پانی کی خود مختاری کے لیے کوششیں تیز کر رکھی ہیں، جبکہ خشک علاقوں میں قیمتی وسائل کے استعمال کے لیے بنیادی ڈھانچے کے متعدد منصوبوں کا آغاز بھی کیا جا چکا ہے۔
ڈیموں اور نئی نہروں کی تعمیر نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تناؤ کو جنم دیا ہے، جبکہ طالبان کو پہلے ہی علاقائی سطح پر تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے کئی چیلنج درپیش ہے، کیونکہ 2021ء میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وہ عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہیں۔
اسی دوران یہ خطہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے مشترکہ اثرات کا سامنا بھی کر رہا ہے۔
(جاری ہے)
خطے کے ممالک کو پانی کی قلت کا سامنا ہے، کیونکہ درجہ حرارت میں اضافے اور بے وقت بارشوں کے عمل سے گلیشیئرز کے ساتھ ساتھ برف کے قدرتی ذخائر کو بھی خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
دریائے آمو سے متعلق مشکل مذاکرات’واٹر سٹریسڈ‘ وسطی ایشیا میں فصلوں کے لیے اہم دو بڑے دریاؤں میں سے ایک، آمو دریا کے پانی کے استعمال کے حوالے سے افغانستان کشیدہ مذاکرات میں ایک نئے کھلاڑی کے طور پر ابھر رہا ہے۔
اس دریا کے پانی کی تقسیم سوویت دور میں طے پانے والے نازک معاہدوں پر منحصر ہے۔وسطی ایشیائی ممالک نے طالبان کے قوش تپہ میگا کینال منصوبے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ طالبان کا یہ منصوبہ آمو دریا کے کل بہاؤ کے 21 فیصد تک پانی کو افغانستان کے خشک شمالی علاقوں (پانچ لاکھ ساٹھ ہزار ہیکٹر اراضی کی آبپاشی) کے لیے موڑ سکتا ہے اور بحیرہ ارال کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔
ازبکستان اور ترکمانستان پر اثراتاس منصوبے سے سب سے زیادہ ازبکستان اور ترکمانستان کے متاثر ہونے کا امکان ہے، جبکہ قازقستان نے بھی طالبان کے ساتھ گہرے سفارتی تعلقات کے باوجود تشویش کا اظہار کیا ہے۔ واٹر گورننس نامی ادارے کے ماہر محمد فیضی کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا، ''چاہے اب بات چیت کا لہجہ کتنا ہی دوستانہ کیوں نہ ہو، نہر کے فعال ہونے پر ازبکستان اور ترکمانستان کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
‘‘طالبان حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ اس منصوبے سے آمو دریا کے پانی کی سطح پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، جبکہ یہ ملک میں فوڈ سکیورٹی کو بہتر بنائے گا، جس کا انحصار ماحولیاتی خطرات سے دوچار زراعت پر ہے۔
پروجیکٹ مینیجر سید ذبیح اللہ میری نے فریاب صوبے میں نہر کے تعمیراتی کاموں کے دورے کے دوران کہا، ''گرم مہینوں میں، خاص طور پر جب آمو دریا میں سیلاب آتا ہے اور گلیشیئرز کا پگھلا ہوا پانی اس میں شامل ہوتا ہے، پانی کی فراوانی ہوتی ہے۔
‘‘ دریائے ہلمند اور ایران کے ساتھ معاہدہایران وہ واحد ملک ہے، جس کے ساتھ افغانستان کا ہلمند دریا کے حوالے سے 1973ء میں پانی کی تقسیم کا ایک رسمی معاہدہ طے پایا تھا۔ یہ دریا طالبان کے گڑھ ہلمند سے گزرتا ہے لیکن یہ معاہدہ کبھی بھی مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔
ہلمند کے وسائل پر دیرینہ تناؤ، خاص طور پر خشک سالی کے حالیہ ادوار میں مزید بڑھ چکا ہے۔
ایران، جو اپنے خشک جنوب مشرقی علاقوں میں دباؤ کا شکار ہے، نے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان اس کے حقوق کا احترام کرے۔ ایران کا الزام ہے کہ بالائی ڈیمز ہلمند کے بہاؤ کو سرحدی جھیل تک محدود کر رہے ہیں۔طالبان حکام کا اصرار ہے کہ ایران کو فراہم کرنے کے لیے مزید پانی ہی نہیں ہے اور ایسا ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
واٹر ریسورس مینجمنٹ سے وابستہ ماہر عاصم میئر کی ایک رپورٹ کے مطابق طویل عرصے سے ناقص واٹر مینجمنٹ کی وجہ سے افغانستان کو اس کا پورا حصہ نہیں مل سکا۔ ہریرود اور دریائے مورغاب کے پانی کا مسئلہایران اور افغانستان کے درمیان دوسرے مشترکہ دریائی طاس ہریرود، جو ترکمانستان میں بھی بہتا ہے اور اکثر دریائے مورغاب کے ساتھ جا ملتا ہے، پر بھی کوئی رسمی معاہدہ موجود نہیں ہے۔
فیضی کے مطابق اس طاس کے افغان حصوں پر بنیادی ڈھانچہ موجود ہے لیکن اس کا کبھی بھی مکمل استعمال نہیں کیا گیا لیکن افغانستان میں جنگ کے خاتمے سے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر سکیورٹی کے بھاری اخراجات ختم ہو گئے ہیں، جس سے ہریرود پر پشدان ڈیم جیسے منصوبوں کی ترقی کے لیے راہ ہموار ہوئی۔ اس ڈیم کا افتتاح اگست میں ہوا۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان پانی کے مسائلافغانستان اور پاکستان کے درمیان پانی کے وسائل کبھی بھی کشیدہ تعلقات کا مرکزی موضوع نہیں رہے۔
دریائے کابل، جو انڈس طاس کے معاون دریاؤں میں شمار ہوتا ہے اور سب سے بڑے شہر کابل کو پانی فراہم کرتا ہے، پاکستان کے ساتھ مشترک ہے۔تاہم دونوں ممالک کے درمیان کوئی رسمی تعاون کا طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ کابل میں پانی کے شدید بحران کے باعث طالبان حکام نے پرانے منصوبوں کو بحال اور نئے منصوبوں کا آغاز کیا ہے، جو پاکستان کے ساتھ نئے تناؤ کا باعث بن سکتے ہیں۔
فی الحال فنڈز اور تکنیکی صلاحیت کی کمی کی وجہ سے طالبان کے بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں کو مکمل ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
ادارت: مقبول ملک