حزب اللہ لبنان ملک کی واحد مدافع قوت ہے، عرب تجزیہ کار
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
عرب دنیا کے معروف تجزیہ کار نے لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ کو ملک کی واحد مدافع قوت قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ حزب اللہ نے ہی لبنان کو صیہونی قبضے سے آزاد کروایا تھا اور اب بھی عنقریب اسے تیسری فتح نصیب ہونے والی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ معروف عرب تجزیہ کار اور اخبار رای الیوم کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے لبنان کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھا: صیہونی وزیر جنگ یسرائیل کاتز نے جمعہ کی سہ پہر لبنان کے صدر جوزف عون کے نام ایک کھلا خط لکھا جس میں بیان شدہ مطالب صیہونی ٹی وی چینل 12 نے شائع کیے ہیں۔ صیہونی وزیر جنگ نے اس خط میں لکھا ہے کہ جنگ بندی کی کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں لبنان کے خلاف جنگ دوبارہ شروع کر دی جائے گی اور کسی قیمت پر بھی حالات 7 اکتوبر 2023ء سے پہلے والی صورتحال کی جانب پلٹنے نہیں دیے جائیں گے، لبنان کے صدر جوزف عون اور وزیراعظم نواف سلام جنگ بندی کی پابندی کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ یسرائیل کاتز کے اس خط میں نہ صرف غرور، تکبر اور گستاخی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے بلکہ تین اہم نکات بھی شامل ہیں جو درج ذیل ہیں:
1)۔ صیہونی وزیر جنگ نے درحقیقت خود کو لبنان کا موجودہ حکمران سمجھا ہے اور اس ملک کے صدر کو اپنا نوکر خیال کیا ہے۔ گویا کاتز مطلق العنان حکمران ہے جو حکم جاری کرتا ہے اور دوسرے بے چون و چرا اس حکم کی تعمیل کرنے کے پابند ہیں،
2)۔ غاصب صیہونی رژیم شدید تشویش کا شکار ہے اور اسٹریٹجک اضطراب میں مبتلا ہو چکی ہے کیونکہ لبنان کی اسلامی مزاحمت یعنی حزب اللہ نے اندرونی حالات پر قابو پانے کے بعد سیاسی اور فوجی سطح پر پوری طاقت سے فعالیت انجام دینے کی صلاحیت بحال کر لی ہے اور اب وہ صیہونی دشمن کے جارحانہ اقدامات کا مقابلہ کر کے جنوبی لبنان کے تمام مقبوضہ علاقوں کو صیہونی قبضے سے آزاد کروا سکتی ہے،
3)۔ تیسرا نکتہ لبنان میں اقتدار کے دو ستونوں یعنی جوزف عون اور نواف سلام پر دباو میں اضافے سے متعلق ہے۔ یہ دونوں افراد امریکہ کی حمایت اور دباو سے برسراقتدار آئے ہیں تاکہ خصوصی امریکی ایلچی تھامس براک کے پیش کردہ منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ اس منصوبے میں لبنان آرمی کو حزب اللہ لبنان کو ایک ٹائم ٹیبل کے تحت طاقت کے بل بوتے پر غیر مسلح کرنے کا مشن سونپا گیا ہے جو اسی سال کے اختتام تک مکمل ہونا چاہیے۔
اگرچہ لبنان کے صدر اور وزیراعظم نے صیہونی وزیر جنگ کے اس گستاخانہ خط کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا لیکن حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے اربعین کی مناسبت سے اپنی تقریر میں انتہائی شجاعانہ انداز میں صیہونی دشمن کو للکارا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر لبنان حکومت نے امریکی صیہونی منصوبے پر عملدرآمد پر اصرار کیا تو "کربلائی معرکہ" شروع ہو جائے گا۔ شیخ نعیم قاسم نے درست اور بجا طور پر لبنانی حکمرانوں پر امریکہ اور صیہونی رژیم کے سامنے تسلیم ہو جانے کا الزام عائد کیا ہے۔ کیونکہ اگر اس بات میں حقیقت نہ ہوتی تو جوزف عون اور نواف سلام صیہونی وزیر جنگ کے گستاخانہ خط کو برداشت نہ کرتے اور اس کا سخت جواب دیتے۔ لبنان کے صدر اور وزیراعظم جنہوں نے اب تک صیہونی وزیر جنگ کے گستاخانہ خط پر چپ سادھ رکھی ہے، شیخ نعیم قاسم کی تقریر کے بعد فوراً ہی اس پر ردعمل ظاہر کیا اور ان کی تقریر کو لبنان میں خانہ جنگی کی ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکی قرار دی۔ اس شور شرابے اور تفرقہ انگیز ماحول میں لبنان پارلیمنٹ کے رکن غیاث یزبک نے دعوی کیا کہ شیخ نعیم قاسم صرف زبانی کلامی اسرائیل سے جنگ کر رہے ہیں جبکہ عملی طور پر لبنان کو تباہ کر رہے ہیں۔
