Express News:
2025-09-18@12:22:57 GMT

انسان حسد کیوں کرتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 24th, August 2025 GMT

 انسانی زندگی سے جذبات کو نکال دیا جائے تو پیچھے ایک مشینی زندگی رہ جاتی ہے جسے شاید زندگی کہنا بھی بجا نہ ہوگا۔

محبت، نفرت، پیار، انس ،حسد اوررقابت یہ سب انسانی جذبات اور احساسات ہیں۔ ہر انسان اپنی زندگی کے کسی نے کسی مرحلے پر ان جذبات سے گزرتا ہے۔ بعض افراد ان جذبات کو لمحاتی طور پر تجربہ کرتے ہیں جو کے فطری با ت ہے لیکن کچھ لوگوں میں کوئی جذبہ ٹھہر جاتا ہے۔اور یہ ٹھہراؤ شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔

اگر اس جذبے میں خیر کا عنصر ہوتو یہ یقیناً فلاح کا باعث بنتا ہے لیکن اگر اس میں شر ہو تو یہ دوسروں کے ساتھ ساتھ انسان کی اپنی ذات کے لئے بھی نقصان کا باعث بنتا ہے۔ حسد ایک ایسا ہی جذبہ ہے جو اپنے اندر بے پناہ منفیت بھرے ہوئے ہے۔کوئی بھی شخص جو حسد کا شکار ہوتا ہے وہ ایک ایسی آگ میں جلتا ہے جو اس نے خود لگائی ہوتی ہے۔

جب ہم حسد کے بارے میں سوچتے ہیں، تو اس کے ساتھ ہی محبت اور رشتوں کا خیال آتا ہے۔ لیکن یہ محبت اور رشتوں کے منافی جذبہ ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔ اس کے ہماری دماغی صحت پر بھی طاقتور اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس سے بے چینی، عدم تحفظ اور عدم اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ ان احساسات کو بہتر طریقے سے منظم کرنے کے لیے،ان جذبات کے پیچھے گہرے معنی کو جاننا ضروری ہے۔حسد کے اسباب اور اثرات کا ذہنی صحت کی اہمیت کے لئے جائزہ لینا ضروری ہے۔اس کے بعد ہی حسد سے نمٹنے کے طریقوں سے آشنا ہونا ممکن ہے ۔

حسد کیا ہے؟

حسد ایک پیچیدہ جذبہ ہے جس کے بارے میں ہم اکثر محبت اور رشتوں کے حوالے سے سوچتے ہیں، لیکن یہ دوسروں سے اپنا موازنہ کرنے کی صورت میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ اس میں نفرت، عدم تحفظ، ناراضگی اور شک کے جذبات شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک فطری جذبہ ہے۔ حسد ذہنی صحت پر زبردست اثر ڈال سکتا ہے۔ حسد کے جذبات اکثر اضطراب، احساسِ کمتری اور کم ہمتی کا سبب بن سکتے ہیں۔ حسد کے جذبات کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے کے لئے اس کے اسباب کو جانناضروری ہے۔

حسد کے اسباب

مختلف عوامل، جیسے بچپن کے تجربات، والدین کے تعلقات، اور جھٹلا دئیے جانے یارد کئے جانے کا خوف حسد کا سبب بن سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک بچہ حسد محسوس کر سکتا ہے اگر اس کے والدین اس کے مقابلے میں دوسرے بہن بھائی پر زیادہ وقت صرف کرتے ہوں۔ ایک ماں اپنے بیٹے کی بیوی سے حسد کرسکتی ہے جب کہ اس کا بیٹا بیوی کو ذیادہ محبت دے۔ اسی طرح جب لوگوں میں تکرار ہوتی ہے تو اس طرح کے تجربات، تعلقات میں ڈراڑ ڈالنے اور ترک کرنے کے ساتھ ساتھ عدم تحفظ کے خوف کا باعث بن سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں حسد کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

یوں تو ہم اکثر سنتے ہی ہیں کہ توقع کا پیالہ ہمیشہ ٹھوکروں کی زد میں رہتا ہے جس کا ایک شاخسانہ لوگوں سے بلا وجہ کی توقعات وابستہ کرلینا بھی ہے۔خود سے ہی یہ سوچ لینا کہ دوسروں کو ان کے لیے کیا کرنا چاہیے، اور اگر یہ توقعات پوری نہیں ہوتی ہیں، توحسد کے جذبات میں مبتلا ہو کر انھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا۔حسد زیادہ تر نا شکری اور آزمائشوں کے رد عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔

لوگ اکثر وہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے حصے میں نہیں آتا بنا یہ دیکھے کے ان کے حصے میں جو ہے وہ شاید دوسرے کے پاس نہیں۔ اور بعض اوقات انسان کی کوئی آزمائش خواہ وہ رشتوں کی صورت میں ہی ہو اس کے رد عمل میں بھی یہ جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان کے پاس جو موجود ہوتا ہے وہ اس کی بھی نفی کر کے غیر حاصل شدہ چیزوں کے لئے جلتا کڑھتارہتا ہے۔

یہ جذبہ آپ کی ذہنی صحت کو نمایاں طور پر متاثر کر سکتا ہے۔ رشتوں کے معاملے میں، حسد کے جذبات فکر یا شک کی وجہ سے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ خود پر اور اپنے قریبی لوگوں پر شک کرنے کا سبب بن سکتا ہے، جس سے عدم تحفظ اور اعتماد کی کمی ہوتی ہے۔ مزید برآں، یہ جذباتی تخریب کاری کا باعث بن سکتا ہے، یاانسان لاشعوری طور پر ایسے طرز عمل میں مشغول ہو سکتا ہے جو تحفظ یا اعتماد کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں۔ یہ خود اعتمادی یا صلاحیتوں اور قدر پر یقین کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

حسد کے اثرات اور حل

حسد دماغی صحت پر برا اثر ڈال سکتی ہے۔یہ صرف جذباتی نہیں بلکہ روحانی صحت کو بھی تباہ کردیتی ہے، نبی کریمؐ نے فرمایا’’حسد سے بچوکیونکہ یہ نیکیوںکو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے‘‘۔ قران میں بھی حسد کے جذبے کا ذکر ملتا ہے اور دین اس جذبے کو ہمیشہ ناپسند کرتا ہے اور اس کی حکمت بھی بہت مثبت ہے کہ یہ انسانی معاشرے میں بگاڑ کا باعث بننے والا جذبہ ہے۔

حسد کرنے والا انسان ناصرف یہ کہ دوسرے کو ملی ہوئی نعمت سے جلتاہے بلکہ اس کی خوفناک صورت یہ ہے کہ وہ اسے دوسرے سے چھیننے اور کسی کو اس سے محروم کرنے کے لئے بھی کوشاں رہتا ہے۔اگر انسان اپنے اختیار اور ارادے سے اس عمل کو کرتا ہے تو اس کی سب سے بڑی سزاء یہی ہوتی ہے کہ وہ سکون قلب کی دولت سے محروم ہوجاتا ہے۔

اس سے نمٹنے کے لیے، خود سے محبت اور درگزر پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔ یہ سمجھنا اہم ہے کہ کوئی بھی کامل نہیں ہے اور کمزور لمحے ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں اس سے غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں جنھیں ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔اپنے آپ سے راضی ہونا اوراپنی عزت نفس کو سمجھنا حسد کے جذبات کو سنبھالنے کی طرف ایک بنیادی قدم ہے۔

اس کے علاوہ، کسی پیشہ ور سے بات کرنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ یا کوئی ایسا بڑا سمجھدار انسان جو خیر خواہی کے کام کرتا ہو یا کوئی روحانی یا پھر نفسیاتی معالج اس مسئلہ کے ماخذ کی نشاندہی کرنے اورحسد بھرے جذبات کو بہتر طریقے سے سمجھنے اور ان سے چھٹکارا پانے میں مشورہ فراہم کر سکتے ہیں۔ وہ یہ کام مختلف طریقوں سے کر سکتے ہیں جیسے کاگنیٹو رویویل تھراپی (سی بی ٹی)، جس کے ذریعے ایک شخص اپنے جذبات، خیالات اور طرز عمل سے آگاہ ہو سکتا ہے اور اپنی عدم تحفظ کو بہتر طریقے سے حل کر سکتا ہے۔

 حسد کے جذبات یا پریشانیوں سے توجہ ہٹانے میں مثبت لوگوں اور سرگرمیوں سے بھی مدد مل سکتی ہیں۔ ان سرگرمیوں کی مثالوں میں پڑھنا،ڈائری لکھنا، یوگا، یا فلمیں دیکھنا شامل ہیں۔ ایسا کرنا دھیان کو مثبت انداز میں موڑنے میں مددکر سکتا ہے اور تناؤ کو کم کر سکتا ہے جبکہ وقفہ لینے اور زیادہ نتیجہ خیز اور معنی خیز خیالات پر دوبارہ توجہ مرکوز کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ حسد کی جڑ اکثر عدم تحفظ اور اندیشوں میں ہوتی ہے ۔

شاید کسی شخص کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا جو حسد کرنے والا سوچ رہا ہوتا ہے جیسا کہ، حد سے زیادہ سادہ ہونے کا خوف، ناکافی ہونے کا خوف، ترک کئے جانے کا خوف، بدلے جانے کا خوف، اور فیصلوں میں نظر انداز کئے جانے کا خوف شامل ہو سکتا ہے۔جیسے بہت سے لوگوں پیشہ وارانہ زندگی میں اس خوف کی وجہ سے نئے آنے والوں سے حسد کرتے ہیںاور ان کے خلاف سازشیں کرتے ہیںکہ کہیں وہ ان کی جگہ نہ لے لیں۔ اپنی ذہنیت کو بدلنا اور حسد کو جذباتی عدم تحفظ کی علامت سمجھنا اس سے پیچھا چھڑانے میں اہم ہے۔یہ جذباتی عدم تحفظ بہت سے عوامل کا نتیجہ ہو سکتا ہے اور ذہنی صحت پر مضر اثرات مرتب کر سکتا ہے۔عدم تحفظ کو تسلیم کرنا اور حسد محسوس کرنے کی وجہ جان کر صحت مند طریقوں سے اپنے جذبات کو سنبھالنا ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔

جب حسد کے جذبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو یہ ضروری ہے کہ ایسے شخص سے کھل کر بات چیت کی جائے۔اس سے پہلے کہ مسائل گھمبیر ہو جائیں ایسا کرنے سے احساسات یا پریشانیوں کو واضح کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور ممکنہ مسائل کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔

اس سے لوگوں کے درمیان ایک صحت مند اور مضبوط تعلق پیدا ہوتا ہے۔ حسدسے نمٹنے کی یہ حکمت عملی خود اعتمادی اور مثبت جذبات پیداکرتی ہے۔ لوگ اکثر اپنی قدر و قیمت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ خود اعتمادی کی تعمیر آہستہ آہستہ اور مشق کے ساتھ کی جا سکتی ہے، اور اس میں ان خصوصیات اور کامیابیوں پر توجہ مرکوز کرنا شامل ہو سکتا ہے جن پر کسی کو فخر ہے۔

ایک پرامید رویہ اپنانے سے حسد کے جذبات کو بہتر طریقے سے ردکرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اگرچہ یہ مشکل ہو سکتا ہے، مثبت رہنا سیکھنا مشکلات سے بہتر طریقے سے نمٹنے میں مدد کر سکتا ہے۔ یہ مشکل حالات میں بھی اچھائی پر توجہ مرکوز کرکے اور مستقبل کی طرف زیادہ مثبت سوچنے کا انتخاب کرکے کیا جاسکتا ہے۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ حسد ایک ایسا جذبہ ہے جو ہم میں سے کسی کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ ان جذبات کو سمجھنے سے ہمیں نہ صرف عدم تحفظ کو بہتر طریقے سے قبول کرنے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ صورتحال کے مطابق باخبر فیصلے کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

بلاشبہ، ایسا کہنا کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے، لیکن خود سے محبت، ذہن سازی، اور پیشہ ورانہ مدد حاصل کرنے سے ہم ان احساسات سے زیادہ بہتر انداز میں ڈیل کرسکتے ہیں۔ علم طاقت ہے، اور حسد کے حوالے سے ایسا علم حاصل کرکے، ہم اپنے رشتوں میں سمجھ، احترام اور اعتماد حاصل کر سکتے ہیں۔اور سب سے اہم ہم مثبت سوچ اپنا کر خیر کا پہلو ڈھونڈنے اور انسانیت سے محبت کرنے کے جذبات ابھار کر خود کو حسد کے جہنم کا ایندھن بننے سے روک سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

ٹرمپ مودی بھائی بھائی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نریندر مودی نے شنگھائی کانفرنس میں شرکت اور چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمر پیوٹن کے ساتھ سر جوڑ کر کانا پھونسی کرکے وہ مقاصد حاصل کر لیے جو پہلے ہی طے کر لیے گئے تھے۔ شنگھائی کانفرنس کے چند ہی دن بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے لب ولہجے پر ایک سو ڈگری کی تبدیلی کرکے بھارت اور نریندر مودی کے لیے شیریں بیانی شروع کر دی۔ ایکس پر اپنے پیغام میں صدر ٹرمپ نے ڈرانے دھمکانے کی زبان ترک کرکے بھارت کو امریکا کا دوست قرار دیتے ہوئے کہا وہ مودی سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور وہ دونوں ملکوں کے درمیان مجوزہ تجارتی معاہدے کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ جس کے جواب میں نریندر مودی نے بھی ایکس پر لکھا کہ بھارت اور امریکا فطری حلیف ہیں مجھے یقین ہے کہ ہماری تجارتی بات چیت ہند امریکا شراکت کے لامحدود امکانات سے استفادے کی راہ ہموار کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے معاشی مشیر وی انتھانا گیشورن نے صاف لفظوں میں بتادیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں متبادل کرنسی بنانے میں بھارت کے ملوث ہونے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ بھارت ایسے کسی منصوبے پر غور نہیں کر رہا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندر مودی پر مختلف اوقات میں جو فردِ جرم عائد کی تھیں ان میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ بھارت ڈالر کے متبادل نظام قائم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ امریکی معاشی بالادستی کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ اب بھارت نے ایسی کسی منصوبے کا حصہ ہونے کی تردید کر دی۔ بھارت اور امریکا کے درمیان ٹیرف کے معاملے پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور کسی بھی وقت دونوں کے درمیان بریک تھرو کا امکان موجود ہے۔ اس طرح امریکا اور بھارت کے تعلقات کے درمیان عارضی اور وقتی بحران اب حل ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس پر یہی کہا جا سکتا ہے

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا

امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحرانی کیفیت پاکستان کے لیے مغرب کی سمت امکانات کی کھلنے والی واحد کھڑکی تھی جو اب ایک بار پھر بند ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جس طرح پاکستان کے حکمران طبقات امریکا کی طرف سے بھارت کی کلائی مروڑے جانے پر جشن منارہے تھے اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی سوائے اس کے امریکا ایک بار پھر کچھ عرصہ کے لیے پاکستان پر معاشی اور سیاسی طور پر مہربان رہے۔ معاشی طور پر اس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دھول اْڑتی رہے اور اس میں قاتل مقتول جارح ومجروح کے چہرے پہچاننا اور نشاندہی ہونا ناممکن رہے۔ امریکا کے زیر اثر برادر وغیر برادر ملک پاکستان کی معاشی ضرورتوں کو قرض کی صورت میں دیکھتے رہیں۔ سیاسی ضرورت یہ ہے کہ مغربی ممالک اور جمہوری نظام کے لیے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرنے والے مغربی ادارے پاکستان کے سیاسی نظام اور یہاں تنگ ہوتی ہوئی آزادیوں سے اسی طرح غافل رہیں جیسے کہ وہ بھارت کے ان معاملات سے قطعی لاتعلق ہیں۔ مصر میں تو ہم نے مغربی جمہوریت کے دعوؤں کا برہنہ اور بے گورو کفن لاش کو دیکھا تھا۔ جہاں تاریخ کے پہلے انتخابات میں پہلا منتخب نظام قائم ہوا مگر خطے میں اسرائیل کی سلامتی کے لیے قائم نظام کے لیے مستقبل بعید میں اْبھرنے والے خطرے کے خوف میں اس جمہوری نظام کا گلہ گھوٹ دیا گیا۔ ایک غیر منتخب نظام قائم ہوا اور نہ جمہوریت کے فروح کے قائم عالمی اداروں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا نہ ہی اس پر کوئی اختلافی آواز بلند کی۔ یوں مغربی نظام میں مرسی کا تختہ اْلٹنے کی مہم کے سیاسی پوسٹر بوائے محمد البرادی کی بھی پلٹ کر خبر نہ لی۔ محمد البرادی وہی ذات شریف ہیں جو عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے نمائندے کے طور پر عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر روز بغداد میں دندناتے پھرتے تھے اور کبھی دوٹوک انداز میں یہ نہ کہہ سکے کہ عراق ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار نہیں بنا رہا۔

بہرحال بھارت اور امریکا کے درمیان عارضی شنکر رنجی ختم ہونے کا امکان پیدا ہونے لگا ہے۔ اب بھارت کی بہت سی کج ادائیاں ماضی کی طرح ایک بار پھر ادائے دلبرانہ بن جائیں گی۔ لازمی بات ہے کہ پاکستان اس خانے میں ایک مخصوص مقام سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو اپنا فطری حلیف قرار دے کر نئی بات نہیں کی۔ دنیا میں اسرائیل اور بھارت دو ایسے ممالک ہیں جنہیں امریکا نے نائن الیون کے بعد اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر قرار دے رکھا ہے۔ ایک اسٹرٹیجک پارٹنر اسرائیل کے لیے امریکا جس حد تک جا سکتا ہے اس کا مظاہرہ آج کل مشرق وسطیٰ میں ہو رہا ہے۔ اسی طرح چین کے ساتھ امریکا کی مخاصمت میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کم یا زیادہ بھارت ہی امریکا کی ضرورت پورا کر سکتا ہے۔ بھارت کا یہ پوٹینشل اسے امریکا کا فطری حلیف بنائے ہوئے ہے۔ بھارت امریکا کے لیے بروئے کار آنے کے لیے تیار ہے مگر وہ چین کے خلاف بے رحمی سے استعمال ہونے اور روس کے ساتھ امریکی ہدایات پر مبنی تعلقات کے قیام سے انکاری ہے۔ ان دونوں معاملات کا تعلق بھارت کے طویل المیعاد مقاصد سے ہے۔ اس عارضی ماحول میں پاکستان کے لیے مغرب میں جو وقتی گنجائش پیدا ہورہی تھی اب یہ سلسلہ رک سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے کسی نئے انداز سے ڈومور کی گھنٹیاں بج سکتی ہیں۔ یہ ڈومور قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بحالی کے نام پر بھی ہو سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن تیز کرنے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ کے مغربی کنارے کو ضم کرنے پر یو اے ای اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح کم کر سکتا ہے .رپورٹ
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • شوگر کے مریضوں کے لیے مورنگا (سہانجنا) کے 6 حیرت انگیز فوائد
  • ’اب خود کو انسان سمجھنے لگا ہوں‘، تیز ترین ایتھلیٹ یوسین بولٹ نے خود سے متعلق ایسا کیوں کہا؟
  • ’کسی انسان کی اتنی تذلیل نہیں کی جاسکتی‘، ہوٹل میں خاتون کے رقص کی ویڈیو وائرل
  • پاکستان سے نفرت کا دکھاوا بھی کام نہ آیا! یوسف پٹھان کو عدالت نے زمین خالی کرنے کا حکم کیوں دیا؟
  • مولی کا باقاعدہ استعمال صحت کے کونسے مسائل سے بچا سکتا ہے؟
  • ریاست کے خلاف کوئی جہاد نہیں ہو سکتا، پیغام پاکستان اقلیتوں کے تحفظ کا ضامن ہے ،عطاء تارڑ
  • ٹک ٹاکر سامعہ حجاب نے اغوا کرنے والے حسن زاہد کو معاف کیوں کیا؟
  • ٹرمپ مودی بھائی بھائی