Express News:
2025-11-03@16:48:40 GMT

انسان حسد کیوں کرتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 24th, August 2025 GMT

 انسانی زندگی سے جذبات کو نکال دیا جائے تو پیچھے ایک مشینی زندگی رہ جاتی ہے جسے شاید زندگی کہنا بھی بجا نہ ہوگا۔

محبت، نفرت، پیار، انس ،حسد اوررقابت یہ سب انسانی جذبات اور احساسات ہیں۔ ہر انسان اپنی زندگی کے کسی نے کسی مرحلے پر ان جذبات سے گزرتا ہے۔ بعض افراد ان جذبات کو لمحاتی طور پر تجربہ کرتے ہیں جو کے فطری با ت ہے لیکن کچھ لوگوں میں کوئی جذبہ ٹھہر جاتا ہے۔اور یہ ٹھہراؤ شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔

اگر اس جذبے میں خیر کا عنصر ہوتو یہ یقیناً فلاح کا باعث بنتا ہے لیکن اگر اس میں شر ہو تو یہ دوسروں کے ساتھ ساتھ انسان کی اپنی ذات کے لئے بھی نقصان کا باعث بنتا ہے۔ حسد ایک ایسا ہی جذبہ ہے جو اپنے اندر بے پناہ منفیت بھرے ہوئے ہے۔کوئی بھی شخص جو حسد کا شکار ہوتا ہے وہ ایک ایسی آگ میں جلتا ہے جو اس نے خود لگائی ہوتی ہے۔

جب ہم حسد کے بارے میں سوچتے ہیں، تو اس کے ساتھ ہی محبت اور رشتوں کا خیال آتا ہے۔ لیکن یہ محبت اور رشتوں کے منافی جذبہ ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔ اس کے ہماری دماغی صحت پر بھی طاقتور اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس سے بے چینی، عدم تحفظ اور عدم اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ ان احساسات کو بہتر طریقے سے منظم کرنے کے لیے،ان جذبات کے پیچھے گہرے معنی کو جاننا ضروری ہے۔حسد کے اسباب اور اثرات کا ذہنی صحت کی اہمیت کے لئے جائزہ لینا ضروری ہے۔اس کے بعد ہی حسد سے نمٹنے کے طریقوں سے آشنا ہونا ممکن ہے ۔

حسد کیا ہے؟

حسد ایک پیچیدہ جذبہ ہے جس کے بارے میں ہم اکثر محبت اور رشتوں کے حوالے سے سوچتے ہیں، لیکن یہ دوسروں سے اپنا موازنہ کرنے کی صورت میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ اس میں نفرت، عدم تحفظ، ناراضگی اور شک کے جذبات شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک فطری جذبہ ہے۔ حسد ذہنی صحت پر زبردست اثر ڈال سکتا ہے۔ حسد کے جذبات اکثر اضطراب، احساسِ کمتری اور کم ہمتی کا سبب بن سکتے ہیں۔ حسد کے جذبات کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے کے لئے اس کے اسباب کو جانناضروری ہے۔

حسد کے اسباب

مختلف عوامل، جیسے بچپن کے تجربات، والدین کے تعلقات، اور جھٹلا دئیے جانے یارد کئے جانے کا خوف حسد کا سبب بن سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک بچہ حسد محسوس کر سکتا ہے اگر اس کے والدین اس کے مقابلے میں دوسرے بہن بھائی پر زیادہ وقت صرف کرتے ہوں۔ ایک ماں اپنے بیٹے کی بیوی سے حسد کرسکتی ہے جب کہ اس کا بیٹا بیوی کو ذیادہ محبت دے۔ اسی طرح جب لوگوں میں تکرار ہوتی ہے تو اس طرح کے تجربات، تعلقات میں ڈراڑ ڈالنے اور ترک کرنے کے ساتھ ساتھ عدم تحفظ کے خوف کا باعث بن سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں حسد کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

یوں تو ہم اکثر سنتے ہی ہیں کہ توقع کا پیالہ ہمیشہ ٹھوکروں کی زد میں رہتا ہے جس کا ایک شاخسانہ لوگوں سے بلا وجہ کی توقعات وابستہ کرلینا بھی ہے۔خود سے ہی یہ سوچ لینا کہ دوسروں کو ان کے لیے کیا کرنا چاہیے، اور اگر یہ توقعات پوری نہیں ہوتی ہیں، توحسد کے جذبات میں مبتلا ہو کر انھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا۔حسد زیادہ تر نا شکری اور آزمائشوں کے رد عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔

لوگ اکثر وہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے حصے میں نہیں آتا بنا یہ دیکھے کے ان کے حصے میں جو ہے وہ شاید دوسرے کے پاس نہیں۔ اور بعض اوقات انسان کی کوئی آزمائش خواہ وہ رشتوں کی صورت میں ہی ہو اس کے رد عمل میں بھی یہ جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان کے پاس جو موجود ہوتا ہے وہ اس کی بھی نفی کر کے غیر حاصل شدہ چیزوں کے لئے جلتا کڑھتارہتا ہے۔

یہ جذبہ آپ کی ذہنی صحت کو نمایاں طور پر متاثر کر سکتا ہے۔ رشتوں کے معاملے میں، حسد کے جذبات فکر یا شک کی وجہ سے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ خود پر اور اپنے قریبی لوگوں پر شک کرنے کا سبب بن سکتا ہے، جس سے عدم تحفظ اور اعتماد کی کمی ہوتی ہے۔ مزید برآں، یہ جذباتی تخریب کاری کا باعث بن سکتا ہے، یاانسان لاشعوری طور پر ایسے طرز عمل میں مشغول ہو سکتا ہے جو تحفظ یا اعتماد کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں۔ یہ خود اعتمادی یا صلاحیتوں اور قدر پر یقین کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

حسد کے اثرات اور حل

حسد دماغی صحت پر برا اثر ڈال سکتی ہے۔یہ صرف جذباتی نہیں بلکہ روحانی صحت کو بھی تباہ کردیتی ہے، نبی کریمؐ نے فرمایا’’حسد سے بچوکیونکہ یہ نیکیوںکو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے‘‘۔ قران میں بھی حسد کے جذبے کا ذکر ملتا ہے اور دین اس جذبے کو ہمیشہ ناپسند کرتا ہے اور اس کی حکمت بھی بہت مثبت ہے کہ یہ انسانی معاشرے میں بگاڑ کا باعث بننے والا جذبہ ہے۔

حسد کرنے والا انسان ناصرف یہ کہ دوسرے کو ملی ہوئی نعمت سے جلتاہے بلکہ اس کی خوفناک صورت یہ ہے کہ وہ اسے دوسرے سے چھیننے اور کسی کو اس سے محروم کرنے کے لئے بھی کوشاں رہتا ہے۔اگر انسان اپنے اختیار اور ارادے سے اس عمل کو کرتا ہے تو اس کی سب سے بڑی سزاء یہی ہوتی ہے کہ وہ سکون قلب کی دولت سے محروم ہوجاتا ہے۔

اس سے نمٹنے کے لیے، خود سے محبت اور درگزر پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔ یہ سمجھنا اہم ہے کہ کوئی بھی کامل نہیں ہے اور کمزور لمحے ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں اس سے غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں جنھیں ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔اپنے آپ سے راضی ہونا اوراپنی عزت نفس کو سمجھنا حسد کے جذبات کو سنبھالنے کی طرف ایک بنیادی قدم ہے۔

اس کے علاوہ، کسی پیشہ ور سے بات کرنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ یا کوئی ایسا بڑا سمجھدار انسان جو خیر خواہی کے کام کرتا ہو یا کوئی روحانی یا پھر نفسیاتی معالج اس مسئلہ کے ماخذ کی نشاندہی کرنے اورحسد بھرے جذبات کو بہتر طریقے سے سمجھنے اور ان سے چھٹکارا پانے میں مشورہ فراہم کر سکتے ہیں۔ وہ یہ کام مختلف طریقوں سے کر سکتے ہیں جیسے کاگنیٹو رویویل تھراپی (سی بی ٹی)، جس کے ذریعے ایک شخص اپنے جذبات، خیالات اور طرز عمل سے آگاہ ہو سکتا ہے اور اپنی عدم تحفظ کو بہتر طریقے سے حل کر سکتا ہے۔

 حسد کے جذبات یا پریشانیوں سے توجہ ہٹانے میں مثبت لوگوں اور سرگرمیوں سے بھی مدد مل سکتی ہیں۔ ان سرگرمیوں کی مثالوں میں پڑھنا،ڈائری لکھنا، یوگا، یا فلمیں دیکھنا شامل ہیں۔ ایسا کرنا دھیان کو مثبت انداز میں موڑنے میں مددکر سکتا ہے اور تناؤ کو کم کر سکتا ہے جبکہ وقفہ لینے اور زیادہ نتیجہ خیز اور معنی خیز خیالات پر دوبارہ توجہ مرکوز کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ حسد کی جڑ اکثر عدم تحفظ اور اندیشوں میں ہوتی ہے ۔