میں لبنان پارلیمنٹ کے اس رکن کو یاددہانی کروانا چاہتا ہوں کہ حزب اللہ لبنان نے صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ اپنے میزائلوں، گولیوں اور مجاہدین کے خون کے ذریعے صیہونی رژیم سے جنگ کی ہے اور اسے اب تک دو بار شکست دے چکی ہے۔ حزب اللہ نے 2000ء میں غاصب صیہونی فوج کو ذلت آمیز شکست دے کر جنوبی لبنان سے نکال باہر کیا تھا اور لبنان کی پوری سرزمین اس کے نجس وجود سے پاک کر دی تھی۔ اسی طرح 2006ء کی 33 روزہ جنگ میں بھی حزب اللہ لبنان نے ہی صیہونی رژیم کو شکست کا مزہ چکھایا تھا جبکہ لبنان آرمی صرف تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی تھی اور اس نے دشمن کی طرف حتی ایک گولی بھی نہیں چلائی تھی۔ جس نے لبنان کو تباہ کیا ہے وہ حزب اللہ لبنان نہیں بلکہ اسرائیلی جنگی طیارے تھے جنہوں نے امریکہ کی حمایت سے لبنان پر بمباری کی تھی۔ حزب اللہ لبنان نہ صرف کمزور نہیں ہوئی بلکہ تازہ ترین جنگ کے بعد زیادہ طاقتور ہو کر سامنے آئی ہے۔ حزب اللہ لبنان نے اپنی گذشتہ جنگوں سے سبق سیکھا ہے اور عنقریب اسے تیسری فتح نصیب ہونے والی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صیہونی وزیر جنگ حزب اللہ لبنان لبنان کے صدر صیہونی رژیم ہے اور اس لبنان کو جنگ کے
پڑھیں:
ابھی تک واضح نہیں کہ کچھ افراد صیہونی بحری فوج کی حراست میں ہیں یا نہیں ؟
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 03 اکتوبر 2025ء ) امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کی ہدایت پر نائب امیر لیاقت بلوچ نے سیکریٹری اُمورِ خارجہ، ایڈیشنل سیکرٹری اُمور خارجہ اور ڈائریکٹر جنرل مڈل ایسٹ اُمور سے رابطہ کیا اور گلوبل صمود فلوٹیلا کی صورتِ حال پر بات کی۔ لیاقت بلوچ نے اُمور خارجہ کے عہدیداران سے کہا کہ پاکستانی عوام صمود فلوٹیلا کی کشتیوں پر سوار دُنیا بھر کے انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے رضاکاران کی اسرائیلی درندوں کے عالمی سمندر میں ایکشن، گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ اُمور خارجہ کے عہدیداران نے کہا کہ وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار پارلیمنٹ کو بھی پوری صورتِ حال پر بریفنگ دے رہے ہیں اور حکومتِ پاکستان انٹرنیشنل ذرائع سے رابطے میں ہے۔(جاری ہے)
سینٹر مشتاق احمد، آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے رکن سیّد مظہر شاہ اور سیّد عزیز نظامی سے متعلق معلومات لی جارہی ہیں۔ ابتدائی معلومات کے مطابق 21 کشتیوں میں سوار کم و بیش 200 افراد کو حصار میں لیا گیا ہے، تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اِن میں سے کچھ افراد صیہونی بحری فوج کی حراست میں بھی ہیں؟ گرفتاریوں کی جو تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں وہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) سے جنریٹ کی ہوئی ہیں۔
پاکستان کے اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں اس لیے سفارتی رابطہ ممکن نہیں، تاہم توقع کی جارہی ہے کہ صمود فلوٹیلا میں موجود کشتیوں کا رُخ کسی قریبی بندرگاہ کی طرف موڑکر دھکیل دیا جائے گا۔ حکومتِ پاکستان کشتیوں میں موجود پاکستانی شہریوں کی حفاظت کے حوالے سے تمام بین الاقوامی ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے پوری تند ہی کیساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کررہی ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی خصوصی ہدایت اورنائب وزیراعظم / وزیرخارجہ اسحاق ڈار کی نگرانی میں تمام پاکستانی شہریوں کی بحفاظت وطن واپسی کے حوالے سے کوششیں جاری ہیں۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ ہم گلوبل صمود فلوٹیلا کے قافلے میں شامل تمام کارکنان کی بحفاظت اپنے اپنے ملکوں میں واپسی کے لیے دُعاگو ہیں، خصوصاً پاکستان سے سینیٹر مشتاق احمد، سیّد مظہر شاہ اور سیّد عزیز نظامی کی رہائی اور بحفاظت واپسی کے منتظر ہیں۔ فلوٹیلا کے تمام لوگ انسانی بنیادوں پر غزہ کے قحط زدہ مظلوم فلسطینیوں کی مدد کے لیے گئے ہیں، ہم اُن کے اس جرات مندانہ اقدام کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