WE News:
2025-09-17@23:28:11 GMT

اس تباہی کا کون ذمہ دار ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 19th, August 2025 GMT

اس تباہی کا کون ذمہ دار ہے؟

پختونخوا اور گلگت بلتستان میں حالیہ سیلاب نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ پورا ملک لرز کر رہ گیا ہے۔ 500 سے زائد افراد جانبحق ہو چکے ہیں، سینکڑوں زخمی ہیں، اور اربوں روپے کی املاک، سڑکیں، مویشی، فصلیں اور پل پانی میں بہہ چکے ہیں۔

سینکڑوں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں، اور ریاستی ادارے لوگوں کو بچانے اور نقصان کا تخمینہ لگا رہے ہیں۔

لیکن یہ سب صرف قدرت کی ’ناراضی‘ ہی نہیں، یہ ہماری کئی دہائیوں کی لاپرواہی، ماحولیاتی جرم اور درختوں کے قتلِ عام کا نتیجہ ہے۔

درختوں کی کٹائی  ایک منظم سازش:

درختوں کی کٹائی کا آغاز آج یا گزشتہ چند سالوں میں نہیں ہوا۔ یہ سلسلہ جنرل ضیا الحق کے دورِ حکومت میں منظم طریقے سے شروع ہوا، جب ان کے قریبی لوگوں، وزیروں اور بعض بااثر شخصیات نے کوہستان، ایبٹ آباد اور مانسہرہ جیسے جنگلاتی علاقوں میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی شروع کی۔

ٹمبر مافیا آج بھی سرگرم ہے، اور جنگلات کو نقصان پہنچا کر اربوں کماتا ہے، جبکہ عوام ہر سال سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور موسمی شدت کا سامنا کرتے ہیں۔

اور مورد الزام کلاوڈ برسٹ اور کلایمٹ چنج کو دیا جا رہا ہے، تا کہ اصل وجہ سے توجہ ہٹائی جائے۔ وزرا اور مشیر رنگ برنگی ٹائیاں پہن کر موسمیاتی تبدیلی کو defend کر تے نظر آ رہے ہیں، اور اصل مسئلہ پر کوئی بات نہیں کر رہا۔

حکومتِ خیبر پختونخوا کی تسلیم شدہ رپورٹ :

سپریم کورٹ میں اعتراف: جنگلات کی کٹائی کے جرم پر پردہ ڈالنا اب ممکن نہیں رہا، کیونکہ خود خیبر پختونخوا حکومت نے گزشتہ سال 2024 میں سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کروائی جس میں بتایا گیا کہ صرف ایک سال میں 60 لاکھ مکعب فٹ لکڑی قانونی طور پر کے پی مین کاٹی گئی، جبکہ 1 لاکھ مکعب فٹ لکڑی غیر قانونی طور پر کاٹ کر ضبط کی گئی۔

یہ اعداد و شمار سرکاری سطح پر درختوں کی بے تحاشا کٹائی کا کھلا ثبوت ہیں۔ اگر یہ ’قانونی‘ مقدار ہے، تو تصور کریں کہ کتنے درخت غیر قانونی طور پر کاٹے گئے ہوں گے، جن کا کوئی حساب ہی نہیں۔ حیرت انگیز طور پر کسی کو سزا نہیں ہوئی، کیو نکہ سب ملے ہوتے ہیں۔

دریاؤں کے کناروں پر تجاوزات اور آفات کو دعوت:

جہاں درختوں کو کاٹ کر پہاڑوں کو ننگا کیا گیا، وہیں دریا کے قدرتی راستوں کو بھی بند کر دیا گیا۔ دریاؤں، نالوں اور برساتی گزر گاہوں پر گھروں، ہوٹلوں اور سڑکوں کی تعمیر کی گئی، جس نے پانی کے قدرتی بہاؤ کو روکا اور جب بارش آئی تو پانی نے اپنے راستے خود بنائے جو تباہی کے راستے تھے۔

نقصان — جو روکا جا سکتا تھا

500 سے زائد افراد کی ہلاکت، سینکڑوں زخمی، اربوں کی املاک اور فصلیں تباہ سڑکیں، پل، اور بنیادی ڈھانچہ درہم برہم، ہزاروں خاندان بے گھر۔ اور سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ روکا جا سکتا تھا، اگر ہم نے درختوں کو بچایا ہوتا، دریا کو اس کا راستہ دیا ہوتا، اور مافیا کے آگے بند باندھا ہوتا۔

سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ ذمہ داری کس کی ہے؟

درختوں کی بے دریغ کٹائی کی اجازت کس نے دی؟

ٹمبر مافیا کو سیاسی سرپرستی کس نے دی؟

دریا کے راستوں پر قبضہ کرنے والوں کو کس نے روکا؟

ماحولیاتی قانون نافذ کیوں نہیں ہوا؟

مگر ان کو کیا، عوام تو مر رہے ہیں، اور مرتے رہیں گے، اور مجرم آزاد گھومتے رہےگے۔ امدادیں آئی گی اور ھڑپ کر دی جائیں گی۔ اور پھر اگلے سال کا انتظار ہو گا اور ایسے ہے چلتا رہے گا۔

آخر کیا کیا جائے؟ 1.

ریلیف کے ساتھ سخت احتساب: صرف امداد نہیں، بلکہ ذمہ داروں کا عوامی احتساب ہو۔ 2. درختوں کی کٹائی پر مکمل پابندی: قانوناً اور عملی طور پر۔ 3. ٹمبر مافیا کے خلاف بھرپور کارروائی: چاہے وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں۔ 4. دریاؤں کے کناروں سے تجاوزات کا مکمل خاتمہ 5. شجر کاری، قدرتی نظام کی بحالی، اور عوامی شعور کی بیداری

اب بھی وقت ہے، یہ سیلاب صرف بارش کی شدت نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی نالائقی اور خود غرضی کا نتیجہ ہے۔ ہم نے درخت کاٹے، پہاڑ ننگے کیے، دریا بند کیے — اور اب لاشیں اٹھا رہے ہیں۔

اگر اب بھی خاموش رہے تو اگلی بار نقصان شاید ناقابلِ تصور ہوگا۔

درخت بچائیں۔ دریا  کے راستوں کو آزاد کریں۔ اور انسانی زندگیوں اور املاک کا بچائیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: درختوں کی کی کٹائی رہے ہیں

پڑھیں:

پانچ دریاؤں کی سرزمین ’’پنج آب‘‘ پانی کی نظر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا کا وہ خوبصورت قطعہ جس کا نام ہی پانی پر رکھا گیا وہ آج اپنے اسی حسن پانی کی نظر پانی پانی ہو گیا۔ ’’پنج آب‘‘ یعنی پانچ دریاؤں کی آبادی، جہاں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں وہیں اللہ ربّ العزت نے ہمارے اس خطہ ٔ ارض کو پانچ دریاؤں سے نوازا، جس کی مثال دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتی۔ اور انہی دریاؤں کی بدولت سر زمین پنجاب سونا اُگلنے والی زمین کے نام سے مشہور ہوئی۔ انہی دریاؤں کی بدولت اس خطے نے دنیا بھر کو بہترین چاول، گندم، گنا، مکئی، باجرہ، سرسوں جیسے اجناس دیے۔ دنیا کی بہترین کاٹن یعنی کپاس جیسی فصل دی۔ آم، کینو، امرود جیسے لذت سے بھرپور پھل دیے۔ آج یہی پانی اس قطعہ زمین پر تباہی کر رہا ہے۔ آج یہ پانی اپنی اس دھرتی سے ناراض کیوں ہے؟ اتنا بپھرا ہوا کیوں ہے؟ اپنی سونی دھرتی کو یہ پانی خود ہی برباد کرنے پر کیوں مجبور ہوا؟ جب اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو ہم نے اپنی نا انصافیوں کی بھینٹ چڑھایا، اپنی نسلی دشمنیوں کا بدلہ لینے کے لیے استعمال کیا، جب ان کی قدرتی گزرگاہوں پر جائز و ناجائز قبضے شروع کر دیے، جب قدرت کی اس عظیم نعمت کی قدرتی تقسیم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ تو یہ پانی ناراض ہو گئے اور تباہی و بربادی کرنے لگے۔ آج بھی اگر ان کی اہمیت کو قبول کر لیا جائے تو یہ اک بار پھر سونا اُگلنے لگیں گے۔