شاید کسی شخص کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا جو حسد کرنے والا سوچ رہا ہوتا ہے جیسا کہ، حد سے زیادہ سادہ ہونے کا خوف، ناکافی ہونے کا خوف، ترک کئے جانے کا خوف، بدلے جانے کا خوف، اور فیصلوں میں نظر انداز کئے جانے کا خوف شامل ہو سکتا ہے۔جیسے بہت سے لوگوں پیشہ وارانہ زندگی میں اس خوف کی وجہ سے نئے آنے والوں سے حسد کرتے ہیںاور ان کے خلاف سازشیں کرتے ہیںکہ کہیں وہ ان کی جگہ نہ لے لیں۔ اپنی ذہنیت کو بدلنا اور حسد کو جذباتی عدم تحفظ کی علامت سمجھنا اس سے پیچھا چھڑانے میں اہم ہے۔یہ جذباتی عدم تحفظ بہت سے عوامل کا نتیجہ ہو سکتا ہے اور ذہنی صحت پر مضر اثرات مرتب کر سکتا ہے۔عدم تحفظ کو تسلیم کرنا اور حسد محسوس کرنے کی وجہ جان کر صحت مند طریقوں سے اپنے جذبات کو سنبھالنا ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔

جب حسد کے جذبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو یہ ضروری ہے کہ ایسے شخص سے کھل کر بات چیت کی جائے۔اس سے پہلے کہ مسائل گھمبیر ہو جائیں ایسا کرنے سے احساسات یا پریشانیوں کو واضح کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور ممکنہ مسائل کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔

اس سے لوگوں کے درمیان ایک صحت مند اور مضبوط تعلق پیدا ہوتا ہے۔ حسدسے نمٹنے کی یہ حکمت عملی خود اعتمادی اور مثبت جذبات پیداکرتی ہے۔ لوگ اکثر اپنی قدر و قیمت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ خود اعتمادی کی تعمیر آہستہ آہستہ اور مشق کے ساتھ کی جا سکتی ہے، اور اس میں ان خصوصیات اور کامیابیوں پر توجہ مرکوز کرنا شامل ہو سکتا ہے جن پر کسی کو فخر ہے۔

ایک پرامید رویہ اپنانے سے حسد کے جذبات کو بہتر طریقے سے ردکرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اگرچہ یہ مشکل ہو سکتا ہے، مثبت رہنا سیکھنا مشکلات سے بہتر طریقے سے نمٹنے میں مدد کر سکتا ہے۔ یہ مشکل حالات میں بھی اچھائی پر توجہ مرکوز کرکے اور مستقبل کی طرف زیادہ مثبت سوچنے کا انتخاب کرکے کیا جاسکتا ہے۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ حسد ایک ایسا جذبہ ہے جو ہم میں سے کسی کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ ان جذبات کو سمجھنے سے ہمیں نہ صرف عدم تحفظ کو بہتر طریقے سے قبول کرنے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ صورتحال کے مطابق باخبر فیصلے کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

بلاشبہ، ایسا کہنا کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے، لیکن خود سے محبت، ذہن سازی، اور پیشہ ورانہ مدد حاصل کرنے سے ہم ان احساسات سے زیادہ بہتر انداز میں ڈیل کرسکتے ہیں۔ علم طاقت ہے، اور حسد کے حوالے سے ایسا علم حاصل کرکے، ہم اپنے رشتوں میں سمجھ، احترام اور اعتماد حاصل کر سکتے ہیں۔اور سب سے اہم ہم مثبت سوچ اپنا کر خیر کا پہلو ڈھونڈنے اور انسانیت سے محبت کرنے کے جذبات ابھار کر خود کو حسد کے جہنم کا ایندھن بننے سے روک سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ

اسلام ٹائمز: معرفت عبادت کی روح ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت عبودیت کی علامت اور عبودیت فنا کی حقیقت۔۔۔۔۔۔ انسانی تخلیق، اسی تسلسل کی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پہچان سے جھکنے، جھکنے سے مٹنے اور مٹ کر باقی رہنے تک۔۔۔۔ یہی انسانیت کی معراج۔۔۔۔۔۔یہی اس کا انجام اور یہی اس کی ابدی سعادت ہے۔ عبادت اگر معرفت سے خالی ہو تو رسم۔۔۔۔۔۔ اور معرفت اگر عبادت میں ظاہر نہ ہو تو ادھورا احساس ہے۔ تحریر: ساجد علی گوندل
sajidaligondal55@gmail.com 

قرآنِ مجید، انسان کی خلقت کو محض ایک حیاتیاتی واقعہ نہیں۔۔۔۔۔۔ بلکہ ایک معنوی راز سے تعبیر کرتا ہے: "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون" (ذریات/56) "میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لیے خلق کیا۔" مفسرین نے اس آیت کی تفسیر یوں کی ہے "لِيَعْبُدُونِ اَیْ لیَعْرِفُون" یعنی خالق نے مخلوق کو اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا۔۔۔۔ یوں عبادت اور معرفت ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں؛ معرفت باطن ہے تو عبادت اس کا ظہور۔۔۔۔۔ جب پہچان دل میں اترتی ہے تو بدن خود بخود سجدہ ریز ہوتا ہے۔۔۔۔۔ عبادت دراصل معرفت کی شعوری و عملی صورت ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت محض حرکات و سکنات کا نام نہیں بلکہ نفی و اثبات پر مشتمل ایک مکمل نظام ہے، جس میں پہلے نفی: لا إله۔۔۔۔ یعنی ہر غیرِ خدا کا انکار ہے اور پھر إلا الله۔۔۔۔ کے ذریعے توحید تک رسائی ہے۔

عبادت کا آغاز اندر کے بت توڑنے سے ہوتا ہے۔ خواہ وہ بت خواہشات کے ہوں۔۔۔۔۔ خود پسندی کے یا پھر مادی۔۔۔۔۔ جب انسان اپنی پسند۔۔۔۔ اپنی چاہت۔۔۔۔ اپنی خواہش کو قربان کرتا ہے تو عبد بنتا ہے۔۔۔۔ اور یہی وہ راستہ ہے، جو انسان کو ظاہر سے حقیقت کی طرف لے جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ "فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى"(بقرہ/256) ۔۔۔۔۔ عبادت کا آغاز انکار میں اور اس کا کمال اقرار میں ہے۔۔۔۔ ہاں عبودیت ہی انسانی کمالات میں اعلیٰ و ارفع ترین منزل ہے، جس کو قرآن نے "سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ"(بنی اسرائیل/01) کی صورت میں بیان کیا اور عبودیت ہی وہ آئینہ ہے، جس میں رسالت کا نور جلوہ افروز ہوتا ہے۔ عبودیت کائنات کا سب سے بڑا شرف ہے۔

قرآن کے نزدیک نہ صرف انسان بلکہ تمام موجودات اسی دائرہ بندگی میں شامل ہیں: "إِنْ كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا"(مریم /93) عبد ہونا محض حکمِ شرع کا تقاضا نہیں بلکہ حقیقتِ وجود کا جوہر ہے۔۔۔۔۔ ہاں عبودیت فنا کا مقدمہ ہے۔۔۔۔۔۔  فنا کا مطلب مٹ جانا نہیں بلکہ حقیقتِ مطلقہ میں باقی رکھنا ہے: "كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ۩ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّك" (رحمن/26, 27) کائنات کا ہر ذرہ اسی فنا کے سفر میں ہے، ہر وجود اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ فنا وہ مرحلہ ہے، جہاں انسان اپنی مرضی کو مٹا کر خدا کی مشیّت میں ڈوب جاتا ہے۔۔۔۔۔
  
مختصر یہ کہ معرفت عبادت کی روح ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت عبودیت کی علامت اور عبودیت فنا کی حقیقت۔۔۔۔۔۔ انسانی تخلیق، اسی تسلسل کی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پہچان سے جھکنے، جھکنے سے مٹنے اور مٹ کر باقی رہنے تک۔۔۔۔ یہی انسانیت کی معراج۔۔۔۔۔۔یہی اس کا انجام اور یہی اس کی ابدی سعادت ہے۔ عبادت اگر معرفت سے خالی ہو تو رسم۔۔۔۔۔۔ اور معرفت اگر عبادت میں ظاہر نہ ہو تو ادھورا احساس ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
  • شاہ رخ خان نے شوبز کیریئر کے آغاز میں فلموں میں کام کرنے سے انکار کیوں کیا؟
  • آزادی صحافت کا تحفظ اور صحافیوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کیلئے پرعزم: وزیراعظم
  • سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
  • وزیراعظم آزادیِ صحافت کے تحفظ، صحافیوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کیلئے پُرعزم
  • بھارت میں گرفتار ہونے والے سارے جاسوس پاکستانی چاکلیٹ کیوں کھاتے ہیں؟
  • تلاش
  • مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟
  • ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
  • اسپیکر پنجاب اسمبلی کا بلدیاتی ایکٹ کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ، 27ویں ترمیم کی حمایت کردی