پختونخوا اور گلگت بلتستان میں حالیہ سیلاب نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ پورا ملک لرز کر رہ گیا ہے۔ 500 سے زائد افراد جانبحق ہو چکے ہیں، سینکڑوں زخمی ہیں، اور اربوں روپے کی املاک، سڑکیں، مویشی، فصلیں اور پل پانی میں بہہ چکے ہیں۔
سینکڑوں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں، اور ریاستی ادارے لوگوں کو بچانے اور نقصان کا تخمینہ لگا رہے ہیں۔
لیکن یہ سب صرف قدرت کی ’ناراضی‘ ہی نہیں، یہ ہماری کئی دہائیوں کی لاپرواہی، ماحولیاتی جرم اور درختوں کے قتلِ عام کا نتیجہ ہے۔
درختوں کی کٹائی ایک منظم سازش:درختوں کی کٹائی کا آغاز آج یا گزشتہ چند سالوں میں نہیں ہوا۔ یہ سلسلہ جنرل ضیا الحق کے دورِ حکومت میں منظم طریقے سے شروع ہوا، جب ان کے قریبی لوگوں، وزیروں اور بعض بااثر شخصیات نے کوہستان، ایبٹ آباد اور مانسہرہ جیسے جنگلاتی علاقوں میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی شروع کی۔
ٹمبر مافیا آج بھی سرگرم ہے، اور جنگلات کو نقصان پہنچا کر اربوں کماتا ہے، جبکہ عوام ہر سال سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور موسمی شدت کا سامنا کرتے ہیں۔
اور مورد الزام کلاوڈ برسٹ اور کلایمٹ چنج کو دیا جا رہا ہے، تا کہ اصل وجہ سے توجہ ہٹائی جائے۔ وزرا اور مشیر رنگ برنگی ٹائیاں پہن کر موسمیاتی تبدیلی کو defend کر تے نظر آ رہے ہیں، اور اصل مسئلہ پر کوئی بات نہیں کر رہا۔
حکومتِ خیبر پختونخوا کی تسلیم شدہ رپورٹ :سپریم کورٹ میں اعتراف: جنگلات کی کٹائی کے جرم پر پردہ ڈالنا اب ممکن نہیں رہا، کیونکہ خود خیبر پختونخوا حکومت نے گزشتہ سال 2024 میں سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کروائی جس میں بتایا گیا کہ صرف ایک سال میں 60 لاکھ مکعب فٹ لکڑی قانونی طور پر کے پی مین کاٹی گئی، جبکہ 1 لاکھ مکعب فٹ لکڑی غیر قانونی طور پر کاٹ کر ضبط کی گئی۔
یہ اعداد و شمار سرکاری سطح پر درختوں کی بے تحاشا کٹائی کا کھلا ثبوت ہیں۔ اگر یہ ’قانونی‘ مقدار ہے، تو تصور کریں کہ کتنے درخت غیر قانونی طور پر کاٹے گئے ہوں گے، جن کا کوئی حساب ہی نہیں۔ حیرت انگیز طور پر کسی کو سزا نہیں ہوئی، کیو نکہ سب ملے ہوتے ہیں۔
دریاؤں کے کناروں پر تجاوزات اور آفات کو دعوت:جہاں درختوں کو کاٹ کر پہاڑوں کو ننگا کیا گیا، وہیں دریا کے قدرتی راستوں کو بھی بند کر دیا گیا۔ دریاؤں، نالوں اور برساتی گزر گاہوں پر گھروں، ہوٹلوں اور سڑکوں کی تعمیر کی گئی، جس نے پانی کے قدرتی بہاؤ کو روکا اور جب بارش آئی تو پانی نے اپنے راستے خود بنائے جو تباہی کے راستے تھے۔
نقصان — جو روکا جا سکتا تھا500 سے زائد افراد کی ہلاکت، سینکڑوں زخمی، اربوں کی املاک اور فصلیں تباہ سڑکیں، پل، اور بنیادی ڈھانچہ درہم برہم، ہزاروں خاندان بے گھر۔ اور سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ روکا جا سکتا تھا، اگر ہم نے درختوں کو بچایا ہوتا، دریا کو اس کا راستہ دیا ہوتا، اور مافیا کے آگے بند باندھا ہوتا۔
سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ ذمہ داری کس کی ہے؟درختوں کی بے دریغ کٹائی کی اجازت کس نے دی؟
ٹمبر مافیا کو سیاسی سرپرستی کس نے دی؟
دریا کے راستوں پر قبضہ کرنے والوں کو کس نے روکا؟
ماحولیاتی قانون نافذ کیوں نہیں ہوا؟
مگر ان کو کیا، عوام تو مر رہے ہیں، اور مرتے رہیں گے، اور مجرم آزاد گھومتے رہےگے۔ امدادیں آئی گی اور ھڑپ کر دی جائیں گی۔ اور پھر اگلے سال کا انتظار ہو گا اور ایسے ہے چلتا رہے گا۔
آخر کیا کیا جائے؟ 1.ریلیف کے ساتھ سخت احتساب: صرف امداد نہیں، بلکہ ذمہ داروں کا عوامی احتساب ہو۔ 2. درختوں کی کٹائی پر مکمل پابندی: قانوناً اور عملی طور پر۔ 3. ٹمبر مافیا کے خلاف بھرپور کارروائی: چاہے وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں۔ 4. دریاؤں کے کناروں سے تجاوزات کا مکمل خاتمہ 5. شجر کاری، قدرتی نظام کی بحالی، اور عوامی شعور کی بیداری
اب بھی وقت ہے، یہ سیلاب صرف بارش کی شدت نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی نالائقی اور خود غرضی کا نتیجہ ہے۔ ہم نے درخت کاٹے، پہاڑ ننگے کیے، دریا بند کیے — اور اب لاشیں اٹھا رہے ہیں۔
اگر اب بھی خاموش رہے تو اگلی بار نقصان شاید ناقابلِ تصور ہوگا۔
درخت بچائیں۔ دریا کے راستوں کو آزاد کریں۔ اور انسانی زندگیوں اور املاک کا بچائیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: درختوں کی کی کٹائی رہے ہیں
پڑھیں:
مصنوعی ذہانت
مصنوعی ذہانت کے استعمال سے جہاں عالمی معاشروں میں حیران کن تبدیلیاں آرہی ہیں وہاں ذرایع ابلاغ اور خبریں بھی ایک نئے اور پیچیدہ عہد میں داخل ہو رہی ہیں۔ ایک ایسا عہد جس میں ’’خبر‘‘ محض اطلاع نہیں بلکہ ایک ڈیجیٹل تشکیل بن چکی ہے۔ آج کسی خبر کی سچائی پر یقین کرنے سے پہلے قاری کو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کیا یہ خبر انسان نے بنائی ہے یا مشین نے؟
مصنوعی ذہانت یعنی اے ائی (Artificial Intelligence) لمحوں میں تصویر، آواز یا وڈیو کو اس طرح بدل دیتی ہے کہ سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق مٹ جاتا ہے۔ یہی وہ خطرہ ہے جو دنیا بھر کے میڈیا کو درپیش ہے اور جس سے پاکستان بھی اب لاتعلق نہیں رہ سکتا۔
ڈیجیٹل فریب کی اس نئی دنیا نے کچھ ہی عرصے میں ’’جنریٹو اے آئی‘‘ (Generative AI) نے خبر کے معیار، رفتار اور اعتبار کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ChatGPT، Midjourney، Runway، Sora جیسے ٹولز نہ صرف مواد تخلیق کرتے ہیں بلکہ مکمل حقیقت کو بھی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔
اس ٹیکنالوجی کی ایک خطرناک صورت ڈیپ فیک (Deepfake) ہے۔ ڈیپ فیک کے استعمال سے ایسی جعلی وڈیوز بنائی جاتی ہیں جو دیکھنے میں بالکل اصلی لگتی ہیں۔
مثال کے طور پر 2024کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل ایک ڈیپ فیک آڈیو سامنے آئی جس میں صدر جوبائیڈن کی آواز میں ووٹروں کو پیغام دیا گیا۔ بعدازاں انکشاف ہوا کہ یہ مصنوعی آواز تھی۔
بھارت میں بھی 2023 کے ریاستی انتخابات کے دوران مشہور شخصیات کی جعلی وڈیوز وائرل ہوئیں جنھوں نے انتخابی بیانیے کو متاثر کیا۔ اسی طرح پاکستان کے سوشل میڈیا پر مختلف سیاست دانوں اور بااثر افراد کی ایسی فیک وڈیوز گردش کر رہی ہیں جن کو دیکھ کر انسان صرف حیران اور پریشان ہی نہیں ہوتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ عمل جاری رہا تو آگے کیا ہوگا۔
حالیہ برسوں میں متعدد وڈیوز اور بیانات توڑمروڑ کر پھیلائے گئے۔ کئی مرتبہ تو پرانی وڈیوز کو نئے عنوانات کے ساتھ وائرل کیا گیا، جس سے غلط فہمیاں اور انتشار پیدا ہوا۔
ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر نہ تو فیکٹ چیکنگ یونٹس ہیں اور نہ ہی ایتھکس کی تربیت ہے۔ نتیجتاً افواہیں خبروں سے زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں لیکن اگر دوسری طرف دیکھیں تو یہ چیلنج دراصل ایک موقع بھی ہے۔ اگر پاکستان کا میڈیا اس ٹیکنالوجی کو مثبت انداز میں اپنائے تو خبر کے حصول کی رفتار، تحقیق اور تجزیے کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔
دنیا کے بڑے خبررساں ادارے اے آئی کو مددگار ٹول کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ نیوز ٹریسر ایک ایسا خودکار ٹول ہے جو سوشل میڈیا پر خبروں کی اصلیت اور جعلی پن کی جانچ کرتا ہے۔
ایک اور ٹریسر ایسا بھی ہے جو تصاویر وڈیو اور اعداد وشمار کی اے آئی الگورتھم استعمال کر کے تصدیق کرتا ہے۔ پاکستانی ابلاغ کے ادارے بھی اگر چاہیں تو انھی ماڈلز کو اپنا سکتے ہیں۔
اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کس طرح فیک اور اصلی خبر میں تمیز کر سکتا ہے یا اصلی خبر کی تیزرفتار جانچ پڑتال کیسے ممکن ہے؟ اس کے لیے درج ذیل اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
ہر نیوز روم میں فیکٹ چیکنگ یونٹ قائم کیا جائے۔صحافیوں کے لیے اے آئی اور ڈیجیٹل ایتھکس کی تربیت کو لازمی قرار دیا جائے۔اگر کوئی تصویر یا وڈیو اے آئی سے تیار کی گئی ہو تو اس کی وضاحت لازمی ہو۔
یونیورسٹیوں، میڈیا ریگولیٹرز اور نیوز اداروں کو مل کر ایک قومی پالیسی وضع کرنی چاہیے تاکہ ٹیکنالوجی کا استعمال ذمے داری سے ہو۔پاکستان کی بعض یونیورسٹیوں نے ’’ڈیجیٹل جرنلزم‘‘ میں مصنوعی ذہانت کے ماڈیول شامل کیے ہیں لیکن یہ ابھی ابتدائی کوششیں ہیں۔
اگر ہم نے ابھی سے تیاری نہ کی تو مستقبل میں ’’خبر‘‘ شاید انسان نہیں بلکہ الگورتھم لکھے گا۔ پھر سوال یہ نہیں رہے گا کہ خبر کیا ہے؟ بلکہ یہ ہوگا کہ کس نے بنائی؟
مصنوعی ذہانت کے اس دور میں اصل امتحان مشین کا نہیں، انسان کے شعور کا ہے۔ خبر کی سچائی، اعتماد اور اخلاقیات کو زندہ رکھنا اب ہماری ذمے داری ہے ۔ مصنوعی ذہانت نے پاکستان سمیت دنیا کو ایک نئے فکری چوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی اگر درست سمت میں استعمال ہو تو میڈیا کو زیادہ بااعتماد، تیز اور معیاری بنا سکتی ہے لیکن اگر غفلت برتی تو سچ اور فریب کے درمیان فرق مٹ سکتا ہے ۔