پنجاب کا حسن، پنجاب کی شان، پنجاب کی آن پنج آب یعنی پانچ دریاؤں کا آپ سے تعارف کرواتے ہیں، گزشتہ کچھ عرصہ سے ہر پاکستانی اپنے نام نہاد حکمرانوں کے کرتوتوں سے یہ سوچنے پر مجبور نظر آتا ہے کہ جو مطالعہ پاکستان ہمیں نصابی کتب میں پڑھایا جاتا ہے وہ بظاہر کچھ اور ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ پنجاب کے ان دریاؤں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے نصاب میں پنجاب کا پانچواں دریا دریائے سندھ کو پڑھایا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ: پنجاب کو جس وجہ سے پانچ دریاؤں کی سرزمین کہا جاتا ہے ان پانچ دریاؤں میں چناب، ستلج، جہلم اور روای کے ساتھ ’’دریا سندھ‘‘ شامل نہیں ہے۔ بلکہ پانچواں دریا ’’دریائے بیاس‘‘ ہے۔ یہ پانچ دریا (چناب، جہلم، ستلج، بیاس، راوی) پاکستان اور ہندوستان کے مشترکہ پنجاب کے اندر ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ جیسے دریائے راوی ’’احمد پور سیال‘‘ کے قریب دریائے چناب میں شامل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح دریائے جہلم بھی ’’تریمو‘‘ (جھنگ) کے مقام پر دریائے چناب میں شامل ہوجاتا ہے۔

دریائے چناب اور دریائے جہلم پنجاب کے وہ دو دریا ہیں جو ہندوستانی پنجاب میں داخل نہیں ہوتے۔ جبکہ دریائے راوی اور دریائے ستلج ہندوستانی پنجاب سے پاکستانی پنجاب میں داخل ہوتے ہیں۔ دریائے بیاس پاکستان میں انفرادی طور پر داخل نہیں ہوتا۔ ہندوستانی پنجاب میں ہی دریائے بیاس، دریائے ستلج میں شامل ہوجاتا ہے، اور یہ دریائے ستلج پاکستان میں آتا ہے۔ ستلج اور بیاس کے ملنے کے مقام پر انڈیا نے 1984 میں ایک بڑی سی نہر نکال کر راجستھان کو سیراب کیا تھا (اندرا گاندھی کینال) تو اب ہمارے پاس دو دریا بچتے ہیں، یعنی دریائے چناب (جس میں راوی اور جہلم کا پانی شامل ہے) اور دریائے ستلج (جس میں دریائے بیاس کا پانی شامل ہے)۔ یہ دونوں دریا ’’پنجند‘‘ کے مقام پر ملتے ہیں، جو ’’اوچ شریف‘‘ کے پاس ہے۔ یہاں پر یہ دونوں دریا (اور پانچ دریاؤں کا پانی) مل کر دریائے ’’پنجند‘‘ بناتے ہیں۔ یہ دریا بھی 71 کلومیٹر آگے جاکر پنجاب کے ہی شہر ’’مٹھن کوٹ‘‘ کے پاس دریائے سندھ میں اپنا پانی (یعنی پنجاب کے پانچ دریاؤں کا پانی) شامل کردیتا ہے۔

باقی ان پانچوں دریاؤں میں سے ستلج اور روای سال ہا سال زیادہ تر خشک ہی رہتے ہیں زیادہ عرصے خشک رہنے میں پاک بھارت کی ازلی دشمنی کا ہاتھ ہے، مگر اس بار ان دریاؤں نے اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا دریائے چناب کے ساتھ مل کر خوب بدلہ لیا ہے۔ اس وقت دریائے چناب، راوی اور ستلج کے آس پاس کا ستر فی صد سے زائد علاقہ صدی کے بد ترین سیلاب کی نظر ہے۔ اللہ ربّ العزت سیلاب سے متاثرہ ان پریشان حال لوگوں کی مدد کرے، اور ہم میں سے ہر اک کو ان آفات سے محفوظ رکھے پنجاب کے دریاؤں کا یہ بپھرا ہوا پانی تباہ کاریوں کے ساتھ ساتھ سبق آموز نصیحت بھی کر گیا کہ نا حق قبضہ پوری قوت اور حق پر ہوتے ہوئے واپس لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پانچ دریاؤں کی سرزمین ’’پنج آب‘‘ پانی کی نظر
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  • سیلاب
  • حب کینال کی تباہی کے بعد کراچی پانی کے شدید بحران کا شکار ہے، حلیم عادل شیخ
  • چترال میں شدید بارشیں، سیلاب نے تباہی مچادی
  • قائمہ کمیٹی کا جنگلات کی کٹائی کا جائزہ،سیٹلائٹ نگرانی کی سفارش
  • ٹین بلین ٹری سونامی کی دعویدار خیبرپختونخوا حکومت ٹمبر مافیا کو روکنے میں ناکام
  • پنجاب بھر میں دریا معمول پر آنے لگے
  • قائمہ کمیٹی : گلگت بلستان کے وزیر کا جنگلات کی کٹائی میں ملوث ہونے کا انکشاف
  • کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی